دوہا
دوہا ہندی زبان کی ایک پرانی صنفِ سخن ہے۔ اس کے موضوعات عام طور پر نصیحت اور مذہب و اخلاق سے متعلق ہوتے تھے، جیسے کہ قدیم فارسی “رباعی” میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ دوہا کی زبان بہت سادہ اور عام فہم ہوتی تھی، جسے بازاروں اور گلیوں میں چلنے والا ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا تھا۔ آج کے دور میں اردو دوہوں میں موضوعات نے کافی وسعت حاصل کر لی ہے، اور اب اس میں ہر طرح کے موضوعات شامل کیے جا رہے ہیں۔
دوہا میں دو مصرعے ہوتے ہیں، اور ہر مصرعے میں ایک وقفہ ہوتا ہے، یعنی ہر مصرعے میں دو حصے ہوتے ہیں جنہیں “چرن” کہا جاتا ہے۔ پہلے حصے کو “سم چرن” کہتے ہیں اور دوسرے حصے کو “دشم چرن”۔ سم چرن میں 13 اور دشم چرن میں 11 ماترائیں ہوتی ہیں۔ عموماً دوہے میں ردیف نہیں ہوتی، لیکن اگر ہو تو یہ خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔
ظفر گورکھپوری
ظفر گورکھپوری کا نام اردو شعر و ادب کے اہم اور قابلِ احترام شاعروں میں شامل ہے۔ وہ نہ صرف ایک کامیاب شاعر ہیں بلکہ انہوں نے کئی فلمی گیت بھی لکھے ہیں۔ ان کی پیدائش 5 مئی 1935 کو اتر پردیش کے گورکھپور کے بانس گاؤں تحصیل کے بید ولی بابو گاؤں میں ہوئی۔ انہوں نے کم عمری میں ہی غزل کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کر لیا تھا۔
ظفر گورکھپوری کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کلاسیکل اور جدید شاعری کو خوبصورت انداز میں ملایا ہے۔ ان کی شاعری میں نیا انداز اور احساسات کی تازگی نمایاں ہوتی ہے۔ ان کا ادبی سفر فراق گورکھپوری سے شروع ہوتا ہے اور علی سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی اور جاں نثار اختر جیسے بڑے شاعروں کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
ظفر گورکھپوری کی شاعری کے سات مجموعے شائع ہو چکے ہیں، جن کے نام ہیں: تیشہ، وادی سنگ، گوکھرو کے پھول، چراغ چشم تر، آر پار کا منظر، زمین کے قریب، اور ہلکی ٹھنڈی ہوا۔ بچوں کے لیے بھی ان کے دو مجموعے شائع ہوئے ہیں: ناچ رہی گڑیا اور سچائیاں۔ زمین کے قریب میں نظموں، غزلوں، گیتوں کے ساتھ ساتھ دوہے بھی شامل ہیں۔
ظفر گورکھپوری نے امریکہ، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور عالمی مشاعروں میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔
دوہا کا خلاصہ
ظفر گورکھپوری کے دوہوں میں زندگی کے مختلف پہلوؤں اور سماجی مسائل پر گہری اور سادہ سوچ کی عکاسی ملتی ہے۔ ہر دوہے میں ایک گہرا فلسفہ اور حقیقت پوشیدہ ہے، جو زندگی کے پیچیدہ معاملات کو سادہ الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
پہلا دوہا
خوابوں اور حقیقت کے کھیل پر مبنی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ خواب دیکھو، ستاروں کو چھونے کی کوشش کرو اور چھوٹے چھوٹے خوشیوں کے لمحات کا مزہ لو، لیکن ساتھ ہی یاد رکھو کہ زندگی محدود ہے، جیسے دیئے میں موجود تیل کی مقدار محدود ہوتی ہے۔ یعنی زندگی مختصر ہے، اور ہمیں اس مختصر وقت میں اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دوسرا دوہا
محبت اور حسن کی حقیقت بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہر جگہ محبوب کی جھلک دکھائی دیتی ہے، چاہے وہ بادلوں کی بوندیں ہوں یا سورج کی دھوپ۔ یعنی محبت اور حسن ہر شے میں پوشیدہ ہیں، اور دنیا کی ہر چیز میں کسی نہ کسی طرح محبوب کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔
تیسرا دوہا
