فیض احمد فیضؔ
فیض احمد فیضؔ اپنے دور کے بہت بڑے شاعر ہیں۔ اگرچہ انہوں نے زیادہ نظمیں اور کم غزلیں کہیں، پھر بھی غزل گو شاعروں میں ان کا نام ہمیشہ ممتاز رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ غزل کہنا ایک نازک فن ہے۔ جس طرح تیسرے درجے کی غزل کہنا آسان ہے، اسی طرح اعلیٰ درجے کی غزل کہنا بہت مشکل ہے، خاص طور پر ایک ایسے شاعر کے لیے جو کسی مخصوص نظریے کا حامل ہو اور اپنے قارئین کے لیے کوئی خاص پیغام رکھتا ہو۔
فیض اپنی پوری زندگی ایک اعلیٰ نظامِ حیات اور بے عیب حکومت کے علمبردار رہے اور اپنی شاعری میں اس کا پرچار کرتے رہے، لیکن شعری اصول کبھی ان کی نظر سے اوجھل نہیں ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم مشرقی انداز میں ہوئی تھی۔ فارسی اور عربی انہوں نے علامہ اقبال کے استاد شمس العلما مولوی سید میر حسن سے پڑھی تھی۔ غالبؔ اور اقبالؔ کے علاوہ، انہوں نے میرؔ کے کلام کا بھی گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور اردو فارسی کی کلاسیکی شاعری کے رموز و نکات سے بخوبی واقف ہو گئے تھے۔ اس لیے ان کی شاعری میں مکمل کلاسیکی رنگ موجود ہے۔
فیض کی پرورش شعر و ادب کے ماحول میں ہوئی، اور کالج کی تعلیم کے دوران انہوں نے شعر کہنا شروع کیا۔ جب ان کا کلام کالج میگزین “راوی” میں چھپا تو ان کا حوصلہ اور بڑھ گیا۔ ابتدا میں ان کی شاعری کا موضوع مجازی عشق تھا، لیکن آخرکار ایسا وقت آیا جب اس میں کشمکش باقی نہ رہی۔ “نقش فریادی” کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں” آج سے کچھ برس پہلے ایک معین جذبے کے زیر اثر اشعار خودبخود وارد ہوتے تھے لیکن اب مضامین کے لیے تجسس کرنا پڑتا ہے۔ اگر محرکات میں کمی واقع ہو جائے یا ان کے اظہار کے لیے کوئی سہل راستہ پیش نظر نہ ہو تو یا تجربات کو مسخ کرنا پڑتا ہے یا طریق اظہار کو۔ ذوق اور مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہونے سے پہلے شاعر کو جو کچھ کہنا ہو کہ چکے، اہل محفل کا شکر یہ ادا کرے اور خصت چاہے “۔
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
چنانچہ، فیض کی شاعری میں کچھ وقت کے لیے خاموشی چھائی رہی، لیکن جلد ہی ایک قومی تحریک نے جنم لیا۔ فیض ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے اور محنت کش عوام کی حمایت میں شاعری کرنے لگے۔ فیض کا یہ شعر اسی دور کی یادگار ہے۔
اب فیض کو اس مشکل کا احساس ہوا کہ اگر وہ سیدھے اور صاف لفظوں میں کسانوں اور مزدوروں کی حمایت کریں تو شعر کی خوبصورتی ختم ہو جائے گی۔ اور اگر وہ رمز و اشارے کا سہارا لیں تو ترقی پسند نقاد ناراض ہو جائیں گے، کیونکہ وہ اسے بورژوا شاعری سمجھیں گے۔
شاعری دراصل دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو براہِ راست ہوتی ہے، جس میں سیدھے سادے لفظوں میں نثر کی طرح بات کہی جاتی ہے۔ یہ شاعری عام طور پر سپاٹ ہوتی ہے اور اس میں تاثیر کی کمی ہوتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو بالواسطہ ہوتی ہے، جس میں کبھی ابہام کا استعمال ہوتا ہے اور کبھی رمز و اشارے کا۔ اس طرح کی شاعری میں کچھ محنت کے بعد شعر کے معنی تک پہنچا جا سکتا ہے، لیکن ذہن کو لطف حاصل ہوتا ہے۔
سیدھی، خطابیہ شاعری فیض کے مزاج کے خلاف تھی، لیکن ترقی پسند تحریک کے دباؤ کو نظر انداز کرنا بھی مشکل تھا۔ چنانچہ کچھ عرصے تک ان کی شاعری میں جھوٹے اور سچے اشعار کا ملاپ نظر آتا رہا۔ وہ کوشش کرتے لیکن مکمل طور پر کامیاب نہ ہوتے، اور فرق صاف دکھائی دیتا تھا۔ اس دوران فیض کو قدر دانوں کا ایک بڑا حلقہ مل گیا، اور آخرکار انہوں نے اس دباؤ کو ترک کیا اور اس انداز میں شاعری کرنے لگے جو ان کی فطری اور مخصوص شاعری کا رنگ تھا۔
