غلام ہمدانی مصحفیؔ
اردو شاعر میں مصحفیؔ کا مقام بہت بلند ہے، لیکن انہیں وہ قدر و قیمت نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ فارسی اور عربی شاعری کے علاوہ نثری رسالوں اور شعرا کے تین تذکرے، ایک دیوان قصائد اور نو دواوین غزلیات ان کے یادگار ہیں، جو ایک طویل عرصے تک طباعت سے محروم رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ناقدین اور قارئین کو ان کے پورے کلام تک رسائی نہ مل سکی، اور اگر مل بھی جاتی تو اس کثرت میں سے اچھے اشعار تلاش کرنا آسان نہیں تھا۔ مصحفیؔ بہت زیادہ اور جلدی شاعری کرنے والے تھے۔ وہ بہت تیزی سے اشعار کہتے تھے، اور اتنی زیادہ شاعری میں انہیں یہ موقع نہیں ملتا تھا کہ وہ اپنے کہے ہوئے اشعار کو دوبارہ دیکھیں اور سنواریں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی اس عادت پر فخر بھی کرتے تھے۔ ان کا ایک فارسی شعر ہے:
آن فرصتم کجاست کہ اسے مصحفیؔ دگر
بینم بہ چشم ِ خویش غزلہاے گفتہ را
اس فخر نے مصحفیؔ کو بہت نقصان پہنچایا۔ جو تھوڑے سے شعر عام طور پر دستیاب تھے ان کی روشنی میں ناقدین سرسری رائیں دیتے رہے اور غلط فیصلے کرتے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ سختی محمد حسین آزاد نے کی۔ انھیں مصحفی کے کلام میں” امروہ پن “نظر آیا۔ لکھتے ہیں جہاں قدما کی زبان، اور محاورے کی پیروی کی ہے وہاں کامیاب ہیں، جہاں امروہہ کے محاورے استعمال کیے ہیں وہاں نا کام اور مثال میں جو محاورے پیش کیے ہیں وہ میر ؔکے دیوان میں بھی موجود ہیں، موضوعات کے بارے میں یہ رائے ہے کہ شعرا پنے متقدمین کے مضامین کو لفظی ہیر پھیر کے ساتھ باندھ دیا ہے۔ طنزکرتے ہوئے فرماتے ہیں الفاظ کو پس و پیش اور مضامین کو کم و بیش کر کے استادی کا جو حق ہے ادا کر دیا ہے۔ یہ الزام بھی سراسر غلط ہے مصحفیؔ تنقید نگار وتذکرہ نویسں بھی تھے۔ انھوں نے اپنے شعری سرمایے کا تنقیدی نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ اساتذہ کے کلام سے فیض بھی اٹھایامگر ان کا اپنا رنگ ہے اور ان کا انداز جدا گانہ ہے۔
مصحفی ؔ کے مخصوص انداز پر روشنی ڈالتے ہوئے” ڈاکٹر سید عبداللہ” فرماتمصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلاے ہیں کہ اردو شاعری میں مصحفیؔ کا ایک خاص مقام ہے ۔ اردو غزل کے ارتقا میں ان کا کلام ایک اہم منزل کا حکم رکھتا ہے۔ بہمہ رنگی کے باوجود ان کا اپنا بھی ایک رنگ ہے اور یہی وہ رنگ ہے جس نے انکو مصحفی ؔبنایا اور اب تک ان کے نام اور کام کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ روشن اور درخشاں رک۔ یہ رنگ وہ رنگ ہے جو دوسروں کے ساتھ ان کی جزوی مماثلتوں میں اتنا نہیں چمکتا جتنا ان کے اپنے انفرادی نقوش میں کھلتا ہے اور یہ انفرادی نقوش وہ ہیں جو ان سے پہلے کسی شاعر کے کلام میں اتنی آب و تاب سے نمایاں نہیں ہوئے جتنے مصحفی کے کلام میں نمایاں ہوئے ہیں اور ان کے بعد بھی اگر کسی شاعر کےکلام میں نظر آتے ہیں تو اس کی تنہا مثال شاید مولانا حسرت موہانی کی غزل میں ملتی ہے۔ جو حقیقت کی نظروں سے اوجھل رہی وہ یہ ہے کہ لکھنو اسکول کی صحت مند روایت کے بانی مصحفیؔ ہیں ۔
فحاشی اور جنس پرستی اس اسکول کی جرات کا نتیجہ ہیں۔ لکھنو کے پرامن ماحول اور خوشحالی نے اردو شاعری کو ایک خوشگوار عنصر بخشا۔ اس خوشگوار منظر کے دو پہلو ہیں: ایک تو رنگینیاں اور بے فکری، جس سے مصحفیؔ نے خود کو دور رکھا۔ دوسرا زندگی کا پر امید تصور، یعنی یہ یقین کہ خوشیاں ضرور حاصل ہوں گی اور دیرپا ثابت ہوں گی۔ یہ پر امید رویہ اردو شاعری میں مصحفیؔ کے ذریعے آیا۔ ان کا ایک شعر ہے:
