hasrat mohani ki ghazal goi ka tanqeedi mutala حسرت موہانی کی غزل گوئی کا تنقیدی مطالعہ

یہ بات بالکل درست ہے کہ حسرتؔ نے جب شاعری کا آغاز کیا، تو اردو غزل کے بارے میں مختلف غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ سرسید کے اثر کی وجہ سے حالیؔ نے غزل کو کمزور اور نقصان دہ صنفِ سخن قرار دیا۔ مجنوں گورکھپوری کے الفاظ میں، سرسید کا ایسا اثر حالیؔ پر چھا گیا کہ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ بلبل کی ہم زبانی چھوڑنے سے باغ والوں کو کیا نقصان ہو سکتا ہے۔

پروفیسر رشید احمد صدیقی نے مولانا حسرت موہانی کی غزل گوئی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ حسرت خالص غزل گو تھے۔ ان سے پہلے بھی بڑے جید غزل گو گزرے ہیں معاصر غزل گو بھی اپنا اپنا مقام رکھتے ہیں، پھر بھی حسرت کی غزل گوئی ممتاز اور منفرد ہے۔ اس لیے کہ حسرت غزل کا سہارا غزل ہی سے لیتے ہیں کسی اور سے نہیں غزل گوئی کوئی کرے معیار حسرت ہی ہوں گے ۔

حالیؔ نے غزل کو بے وقت کی راگنی کہا تھا۔ حالیؔ کی غزل پر تنقید اور نظم کی حمایت نے ایسی صورت حال پیدا کر دی کہ غزل کا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا۔ ایسے حالات میں حسرت موہانی نے غزل کی طرف توجہ دی۔ وہ نہ صرف غزل گو تھے بلکہ غزل کے ماہر بھی تھے۔ انہوں نے غزل کے فن پر مسلسل غور و فکر کیا اور کئی مضامین لکھے۔ ابتدا میں انہوں نے غزل کے علاوہ دیگر اصناف سخن میں بھی قسمت آزمائی کی، لیکن آخر میں اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ غزل کے لیے ہی بنے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے 1917ء میں اپنے دیوان میں لکھا کہ “راقم حروف کی طبیعت نے اپنے لیے اصناف سخن میں غزل کو اپنے حسب حال پا کر منتخب کر لیا ہے ۔ اسی خیال کو انھوں نے بار بار اپنے شعروں میں بھی پیش کیا۔

جس شاعر نے اساتذہ کے کلام کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہو اور اس مطالعے کے نتائج مستقل مضامین کی صورت میں پیش کیے ہوں، تو ظاہر ہے کہ اس نے بہت غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا ہوگا کہ کس شاعر کی پیروی کرنی چاہیے۔ حسرتؔ نے یہ بھی کہا کہ۔

حسرتؔ نے میر کی عظمت کے آگے سر جھکایا اور سعدی، جامی، اور حافظ جیسے بلند مقام فارسی غزل گو شعرا کو بھی خراج عقیدت پیش کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ حسن پرست بھی تھے اور عاشق مزاج بھی، اور ان کا عشق خاص طور پر عشق مجازی تھا، جس میں جمال کی محبت بھی شامل تھی۔ اسی وجہ سے ان کا دل مومن کی طرف کھنچتا تھا کیونکہ مومن کی شاعری میں عشق مجازی کی متوازن کیفیتیں ملتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے تسلیم کی شاگردی اختیار کی اور تسلیم و نسیم کے ذریعے اپنا تعلق سخن مومن سے جوڑ لیا۔ حسرتؔ نے اپنے اشعار میں مومن اور نسیم کی غزل کو بہت سراہا ہے۔

کلیاتِ حسرتؔ میں مومن اور نسیم کی تعریف میں کئی اشعار موجود ہیں۔ حسرتؔ نے اپنے مضامین میں بھی ان دونوں شاعروں کے شعری محاسن کی تعریف کی ہے۔ مومن کے اندازِ بیان نے حسرتؔ کو بہت متاثر کیا تھا۔ حسرتؔ نے مومن کی خیال کی دلکشی اور بیان کی رنگینی کا کئی جگہ ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ نسیم نے یہ خوبیاں اپنے استاد مومن سے سیکھی ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ حسرتؔ نے اپنی غزل میں مومن اور نسیم کی پیروی کرتے ہوئے اپنی شاعری کو ان کی غزل کی نقل بنا دیا۔ حسرتؔ نے اردو اور فارسی کے اساتذہ کے کلام کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور ان کی خوبیوں کو اپنی طبیعت میں جذب کر لیا۔ اس طرح یہ اثرات حسرتؔ کی غزل میں ایک نئے انداز میں نمایاں ہوئے۔