فیض نے کبھی مظلوموں کی حمایت سے ہاتھ نہیں اٹھایا۔ ملک و قوم کی سرفرازی کی خواہش ہمیشہ ان کے دل میں زندہ رہی، لیکن ترقی پسندی کے ایک مختصر دور کے بعد ان جذبات کا ان کی شاعری میں کھلے عام اور واضح اظہار نہیں ہوا۔ جو کچھ بھی کہا، اسے علامتوں اور استعاروں کے پردے میں بیان کیا۔ انہوں نے رمز و اشارے کا سہارا لیا، اور عشق کی علامتوں کو استعمال کیا۔ مثلاً، جب وہ “محبوب” کہتے ہیں تو ان کا مطلب ملک و قوم ہوتا ہے، اور جب “رقیب” کہتے ہیں تو مراد ملک و ملت کا دشمن ہوتا ہے۔ صبا ان کی شاعری میں امن و خوشحالی کی پیامبر ہے، اور بہار آزادی و خوشحالی کا استعارہ۔ جب فیض پر ملک دشمنی کا مقدمہ چلا اور ان پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے تو انہوں نے کہ
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
سرکاری ایجنٹوں نے فیض کو ڈرایا اور دھمکایا کہ حکومت کے خلاف بولنا بند کر دو، اس میں جان کا خطرہ ہے۔ اس دھمکی کا نتیجہ یہ ہوا کہ فیض حکومت کے خلاف جدوجہد میں اور بھی زیادہ سرگرم ہو گئے۔ یہ پوری کہانی اس شعر میں سمو دی گئی ہے۔
ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سر کوے یار گزری ہے
اگر بات اشارے میں کہی جائے تو اس میں وضاحت کم ہوتی ہے اور ایک طرح کا ابہام پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جس شعر میں رمز اور کنایے کا استعمال ہو، وہ وقت اور جگہ کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ وہ نہ کسی خاص مقام میں محدود رہتا ہے اور نہ کسی خاص زمانے میں۔ اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ان کے ملک میں اظہار خیال پر پابندی لگی، تو انہوں نے اس کا ذکر صاف لفظوں میں نہیں کیا، بلکہ رمز و کنایے کا سہارا لے کر اس طرح بیان کیا۔
متاع لوح وقلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
لبوں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
یہ بات بالکل درست ہے کہ زبان کو بند تو کیا جا سکتا ہے، مگر زنجیر کی کھنک کو کون روک سکتا ہے؟ جب زنجیر کھنکے گی، تو دنیا کو پتا چل جائے گا کہ کسی کو پابند کر دیا گیا ہے۔ یہ دو شعر کسی خاص ملک یا خاص زمانے کی بات نہیں کرتے بلکہ جب بھی اور جہاں بھی زبانوں پر تالے لگائے جائیں گے، یہ شعر یاد آئیں گے۔
فیض نے اپنے کلام کی خوبصورتی بڑھانے کے لیے استعاروں اور پیکر تراشی جیسے شعری وسائل کا استعمال کیا ہے اور اپنے جذبات و خیالات کو پورے فنی اصولوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کے شعروں میں نغمگی بھی بہت ہوتی ہے، اسی لیے ان کی غزلیں بہترین دھنوں میں گائی جاتی ہیں۔
تم آئے ہو، نہ شب انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بارہ گزری ہے
چمن میں غارت گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس میں آج صبا بے قرار گزری ہے
در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیض دل میں ستارے ابھرنے لگتے ہیں
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہوگی
ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ فیض نے رمز اور اشارے کا استعمال کر کے اپنے شعروں میں غیر واضحیت کی فضا پیدا کر دی ہے اور اپنی شاعری کو وقت اور جگہ کی قید سے آزاد کر دیا ہے۔ فیض کی شاعری پر یہ تنقید کی گئی ہے کہ اس کا دائرہ محدود ہے۔ یہ کوئے یار سے نکل کر سوئے دار تک تو پہنچی ہے، لیکن ان دونوں کے درمیان جتنے مقام آتے ہیں، جن کا کوئی شمار نہیں، انہیں نظر انداز کر دیتی ہے۔ ان کی تنگ دامانی کی شکایت درست ہے، مگر انہوں نے اس محدود میدان میں جو کمال فن دکھایا ہے، اس کے باعث ان کا شمار ہماری زبان کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