تنقیدی مضمون
تنقیدی مضمون اس تحریر کو کہتے ہیں جس میں کسی ادبی صنف، تخلیق یا نظریے کے مختلف پہلوؤں پر رائے زنی کی جائے۔ ادب میں تنقید کی وسعت بہت زیادہ ہے، جہاں تخلیقات کی خوبیوں اور خامیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ ہر فن کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں جن کی روشنی میں کسی بھی ادبی فن پارے کو پرکھا جاتا ہے۔ ایک تنقید نگار کے لیے ذاتی پسند و ناپسند سے زیادہ اہم وہ معیارات ہوتے ہیں جو ہر دور میں اپنی قدر و قیمت برقرار رکھتے ہیں۔
جب ہم کوئی ادبی تخلیق پڑھتے ہیں تو وہ اپنے اثرات چھوڑتی ہے، جو کبھی خوشگوار ہوتے ہیں اور کبھی ناگوار۔ یہ تاثر عارضی بھی ہو سکتا ہے اور دیرپا بھی۔ عام طور پر ہم میں سے بیشتر لوگ ادب کو صرف تفریح کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور شاید ہی کسی تخلیق کو دوبارہ پڑھنے کی زحمت کریں۔ مگر تنقید نگار کی نگاہ گہری ہوتی ہے، وہ تخلیق کا بارہا مطالعہ کرتا ہے اور ہر بار نیا زاویہ دریافت کرتا ہے۔ ان تاثرات کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کے بعد، وہ ان کی چھان پھٹک کرتا ہے اور تخلیق کی خوبیاں اور خامیاں مزید واضح ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اس علمی عمل کے بعد ہی وہ کسی حتمی رائے تک پہنچتا ہے۔
تنقید صرف تخلیق کی تشریح یا تجزیہ تک محدود نہیں، بلکہ اس پر ایک واضح اور پختہ رائے بھی قائم کرتی ہے۔ حالی، شبلی اور محمد حسین آزاد کے بعد جن نقادوں کی تحریریں ہمارے ادب میں اہمیت رکھتی ہیں، ان میں عبد الرحمن بجنوری، مسعود حسن رضوی ادیب، مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین، آل احمد سرور اور کلیم الدین احمد کے نام نمایاں ہیں۔
احتشام حسین (1912 تا 1972)
سید احتشام حسین کا تعلق اعظم گڑھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں ماہل سے تھا، جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔ ان کی ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم اعظم گڑھ اور الہ آباد میں ہوئی۔ 1932 کے قریب ان کی ادبی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ پہلے پہل افسانہ نگاری، ڈراما نویسی اور شاعری (نظمیں اور غزلیں) کا شوق رہا، لیکن جلد ہی تنقید کی طرف ان کی توجہ مبذول ہو گئی۔ 1936 میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایم۔ اے کیا اور 1938 میں لکھنو یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ 1952 میں انھیں راک فیلر فاؤنڈیشن کی مدد سے امریکا اور انگلستان کے مطالعاتی دورے کا موقع ملا، اور 1961 میں وہ الہ آباد یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر مقرر کیے گئے۔ ان کا انتقال الہ آباد میں ہوا۔
احتشام حسین کی علمی خدمات میں لسانیات پر جان بیمز کی انگریزی کتاب کا ترجمہ “ہندوستانی لسانیات کا خاکہ” کے عنوان سے شامل ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ “ویرانے” اور سفرنامہ “ساحل اور سمندر” بھی شائع ہوئے، جبکہ بچوں کے لیے بھی انھوں نے کہانی تحریر کی۔ اردو ادب کی تاریخ پر انھوں نے ہندی میں “اردو ساہتیہ کا آلوچنا تمک اتہاس” کے عنوان سے ایک اہم کتاب مرتب کی۔