چلے بھی جا جرس ِغنچہ کی صدا پہ نسیم
کہیں تو قافلہ نو بہار ٹھہرے گا
یہ واقعی ایک بہت کامیاب مصوّری ہے! غور کریں، کہا گیا ہے: بہار کا قافلہ بڑا تیز رفتار ہے، جو ایک پل بھی نہیں ٹھہرتا، یعنی بہار آتے ہی گزر جاتی ہے، اور بہار خوشی کی علامت ہے۔ نسیم، جس کا کام ہمیشہ حرکت میں رہنا ہے، بہار کا پیچھا کرتی ہے، مگر اس سے پہلے کہ نسیم اسے اپنی گرفت میں لے، بہار آگے بڑھ جاتی ہے۔ یہاں نسیم انسان کی اس خواہش کی علامت ہے جو خوشیوں (بہار) کو اپنے دامن میں سمیٹنے کی آرزو مند ہے۔ جرسِ غنچہ کی صدا کلی کے چٹکنے کی آواز ہے۔ جیسے ہی یہ آواز بلند ہوتی ہے، بہار کا قافلہ روانہ ہو جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے: اے نسیم، ہمت نہ ہار، جرسِ غنچہ کی صدا کو راہبر مان کر چلتی رہ، ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب تو بہار سے ہم آغوش ہو جائے گی۔ یہ کیسا امید افزا پیغام ہے اور کتنی باریکی سے بیان ہوا ہے! نسیم، جرسِ غنچہ، قافلہ نو بہار – کتنی خوبصورت زبان کا استعمال ہے۔ کتنے استعارے استعمال کیے گئے ہیں۔ زبان کی یہ رنگینی، یہ طرزِ ادا میں خوش لہجہ پن، اور شیریں الفاظ و تراکیب کا استعمال اردو شاعری کو مصحفی نے عطا کیا ہے۔
مصحفیؔ دلکش اور خوش آہنگ لفظوں اور ترکیبوں کو اس مہارت سے چنتے اور صحیح جگہ پر سجاتے ہیں جیسے کوئی جوہری موتیوں کی مالا تیار کرتا ہے۔ حسن پرستی اور نفاست پسندی مصحفیؔ کے مزاج کا حصہ ہیں، اور انہیں ہمیشہ اس بات کا خیال رہتا ہے کہ ان کے شعروں سے ایک خوبصورت دھن پیدا ہو۔ یعنی، غنائیت ان کے کلام کا نمایاں وصف ہے۔ وہ عام طور پر ایسی بحریں منتخب کرتے ہیں جن میں موسیقیت ہوتی ہے، اور ردیف و قافیہ کے انتخاب میں بھی بہت محتاط رہتے ہیں۔
اگر مصحفیؔ کی غزل کا تجزیہ کیا جائے تو ایک اور بات واضح ہوتی ہے کہ وہ نرم کیفیتوں کے شاعر ہیں، نہ کہ شدید جذبات کے۔ وہ تیز روشنی کے بجائے دھندلے منظر کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے کلام میں تصویریں جابجا نظر آتی ہیں، جن میں روشن تصویریں کم ہیں اور زیادہ تر تصویریں وہ ہیں جن پر ہلکی دھند چھائی ہوئی ہے۔ یہ دھند ان کے شعروں کے حسن کو اور بھی بڑھا دیتی ہے۔
ان کی ترکیبیں خاص طور پر بہت مترنم ہوتی ہیں جیسے: جرسِ غنچہ، قافلہ نو بہار، برگ گل و ریحان، غم زدہ بے سروسامان، تازہ نہالان چمن، کمر و زلف، دامن صحرا، غبار آلودہ پا بہ زنجیر نسیم سحری۔ ان کے شعروں کی کیفیت دیکھنے کے قابل ہے۔
کھول دیتا ہے تو جب جا کے چمن میں زلفیں
پابہ زنجیر نسیم سحری نکلے ہے
کیا نظر پڑ گئیں وہ چشم خمار آلودہ
شفق صبح تو ہے زور بہار آلودہ
جب واقف ِراہ و روِش ناز ہوئے تم
عالم کے میاں خانہ بر انداز ہوئے تم
سید عبداللہ لکھتے ہیں۔
“وہ دیے، مہم اور مدھم نقوش و تصورات کے شاعر تھے۔ ان کا ذہن شوخ ، شدید اور پرجوش حالتوں اور کیفیتوں کا دلدادہ نہیں۔ ان کی شاعری کی معنوی فضا خواب آلودہ سی ہے۔ چاندنی راتوں کی غبار کو آلود فضا جس کی دھندلاہٹ ہی اس کے حسن و جمال کا اصل ذریعہ ہے ۔ چنانچہ ان کی شاعری کے علامات و رموز اور استعارے اور تشبیہ ہیں اور ان کی دنیائے عشق کے خاص کارندے اور کردار بھی سبک رفتار اور نرم و نازک اور لطیف ہیں” ۔
مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا