Bihar Board Class 10 Urdu Chapter 19 Nazm Ham Naujawan Hain ہم نوجوان ہیں Solutions

پرویز شاہدی کا اصل نام سید اکرام حسین تھا اور اردو شاعری میں وہ “پرویز شاہدی” کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید احمد حسین تھا۔ پرویز شاہدی کے خاندانی پس منظر کے بارے میں ناقد سالک لکھنوی لکھتے ہیں “30 ستمبر 1910ء کو لودی کٹرہ، پٹنہ سیٹی کی عالم منزل میں سید احمد حسین کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام سید اکرام حسین رکھا گیا۔” سید احمد حسین بہار کے ایک زمیندار تھے اور ایک اچھے شاعر اور ادیب بھی تھے۔ ان کے خاندان میں رواداری، قدیم تہذیب اور مذہبیت کا ماحول غالب تھا۔

پرویز شاہدی کے آبا و اجداد میں سید محمد جنگ کا ذکر ملتا ہے جو سلطان محمد غوری کی فوج میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے خاندان کا پس منظر اعلیٰ تھا اور پرویز کی تعلیم و تربیت بھی مذہبی ماحول میں ہوئی۔ انہوں نے مدرسہ نظامیہ میں عربی، فارسی اور اردو کی تعلیم حاصل کی۔

پرویز نے 1925ء میں کولکاتہ یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا پھر پٹنہ یونیورسٹی سے 1930ء میں بی اے اور 1934ء میں اردو میں ایم اے اور 1935ء میں فارسی میں ایم اے کیا۔ وہ کولکاتہ واپس گئے اور اسلامیہ اسکول میں تدریس سے وابستہ ہو گئے اور بعد میں انسپکٹر آف اسکول بنے۔ 1947ء میں سریندر ناتھ کالج کولکاتہ میں اردو کے لکچرر بنے۔ اس دوران ان کا سیاسی شعور بڑھا اور انہوں نے مارکسی نظریات کا مطالعہ کیا جس کا اثر ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔

پرویز شاہدی 1958ء میں کولکاتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے۔ ان کی شادی فضیلت النساء بیگم سے ہوئی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔

پرویز شاہدی کو کم عمری سے ہی شعر و ادب کا شوق تھا اور انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں پہلا شعر کہا۔ پہلے انہوں نے “اکرام” تخلص رکھا، لیکن بعد میں “پرویز” اور پھر “شاہدی” تخلص اختیار کیا۔ ان کا تخلص “شاہدی” ان کے پرنانا سید شاہ شاہد حسین سے منسوب ہے۔

پرویز شاہدی نے شاعری کی ابتدا میں ناسخ کا رنگ اپنایا پھر غالب کے اثرات ان کی شاعری میں نظر آئے۔ جگر مراد آبادی کا انداز بھی ان کے کچھ اشعار میں ملتا ہے۔ بعد میں انہوں نے اقبال، جوش، رابندر ناتھ ٹیگور اور قاضی نذرالاسلام سے بھی اثر قبول کیا۔ تاہم انہوں نے شاعری میں اپنی منفرد راہ بنائی اور جلد ہی اپنا انفرادی انداز قائم کر لیا۔

پرویز شاہدی کے دو شعری مجموعے “رقص حیات” اور “حیثیت حیات” کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ پرویز شاہدی کا انتقال 6 مئی 1988ء کو مرض تنفس اور کثرت نوشی کی وجہ سے ہوا۔

اس نظم میں نوجوانوں کی توانائی، عزم اور جوش کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ نوجوان بہار کی جان اور خزاں کی موت ہیں اور زندگی کے گلشن میں بہارکا پیغام ہیں۔ نوجوانوں کا کارواں جہاں بھی جاتا ہے شادابی اور تازگی لے کرآتا ہے۔

شاعر نے نوجوانوں کی شعلہ فشانی اور حرارت کو “آتش گل کی چنگاریوں” سے تشبیہ دی ہے۔ نوجوان دفاتر، درسگاہوں اور کارخانوں میں ہوں یا افکار کے آشیانوں میں ان کا جوش اور ولولہ ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ان کے جذبات اور خیالات زندگی کی علامت ہیں اور ان کی موجودگی سے ہر جگہ ایک نئی زندگی اور تازگی آجاتی ہے۔

نظم میں نوجوانوں کی بغاوت اور عزم کی عکاسی بھی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ نوجوان ظلم کے خلاف کھڑے ہیں اور ان کی آنکھوں میں آگ ہے جو اندھیرے کو چیر سکتی ہے۔ ان کی سانسیں صبح کے سورج کی کرنوں کی طرح ہیں جو ہر تاریکی کو ختم کر سکتی ہیں۔