زیادہ سنجیدگی کو ایک بیماری کے طور پر دیکھتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ زندگی کی زیادہ سنجیدگی نے لوگوں کو بوڑھا بنا دیا ہے۔ اگر ہم ہمیشہ آگے اور پیچھے کی فکر کرتے رہیں گے، تو ہم زندگی کے خوشیوں بھرے لمحے ضائع کر دیں گے۔ یہ دوہا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی کا لطف اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کبھی کبھار سنجیدگی کو چھوڑ کر زندگی کی چھوٹی خوشیوں پر توجہ دیں۔
چوتھا دوہا
سماجی عدم مساوات پر روشنی ڈالتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ بھوکی بھیڑ کے جسم سے یا تو چرواہے کو دودھ ملتا ہے یا تاجر کو اون، یعنی کسان کی محنت کا فائدہ ہمیشہ دوسرے لوگ اٹھاتے ہیں۔ اس دوہے میں سماجی ناانصافی اور طبقاتی فرق کی طرف اشارہ ہے، جہاں محنت کرنے والے کو کم اور فائدہ اٹھانے والے کو زیادہ ملتا ہے۔
پانچواں دوہا
دیہی اور شہری زندگی کے فرق کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ دیہات کی سادہ زندگی میں چند پل آرام کے لیے درختوں کے پاس بیٹھنے کا موقع ملتا ہے، جبکہ شہر کی زندگی میں انسان بن باس (جلاوطنی) کی طرح مصروف اور تنہا ہو جاتا ہے۔ یہاں دیہات کی سادگی اور شہر کی تیزرفتار زندگی کے بیچ کی کشمکش کو دکھایا گیا ہے۔
چھٹا دوہا
اس خیال کو بیان کرتا ہے کہ پیسوں سے سچی خوشی نہیں خریدی جا سکتی۔ شاعر کہتا ہے کہ اگر خوشی بازار سے خریدی جا سکتی، تو ہم چند لمحے خوشیوں کے خرید لیتے۔ یہاں شاعر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل خوشی پیسوں سے نہیں ملتی، بلکہ دل کے سکون اور اندرونی خوشی سے آتی ہے۔
ساتواں دوہا
رشتوں کی پہچان اور اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جیسے ایک کھیلنے والی گیند درخت سے گرتی ہے، ویسے ہی رشتے کبھی مضبوط اور کبھی کمزور ہوتے ہیں۔ اس دوہے میں رشتوں کی نازک حالت اور ان کے ٹوٹنے جڑنے کے عمل کی طرف اشارہ ہے، جو زندگی کا ایک حصہ ہیں۔
آٹھواں دوہا
ماں کے آشیرواد کی طاقت پر مبنی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ رات کی تاریکی میں ایک جگنو کی طرح ماں کا آشیرواد چمکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زندگی کے مشکل حالات میں بھی ماں کی دعا اور محبت انسان کو روشنی اور امید دیتی ہے۔
نواں دوہا
بچوں کی جدید زندگی پر تبصرہ کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ بچے ٹی وی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، لیکن اس دوران کتابیں نظرانداز ہو جاتی ہیں، جیسے وہ بیوہ ہو گئی ہوں۔ اس دوہے میں ٹی وی اور جدید تفریحی ذرائع کی وجہ سے علم اور مطالعے کی کمی پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
دسواں دوہا
جدید ٹیکنالوجی کے دور میں انسانی جذبات اور سوچ کی خشکی کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کمپیوٹر کے دور میں سب کچھ بنجر اور بانجھ ہو گیا ہے، یعنی آج کی دنیا میں جہاں ہر چیز کمپیوٹر اور مشینوں پر منحصر ہے، وہاں انسانی جذبات، رشتے اور احساسات خالی اور بے روح ہو گئے ہیں۔
یہ دوہے زندگی کی حقیقتوں، محبت، تعلقات، جدیدیت اور سماجی مسائل کو سادہ الفاظ میں بیان کرتے ہیں، اور ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی میں کیا کھو رہے ہیں اور کیا حاصل کر رہے ہیں۔
مختصر ترین سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ ظفر گورکھپوری کی پیدائش کب ہوئی؟
جواب ۔ 5 مئی 1935 کو۔
سوال 2 ۔ ظفر گورکھپوری کی پیدائش کس ریاست میں ہوئی؟
جواب ۔ اتر پردیش، گورکھپور۔
سوال 3 ۔ ظفر گورکھپوری کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہے؟
جواب ۔ کلاسیکل اور جدید شاعری کا خوبصورت میلان۔
سوال 4 ۔ بچوں کے لئے ظفر گورکھپوری کے کون سے دو مجموعے شائع ہوئے ہیں؟
جواب ۔ ناچ رہی گڑیا اور سچائیاں۔
سوال 5 ۔ ظفر گورکھپوری نے کن کن ملکوں کا دورہ کیا؟
جواب ۔ امریکہ، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات۔
مختصر سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ ظفر گورکھپوری کا کون سا دوہا آپ کو سب سے زیادہ اچھا لگا اور کیوں؟
جواب ۔
مثال کے طور پر دوہا “بھوکی بھیڑ کے جسم میں بس، چرواہے کو دودھ دے یا تاجر کو اون“ بہت معنی خیز ہے۔ یہ دوہا سماج میں محنت کش طبقے کی حالت کو بیان کرتا ہے، جہاں محنت کرنے والے کو کم ملتا ہے، جبکہ فائدہ ہمیشہ چرواہے (یعنی حکمران طبقہ) یا تاجر (سرمایہ دار) کو پہنچتا ہے۔ اس دوہے میں ظفر گورکھپوری نے سادہ الفاظ میں طبقاتی فرق کو نمایاں کیا ہے، جو آج بھی معاشرتی حقیقت ہے۔
سوال 2 ۔ پانچویں دوہے میں شہروں کی بن باس سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب ۔
شہروں کی بن باس سے مراد شہری زندگی کی مصروفیت اور اکیلا پن ہے۔ بن باس کا مطلب جلاوطنی یا کسی دور دراز جگہ پر رہنے کا تجربہ ہے۔ شاعر یہاں یہ کہہ رہا ہے کہ شہروں کی تیز رفتار اور مادی زندگی نے انسان کو فطرت سے اور سادہ خوشیوں سے دور کر دیا ہے، جس کی وجہ سے انسان تنہائی اور بے سکونی کا شکار ہو گیا ہے۔ شہر کی زندگی میں انسان اپنے قدرتی ماحول سے کٹ کر بن باس کی حالت میں ہے۔
سوال 3 ۔ پیڑ پر کلہاڑی گرنے سے شاعر کس طرح لہولہان ہوا؟
جواب ۔
اس دوہے میں پیڑ پر کلہاڑی گرنا ایک علامت ہے، جس کا مطلب ہے کہ زندگی کے رشتوں میں دراڑ آنا یا تعلقات کا ٹوٹنا۔ “میں لہولہان” ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رشتوں کے ٹوٹنے یا ان میں مسائل آنے سے شاعر کے دل کو تکلیف پہنچی ہے۔ شاعر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ جیسے درخت پر کلہاڑی کا وار درخت کو زخمی کرتا ہے، ویسے ہی رشتوں میں دراڑ یا دکھ شاعر کے دل کو زخمی کرتا ہے اور اسے جذباتی تکلیف پہنچتی ہے۔
سوال 4 ۔ بچوں کے ٹی وی زیادہ دیکھنے پر شاعر کیوں دکھی ہے؟
جواب ۔
شاعر اس لیے دکھی ہے کہ آج کے بچے ٹی وی دیکھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، لیکن اس دوران کتابوں کو بالکل نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ شاعر کتابوں کو “بیوہ” کی طرح دکھاتا ہے، جو بے سہارا ہو گئی ہیں، کیونکہ بچے اب مطالعہ کرنے کے بجائے سارا وقت ٹی وی دیکھنے میں گزار رہے ہیں۔ یہ دوہا اس بات کا دکھ بیان کرتا ہے کہ جدید دور میں ٹی وی اور انٹرنیٹ نے مطالعہ اور علم کی اہمیت کو کم کر دیا ہے، جو طویل مدتی نقصان کا سبب بن رہا ہے۔
سوال 5 ۔ کمپیوٹر سے کیا نقصان پہنچ رہا ہے؟
جواب ۔
شاعر کمپیوٹر اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسانی تعلقات اور سوچ میں پیدا ہونے والی خشکی اور بانجھ پن پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کمپیوٹر کے دور میں لوگ مشینوں پر زیادہ منحصر ہو گئے ہیں اور انسانیت، جذبات اور رشتے کھو رہے ہیں۔ اس جدید دور میں لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور سچی محبت، دوستی اور رشتے ناپید ہو رہے ہیں، جس سے زندگی بنجر اور بے روح ہوتی جا رہی ہے۔
طویل سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ شاعر نے اپنے دوہوں میں کن کن خیالات کا اظہار کیا ہے؟ ان کی فہرست بنائیے۔
جواب ۔
شاعر نے اپنے دوہوں میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے۔
خوابوں اور حقیقت کا کھیل
شاعر کہتا ہے کہ خواب دیکھنا ضروری ہے، لیکن زندگی مختصر ہے، جیسے دیئے میں تیل کی مقدار۔
محبت اور حسن کا اظہار
دنیا کی ہر چیز میں محبت اور حسن کا عکس موجود ہے، چاہے وہ بادل ہوں یا سورج کی روشنی۔
سنجیدگی کو ایک بیماری سمجھنا
زندگی کی زیادہ سنجیدگی انسان کو بوڑھا بنا دیتی ہے اور خوشیوں کو چھین لیتی ہے۔
