عبدالغفور شہباز
عبدالغفور کا پورا نام سید محمد عبد الغفور ہے اور ان کا تخلص شہباز ہے۔ وہ موضع سر میرا باڑھ کے رہائشی تھے حالانکہ سفینہ اردو میں انہیں آرہ کا باشندہ بتایا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔ شہباز نے بہت کم عمر میں لکھنا شروع کیا۔ مظفر پور میں قیام کے دوران انہوں نے انٹرنس پاس کیا اور عربی اور فارسی میں مہارت حاصل کی۔ وہ انگریزی زبان میں بھی ماہر ہو گئے۔
شہباز کی شادی شمس النساء خاتون سے ہوئی جو باڑھ (پٹنہ) کی رہائشی تھیں۔ ان کی بیگم دس سال تک ان کے ساتھ رہیں۔ بعد میں انہوں نے 1888ء میں مولوی بشیر الدین احمد کی سالی اشرف النساء سے دوسری شادی کی۔ وہ خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے مگر بعد میں ان کی مالی حالت خراب ہوگئی جس کے باعث ان کی تعلیم متاثر ہوئی۔ بہرحال اپنے بھائی کی مدد سے وہ سب رجسٹرار بن گئے اور ان کا مضمون نگاری کا شوق پھر سے زندہ ہوگیا۔
اردو اخبار دارالسلطنت 1880ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت شروع ہوا تو شہباز اس کے مدیر بن گئے۔ جب یہ بند ہو گیا، تو انہوں نے پٹنہ کے بی این کالج میں داخلہ لیا اور اودھ میچ (لکھنو)، الینج (پٹنہ)، مخزن (لاہور) اور اردو اخبار (لکھنو) میں لکھنے لگے۔
بھوپال کی بیگم صاحبہ نے ان کے علم و کمال کو جان کر انہیں بھوپال آنے کی دعوت دی۔ وہ 1905ء میں وہاں ناظم تعلیمات بن گئے مگر بیگم بھوپال کی کچھ شرطیں انہیں نا منظور تھیں۔ اپنی دوسری بیگم کے انتقال کے بعد وہ نہ اورنگ آباد کالج کے پروفیسر رہے اور نہ ہی بھوپال کی ڈائرکٹری کے رکن بن سکے۔ اس مالی بدحالی کی حالت میں وہ سخت بیمار ہو گئے اور 30 نومبر 1908ء کو انتقال کر گئے۔
شہباز نے مختلف ادبی اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان کی شاعری میں رباعیات شہباز، خیالات شہباز، تفریح القلوب اور باقیات شہباز شامل ہیں جن میں مناظرہ دین و دنیا، قرآن السعدین، سالگرہ مبارک حضور نظام الدین، خدا کی رحمت، عید سعید، عروس شادی، نوحہ، تین خمسے، تہذیب قیس اور قانون قسمت جیسی نظمیں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ کلیات نظیر اکبر آبادی، مقدمہ موعظه ن، مصنفہ ڈاکٹر نذیر احمد، مقدمہ خیالات آزاد، مقدمہ سوانح عمری مولانا آزاد، دیباچہ نوابی، مقالات جمالیہ، ترجمہ رد نیچری، سیرت خسروی اور زندگانی بے نظیر ان کی تصنیفات میں شامل ہیں۔
شہباز نئی تعلیم اور تہذیب کے حامی تھے اور مغربی تہذیب کی پیروی کی دعوت دیتے تھے۔ وہ نظیر، حالی اور اکبر کے پیروکار تھے اور سائنسی علوم میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ یہ مکتوب ان کے مکاتیب سے لیا گیا ہے۔
مختصر ترین سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ شہباز کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟
جواب ۔ شہباز کی پیدائش 1880ء میں موضع سر میرا، باڑھ میں ہوئی۔
سوال 2 ۔ شہباز کی کتنی شادیاں ہوئیں اور ان کی بیویوں کے نام کیا ہیں؟
جواب ۔ شہباز کی دو شادیاں ہوئیں۔ پہلی بیگم کا نام شمس النساء ہے اور دوسری بیگم کا نام اشرف النساء ہے۔
سوال 3 ۔ شہباز کی دو کتابوں کے نام بتائیے۔
جواب ۔ شہباز کی کتابوں میں رباعیات شہباز اور تفریح القلوب شامل ہیں۔
سوال 4 ۔ شہباز نے شاعری میں کن شعرا کی تقلید کی ہے؟
جواب ۔ شہباز نے نظیر، حالی، اور اکبر کے شعرا کی تقلید کی ہے۔