نوجوان ایک ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں خوشی اور مسرت ہو اور وہ اپنی چھینی گئی جنت کو واپس لینے کا عزم رکھتے ہیں۔ شاعر آخر میں بوڑھے لوگوں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے کہ یہ بوڑھے لوگ معاشرے میں پرانی اور منفی سوچ کے محافظ بنے ہوئے ہیں جبکہ نوجوان خوشیوں اور زندگی کے باغ کو سجانے کے خواہاں ہیں۔

جواب ۔ پرویز شاہدی 30 ستمبر 1910ء کو لودی کٹرہ، پٹنہ سیٹی میں پیدا ہوئے۔

جواب ۔ اس بارے میں مضمون میں کوئی ذکر نہیں ہے کہ پرویز شاہدی کے والدین کب فوت ہوئے۔

جواب ۔  ان کی اہلیہ کا نام فضیلت النساء بیگم تھا۔

جواب ۔ پرویز شاہدی کے دو شعری مجموعے “رقص حیات” اور “حیثیت حیات” کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔

جواب ۔ مضمون میں “تثلیث حیات” کا ذکر نہیں ہے۔

پرویز شاہدی نے اپنی زندگی میں شاعری اور ادب کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان کے دو اہم شعری مجموعے “رقص حیات” اور “حیثیت حیات” کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کی شاعری میں زندگی، محبت، انقلاب اور سماجی مسائل جیسے موضوعات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ پرویز شاہدی نے نہ صرف اردو بلکہ فارسی زبان میں بھی مہارت حاصل کی اور اپنے اشعار میں اس ادبی وراثت کا رنگ بھی شامل کیا۔ ان کی تصنیفات میں فطری حسن، جوانی کا جوش اور جدیدیت کی جھلکیاں ملتی ہیں۔

پرویز شاہدی کی شاعری میں روایتی کلاسیکی رنگ اور جدیدیت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔

ان کی شاعری کا آغاز تقلیدی دور میں ہوا مگر جلد ہی انہوں نے اپنا منفرد انداز تخلیق کیا۔

پرویز شاہدی کی شاعری میں معاشرتی مسائل، طبقاتی جدوجہد اور انقلاب کی پکار نمایاں ہیں۔

ان کے اشعار میں عشق، جمالیات اور فطرت کی عکاسی بھی بھرپور طریقے سے کی گئی ہے۔

انہوں نے اپنے کلام میں انسانی جذبات کو گہرائی سے محسوس کیا اور اسے بے حد سلیقے سے الفاظ میں ڈھالا۔

نظم “ہم نوجوان ہیں” کے پہلے بند میں شاعر نوجوانوں کی توانائی، جوش اور عزم کا ذکر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نوجوان اپنی جوانی کی طاقت اور بہار کا استعارہ ہیں۔ ان میں زندگی کی شادابی ہے اور وہ کسی بھی مشکل کو عبور کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ شاعر کے مطابق نوجوان قوم کی ترقی کا اہم ذریعہ ہیں اور ان کے اندر کی آگ کامیابی کے راستے پر لے جاتی ہے۔ اس بند میں نوجوانوں کو امید، خوداعتمادی اور مستقبل کے روشن خوابوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

جدید نظم ایک ایسی صنف ہے جو روایتی شعری اصولوں سے آزاد ہوتی ہے۔ اس میں شاعر اپنی جذبات اور خیالات کو کھلے انداز میں پیش کرتا ہے بغیر عروض اور قافیہ کی سختی کے۔ جدید نظم کا موضوع عموماً معاشرتی مسائل، فلسفیانہ خیالات اور انفرادی تجربات پر مبنی ہوتا ہے۔ جدید نظم کے شعرا نے انسانیت، مساوات، آزادی اور معاشرتی بیداری کے موضوعات پر زور دیا۔ یہ نظمیں آزاد انداز میں لکھی جاتی ہیں اور ان کا مقصد قاری کو سوچنے اور محسوس کرنے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔

مخمس ایسی نظم کو کہتے ہیں جس کے ہر بند میں پانچ مصرعے ہوتے ہیں۔ یہ شعری صنف عموماً موضوع کے لحاظ سے وسیع اور گہرائی رکھنے والی ہوتی ہے اور اس میں شاعر اپنے خیالات کو زیادہ تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ مخمس نظم میں مختلف موضوعات کو ایک خاص ترتیب سے بیان کیا جاتا ہے جو قاری کو زیادہ گہرائی سے سوچنے پر مائل کرتی ہے۔

