Gulistan e Adab Chapter 3 Mukhtasar Afsana Lamhe مختصر افسانہ لمحے Solutions

مختصر افسانہ جدید دور کی ایک اہم نثری صنف ہے۔ اس کے ذریعے کسی شخص کی زندگی کے ایک پہلو یا کسی واقعے کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والے کے دل و دماغ پر اس کا گہرا اثر پڑے۔

افسانے کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں۔ ایک مشہور مغربی ادیب کا کہنا ہے کہ افسانہ ایسی نثری کہانی ہے جو ایک ہی نشست میں پڑھی جا سکے۔ افسانہ عام کہانی نہیں ہوتا بلکہ ایک فنی تخلیق ہوتا ہے جس میں فنکار کے ارادے اور حکمت کا بھی دخل ہوتا ہے۔ کسی خاص واقعے، صورت حال یا کردار کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ واقعات کی ترتیب پڑھنے والے کو متاثر کر سکے۔

افسانے کے ماہرین کی تعریفوں سے واضح ہوتا ہے کہ افسانہ ایک بیانیہ تخلیقی تحریر ہے۔ افسانے میں کسی ایک کردار یا کرداروں کے ایک گروہ کی ذہنی کشمکش یا نفسیاتی پہلوؤں کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ افسانے میں واقعات کی تفصیل، کرداروں کی گفتگو اور ماحول کی پیشکش بہت منظم ہوتی ہے۔

ہر افسانے کے لیے پلاٹ (واقعات کی ترتیب)، کردار اور زمان و مکاں (وقت اور جگہ) لازمی اجزا ہیں۔ اسی بنیاد پر افسانے کی اقسام بیان کی گئی ہیں، جیسے پلاٹ پر مبنی افسانہ، کردار پر مبنی افسانہ، یا معاشرتی افسانہ۔

افسانے کی کامیابی کے لیے کچھ نقاد افسانہ نگار کے نقطہ نظر کو اہم سمجھتے ہیں۔ افسانہ نگار کے اسلوب میں رمز، کنایہ اور تاثیر کو بھی ضروری مانا جاتا ہے۔

اردو میں مختصر افسانے کا آغاز بیسویں صدی میں ہوا۔ سب سے پہلے پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم کے افسانے سامنے آئے۔ ان کے بعد کئی افسانہ نگار ابھرے، جیسے احمد اکبر آبادی، سلطان حیدر جوش، نیاز فتح پوری، اور حجاب امتیاز علی وغیرہ۔

1936 میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ اس سے کچھ سال پہلے “انگارے” نامی باغیانہ کہانیوں کا مجموعہ شائع ہو چکا تھا۔ ان کہانیوں نے موضوع اور فن دونوں اعتبار سے نئے تجربات کی بنیاد رکھی۔ اس سے بہت پہلے پریم چند (1880-1936) نے اردو افسانہ نگاری کو عروج پر پہنچا دیا تھا۔ پریم چند نے حقیقت نگاری اور نفسیاتی کردار نگاری کے ساتھ مشرقی یوپی کی دیہاتی زندگی اور قومی مسائل کو بیان کیا۔ اس کے بعد سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، غلام عباس، حیات اللہ انصاری، احمد ندیم قاسمی، اور بلونت سنگھ جیسے افسانہ نگاروں نے اردو افسانے کو بہت ترقی دی۔

آزادی کے بعد ابھرنے والے افسانہ نگاروں میں قرۃ العین حیدر نمایاں ہیں۔ 1960 کے لگ بھگ اردو میں علامتی افسانے کا آغاز ہوا۔ اس طرز کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں انتظار حسین، سریندر پرکاش، انور سجاد، بلراج مین را، نیر مسعود، اور خالدہ حسین شامل ہیں۔ حقیقت نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے والوں میں حیات اللہ انصاری، خواجہ احمد عباس، احمد ندیم قاسمی، شوکت صدیقی، اشفاق احمد، رام لعل، اور جوگندر پال قابل ذکر ہیں۔ نئی نسل کے کئی افسانہ نگاروں نے براہ راست بیان کے بجائے علامتی انداز کو ترجیح دی ہے۔

بلونت سنگھ ضلع گجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں ہوئی۔ انہوں نے میٹرک دہرہ دون کے کیمبرج اسکول سے کیا۔ کرسچین کالج الہ آباد سے انٹر اور الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد وہ روزگار کی تلاش میں لاہور اور کراچی گئے۔ دہلی میں انہوں نے رسالہ “آج کل” کے نائب مدیر کے طور پر بھی کام کیا۔ اس کے بعد وہ اپنی وفات تک الہ آباد میں رہے۔ انہوں نے الہ آباد سے اردو میں رسالہ “فسانہ” اور ہندی میں “اردو ساہتیہ” جاری کیا، جس میں اردو تخلیقات ناگری رسم الخط میں شائع ہوتی تھیں۔ 

بلونت سنگھ نے کئی طویل اور مختصر ناول لکھے۔ “رات چور اور چاند” اور “چک پیراں کا جتا” پہلے اردو میں شائع ہوئے۔ ان کے ناگری رسم الخط میں شائع ہونے والے ناولوں اور افسانوی مجموعوں کی تعداد تقریباً تیس ہے۔ 

ان کا پہلا افسانہ “سزا” 1937 میں دہلی کے رسالے “ساقی” میں شائع ہوا۔ “جگا”، “تار و پود”، “ہندوستان ہمارا”، “پہلا پتھر”، اور “سنہرا دیس” ان کے اہم افسانوی مجموعے ہیں۔ 

بلونت سنگھ کے ابتدائی افسانوں میں پنجاب کی دیہاتی زندگی کا بہت واضح اور زندہ نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ بلونت سنگھ صرف پنجاب کے دیہات اور سکھ کرداروں کی زندگی کو بیان کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے افسانوں کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔

افسانہ “لمحے” ایک بے روزگار اور اداس نوجوان کی کہانی ہے جو اپنی بے مقصد زندگی اور تنہائی سے نجات کے لیے ایک دن صبح کے وقت گھر سے نکلتا ہے۔ وہ بس اسٹینڈ پر پہنچ کر ایک خالی بس میں سوار ہوتا ہے۔ سردی کا موسم ہے، اور بس میں چند ہی مسافر موجود ہیں۔ نوجوان کا دل سفر کے دوران کسی دلکش شخصیت سے گفتگو کرنے کا خواہش مند ہے، لیکن وہ عورتوں اور لڑکیوں کو دیکھ کر مایوس ہوتا ہے کہ کوئی دلچسپی کی شخصیت موجود نہیں۔

اسی دوران، وہ ایک خاتون کو دیکھتا ہے جو اپنے دو بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوتی ہے۔ ابتدا میں وہ اسے محض ایک عام عورت سمجھتا ہے، لیکن جب خاتون رخ بدلتی ہےتواس کی خوبصورتی نوجوان کے دل پرگہرا اثرڈالتی ہے۔ نوجوان خاتون کے قریب والی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے اورگفتگو شروع کرنے کے بہانے ڈھونڈنےلگتا ہے۔

اس دوران، خاتون کے ننھے بچے سے بات چیت کا آغاز ہوتا ہے۔ نوجوان بچے کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے اور اسی بہانے خاتون سے بات چیت شروع کرتا ہے۔ بات چیت کے دوران نوجوان کو معلوم ہوتا ہے کہ خاتون پڑھی لکھی اور مہذب ہے۔ وہ خاتون کی خوبصورتی اور شائستگی سے متاثر ہوتا ہے اور اس کے دل میں اس کے لیے نرم جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں۔

گفتگو کے دوران نوجوان کو پتا چلتا ہے کہ خاتون مسلمان ہے اور حالیہ فسادات کے دوران اس کے خاندان کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس کی ایک دکان لوٹ لی گئی، اور ایک حملے میں خاتون خود بھی زخمی ہو گئی، جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ میں نقص پیدا ہو گیا۔