تنقید ان کا اصل میدان تھا۔ وہ ابتدا سے ہی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اشتراکیت کے قائل تھے، اسی لیے ان کی تنقید میں زندگی اور ادب کو اسی نظریے کی روشنی میں پرکھا گیا۔ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے جیسے “تنقیدی جائزے”، “روایت اور بغاوت”، “ادب اور سماج”، “ذوق ادب اور شعور” اور “اعتبار نظر” ادب میں اہمیت رکھتے ہیں۔
پیش نظر مضمون “اعتبار نظر” سے اخذ کیا گیا ہے، جس میں انھوں نے رتن ناتھ سرشاؔر کے معروف ناول “فسانہ آزاد” کے مشہور مزاحیہ کردار “خوجی” کا تجزیہ کیا ہے، اور اس کردار کی اہمیت اور دلچسپی کو خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے۔
خوجی ایک مطالعہ کا خلاصہ
احتشام حسین کے اس تنقیدی مضمون میں سرشار کے ناول “فسانہ آزاد” کے مشہور مزاحیہ کردار خوجی کی شخصیت کا گہرا مطالعہ کیا گیا ہے۔ مصنف کے مطابق، خوجی صرف لکھنوی تہذیب کا نمائندہ نہیں، بلکہ ہر اس عہد کا آئینہ دار ہے جب معاشرتی اور تہذیبی سچائیاں مشکوک ہو جاتی ہیں۔ جیسے شیکسپیر کے فالسٹاف اور سروینٹیز کے ڈان کوئکزوٹ، ویسےہی سرشار کے خوجی ایک ایسے کردارکی صورت میں سامنےآتا ہےجوزمانےکےتضادات پر طنزکرتا ہے۔
خوجی کی پہلی جھلک ہمیں اس وقت ملتی ہے جب نواب صاحب کا بٹیر گم ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر خوجی اپنی بے وقوفانہ باتوں اور ذہین فقرہ بازی سے دوسروں کی توجہ حاصل کرتا ہے۔ شروع میں اس کی اہمیت واضح نہیں ہوتی، مگر جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے، خوجی کا کردار افسانے پر چھا جاتا ہے اور اس کی شخصیت کتاب کی دلکشی کا اہم حصہ بن جاتی ہے۔ اس کی خصوصیات میں افیون کا شوق، پانی سے خوف، اور اپنی ہر بات پر زور دینے کی عادت شامل ہیں۔
خوجی کا کردار معاشرتی تضادات کا مظہر ہے۔ وہ اپنی روزمرہ گفتگو میں خود کو ہندوستانی ظاہر کرتا ہے، لیکن تہذیبی موقعوں پر خالص مسلمان بن جاتا ہے۔ وہ سڑک کنارے بیٹھ کر کھانے کو تو برا نہیں سمجھتا، لیکن ہوٹل میں کھانے کو شرعی طور پر ناجائز تصور کرتا ہے۔ اس کا یہ رویہ دراصل زوال پذیر معاشرت کا طنزیہ عکس ہے۔
خوجی کا کردار محض مضحکہ خیز نہیں، بلکہ اس کے اندر ایک گہرا نفسیاتی پہلو ہے۔ وہ اپنی وفاداری سے نواب صاحب اور بعد میں میاں آزاد کے ساتھ جڑا رہتا ہے، اور ہر موقع پر اپنی عقل اور تدبیر سے مشکل حالات سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ نیم حکیموں کو بھگاتا ہے، رشوت میں شریک ہوتا ہے، اور اپنی چالاکی سے مسائل حل کرتا ہے۔
مصنف اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خوجی اور میاں آزاد دونوں مل کر اُس دور کی زندگی کی مکمل تصویر بناتے ہیں۔ خوجی میاں آزاد کی بگڑی ہوئی صورت ہے، اور اگر خوجی کو سنوار دیا جائے تو وہ آزاد بن سکتا ہے۔ خوجی اپنی بے ساختگی اور فطرت کے ساتھ خلوص کی وجہ سے ہمیں اپنی ہستی منوا لیتا ہے اور زوال آمادہ جاگیردارانہ تمدن کا ایک اہم علامتی کردار بن جاتا ہے۔
یہ کردار اپنے طنز، تضاد، اور دلچسپ باتوں کے ذریعے زندگی کے بڑے سوالات کو بے معنی بنا دیتا ہے اور ہمیں اپنے ساتھ ہنسی مذاق کے ایک منفرد سفر پر لے جاتا ہے۔
سوالات و جوابات
سوال 1۔ خوجی کا حلیہ بیان کیجیے۔
جواب ۔