پرویز شاہدی کی شاعری میں روایتی اور جدید شاعری کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کے ابتدائی دور میں ناسخ اور غالب جیسے کلاسیکی شعرا کا اثر دکھائی دیتا ہے لیکن بعد میں انہوں نے اپنی انفرادیت قائم کی۔ ان کی شاعری میں انقلاب، اشتراکیت اور سماجی مسائل کا رنگ نمایاں ہے۔ پرویز شاہدی کی شاعری میں طبقاتی جدوجہد اور انسانیت کے حقوق کے لیے پکار ملتی ہے۔ ان کے اشعار میں انسانی جذبات، محبت اور فطرت کی خوبصورتی کو بڑی گہرائی سے پیش کیا گیا ہے۔ پرویز شاہدی کی شاعری میں جمالیاتی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور اور انقلابی خیالات بھی دیکھنے کو ملتےہیں۔ انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ فارسی شاعری میں بھی اپنا مقام پیدا کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے انسانیت کی خدمت کی۔

پرویز شاہدی کا شعری سفر تقلیدی دور سے شروع ہوا جس میں انہوں نے ناسخ اور غالب کے انداز کو اپنایا۔ بعد میں ان کی شاعری میں اقبال اور جوش ملیح آبادی جیسے شعرا کا اثر بھی دکھائی دینے لگا۔ تاہم پرویز شاہدی نے اپنی فطری صلاحیتوں اور منفرد خیالات کے ذریعے جلد ہی اپنی انفرادیت قائم کر لی۔ ان کی شاعری میں جذباتی شدت، فطرت کی عکاسی اور انقلابی خیالات نمایاں ہیں۔ ان کا کلام ایک ایسے شاعر کی تصویر پیش کرتا ہے جو اپنے عہد کے مسائل اور انسانی زندگی کی پیچیدگیوں سے واقف تھا۔

نظم “ہم نوجوان ہیں” کا مرکزی خیال نوجوانوں کی توانائی، جوش اور ان کی صلاحیتوں کو بیان کرنا ہے۔ شاعر کے مطابق، نوجوان قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں اور ان کی جوانی قوم کی ترقی کا ضامن ہے۔ نوجوان ہر مشکل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں اور وہ اپنی محنت اور عزم سے قوم کو کامیابی کے راستے پر لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس نظم میں نوجوانوں کی خوداعتمادی، ان کا حوصلہ اور ان کی مستقبل کے خوابوں کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ شاعر نوجوانوں کو معاشرتی تبدیلی اور ترقی کا محرک قرار دیتا ہے اور ان سے امیدیں وابستہ کرتا ہے کہ وہ اپنے جوش و ولولے سے ہر رکاوٹ کو عبور کر لیں گے۔

نظم میں شاعر نے نوجوانوں کی طرف سے اپنی کامیابی اور مستقبل کی خوشحالی کے عزم کو بیان کیا ہے۔ یہ نظم نوجوانوں کی ترقی اور ان کی مثبت سوچ کی عکاسی کرتی ہے جو ایک بہتر معاشرتی نظام کی تعمیر میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

جدید نظم کا آغاز انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں ہوا جب شعرا نے روایتی عروض اور قافیہ بندی کے اصولوں سے ہٹ کر شاعری کی نئی شکلیں اپنانا شروع کیں۔ اس دور میں اقبال، جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض جیسے شعرا نے جدید نظم کو پروان چڑھایا۔ ان شاعروں نے معاشرتی مسائل، انسانیت کی خدمت، طبقاتی جدوجہد اور آزادی جیسے موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ جدید نظم میں شعرا نے عروض کی روایتی پابندیوں سے ہٹ کر نئے موضوعات کو آزادی کے ساتھ بیان کیا۔

جدید نظم میں روایتی انداز کے مقابلے میں زیادہ انفرادی تجربات اور جذبات کو شامل کیا گیا ہے۔ اس میں فکری وسعت، فطری عکاسی اور فلسفیانہ خیالات کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ جدید نظم کے شعرا نے انسانیت، آزادی، مساوات اور سماجی انصاف کے نظریات کو اپنی نظموں میں پیش کیا۔ اس ارتقائی دور نے شاعری کو ایک نئی جہت دی جس میں فرد کی حیثیت، اس کی خواہشات اور خوابوں کو بھی نمایاں کیا گیا۔

تسکین ذوق جام و سبو کا حق مانگتی ہے

Scroll to Top