یہ انکشاف نوجوان کے دل کو گہرے صدمے میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وہ خاتون کے ساتھ ہمدردی محسوس کرتا ہے اور اس کی شخصیت کے وقار اور دلیری کو سراہتا ہے۔ بس جب منزل پر پہنچتی ہے تو نوجوان خاتون کی مدد کی پیشکش کرتا ہے، لیکن خاتون کے ملازم کے آ جانے کی وجہ سے یہ ضرورت باقی نہیں رہتی۔

کہانی کے اختتام پر، نوجوان اس خاتون سے الگ ہو جاتا ہے، لیکن ان چند لمحوں کی ملاقات اس کے دل پر گہرا اثر چھوڑ جاتی ہے۔ وہ خاتون کی خوبصورتی، شائستگی، اور صبر کی داد دیتا ہے اور دل ہی دل میں اس لمحاتی رشتے کا شکر گزار رہتا ہے۔

یہ افسانہ انسانی جذبات، لمحاتی ملاقاتوں کے اثرات، اور فسادات کے دردناک نتائج کو بڑے دلکش اور حساس انداز میں پیش کرتا ہے۔

عنوان “لمحےکا انتخاب افسانے کے مرکزی موضوع کی عکاسی کرتا ہے، یعنی زندگی کے وہ خاص لمحات جو ہمیں یاد رہ جاتے ہیں، چاہے وہ خوشی کے ہوں یا غم کے۔

یہ لمحات ہمیں زندگی کی خوبصورتی کا احساس دلاتے ہیں۔ جیسے افسانے میں افسانہ نگار کے اور خاتون کے درمیان بات چیت، جو ایک طرح کی قیمتی یاد بن جاتی ہے۔ یہ بات چیت نہ صرف ان کی موجودہ زندگی کے تناظر میں اہم ہے، بلکہ ان کی مستقبل کی یادوں میں بھی ایک خاص مقام رکھتی ہے۔

افسانے میں، افسانہ نگار کی مایوسی اور اس کے دل کی گہرائیوں میں موجود احساسات بھی ہیں۔ یہ لمحات کبھی کبھار ہمیں ماضی کی تلخ یادوں کی طرف لے جاتے ہیں، جیسے کہ کبھی محبت کا نقصان یا زندگی کی ناکامیاں۔ یہ احساسات ہمارے دل و دماغ پر بوجھ ڈال دیتے ہیں اور ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم نے زندگی میں کیا کھویا ہے۔

“لمحے”کا مطلب یہ بھی ہے کہ زندگی میں بعض اوقات ہمیں حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ حقیقتیں بعض اوقات کڑوی ہوتی ہیں، مگر ہمیں ان کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ یہ عنوان ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر لمحہ، چاہے وہ اچھا ہو یا برا، ہماری زندگی کا حصہ ہے۔

افسانے میں مختلف مسافروں کی تفصیلات اور ان کے نفسیاتی پہلو کرداروں کی گہرائی اور پیچیدگی کو واضح کرتی ہیں۔

افسانے میں لڑکیوں کی خوشگوار گفتگو افسانہ نگار کی توجہ حاصل کرتی ہے۔ ان کی معصومیت اور خوشی زندگی کے مثبت پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ ان کا باہمی تعلق اور ہنسی مذاق افسانہ نگار کو مایوسی کی حالت سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

ایک خاص عورت کی طرف افسانہ نگار کا جھکاؤ اس کی خوبصورتی اور اس کی موجودگی کی طاقت کی وجہ سے ہے۔ وہ عورت ایک طرح کی طاقت اور سکون کی علامت ہے، جو افسانہ نگار کے دل میں ایک نئی روشنی پیدا کرتی ہے۔ یہ کردار انسانی تعلقات کی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے، کہ کس طرح ایک شخص کی موجودگی دوسرے کی زندگی کو تبدیل کر سکتی ہے۔

بچوں کی معصومیت افسانہ نگار کو اپنی بچپن کی یادوں کی طرف لے جاتی ہے۔ وہ اس وقت کی سادگی اور خوشیوں کی یاد دلاتے ہیں جب زندگی میں مشکلات کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ یہ بچے زندگی کی خوبصورتی اور اس کی سادگی کی علامت ہیں، جو افسانہ نگار کو اپنے ماضی میں کھینچ لیتے ہیں۔

افسانہ نگار اس منظر میں اپنے اندر کی مایوسی اور اکیلے پن کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ ان لوگوں کے درمیان وہ بھی اکیلا ہے اور سفر کے دوران اس کے لیے کوئی دل چسپ گفتگو نہیں ہوگی۔ یہ تفصیلات بس کے اندر ایک خاص سکوت اور خاموشی کو ظاہر کرتی ہیں، جہاں مسافر آپس میں دور دور بیٹھے ہیں، اور افسانہ نگار کا دل بھی ان کی خاموشی میں گھرا ہوا ہے۔

مرکزی خیال انسانی روابط، محبت، اور تنہائی کے تجربات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ خیال ایک گہرے پیغام کو پیش کرتا ہے جو زندگی کی حقیقتوں کو اجاگر کرتا ہے۔

افسانے میں دکھایا گیا ہے کہ انسانی تعلقات عموماً عارضی ہوتے ہیں، مگر ان کی گہرائی اور اثرات مستقل ہوتے ہیں۔ افسانہ نگار اور خاتون کے درمیان بات چیت ایک عارضی لمحہ ہو سکتی ہے، مگر اس کا اثر ان کی زندگیوں پر گہرا ہوتا ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ محبت کی شدت کبھی ختم نہیں ہوتی، چاہے لمحات عارضی ہوں۔

افسانہ نگار کی مایوسی معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتی ہے۔ بے روزگاری، معاشرتی تنہائی، اور عدم استحکام جیسے مسائل کرداروں کی زندگیوں پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ یہ مسائل انسانی رشتوں کی خوبصورتی کو متاثر کرتے ہیں اور ان کے درمیان محبت کی شدت کو کم کر دیتے ہیں۔

افسانہ نگار کے اندر کی مایوسی اس کی زندگی کی مشکلات کا عکاس ہے۔ وہ خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے، مگر خاتون کے ساتھ ہونے والی بات چیت اس کے دل میں امید کی ایک کرن بکھیرتی ہے۔ یہ بات ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے دوسروں کی مدد کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔

افسانہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی کے چھوٹے لمحے، چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، خوشی کی تلاش میں ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔ یہ لمحے ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ ہمیں اپنے گرد موجود لوگوں کی قدر کرنی چاہیے اور ان کے ساتھ خوشی بھری لمحات گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

افسانہ: لمحے
مصنف: بلونت سنگھ

افسانہ “لمحے” ایک نوجوان کی داستان ہے جو بے روزگاری، تنہائی اور زندگی کی بے رونقی کے باعث ایک دن کناٹ پلیس کی بس میں سوار ہوتا ہے۔ سفر کے دوران اس کی ملاقات ایک حسین مگر پریشان حال عورت سے ہوتی ہے جو اپنے دو بچوں کے ساتھ سفر کر رہی ہوتی ہے۔ عورت کی حسن اور معصومیت اسے متاثر کرتی ہے، اور ان کے درمیان مختصر مگر دلنشین گفتگو ہوتی ہے۔

عورت کے بچے کے کانوں کے پیچھے داد کی بیماری پر گفتگو شروع ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ عورت فسادات کے دوران اپنے خاندان کے مالی نقصان اور اپنی ٹانگ پر چوٹ کے سبب زخمی ہوئی تھی، لیکن اس کے باوجود وہ شائستہ اور باوقار انداز میں بات کرتی ہے۔

یہ مختصر ملاقات نوجوان کے لیے جذباتی لمحہ بن جاتی ہے، جہاں عورت کی شائستگی، معصومیت اور دکھ اس کے دل کو چھو لیتے ہیں۔ رخصت کے وقت، دونوں ایک دوسرے کی جانب شکر گزار نظروں سے دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے الگ ہو جاتے ہیں۔

مرکزی خیال
یہ افسانہ انسانی جذبات، ہمدردی اور مختصر ملاقاتوں کی گہری تاثیر کو بیان کرتا ہے۔ بلونت سنگھ نے محبت، کشش اور انسانی المیے کو نہایت سادگی اور دلکشی سے پیش کیا ہے۔

قرۃ العین حیدر 1927 میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں، جہاں ان کے والد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں رجسٹرار تھے۔ ان کا آبائی وطن نہور، ضلع بجنور ہے۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اور والدہ نذر سجاد حیدر بھی اپنے دور کے معروف افسانہ نگار تھے۔

قرۃ العین حیدر نے میٹرک اور بی اے کی تعلیم بنارس اور دہرہ دون سے حاصل کی۔ 1947 میں ازابیلا تھو بورن کالج، لکھنو یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا۔ مزید تعلیم کے لیے وہ لندن گئیں، جہاں انہوں نے مشہور انگریزی اخبار ٹیلی گراف کے شعبہ ادارت اور بی بی سی (ریڈیو) میں کام کیا۔ وطن واپس آنے کے بعد، وہ کئی سال ممبئی میں رہیں اور انگریزی رسائل “امپرنٹ” اور “السٹریٹیڈ ویکلی” میں مدیر کے طور پر کام کیا۔ بعد میں، انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں وزٹنگ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

قرۃ العین حیدر کا پہلا افسانہ 1944 میں شائع ہوا۔ ان کا پہلا افسانوں کا مجموعہ “ستاروں کے آگے” 1947 میں آیا، اور پہلا ناول “میرے بھی صنم خانے” 1949 میں شائع ہوا۔ ان کی تقریباً تین کتابیں اردو اور انگریزی میں شائع ہو چکی ہیں، جن میں افسانوں کے مجموعے، ناول، ناولٹ، رپورتاژ، سفر نامے، ادبی مضامین، اور عالمی ادب کے ترجمے شامل ہیں۔

ان کے مشہور ناولوں میں “آگ کا دریا”، “آخر شب کے ہم سفر”، “کار جہاں دراز ہے”، اور “چاندنی بیگم” شامل ہیں۔ قرۃ العین حیدر کی تحریروں کی زبان بہت سادہ اور دلکش ہے، اور ان کے کام میں ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت کی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، گیان پیٹھ ایوارڈ، اور پدم بھوشن جیسے اعزازات دیے جا چکے ہیں۔

افسانہ “فوٹو گرافر” قرة العین حیدر کے قلم سے لکھا گیا ہے اور یہ ایک گیسٹ ہاؤس کے ماحول میں ایک فوٹو گرافر کی کہانی بیان کرتا ہے۔ کہانی کا آغاز ایک دلکش منظر سے ہوتا ہے جہاں بہار کے پھولوں سے بھرا ہوا گیسٹ ہاؤس ایک سرسبز ٹیلے کی چوٹی پر واقع ہے۔ اس کے نیچے ایک خوبصورت پہاڑی جھیل موجود ہے، جس کی خوبصورتی میں اضافہ ایک بل کھاتی سڑک کرتی ہے جو جھیل کے کنارے گیسٹ ہاؤس تک جاتی ہے۔

فوٹو گرافر، جس کے چہرے پر والرس کی سی مونچھیں ہیں، گیسٹ ہاؤس کے پھاٹک کے قریب ایک ٹین کی کرسی پر بیٹھا رہتا ہے۔ وہ اس قصبے کا مستقل باشندہ ہے اور اپنی جھیل اور پہاڑی کی خوبصورتی کو چھوڑ کر کہیں جانے کا ارادہ نہیں کرتا۔ گیسٹ ہاؤس میں مہمانوں کی آؤ بھگت کے ساتھ ساتھ، اس نے زندگی کے بدلتے ہوئے رنگوں کو بھی دیکھا ہے۔ ماضی میں یہاں عیش و عشرت کے لیے آئے جانے والے برطانوی اور امریکی سیاحوں کے بعد اب صرف اکا دکا سیاح آتے ہیں، جیسے کہ ہنیمون منانے والے جوڑے یا فنکار جو سکون کی تلاش میں ہیں۔

کہانی میں ایک نوجوان جوڑے کی آمد ہوتی ہے جو گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرتے ہیں۔ وہ دونوں مسرور اور سنجیدہ ہیں، مگر ان کی جوانی میں خاموشی اور سکون کی ایک الگ کہانی پنہاں ہے۔ وہ ایک کمرے میں داخل ہوتے ہیں، اور جیسے ہی لڑکی اپنے سفر کے کپڑے بدلتی ہے، نوجوان آتش دان کے قریب بیٹھ کر کچھ لکھنے لگتا ہے۔ باہر کی دنیا میں جھیل کی خوبصورتی کی جانب ان کا دھیان جاتا ہے، لیکن وہ دونوں اپنے دل کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔

فوٹو گرافر کی آنکھیں ان دونوں کی خاموشی کو دیکھ رہی ہیں، مگر وہ بولتا نہیں۔ کہانی میں ایک یورپی سیاح کا بھی ذکر ہے، جو خاموشی سے خط لکھ رہا ہے اور جوان جوڑے کے رومانٹک ماحول کا مشاہدہ کر رہا ہے۔

جب لڑکی کو زکام ہوتا ہے تو نوجوان اس کی فکر کرتا ہے اور دوا لینے آتا ہے، جو کہ ایک خوبصورت لمحہ ہے۔ وہ دونوں کھانے کے بعد پھر سے سٹنگ روم میں آتے ہیں، جہاں نوجوان لڑکی کو کچھ پڑھ کر سنا رہا ہوتا ہے۔ رات کا گہرا ہونا اور پھر لڑکی کا سونے کا فیصلہ، کہانی کی روزمرہ کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔

اگلی صبح، لڑکی جب ناشتے کے لیے آتی ہے تو نوجوان ایک خوبصورت گلدستہ لاتا ہے، جو کہ مالی نے اسے بھجوایا ہے۔ اس لمحے میں دونوں کی مسکراہٹیں اور خوشیوں کی عکاسی ہوتی ہے، جبکہ وہ اپنی ناموری کو بھول کر یہاں کی خاموشی اور سکون میں گم ہیں۔

کہانی کا ایک اور اہم موڑ تب آتا ہے جب لڑکی اور نوجوان سیر پر نکلتے ہیں اور فوٹو گرافر انہیں اپنی تصویر لینے کے لیے بلاتا ہے۔ لڑکی وقت کی کمی کی وجہ سے انکار کرتی ہے، مگر فوٹو گرافر ان کے خوشی کے لمحے کو قید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

خاتون کی آمد کے ساتھ کہانی میں نیا موڑ آتا ہے۔ وہ ایک ادھیڑ عمر کی خاتون ہوتی ہے، جو ماضی کے یادگار لمحوں کی تلاش میں ہے۔ جب وہ ایک تصویر پاتی ہے جس میں وہ اور نوجوان کھڑے ہیں، تو اس کے چہرے پر وقت کی گزرگاہ کی گہرائی نظر آتی ہے۔ خاتون کے لفظوں میں جھنجھناہٹ اور ناپسندیدگی کی جھلک بھی ملتی ہے، کیونکہ اس کا ماضی اس کے ساتھ نہیں رہا۔

کہانی کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ زندگی کی تلخیوں میں انسانوں کا گزرنا ایک حقیقت ہے۔ فوٹو گرافر، جو ہمیشہ خاموشی سے مشاہدہ کرتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ٹین کی کرسی پر بیٹھا رہتا ہے اور زندگی کے تماشے کو دیکھتا رہتا ہے۔ یہ افسانہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی کے لمحے عارضی ہوتے ہیں، مگر کچھ یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہیں، چاہے ہم کتنے بھی مصروف ہوں۔

 کہانی کا مرکزی خیال انسان کی زندگی کی عارضیت اور وقت کے گزرنے کی حقیقت ہے۔

محبت اور سکون کہانی میں نوجوان جوڑے کی محبت اور سکون کی تلاش کا موضوع بھی نمایاں ہے، جو کہ ان کی خاموش مسکراہٹوں میں چھپا ہوا ہے۔

یادیں خاتون کا ماضی، اس کی جوانی اور یادوں کا ایک اہم پہلو ہے جو افسانے میں عکاسی کرتا ہے کہ کیسے وقت کے گزرنے سے انسان کی زندگی میں تبدیلی آتی ہے۔

مشاہدہ فوٹو گرافر کی خاموشی اور اس کا مشاہدہ کہانی کے تناظر کو گہرا بناتا ہے، جو قاری کو زندگی کے مختلف رنگوں کی گہرائی میں لے جاتا ہے۔

یہ افسانہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو عمیق طور پر بیان کرتا ہے، اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ زندگی میں خوشی، محبت، اور فنا کی حقیقت کا سامنا کیسے کیا جائے۔

گم نام پہاڑی کے گیسٹ ہاؤس میں سیاح مختلف وجوہات کی بنا پر آتے تھے۔ اس مقام کی خوبصورتی، پہاڑی جھیل کی سحر انگیزی، اور ماحول کی خاموشی ان کے لیے ایک دلکش کشش رکھتے تھے۔ یہ جگہ ماہ عسل منانے والے جوڑوں، سفر کی تلاش میں نکلے افراد، اور تنہائی پسند لوگوں کے لیے ایک پناہ گاہ تھی۔ سیاح یہاں آ کر سکون، محبت، اور زندگی کے ہنگاموں سے دور رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، گیسٹ ہاؤس کی خاموشی اور فطرت کے قریب ہونے کی وجہ سے، یہ جگہ ایسے لوگوں کے لیے مثالی تھی جو اپنی روزمرہ کی زندگی سے دور نکلنا چاہتے تھے۔

یہاں کی خوبصورتی، پہاڑی جھیل اور ہرے بھرے ٹیلے کی چوٹی پر واقع گیسٹ ہاؤس کی دلکشی سیاحوں کو متوجہ کرتی ہے۔ لوگ اپنی زندگی کی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر یہاں آتے ہیں تاکہ سکون اور خاموشی کا لطف اٹھا سکیں۔

یہ جگہ خاص طور پر مہ ہنیمون پر آنے والے جوڑوں کے لیے ایک مثالی مقام ہے۔ افسانے میں ذکر ہے کہ جب کوئی مہمان یہاں آتا ہے تو فوٹو گرافر بڑی امید سے ان کا انتظار کرتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس جگہ کو رومانوی تجربات کے لیے بھی پسند کیا جاتا ہے۔

گیسٹ ہاؤس کے قریب تاریخ اور ثقافت کے جھلکے ملتے ہیں، جیسے برطانوی دور کے پلانٹرز، یا آزادی کے بعد آنے والے سیاح۔ یہ جگہ کئی لوگوں کی یادوں کا حصہ بن چکی ہے، جس کی وجہ سے یہاں آنے والوں کا ہجوم بڑھتا ہے۔

فوٹو گرافر افسانے کا ایک اہم کردار ہے، جو اس گیسٹ ہاؤس کی زندگی اور اس میں آنے والے مسافروں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کی شخصیت اس کی مسکینی اور خاموشی سے ابھرتی ہے، جو اس کے کام کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ وہ ایک طرف تو گیسٹ ہاؤس میں آنے والوں کی خوشیوں کا عکاس ہے، مگر دوسری طرف، اس کی زندگی میں ایک اکیلا پن اور مایوسی بھی ہے۔

فوٹو گرافر کا کردار ایک مشاہدہ کرنے والے کی حیثیت سے ہوتا ہے جو سیاحوں کی زندگی کے مختلف رنگوں کو دیکھتا ہے۔ وہ مہمانوں کی خوشیوں اور تنہائیوں کا عکاس ہے، اور ان کی کیمرے کی آنکھ کے ذریعے ہم کو زندگی کی تلخ حقیقتوں سے روشناس کراتا ہے۔

فوٹو گرافر کا کردار اس بات کی علامت ہے کہ انسانوں کی زندگی میں خوشیاں اور غم دونوں ہوتے ہیں۔ وہ جب اپنے کیمرے کے ذریعے لوگوں کی تصویریں کھینچتا ہے تو ان لمحوں کی خوشیوں کو قید کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس کی اپنی تنہائی کا بھی احساس ہوتا ہے۔

وہ گیسٹ ہاؤس میں آنے والے مختلف مہمانوں کی کہانیوں کا گواہ ہے، جو مختلف دوروں میں آتے ہیں۔ برطانوی دور سے لے کر آزادی کے بعد تک، فوٹو گرافر نے زندگی کی بدلتی ہوئی صورت حال کو اپنے کیمرے میں قید کیا ہے، اور یہ اس کے کردار کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس افسانے میں زندگی کی کئی حقیقی حقیقتوں کو بیان کیا گیا ہے، جن میں اہم مندرجہ ذیل ہیں

افسانے کے ذریعے یہ پیغام ملتا ہے کہ زندگی ایک عارضی صورت حال ہے۔ فوٹو گرافر کی کہانی میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ وقت کے گزرنے کے ساتھ لوگوں کے چہرے بدلتے ہوئے دیکھتا ہے، مگر خود ہمیشہ وہیں موجود رہتا ہے، جو اس کی اپنی تنہائی اور زندگی کی عارضیت کی عکاسی کرتا ہے۔

افسانے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ انسان کی پہچان اور اس کی حیثیت کبھی کبھی ماحول سے متاثر ہوتی ہے۔ گیسٹ ہاؤس میں آنے والے مشہور شخصیات اپنے ناموں کی گم نامی میں سکون ڈھونڈ رہے ہیں، مگر وہ ہمیشہ کے لیے گم نامی میں رہنے والے ہیں، جیسا کہ فوٹو گرافر کی کہانی سے ظاہر ہوتا ہے۔

افسانے میں یہ دکھایا گیا ہے کہ لوگ محبت اور سکون کی تلاش میں ہیں، لیکن حقیقی زندگی میں وہ بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ پیغام اس وقت مزید واضح ہوتا ہے جب لڑکی اور نوجوان اپنے مسکراہٹوں کے ساتھ گیسٹ ہاؤس میں آتے ہیں، مگر ان کی زندگی کی حقیقتیں انہیں ہمیشہ پریشان رکھتی ہیں۔

اس افسانے میں زندگی کی تلخی اور عارضیت کی حقیقت کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ کرداروں کے مابین تعلقات، ان کی خوشیاں، اور ان کی جدائی سب زندگی کی عارضی نوعیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ فوٹو گرافر کی خاموشی، اور اس کی نظروں کے سامنے گزرنے والے لمحے، زندگی کی فطرت کی عکاسی کرتے ہیں۔

قرة العین حیدر کی افسانہ نگاری میں کئی ایسی خصوصیات ہیں جو ان کی تحریروں کو منفرد بناتی ہیں

ان کی تحریریں ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں مختلف دوروں کی تبدیلیوں اور ان کے اثرات کو بڑی مہارت سے پیش کرتی ہیں۔

ان کی زبان بہت رواں اور سادہ ہے، جو کہ عام لوگوں کو سمجھنے میں آسانی فراہم کرتی ہے۔ وہ مشکل موضوعات کو بھی ایک سادہ انداز میں بیان کرتی ہیں، جس سے قاری کو ان کے کام میں دلچسپی رہتی ہے۔

قرة العین حیدر کے افسانے مکالماتی انداز میں ہوتے ہیں، جہاں کرداروں کے درمیان کی بات چیت سے ان کی زندگی کی حقیقتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ انداز قاری کو کہانی میں زیادہ شامل کرتا ہے۔

ان کے بہت سے افسانوں میں تنہائی کا موضوع نمایاں ہوتا ہے۔ وہ انسان کے اندر کی خاموشی اور تنہائی کو خوبصورتی سے پیش کرتی ہیں، جو کہ ان کی کہانیوں کی روح ہے۔

 ان کی تحریروں میں فطرت کی خوبصورتی اور اس کے اثرات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ وہ اکثر قدرتی مناظر کے ذریعے انسانی جذبات اور تجربات کو بیان کرتی ہیں۔

قرۃ العین حیدر اپنی کہانیوں میں نئے نظریات اور تنقیدی نقطہ نظر کا استعمال کرتی ہیں، جو ان کی تحریر کو منفرد بناتا ہے۔ وہ روایتی کہانیوں کے قالب کو توڑ کر نئے تجربات پیش کرتی ہیں۔

نتیجہ

قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری میں زندگی کی حقیقتوں، ثقافت، اور انسانی جذبات کی عکاسی بہت گہرائی کے ساتھ کی گئی ہے۔ ان کی تحریریں نہ صرف قاری کو تفریح فراہم کرتی ہیں بلکہ انہیں سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہیں کہ زندگی کی عارضیت، محبت کی تلاش، اور انسان کی شناخت کا سفر کس طرح جاری رہتا ہے۔

سریندر پرکاش (اصل نام: سریندر کمار) 1930 میں غیر منقسم پنجاب کے شہر لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں پیدا ہوئے۔ گھریلو مسائل کی وجہ سے رسمی تعلیم حاصل نہ کر سکے، لیکن علمی تشنگی برقرار رہی۔ 1947 میں تقسیم کے بعد وہ اپنے والدین کے ہمراہ دہلی منتقل ہوئے، جہاں معاش کی تلاش میں مختلف چھوٹے موٹے کاموں اور ملازمتوں سے گزرنا پڑا۔ کتب فروشوں کے لیے فرضی ناموں سے کہانیاں اور ناول لکھے، اور ساتھ ہی ریڈیو پر جز وقتی اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ اسی دوران جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب اور ادیبِ کامل کے امتحانات بھی کامیابی سے پاس کیے۔

سریندر پرکاش کا پہلا افسانہ “دیوتا” لاہور کے ایک ہفتہ وار رسالے “پارس” میں شائع ہوا۔ دہلی میں کئی سالوں کی جدو جہد کے بعد، جب انہیں اپنے ذوق کے مطابق لکھنے کا موقع ملا، تو انہوں نے “نئے قدموں کی چاپ” اور “رونے کی آواز” جیسے علامتی اور تجریدی افسانے تخلیق کیے۔ ان کے افسانوں میں طنز کی نوک جھونک اور ملال کی گہری پرچھائیں نمایاں رہیں، جو موجودہ دور کی بناوٹ، مکر و فریب، فطرت سے دوری اور تہذیبی و فکری زوال کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ “دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم” 1968 میں، دوسرا “برف پر مکالمہ” 1981 میں، تیسرا “باز گوئی” 1988 میں، اور چوتھا “حاضر، حال، جاری” 2002 میں شائع ہوا۔ سریندر پرکاش کو کئی ریاستی سطح کے ادبی اعزازات سے نوازا گیا، اور مجموعہ “باز گوئی” پر انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔

سریندر پرکاش کی کہانی بجوکا کسان ہوری کی زندگی کے گرد گھومتی ہے، جو اپنے کھیت اور خاندان کی بقا کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہا ہے۔ ہوری ایک ضعیف کسان ہے، جس کے دو بیٹے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، ایک حادثے میں اور دوسرا پولیس مقابلے میں۔ اب وہ اپنی بہوؤں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیت کی پیداوار پر انحصار کرتا ہے۔

کہانی کے مرکز میں ہوری کا کھیت اور وہاں کھڑا ایک “بجوکا” (پتلا) ہے، جسے ہوری نے اپنی فصل کی حفاظت کے لیے بنایا تھا۔ ایک دن جب وہ اپنی پکی ہوئی فصل کاٹنے جاتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ اس کی فصل کا ایک بڑا حصہ پہلے سے ہی کٹ چکا ہے۔ حیرانی اور خوف کی حالت میں وہ کھیت میں دیکھتا ہے کہ بجوکا، جو صرف ایک بے جان پتلا تھا، زندہ ہو کر درانتی سے فصل کاٹ رہا ہے۔

بجوکا، جو زندگی کی علامت بن کر سامنے آتا ہے، کہتا ہے کہ چونکہ اُس نے کھیت کی حفاظت کی ہے، اس لیے اُس کا حق ہے کہ وہ فصل کا ایک چوتھائی حصہ لے۔ ہوری اس دعوے کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے، کیونکہ وہ بجوکا کو ایک بے جان چیز سمجھتا تھا، لیکن بجوکا کی دلیل ہے کہ اس کی نگرانی نے فصل کو نقصان سے بچایا، اس لیے اس کا بھی حصہ بنتا ہے۔

ہوری کو یہ صورت حال اتنی ناقابل قبول لگتی ہے کہ وہ پنچایت کا سہارا لیتا ہے، لیکن پنچایت بھی بجوکا کے حق میں فیصلہ سناتی ہے، اور ہوری کو مجبوراً فصل کا ایک چوتھائی حصہ بجوکا کو دینا پڑتا ہے۔ کہانی کا اختتام ایک تلخ حقیقت پر ہوتا ہے، جہاں ہوری اپنے پوتوں کو وصیت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی بجوکا نہ بنائیں، بلکہ اگر ضرورت پڑے تو اُسے خود کھیت میں لگا دیں تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے کھیت کی حفاظت کر سکے۔

افسانے پیغام

“بجوکا” ایک استعارتی کہانی ہے، جو اُس ظالمانہ نظام کی طرف اشارہ کرتی ہے، جس میں کسانوں کی محنت پر غیر مرئی قوتیں (بجوکا) قبضہ کر لیتی ہیں۔ بجوکا کسان کی زندگی کے اُن پہلوؤں کی نمائندگی کرتا ہے، جو وقت کے ساتھ غیر متوقع طاقتور بن جاتے ہیں اور کسان کے ہی حصے پر قابض ہو جاتے ہیں۔ اس کہانی میں بجوکا زندگی کی علامت ہے، جو محنت کش کسان کی جدوجہد کے باوجود اُس کی محنت کا ایک بڑا حصہ چھین لیتا ہے۔

ہوری پریم چند کے مشہور ناول گؤدان کا مرکزی کردار ہے، جو 1936 میں شائع ہوا۔ یہ ناول ہندوستانی دیہی زندگی کی حقیقتوں اور کسانوں کی مشکلات کو بیان کرتا ہے۔ ہوری ایک غریب کسان ہے جو اپنی زمین اور خاندان کے لیے دن رات محنت کرتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا خواب ایک گائے خریدنا ہے، کیونکہ گائے دیہی ہندوستان میں عزت اور معاش کا ایک اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ ہوری ایک ایماندار اور محنتی انسان ہے، لیکن وہ ہمیشہ سماجی اور معاشی ناانصافیوں کا شکار رہتا ہے۔

گؤدان ہوری کی زندگی کے ارد گرد گھومتا ہے، جہاں وہ غربت، قرضوں، اور سماجی ظلم و ستم کا شکار ہوتا ہے۔ پریم چند نے ہوری کے کردار کے ذریعے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ کیسے کسان اپنی محنت کے باوجود سماج کے استحصال کا شکار ہوتا ہے۔ ہوری کی کہانی ہندوستانی کسان کی عمومی حالت کو ظاہر کرتی ہے، جو اپنی زندگی بھر کی محنت کے باوجود آرام اور خوشی سے محروم رہتا ہے۔

ہوری ایک غریب کسان تھا جس کی زندگی کا انحصار اس کی فصل پر تھا۔ فصل پک جانے کا مطلب یہ تھا کہ اس کی محنت رنگ لائی ہے اور وہ اپنی معاشی مشکلات سے کچھ دیر کے لیے نکل سکے گا۔ فصل کی کٹائی اس کے لیے مالی استحکام کا ذریعہ ہوتی، جس سے وہ اپنے قرض ادا کر سکتا اور اپنے خاندان کی ضروریات پوری کر سکتا تھا۔

ہوری کی خوشی کا ایک اور پہلو یہ بھی تھا کہ کسان کی زندگی میں فصل پکنا امید کی کرن ہوتی ہے۔ کسان کی زندگی میں خوشی کے لمحات بہت کم ہوتے ہیں، اور فصل پکنا ان میں سے ایک ہوتا ہے۔ اس لمحے میں ہوری اپنی محنت کا صلہ دیکھ رہا تھا، جس سے اسے وقتی طور پر خوشی ملی۔

بجوکا ایک “پتلے” کو کہا جاتا ہے جو کسان اپنے کھیتوں میں پرندوں کو بھگانے کے لیے لگاتے ہیں تاکہ فصل محفوظ رہے۔ بجوکا کو کھیت میں اس طرح رکھا جاتا ہے کہ پرندے اسے دیکھ کر ڈر جائیں اور فصل کو نقصان نہ پہنچائیں۔

سریندر پرکاش کے افسانے “بجوکا” میں بجوکا کو علامتی طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہاں بجوکا ایک سسٹم یا ظالم طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جو کسانوں کی محنت پر قبضہ جمانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ جب ہوری کی فصل تیار ہوتی ہے، بجوکا جو کہ پہلے ایک بے جان پتلا تھا، اچانک زندہ ہو کر فصل پر حق جتانے لگتا ہے۔ اس علامتی منظر کے ذریعے افسانہ نگار نے یہ پیغام دیا ہے کہ کسانوں کے محنت اور وسائل پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی طاقت قابض ہونے کی کوشش کرتی ہے، چاہے وہ سماجی، معاشی یا سیاسی قوت ہو۔

بجوکا کے کردار کے ذریعے اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ کسان کی محنت صرف اس کی اپنی نہیں رہتی بلکہ اس پر سماج کے طاقتور طبقے بھی قابض ہو جاتے ہیں۔ بجوکا، جو بظاہر کسان کی مدد کے لیے بنایا جاتا ہے، بالآخر کسان کے وسائل پر قابض ہو جاتا ہے، اور یہی استحصالی نظام کا اصل چہرہ ہے۔

ہوری کی آخری وصیت نہایت اہم اور گہری معنویت رکھتی ہے۔ ہوری نے اپنے آخری لمحات میں اپنے خاندان کو نصیحت کی کہ وہ آئندہ کبھی “بجوکا” نہ بنائیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ خود کو اور اپنی محنت کو ان قوتوں کے ہاتھوں استحصال نہ ہونے دیں جو ان کی محنت پر قبضہ کرتی ہیں۔

ہوری کی وصیت ایک اہم پیغام دیتی ہے کہ کسانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کریں اور اپنے وسائل اور محنت پر کسی کو قابض نہ ہونے دیں۔ بجوکا کی شکل میں ہوری نے استحصال اور ظلم کے نظام کو پہچانا، اور وہ اپنے خاندان کو اس سے بچنے کی ہدایت دیتا ہے تاکہ وہ اپنی محنت کا پھل خود حاصل کر سکیں اور دوسروں کے ہاتھوں ان کی محنت ضائع نہ ہو۔

یہ وصیت کسانوں کو ایک شعوری پیغام دیتی ہے کہ وہ سماج کے ان طاقتور عناصر سے خود کو محفوظ رکھیں جو ان کی محنت پر ناجائز حق جتاتے ہیں۔ ہوری کا کردار اور اس کی وصیت کسانوں کی حالتِ زار اور ان کے خلاف ہونے والے استحصال کی داستان بیان کرتی ہے، اور ساتھ ہی ایک پیغام دیتی ہے کہ کسان کو اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔


افسانہ “بجوکا” سریندر پرکاش کی تخلیق ہے، جو ایک کسان کی زندگی کے کرب، اُس کی محنت اور معاشرتی حقیقتوں کی علامتوں سے بھرپور کہانی ہے۔ ہوری، ایک بوڑھا کسان، جس کی زندگی مشقت اور جدوجہد میں گزر چکی ہے، اپنے کھیت میں کھڑا “بجوکا” (فصل کی حفاظت کے لیے بنایا گیا پتلا) کے ساتھ ایک عجیب و غریب مقابلہ کرتا ہے۔

ہوری کی زندگی پر دکھوں کے بادل چھائے ہیں۔ اُس کے دو بیٹے، ایک گنگا میں ڈوب کر اور دوسرا پولیس مقابلے میں مارا جا چکا ہے۔ اب وہ بوڑھا ہوری، اپنی بہوؤں اور پوتوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے کھیت کی فصلوں پر منحصر ہے۔ وہ کھیتوں کی کٹائی کے دن کا انتظار کرتا ہے، لیکن جب وہ اپنے کھیت پہنچتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ اُس کی فصل پہلے سے کٹ چکی ہے اور یہ کام اُس کے کھیت میں موجود “بجوکا” نے کیا ہے۔

یہ بجوکا، جو ایک بے جان پتلا تھا، اچانک زندہ ہو کر درانتی پکڑ کر فصل کاٹ رہا ہے۔ ہوری حیران رہ جاتا ہے کہ وہ پتلا، جو اُس نے خود بنایا تھا، کیسے زندہ ہو گیا؟ بجوکا دلیل دیتا ہے کہ چونکہ اُس نے فصل کی حفاظت کی، اس لیے اُس کا بھی ایک چوتھائی حصہ ہے۔ ہوری یہ بات ماننے سے انکار کرتا ہے، لیکن آخر میں پنچایت فیصلہ سناتی ہے کہ بجوکا کو فصل کا ایک چوتھائی حصہ ملے گا۔

کہانی کا انجام اس بات پر ہوتا ہے کہ ہوری اپنے پوتے پوتیوں سے کہتا ہے کہ وہ آئندہ بجوکا نہ بنائیں، اور اگر ضرورت ہو، تو اُسے خود کھیت میں باندھ دیں تاکہ وہ کھیت کی حفاظت کر سکے۔ ہوری کی موت کے بعد اُس کے خاندان والے اُسے بانس سے باندھ کر کھیت میں لگا دیتے ہیں۔

افسانے کی معنویت
“بجوکا” ایک استعاراتی کہانی ہے، جو استحصالی نظام اور محنت کش کسان کی زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔ بجوکا اس سماجی و معاشی نظام کی علامت ہے، جو کسانوں کی محنت پر قابض ہو جاتا ہے، جب کہ ہوری کسان طبقے کی اُس بے بسی کی نمائندگی کرتا ہے، جو اپنے ہی کھیت میں غیروں کی طرح محسوس کرتا ہے۔

اقبال مجید 1934 میں ضلع سیتا پور (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ اسکول میں پڑھاتے رہے، پھر آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔ ملازمت کے دوران انہیں کئی شہروں میں رہنا پڑا، اور بھوپال، جو مالوہ کی خوبصورت سرزمین پر واقع ہے، ان کا آخری پڑاؤ تھا۔ وہاں وہ اسٹینٹ اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور بھوپال میں ہی مستقل رہائش اختیار کر لی۔

اقبال مجید جدید دور کے مشہور افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے کئی اچھے ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ ان کے دو ناول “نمک” اور “کسی دن” ہیں، جبکہ ان کے افسانوی مجموعے “دو بھیگے ہوئے لوگ”, “ایک حلفیہ بیان”, “شہر بدنصیب”, اور “تماشا گھر” ہیں۔ اقبال مجید کا تعلق اس نسل سے ہے جو 1955 سے 1960 کے دوران ترقی پائی۔

انہوں نے جدید طرز کے کئی افسانے لکھے ہیں جن میں آج کے انسان کی اندرونی اور ذہنی پریشانیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہانی کی تکنیک میں بھی نئے تجربے کیے، لیکن کہانی پن کو برقرار رکھا۔ اقبال مجید نے اپنے افسانوں، ڈراموں اور ناولوں میں سیاسی اور سماجی شعور کے ساتھ نفسیاتی گہرائی کا بھی استعمال کیا ہے۔ اردو افسانے کی تاریخ میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔

افسانہ “سکون کی نیند” ایک دلچسپ تمثیلی کہانی ہے جس میں ہواؤں کے ملک کا ذکر ہے۔ کہانی کا مرکزی خیال دولت اور سکون کی کشمکش ہے۔ ایک بادشاہ مرنے سے پہلے اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے کہ محل کے تمام کمرے کھولنا مگر ایک سرنگ کا دروازہ کبھی نہ کھولنا کیونکہ وہاں آگ، پانی، مٹی اور ہوا ایک ساتھ قید ہیں، جو ملک کے باسیوں کی عقل سے باہر ہے۔

بادشاہ کی موت کے بعد شہزادہ تجسس میں سرنگ کا تالا کھول دیتا ہے اور خود کو ایک ایسے ملک میں پاتا ہے جہاں لوگ دولت کے غلام ہیں۔ وہاں سب ضرورتیں پیسے سے پوری کی جاتی ہیں اور جن کے پاس پیسہ نہیں، وہ زندہ رہتے ہوئے بھی مردہ ہیں۔ شہزادہ دیوی سے دعا کرتا ہے کہ سب کو دولت مند بنا دیا جائے تاکہ سب خوشی سے جی سکیں۔ دیوی کی مہربانی سے ہر صبح لوگوں کو تکیے کے نیچے دو لاکھ روپے ملنے لگتے ہیں۔

ابتدائی طور پر لوگوں نے ان نوٹوں کو جعلی سمجھا، لیکن سرکاری اعلان کے بعد انہیں اصلی مانا گیا۔ نتیجے میں خوشی کے مارے کئی لوگوں کی موت ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی مزدور ناپید ہونے لگے، کارخانے بند ہونے لگے، اور ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ لوگ دولت کے حصول میں اتنے مگن ہو گئے کہ وہ بنیادی کاموں سے دور ہو گئے۔

حکومت نے سائنسی تجربات کیے اور معلوم کیا کہ دولت کا یہ مسئلہ نیند سے جڑا ہوا ہے۔ جو لوگ سوتے ہیں، انہیں ہی دولت ملتی ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ لوگوں کی نیند چھینی جائے، اور سائنس دانوں نے ایک انجکشن تیار کیا جس سے آدمی مہینوں تک سو نہ سکے۔ اس انجکشن کو لوگوں کو زبردستی لگا کر نیند چھین لی گئی، اور آہستہ آہستہ لوگ دولت سے محروم ہونے لگے۔

نتیجتاً، ملک کے امیر لوگ بھی خوف کا شکار ہو گئے، کیونکہ وہ زہریلے لوگ جن کی نیند چھن چکی تھی، امیروں کو کاٹ کر مار دیتے تھے۔ دولت کے باوجود، سب کے دل میں خوف اور بے چینی تھی۔ آخر کار، جب شہزادہ دوبارہ اس ملک سے گزرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ لوگ سکون کی نیند کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں اور دولت کی بجائے بس تھوڑی سی آرام دہ نیند چاہتے ہیں۔

افسانہ یہ پیغام دیتا ہے کہ دولت کی فراوانی انسان کو خوشی اور سکون نہیں دے سکتی، بلکہ اصل دولت سکون اور نیند جیسی قدرتی نعمتوں میں ہے۔

شہزادے نے ملک ہوا میں ایک حیران کن منظر دیکھا۔ وہاں دو قسم کے لوگ موجود تھے: ایک وہ جو زندگی کا بھرپور لطف اٹھا رہے تھے اور دوسرے وہ جو جیتے جی مردہ تھے، یعنی اپنی زندگی میں خوشی کا کوئی احساس نہیں رکھتے تھے۔ اس ملک میں پیسہ سب کچھ تھا—لوگوں کی ضروریات، خوشیاں، اور آسائشیں سب کچھ پیسے سے جڑی ہوئی تھیں۔ پیسے کے بغیر، کسی بھی شخص کی زندگی میں خوشحالی اور آرام نہیں تھا۔ شہزادے نے محسوس کیا کہ یہ دنیا دولت کی چکاچوند میں گم ہو چکی ہے، جہاں زندگی کی اصل خوشی اور سکون کہیں کھو گئے ہیں۔

شہزادے نے ہوا کی دیوی سے سفارش کی کہ وہ ملک ہوا کے لوگوں کو پیسے سے مالامال کر دے۔ اس نے بتایا کہ وہاں کے لوگوں کی حالت بہت خراب ہے اور وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس نے دیوی سے دعا کی کہ وہ ان لوگوں کی مدد کرے تاکہ وہ سکون سے زندگی گزار سکیں۔ شہزادے کی یہ خواہش تھی کہ سب کے پاس اتنی دولت ہو کہ وہ اپنی زندگی میں خوشیاں پا سکیں اور دولت کی کمی کی وجہ سے کوئی شخص پریشان نہ رہے۔

جب لوگوں کو ہر صبح اپنے تکیے کے نیچے سے دو دو لاکھ روپے ملنے لگے، تو ان کی زندگیوں میں یکسر تبدیلی آئی۔ ابتدا میں لوگوں نے یہ نوٹ جعلی سمجھ کر نظرانداز کیا، لیکن جب حکومت نے اعلان کیا کہ یہ سب اصلی نوٹ ہیں، تو خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لوگوں نے عیش و عشرت میں مبتلا ہونا شروع کر دیا، جبکہ محنت و مشقت سے دور ہو گئے۔ کارخانے بند ہونے لگے، کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد کم ہونے لگی، اور لوگ اس دولت کا بے دریغ استعمال کرنے لگے۔ ان کی سوچ میں تبدیلی آئی اور محنت کی قدر کم ہونے لگی، جس سے ملک کی معیشت بھی متاثر ہوئی۔

سائنس دانوں نے ایک ایسی دوا، یعنی ایک انجکشن تیار کیا جس کے لگانے سے لوگوں کی نیند ختم ہو جاتی تھی۔ یہ انجکشن اس لیے بنایا گیا تاکہ لوگ رات کو نہ سو سکیں، کیونکہ جو لوگ سوتے تھے، انہیں صبح دو لاکھ روپے ملتے تھے۔ حکومت نے سمجھا کہ اگر لوگ سونے سے روک دیے جائیں تو دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس انجکشن کے ذریعے، حکومت نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی تاکہ ملک کے لوگوں کو محنت پر مجبور کیا جا سکے اور بے روزگاری اور عدم استحکام کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔

نیند کے انجکشن کا لوگوں پر مہلک اثر ہوا۔ یہ انجکشن لگوانے کے بعد لوگ مہینوں تک سو نہیں پاتے تھے، جس کی وجہ سے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہونے لگی۔ ان کی طبیعت میں چڑچڑا پن، بے چینی، اور ڈپریشن جیسی علامات ظاہر ہونے لگیں۔ یہ زہریلے لوگ ایک دوسرے کے لیے خطرہ بن گئے، کیونکہ ان کے خون میں انجکشن کے اثرات کی وجہ سے جب وہ کسی کو کاٹ لیتے تو وہ بے ہوش ہو کر مر جاتا۔ اس صورتحال نے ملک میں ایک نئی خوف کی فضا قائم کر دی، جہاں ہر کوئی رات کے اندھیرے میں خوف زدہ رہتا تھا۔