خوجی کا حلیہ مصنف نے بہت دلچسپ اور مزاحیہ انداز میں بیان کیا ہے۔ خوجی پستہ قد یعنی چھوٹے قد کا تھا، اس کی گردن موٹی اور پیشانی تنگ تھی۔ چہرے پر شرارت اور خباثت جھلکتی تھی۔ اس کی شکل ایسی تھی کہ کوئی بھی اسے شریف آدمی نہیں سمجھتا تھا، اور لوگ اسے دیکھ کر ہنستے تھے۔ اس کا حلیہ اتنا مضحکہ خیز تھا کہ وہ خود بھی اپنی شرافت پر شک کرنے لگتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر وہ آئینہ مانگتا ہے تاکہ اپنی صورت دیکھ سکے اور تسلی ہو کہ وہ واقعی شریف ہے یا نہیں۔
سرشار نے خوجی کو “مجسم شامت” کہا ہے، یعنی وہ مشکلات میں پھنسنے والا شخص تھا۔ مصنف نے “خباثت” کا لفظ استعمال کیا ہے، لیکن اس کی نیت میں خباثت یا بدخواہی نہیں تھی، بلکہ وہ فطرتاً معصوم اور بے ضرر تھا۔ خوجی کے یہ خصوصیات اس کے کردار کو منفرد اور دلچسپ بناتی ہیں اور قارئین کو تفریح فراہم کرتی ہیں۔
سوال 2۔ خوجی کو مغرور ثابت کرنے کے لیے کیا دلیلیں پیش کی گئی ہیں؟
جواب ۔
خوجی کی شخصیت میں غرور اور خود پسندی کا عنصر نمایاں ہے، اور مصنف نے مختلف مثالوں کے ذریعے اس کے مغرور ہونے کو ثابت کیا ہے۔
اپنی برتری جتانا
خوجی ہمیشہ ہر موقع پر اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ ہر کسی پر تنقید کرتا اور ہر بات کا جواب دینے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ اس کی بات کو اہمیت دیں اور اسے عقل مند سمجھیں۔
خود کو حسین اور خوبصورت سمجھنا
خوجی اپنے آپ کو خوبصورت اور پرکشش سمجھتا تھا۔ جب کوئی عورت اس پر ہنستی تھی، تو وہ یہ سوچتا کہ وہ اس کی تیز نگاہ سے متاثر ہو گئی ہے اور اس پر فریفتہ ہوگئی ہے، حالانکہ حقیقت میں لوگ اس کے مضحکہ خیز حلیے پر ہنستے تھے۔
علمیت کا اظہار
خوجی اپنی علمیت کو بھی بڑی دھوم دھام سے پیش کرتا تھا۔ وہ خود کو ایک بڑا عالم ظاہر کرتا تھا اور طبیبوں کے نسخوں پر بھی اعتراض کرتا تھا، حالانکہ اس کی علمیت بے ترتیب اور غیر معقول تھی۔
قرولی کی یاد
خوجی ہر موقع پر اپنی قرولی (چاقو) کی یاد کرتا تھا اور اس کا ذکر کرتا تھا جیسے وہ کوئی بہت بڑا بہادر ہو۔ حالانکہ حقیقت میں وہ بزدل تھا اور اپنی بزدلی کو چھپانے کی کوشش کرتا تھا۔
اپنی ذات پر فخر
خوجی کا احساس برتری اس کے کردار میں نمایاں تھا۔ وہ اپنا پورا نام “مفتی خواجہ بدیع صاحب علیہ الرحمة والغفران” بتاتا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود کو کسی بڑی شخصیت کے طور پر پیش کرنا چاہتا تھا۔
سوال 3 ۔ خوجی کے جذبہ وفاداری کے بارے میں مصنف کی کیا رائے ہے؟
جواب ۔
مصنف احتشام حسین کے مطابق، خوجی میں وفاداری کا جذبہ انتہائی مضبوط تھا اور یہ اس کی شخصیت کا ایک اہم پہلو تھا۔ پہلے وہ نواب صاحب کے ساتھ وفادار تھا، اور ان کے نمک خوار کی حیثیت سے ان کی محبت کا دم بھرتا تھا۔ جب نواب صاحب کا باز “صف شکن علی شاہ” گم ہو جاتا ہے، تو خوجی اپنے ولی نعمت یعنی نواب صاحب کے لیے وفادار رہتے ہوئے ان کے نقصان کا احساس کرتا ہے اور آزاد پر بھروسہ کرنے سے پہلے ہچکچاتا ہے۔
بعد میں جب خوجی کی وفاداری آزاد کی طرف منتقل ہو جاتی ہے، تو وہ آزاد کے لیے بھی ویسی ہی محبت اور قربانی کے جذبات رکھتا ہے۔ جب آزاد بیمار ہوتا ہے تو خوجی حکیم کو دھمکی دے کر بھگا دیتا ہے اور خود نسخہ لکھتا ہے۔ وہ آزاد کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہوتا ہے، اور آزاد کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط رکھتا ہے۔
خوجی کی وفاداری میں خلوص اور سچائی کا پہلو نمایاں ہے۔ وہ ایک بناوٹی شخص نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی فطرت کے ساتھ مخلص رہتا ہے۔ خوجی کی یہ وفاداری اس کے کردار کو مزید گہرائی فراہم کرتی ہے، اور اسے ایک مخلص دوست کے طور پر پیش کرتی ہے۔
سوال 4 ۔ خوجی اور آزاد کے کرداروں میں کیا مطابقت ہے؟
جواب ۔
.خوجی اورآزاد دونوں سرشار کے کردار ہیں اوردونوں مل کراُس وقت کی زندگی کی مکمل تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان دونوں کے کردار میں مطابقت کے کئی پہلو ہیں
علمیت
آزاد ایک عالم فاضل شخص ہے، اور خوجی بھی اپنی علمیت کا اظہار کرتا ہے۔ اگرچہ آزاد کی علمیت ترتیب یافتہ اور معقول ہے، خوجی کی علمیت بے ترتیب اور غیر معقول ہے۔ دونوں فیضی کی غزلیں پڑھتے ہیں، اور خوجی طبیبوں کے نسخوں پر اعتراض کرتا ہے، لیکن آزاد کی علمیت زیادہ سنجیدہ ہے جبکہ خوجی کی علمیت ظرافت سے بھری ہوئی ہے۔
بہادری اور بزدلی
آزاد بہادر ہے، جبکہ خوجی بزدل ہے۔ تاہم، خوجی اپنی بزدلی کو عمل کے پردوں میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور ہمیشہ اپنی قرولی کو یاد کرتا ہے جیسے وہ کوئی بہادر شخص ہو۔
ظرافت اور بذلہ سنجی
دونوں کرداروں میں ظرافت اور بذلہ سنجی کا عنصر موجود ہے، لیکن آزاد کی ظرافت سنجیدہ اور باوقار ہے، جبکہ خوجی کی ظرافت زیادہ مزاحیہ اور مضحکہ خیز ہے۔
محبت اور عشق
دونوں کردار عاشق مزاج ہیں، لیکن ان کے عشق میں فرق ہے۔ آزاد کا عشق زیادہ سنجیدہ اور مہذب ہے، جبکہ خوجی کا عشق بے ڈھنگا اور مضحکہ خیز ہے۔
خوجی اور آزاد دونوں ایک دوسرے کے لیے لازمی ہیں، کیونکہ ایک دوسرے کے بغیر وہ نامکمل محسوس ہوتے ہیں۔ خوجی آزاد کا ایک بگڑا ہوا خاکہ ہے۔ اگر آزاد کو بگاڑ دیا جائے تو وہ خوجی بن جائے گا، اور اگر خوجی کو سنوار دیا جائے تو وہ آزاد کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ دونوں کردار مل کر اس وقت کے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں، اور ان کا تقابلی مطالعہ ہمیں زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
خورشید الاسلام (1919 تا 2006)
خورشید الاسلام کا تعلق مغربی اتر پردیش کے ایک گاؤں “امری” سے تھا، جہاں وہ پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہلی کے فتح پوری اسکول میں حاصل کی۔ 1945 میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور اسی سال یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لکچرر مقرر ہوئے۔ 1973 میں وہ پروفیسر بنے اور بعد میں صدر شعبہ اردو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1979 میں ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔ اس دوران، وہ لندن کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں بھی بطور استاد کام کرتے رہے۔ انہوں نے علی گڑھ میں وفات پائی۔
خورشید الاسلام بچپن سے ہی ذہین تھے۔ وہ ایک بہترین مقرر، خوبصورت نثر لکھنے والے، اور اچھے شاعر تھے۔ ان کی تین شعری کتابیں “رگِ جاں”، “شارخ نہالِ غم”، اور “جستہ جستہ” (نثری نظمیں) شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی نثری کتابوں میں “غالب: ابتدائی کلام” اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ “تنقیدیں” اہم ہیں۔
ان کی دو انگریزی کتابیں “تھری مغل پوئٹس” اور “غالب: لائف اینڈ لیٹرس” رالف رسل کے ساتھ مل کر لکھی گئیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے قائم اور سودا کے انتخاب بھی مرتب کیے ہیں۔
خورشید الاسلام کی نثر ہلکی پھلکی اور تخلیقی تھی، اور ان کے تنقیدی مضامین میں بھی یہ شگفتگی نمایاں نظر آتی ہے۔ پیش نظر مضمون میں انہوں نے مرزا ہادی رسوا کے مشہور ناول “امراؤ جان ادا” کو ایک نئے زاویے سے دیکھا، جو ان کے منفرد نثری اسلوب کی ایک عمدہ مثال ہے۔
امراؤ جان ادا خلاصہ
خورشید الاسلام اپنے مضمون میں مرزا ہادی رسوا کے مشہور ناول امراؤ جان ادا پر ایک گہری اور نئے زاویے سے نظر ڈالتے ہیں۔ وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس ناول کو عمومی طور پر محض ایک طوائف کی کہانی سمجھ کر پڑھا گیا، جس کے باعث اس کے اہم اور گہرے پہلوؤں کو نظرانداز کر دیا گیا۔
خورشید الاسلام کے مطابق، ناول کا اصل موضوع امراؤ جان کے کردار کے ارد گرد نہیں گھومتا، بلکہ اس کا موضوع اس دور کے سماجی، معاشرتی اور ثقافتی حالات سے جڑا ہوا ہے۔ ناول کی خوبصورتی تب سامنے آتی ہے جب ہم اس کے موضوع کو سمجھیں اور اس کے کرداروں اور واقعات کے پیچھے پوشیدہ امکانات کو دیکھیں۔
انہوں نے ناول کے آغاز سے چند اقتباسات پیش کیے ہیں جن میں امراؤ جان کا تعارف ایک طوائف کے طور پر کرایا جاتا ہے، لیکن رسوا اس کردار کو ایک عام طوائف سے بڑھ کر پیش کرتے ہیں۔ وہ ہمیں امراؤ جان کی ابتدائی زندگی، اس کے خاندان، اور اس پر گزرنے والے حالات سے واقف کراتے ہیں۔
امراؤ جان کا بچپن ایک شریف گھرانے میں گزرا، لیکن بدقسمتی سے دلاور خان کی دشمنی نے اسے ایک ایسی دنیا میں دھکیل دیا جہاں اس کی معصومیت چھن گئی۔ ناول میں رسوا ہمیں نہ صرف امراؤ جان کی زندگی کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں، بلکہ اس کے اندرونی جذبات اور احساسات کو بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔
خورشید الاسلام کا یہ مضمون اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ “امراؤ جان ادا“ صرف ایک طوائف کی کہانی نہیں، بلکہ اس میں اس وقت کے سماجی اور ثقافتی مسائل، طبقاتی تفریق، اور انسانی جذبات کی پیچیدگیاں پوشیدہ ہیں۔
سوالات و جوابات
سوال 1 ۔ امراؤ جان ادا کے کردار پر روشنی ڈالیے۔
جواب ۔
امراؤ جان کا کردار مرزا ہادی رسوا کے ناول “امراؤ جان ادا” میں ایک پیچیدہ اور دلچسپ کردار ہے۔ خورشید الاسلام نے اس کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ امراؤ جان کو صرف ایک طوائف کی کہانی سمجھنا درست نہیں۔ وہ ایک مرکزی کردار ضرور ہے، لیکن اس کا کردار ناول کی مکمل کہانی نہیں۔
امراؤ جان کی ابتدائی زندگی ایک شریف اور متوسط گھرانے میں گزری۔ فیض آباد میں اس کا ایک پختہ گھر تھا، جہاں وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کا والد بہو بیگم صاحب کے مقبرے پر نوکری کرتا تھا، اور وہ اپنی زندگی میں خوشحال تھی۔ تاہم، دلاور خان، جو اس کے والد کا دشمن تھا، نے اسے اغوا کر لیا اور ایک ایسی دنیا میں دھکیل دیا جہاں اس کی معصومیت ختم ہو گئی اور وہ ایک طوائف بن گئی۔