سوال 5 ۔ شہباز نے شامل نصاب مکتوب میں جس بچی کو مخاطب کیا ہے اس کا نام لکھئے۔
جواب ۔ شہباز نے اپنی بیٹی صغری کو مخاطب کیا ہے۔
مختصر سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ شہبازکی تصنیفات پر روشنی ڈالئے۔
جواب ۔
شہباز کی تصنیفات میں مختلف اشعار، نظمیں اور مضامین شامل ہیں۔ ان کی معروف کتابوں میں رباعیات شہباز، خیالات شہباز اور تفریح القلوب شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں دینی اور دنیوی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
سوال 2 ۔ شہبازکے بارے میں پانچ جملے لکھئے۔
جواب ۔
شہباز کا پورا نام سید محمد عبد الغفور ہے۔
انہوں نے بہت کم عمر میں لکھنا شروع کیا۔
شہبازاردو ادبی دنیا میں ایک اہم شخصیت تھے۔
وہ مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے رہے۔
انہوں نے اپنی بیٹی کو تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔
سوال 2 ۔ مکتوب نگاری کی مختصر تعریف لکھئے۔
جواب ۔
مکتوب نگاری یا خطوط نگاری ایک ایسا عمل ہے جس میں لوگوں کے درمیان خیالات، احساسات اور معلومات کا تبادلہ خطوط کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
سوال 3 ۔ شامل نصاب خط کیا شہباز کا ذاتی خط ہے؟
جواب ۔
شامل نصاب خط عبدالغفور شہبازکا ذاتی خط ہے جس میں انہوں نے اپنی بیٹی صغری سے بات چیت کی ہے۔
سوال 4 ۔ اس پر روشنی ڈالئے۔ شہبازنے اپنی بیٹی کو جس بات کی تلقین کی ہے، اسے اجاگر کیجئے۔
جواب ۔
شہباز نے اپنی بیٹی کو تعلیم کی اہمیت اور محنت کی تلقین کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ اپنی بہن کو پڑھائیں گی تو یہ اچھی بات ہے اور انہیں پڑھائی میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
طویل سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ اردو میں مکتوب نگاری کی ابتدا و ارتقاء پر روشنی ڈالئے۔
جواب ۔
اردو میں مکتوب نگاری کی ابتدا مغل دور کے اواخر میں ہوئی جب ادب کے شوقین افراد نے ایک دوسرے کے ساتھ خیالات کا تبادلہ کرنا شروع کیا۔ اس وقت خطوط لکھنے کا انداز رسمی اور ادبی تھا جس میں شعری طرز اور محاورات کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس دور میں زیادہ تر خط فارسی زبان میں لکھے جاتے تھے کیونکہ فارسی عہد میں علمی اور ادبی زبان تصور کی جاتی تھی۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اردو زبان کی ترقی کے ساتھ ساتھ اردو مکتوب نگاری میں بھی تبدیلیاں آئیں۔ اردو شاعروں اور ادیبوں نے خطوط کے ذریعے اپنی جذبات اور خیالات کو عوام تک پہنچایا۔ اس میں غالب جیسے نامور شاعروں نے اہم کردار ادا کیا جنہوں نے اپنے خطوط میں نہ صرف اپنی شاعری کی عکاسی کی بلکہ اپنے ذاتی خیالات اور تجربات کو بھی شامل کیا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں اردو مکتوب نگاری نے مزید ترقی کی۔ مختلف ادبی شخصیات جیسے کہ علامہ اقبال اور سرسید احمد خان نے خطوط لکھے جو آج بھی اردو ادب کا ایک اہم حصہ ہیں۔ خطوط نے نہ صرف ذاتی رابطے کا ذریعہ فراہم کیا بلکہ ادبی بحث و مباحثہ کے لئے بھی ایک اہم پلیٹ فارم بنا۔ آج کل مکتوب نگاری کو ایک اہم ادبی صنف سمجھا جاتا ہے اور یہ مختلف موضوعات پر خیالات کا تبادلہ کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔
سوال 2 ۔ شہباز کی شخصیت پر تفصیلی روشنی ڈالئے۔
جواب ۔
شہباز جن کا پورا نام سید محمد عبد الغفور ہے ایک باعلم اور باہمت شخصیت تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم عربی اور فارسی زبان میں ہوئی اور بعد میں انہوں نے انگریزی زبان میں بھی مہارت حاصل کی۔ یہ ان کی علمی دلچسپی کا عکاس ہے جس نے ان کی زندگی کی بنیاد رکھی۔
شہباز نے اپنی زندگی کا آغاز کم عمری میں ہی لکھنے سے کیا اور انہوں نے کئی ادبی اصناف میں طبع آزمائی کی۔ وہ اردو ادب کے چند نمایاں ناموں جیسے کہ نظیر اور حالی کے پیروکار تھے اور ان کی شاعری میں دینی اور دنیوی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ان کی شخصیت کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے نئی تعلیم اور مغربی تہذیب کی حمایت کی۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں کی تعلیم پر زور دیا اور انہیں پڑھائی میں محنت کرنے کی تلقین کی۔ ان کے خطوط میں والدین کے حقوق اور بچوں کی تربیت کے بارے میں خیالات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
شہباز نے زندگی کے مختلف مراحل میں مالی مشکلات کا سامنا کیا مگر انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔ ان کی محنت اور لگن نے انہیں اردو ادب میں ایک خاص مقام عطا کیا۔ ان کی تصانیف اور نظمیں آج بھی اردو ادب کے خزانے کا حصہ ہیں۔ ان کی زندگی کا سفر ایک مثالی کہانی ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ علم اور ادب کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئے تو انسان کس طرح اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔
سوال 3 ۔ شامل نصاب مکتوب شہباز کا خلاصہ پیش کیجئے۔
جواب۔
شامل نصاب مکتوب میں شہباز اپنی بیٹی صغری سے بات کر رہے ہیں۔ وہ اس کے بارے میں فکر مند ہیں کہ اس کی والدہ یعنی شہباز کی بیگم خط کیوں نہیں لکھتی۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو تلقین کی ہے کہ وہ اپنی تعلیم پر توجہ دے اور اپنی بہن بشری کو بھی پڑھائے۔ شہباز نے کہا کہ جب وہ حقوق اولاد کے موضوع پر پڑھ رہی تھیں تو وہ دعا کرتے تھے کہ ان دونوں بہنوں کی تعلیم میں کامیابی ہو۔
مکتوب میں شہباز اپنی بیٹی کو یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ اگر وہ حقوق اولاد کی تعلیم مکمل کر لیں تو انہیں انعام ملے گا لیکن اس کا وعدہ پہلے کرنا فضول ہے۔ وہ اپنے آنے والے سفر کی بھی بات کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ محرم کی تعطیلات میں اپنی بیٹی کے پاس آئیں گے۔
انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ وہ اس وقت طبیعت کی خرابی کا سامنا کر رہے ہیں مگر ان کی فکر یہ ہے کہ ان کی بیٹی تعلیم میں کوتاہی نہ کرے۔ یہ خط شہباز کی والدین کی محبت اور ان کی تعلیم کی اہمیت پر زور دینے کے عزم کا عکاس ہے۔ اس خط میں ان کے ذاتی خیالات اور ان کی فیملی کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے گہری تشویش بھی نمایاں ہے۔
مجموعی طور پر یہ خط نہ صرف ایک والد کی محبت کا ثبوت ہے بلکہ یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ تعلیم اور محنت کی اہمیت کو کیسے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔
سوال 4 ۔ مندرجہ ذیل الفاظ سے جمع بنائیے۔
جواب ۔
حق: حقوق
فن: فنون
قبر: قبریں
منزل: منزلیں
دلیل: دلائل
ولی: اولیاء
امت: امم