سماجی عدم مساوات
محنت کرنے والے کو کم اور فائدہ اٹھانے والے کو زیادہ ملتا ہے، جیسے کسان کی محنت کا فائدہ چرواہے یا تاجر کو ہوتا ہے۔
دیہی اور شہری زندگی کا فرق
دیہی زندگی میں سادگی اور سکون ہے، جبکہ شہری زندگی میں تنہائی اور بن باس کا تجربہ ہوتا ہے۔
خوشی کا بازار سے نہ ملنا
پیسوں سے دل کی سچی خوشی خریدی نہیں جا سکتی، یہ سکون اور محبت سے ملتی ہے۔
رشتوں کی نازک حالت
رشتے زندگی میں اہم ہیں، لیکن کبھی کبھار ٹوٹنے کی نوبت آتی ہے، جو انسان کو جذباتی طور پر لہولہان کر دیتا ہے۔
ماں کے آشیرواد کی اہمیت
مشکل وقت میں ماں کی دعا اور محبت زندگی کو روشنی اور امید دیتی ہے۔
بچوں کا علم سے دور ہونا
بچے ٹی وی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، لیکن کتابوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں، جو علم کا نقصان ہے۔
کمپیوٹر اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی
کمپیوٹر کے دور نے انسانی جذبات، تعلقات اور سوچ میں خشکی پیدا کر دی ہے۔
سوال 2 ۔ ظفر گورکھپوری کے دوہوں کی خوبیوں کو واضح کیجئے۔
جواب ۔
سادگی
ظفر گورکھپوری کے دوہوں میں عام فہم زبان کا استعمال ہوتا ہے، جو ہر طبقے کے افراد کے لیے قابل فہم ہوتی ہے۔ ان کے دوہے عوامی زبان میں ہوتے ہیں، جسے ہاٹ بازار یا گلی کوچوں میں عام لوگ آسانی سے سمجھ سکیں۔
گہرائی اور معنی
سادہ زبان میں گہرے خیالات کا اظہار ان کے دوہوں کی ایک بڑی خوبی ہے۔ وہ زندگی کے پیچیدہ فلسفے کو آسان الفاظ میں بیان کرتے ہیں، جیسے خواب، محبت، سماجی انصاف، اور رشتوں کی نزاکت۔
جدید اور کلاسیکل شاعری کا امتزاج
ان کے دوہوں میں کلاسیکل شاعری کی خوبصورتی اور جدید شاعری کے تجربے کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے، جس سے ان کے دوہوں میں تازگی اور نیاپن ہوتا ہے۔
متنوع موضوعات
ظفر گورکھپوری نے اپنے دوہوں میں مختلف موضوعات کو شامل کیا ہے، جیسے محبت، سماجی انصاف، جدیدیت، انسانیت، اور تعلقات۔ ان کے دوہوں میں زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مشاہدات کی عکاسی
ان کے دوہوں میں روزمرہ کی زندگی کے مشاہدات کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ چاہے وہ معاشرتی ناانصافی ہو، بچوں کا علم سے دور ہونا، یا رشتوں کا ٹوٹنا، وہ عام زندگی کی حقیقتوں کو آسان انداز میں بیان کرتے ہیں۔
سوال 3 ۔ ظفر گورکھپوری کے متعلق اپنی واقفیت کا اظہار کیجئے۔
جواب ۔
ظفر گورکھپوری کا نام اردو شعر و ادب میں انتہائی عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ 5 مئی 1935 کو اتر پردیش کے گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کم عمری میں ہی شاعری میں نمایاں مقام حاصل کر لیا تھا، خاص طور پر غزل کے میدان میں۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے کلاسیکل شاعری اور جدید شاعری کو خوبصورتی سے ملایا ہے۔ ان کی شاعری میں فکر و احساسات کی تازگی اور ایک نیا اسلوب دیکھنے کو ملتا ہے۔
ظفر گورکھپوری نے شاعری کے ساتھ ساتھ فلمی نغمے بھی لکھے ہیں۔ ان کے شاعری کے سات مجموعے شائع ہو چکے ہیں، جن میں “تیشہ”، “وادی سنگ”، “گوکھرو کے پھول”، “چراغ چشم تر”، “آر پار کا منظر”، “زمین کے قریب” اور “ہلکی ٹھنڈی ہوا” شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بچوں کے لئے بھی انہوں نے دو مجموعے “ناچ رہی گڑیا” اور “سچائیاں” لکھے ہیں۔
ظفر گورکھپوری نے عالمی سطح پر بھی اپنے کلام کا جادو بکھیرا ہے۔ انہوں نے امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے کیے ہیں اور وہاں کے مشاعروں میں ہندوستان کی نمائندگی کی ہے۔ ان کے دوہے زندگی کی حقیقتوں، محبت، رشتوں اور جدید معاشرتی مسائل کو بیان کرتے ہیں۔