امراؤ جان میں شاعری اور ادب کا ذوق بھی موجود ہے، وہ خود بھی شعر کہتی ہے اور سخن فہم ہے۔ طوائف بننے کے بعد، اس کی زندگی بدل گئی لیکن اندر سے وہ ایک حساس، محبت کرنے والی اور ذہنی طور پر مضبوط عورت ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت کی نمائندگی کرتی ہے جسے حالات نے ایک مشکل زندگی میں ڈال دیا، لیکن اس نے اپنی زندگی کے تجربات سے کچھ سیکھا اور ایک مضبوط کردار کے طور پر ابھری۔ اس کا کردار ناصرف طوائف کی زندگی کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس کی ذہانت اور فطرت سے محبت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
سوال 2 ۔ خورشید الاسلام نے ناول نگار کی کن ذمے داریوں کو بیان کیا ہے؟
جواب ۔
خورشید الاسلام کے مطابق، ایک ناول نگار کا بنیادی فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ناول کے موضوع کو مکمل طور پر سمجھے اور اس کی گہرائی میں اترے۔ ناول کا موضوع صرف کہانی یا کردار نہیں ہوتا بلکہ وہ کچھ مخصوص امکانات اور تقاضے رکھتا ہے، جنہیں سمجھنا اور ان کو بہتر طریقے سے پیش کرنا ناول نگار کی اہم ذمے داری ہوتی ہے۔
خورشید الاسلام کا کہنا ہے کہ ہر موضوع کے اندر قدرتی طور پر کچھ امکانات چھپے ہوتے ہیں جو کرداروں کی تشکیل اور کہانی کی پیش رفت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ناول نگار کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ان امکانات کو بخوبی بروئے کار لائے اور کہانی کو فطری انداز میں آگے بڑھائے۔ کرداروں کی زندگی میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں، ان کے پیچھے بھی فطرت کی کچھ لہریں کام کر رہی ہوتی ہیں، اور ناول نگار کو یہ دکھانا ہوتا ہے کہ کس طرح وہ لہریں کرداروں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
خورشید الاسلام مزید یہ کہتے ہیں کہ جب ہم ناول کے موضوع کو سمجھ لیتے ہیں، تو ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ مصنف نے اپنے فن کے تقاضوں کو کس طرح پورا کیا ہے۔ اس کسوٹی پر ہم کرداروں کی ترقی، واقعات کی ترتیب، اور تصادم (conflict) کو پرکھ سکتے ہیں۔ ناول نگار کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنے ناول کے موضوع کے ساتھ انصاف کرے اور اسے بہترین انداز میں پیش کرے۔
سوال 3 ۔ خورشید الاسلام نے امراؤ جان ادا کا ایک اقتباس پیش کر کے یہ وضاحت کی ہے کہ ہم اسے پڑھ کر امراؤ جان کے آغاز اور انجام دونوں سے واقف ہو جاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب ۔
خورشید الاسلام نے امراؤ جان ادا کا جو اقتباس پیش کیا ہے، اس میں امراؤ جان کی زندگی کے ابتدائی اور آخری حصے کو بیان کیا گیا ہے۔ اس اقتباس سے ہمیں اس کے ماضی اور حال دونوں کی جھلک ملتی ہے۔
ابتدا میں، امراؤ جان کی زندگی ایک معصوم بچی کے طور پر دکھائی گئی ہے جو فیض آباد کے ایک شریف گھرانے میں رہتی تھی۔ اس کا والد ایک مقبرے پر نوکری کرتا تھا اور وہ اپنے والدین کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہی تھی۔ لیکن دلاور خان کی دشمنی کی وجہ سے اس کی زندگی بدل گئی اور اسے اغوا کر کے ایک ایسی دنیا میں پھینک دیا گیا جہاں اس کی معصومیت ختم ہو گئی اور وہ ایک طوائف بن گئی۔
امراؤ جان کا انجام یہ ہے کہ وہ ایک طوائف کی حیثیت سے زندگی گزار رہی ہے، لیکن اس کے اندر اب بھی ادب اور شاعری کا ذوق باقی ہے۔ وہ اپنے حالات سے نبرد آزما ہوتی ہے اور زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتی ہے۔ خورشید الاسلام کے مطابق، اس اقتباس سے امراؤ جان کے آغاز اور انجام دونوں کا بخوبی پتا چلتا ہے، اور ہمیں اس کی زندگی کی پوری تصویر ملتی ہے۔