حسرتؔ حسن کے دلدادہ تھے اور کم عمری سے ہی عاشق مزاج تھے۔ شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ” شاعری میں کامیاب مصوری ضروری ہے اور مصوری اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب اس میں جذبات انسانی کی ہو بہو تصویرا تا روی گئی ہو عشق انسانی جذبات میں سے قوی جذبہ ہے”۔ حسرتؔ کے مطابق جنسی جذبات کا اظہار بھی شاعری کا ایک لازمی حصہ ہے اور اسے عیب سمجھنا نا انصافی ہے۔ سچے اور بے ساختہ عشق کا یہ جذبہ سیدھے اور سادہ لفظوں میں اظہار چاہتا تھا، اور حسرتؔ کے دل میں اس کو بیان کرنے کی بے چینی تھی۔ اس اظہار کے لیے شاعر نے مومن کے انداز کو سب سے بہتر سمجھا اور اسے اپنا لیا۔

حسرتؔ کا عشق بناوٹ سے پاک ہے۔ اس کی سادگی اور معصومیت ایسی ہے کہ وہ پردے میں چھپنا نہیں چاہتا بلکہ اپنے خلوص سے حسن کو اپنا گرویدہ بنانا چاہتا ہے۔ حسرتؔ کی شاعری میں عورت اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ محبوبہ ہے۔ یہ محبوبہ بے وفا یا دل بدلنے والی نہیں ہے۔ حسینوں کی صبر آزمانی ایک عام بات ہے، اور یہ بات اس میں بھی ہے، لیکن اس میں شرم و حیا بھی موجود ہے، اور اپنے سچے عاشق کو اپنا سب کچھ سونپ دینے کا حوصلہ بھی۔

حسرتؔ بھی مومن کی طرح فکر و فلسفے کی پیچیدگیوں میں نہیں الجھتے۔ وہ اپنے فن کی پیش کش کے لیے زندگی کے ایک پہلو، یعنی عشق، کو چنتے ہیں، جو سب سے طاقتور جذبہ ہے۔ پھر وہ اس جذبے کو ہر زاویے سے پیش کرتے ہیں، اس کے تمام امکانات کو بروئے کار لاتے ہیں، اور اس کی ہر کیفیت اور نشیب و فراز کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ فطرت کے تقاضے کے مطابق، ان کے عشق میں تھوڑی بہت جسمانی خواہش بھی شامل ہو جاتی ہے، جس پر وہ شرمندہ نہیں ہوتے۔ وہ اسے انسانی فطرت کا ایک لازمی تقاضا سمجھتے ہیں۔ تاہم، وہ فحاشی اور عریانی سے ہمیشہ بچتے ہیں۔ اکثر وہ جرات کی حدود تک پہنچ جاتے ہیں، لیکن ان کا تنقیدی شعور اور سنجیدہ مزاجی انہیں بروقت واپس اپنی اصل حدود میں لے آتی ہے۔

حسرتؔ کی عشقیہ شاعری کا ذکر اس غزل کے بغیر نامکمل ہے جو ایک طرح سے نظم کے قریب آجاتی ہے، یعنی وہ غزل “چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے”۔ یہ غزل طویل ہے، اور اس کے چند اشعار یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔

حسرتؔ کی زبان کے بارے میں اس مضمون میں کئی بار یہ بات دہرائی گئی ہے کہ حسرت حسن پرست تھے۔ صرف خوبصورت چہرے ہی نہیں، بلکہ وہ میٹھے الفاظ، دلکش تراکیب، اور مترنم بحروں کو بھی عاشقانہ نظر سے دیکھتے تھے اور انہیں اپنانے کی کوشش کرتے تھے۔ مومن اور نسیم کے وہ اس لیے گرویدہ تھے کیونکہ ان کی شیریں کلامی اور رنگین بیانی انہیں بہت پسند تھی۔ حسرتؔ لکھنوی شاعری سے اپنا تعلق جوڑنے کو اپنی شان کے خلاف اور کمزوری سمجھتے تھے۔ فرماتے ہیں “کیوں سلسلہ ملائیں کسی لکھنوی سے ہم “

لیکن غالب کی طرح حسرتؔ کو بھی یہ احساس تھا کہ لکھنو کی زبان میں زیادہ دلکشی اور زیبائش ہے۔ اسی لیے انہوں نے زبان اور بیان کے معاملے میں لکھنو کے شاعروں سے بھی فائدہ اٹھایا اور دہلی اور لکھنو کی زبان کو اپنے کلام میں ملا دیا۔

اس سلسلے میں مجنوں گورکھپوری فرماتے ہیں کہ “بیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی اردو شاعری میں ایک اور نیار جان پیدا ہو گیا۔ آزاد خیال اور تربیت یافتہ نوجوانوں کی ایک جماعت یہ دیکھ کر کہ غزل کی ناو اب ڈوبا چاہتی ہے اس فکر میں ہوئی کہ اس کو بچا کر نئے اور صاف ستھرے دھارے پر لگا دیا جائے تا کہ وہ سلامتی کے کنارے پر پہنچ کر اپنی بقا اور ترقی کے نئے سامان مہیا کر سکے ۔ اس جماعت کے امام حسرت ؔ موہانی تھے جنھوں نے مرتی ہوئی اردو غزل کو نہ صرف از سر نو زندہ کیا بلکہ اس کو نیا وقار اور نئی حیثیت دی” ۔

Scroll to Top