آخر میں، دولت مندوں نے خدا سے یہ دعا مانگی کہ وہ ان سے ان کی ساری دولت چھین لے اور اس کے بدلے انہیں دو پل سکون سے سو لینے کی نیند دے دے۔ یہ دعائیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ دولت کی کثرت نے ان کے لیے سکون کی نیند چھین لی تھی۔ وہ لوگ جو کبھی اپنی دولت پر فخر کرتے تھے، اب سکون کی تلاش میں تھے، کیونکہ انہیں یہ احساس ہوا کہ پیسہ صرف عیش و آرام فراہم نہیں کرتا، بلکہ زندگی کی حقیقی خوشی اور اطمینان کا ذریعہ بھی خوابوں کی نیند میں چھپا ہے۔ ان کی دعا اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کبھی کبھار مادیت کی چکاچوند انسان کو حقیقی خوشی سے دور کر دیتی ہے۔ اس طرح یہ افسانہ نہ صرف دولت کے اثرات کو اجاگر کرتا ہے بلکہ انسان کی زندگی میں سکون اور خوشی کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔

شفیع جاوید کا جنم 1935 میں صوبہ بہار کے شہر مظفر پور میں ہوا۔ ان کے گھر کا ماحول ادبی تھا، اور ان کا آبائی شہر گیا تاریخی اہمیت کا حامل ہے، جہاں مہاتما بدھ سے جڑی کئی یادگاریں موجود ہیں۔ شفیع جاوید نے پٹنہ یونیورسٹی سے سماجیات میں ایم۔ اے کیا۔ وہ محکمہ اطلاعات و نشریات، حکومت بہار کے ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور اس وقت پٹنہ میں رہائش پذیر ہیں۔

ان کا پہلا افسانہ “آرٹ اور تمباکو” 1953 میں شائع ہوا۔ شفیع جاوید کے افسانوں کے کئی مجموعے ہیں، جیسے “دائرے سے باہر” (1979)، “کھلی جو آنکھ” (1982)، “تعریف اس خدا کی” (1984)، “وقت کے اسیر” (1991)، اور “رات اور میں” (2004)۔ ان کے مشہور افسانوں میں “تیز ہوا کا شور”، “کہاں ہے ارضِ وفا”، “حکایت ناتمام”، “بھولے بسرے گیت”، “منزل”، “اجنبی”، اور “کاغذ کی ناؤ” شامل ہیں۔

شفیع جاوید کے افسانوں میں ماضی کی یادیں اور جدید دور کی حقیقتیں ایک فلسفیانہ رنگ پیدا کرتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں اظہار کی اشاریت کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ ان کی کہانیوں کی فضا بندی اور ہلکی رومانوی لہروں کی وجہ سے، شفیع جاوید کے افسانے ایک منفرد تاثر چھوڑتے ہیں۔ وہ اپنی زبان اور احساس و فکر کے اعتبار سے ایک ممتاز افسانہ نگار ہیں۔

افسانہ “میں، وہ” شفیع جاوید کے تخلیقی انداز میں لکھا گیا ہے، جس میں ایک ضعیف آدمی کی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ یہ آدمی روزانہ صبح ایک ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر آتا ہے اور ایک بینچ پر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی چال میں ایک مستقل مزاجی ہے، اور وہ اپنے جسم کو جھکائے، تھکی تھکی آواز میں پان والے سے ٹرین کے بارے میں سوال کرتا ہے۔

کہانی کے راوی، جو صبح کی سیر کے لیے آتا ہے، اس بوڑھے آدمی کا مشاہدہ کرتا ہے اور اسے دیکھ کر سوچتا ہے کہ شاید وہ کسی کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ بوڑھا آدمی ہر روز ایک ہی بینچ پر بیٹھتا ہے، اپنی چپل کے پاؤں کو دوسرے گھٹنے پر رکھ کر آرام کرتا ہے اور پٹنہ جنکشن کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں زندگی کی ایک گہری کہانی پوشیدہ ہے، جو کبھی بھی اس کی طرف دیکھتا نہیں۔

جب راوی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو بوڑھا آدمی زندگی کی حقیقتوں کے بارے میں باتیں کرتا ہے، جیسے یادوں، انتظار اور اندرونی مسرت۔ وہ اپنی زندگی کو ایک یاتری کی طرح دیکھتا ہے، جو اپنے سفر میں راستے سے بھٹک گیا ہے۔ اس کی باتوں میں زندگی کی تلخی اور اکتاہٹ کا احساس ہوتا ہے، مگر ساتھ ہی وہ امید کی کرن بھی بکھیرتا ہے۔

افسانے کا اختتام اس خیال پر ہوتا ہے کہ بوڑھا آدمی اب بھی اسی جگہ پر آتا ہے، جیسے پہلے آیا کرتا تھا، اور اس کی موجودگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ زندگی کے سفر میں کبھی کبھار ہم اپنی جگہوں پر ہی ٹھہر جاتے ہیں، چاہے وقت گزر جائے۔ اس کے سوالات اور زندگی کی سادگی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ ہم بھی کبھی کبھار انتظار کی اس کیفیت میں ہوتے ہیں، جہاں وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی۔

یہ افسانہ انسانی زندگی کی گہرائیوں کو کھنگالتا ہے، یادوں کی لطافت اور وقت کی بے حسی کو بیان کرتا ہے۔

عنوان “میں، وہ” اس افسانے کے مرکزی خیال کو ظاہر کرتا ہے، جہاں “میں” راوی کی حیثیت سے اپنے زندگی کے تجربات اور مشاہدات بیان کرتا ہے، جبکہ “وہ” ایک بوڑھے آدمی کی زندگی، اس کی یادوں اور احساسات کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ عنوان دونوں کرداروں کے درمیان ایک ربط پیدا کرتا ہے جو عمر کے مختلف مراحل کو ظاہر کرتا ہے۔ “میں” کی حیثیت سے راوی کی جوانی اور بے تجربگی کے مقابلے میں “وہ” کی زندگی کے تلخ تجربات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح، یہ عنوان زندگی کے مختلف پہلوؤں کی کھوج اور ان کے معنی کو ظاہر کرتا ہے۔ آخر میں، یہ عنوان ہمیں بتاتا ہے کہ دونوں کردار ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھتے ہیں اور ایک ہی راستے پر چلتے ہیں۔

اس جملے کے ذریعے بوڑھا شخص راوی کی جوانی اور کم تجربے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ وہ اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ زندگی کے حقیقی تجربات، مشکلات اور احساسات کو سمجھنے کے لیے گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے، جو کہ راوی کے پاس نہیں ہے۔ بوڑھے آدمی کا یہ کہنا ہے کہ راوی کی زندگی کی آسانیاں اسے حقیقی زندگی کی تلخیوں اور چیلنجز سے واقف نہیں کراتیں۔ یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ صرف وقت گزرنے کے ساتھ ہی حقیقی زندگی کی قدر اور معنی کا پتہ چلتا ہے۔ یہ بوڑھے شخص کے تجربات کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے اور جوانوں کے لیے ایک سبق آموز پیغام بھی دیتا ہے۔

یہ جملہ بوڑھے آدمی کی زندگی کی مایوسی اور نا امیدی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے نزدیک، زندگی کی مشکلات اور تلخیوں نے اسے اتنا مایوس کر دیا ہے کہ اب وہ موت کو بھی ایک حل کی حیثیت سے نہیں دیکھتا۔ یہ جملہ انسان کی زندگی کی بے وقعتی اور دنیا کی حقیقت کو بیان کرتا ہے، جہاں انسان اپنی محنت اور جدوجہد کے باوجود اکیلا محسوس کرتا ہے۔ بوڑھے کی نظر میں، زندگی کی بے معنویت اور بے حوصلگی نے اسے اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ موت کا خوف محسوس نہیں کرتا۔ یہ اس کی زندگی کی کہانی کا ایک افسوسناک پہلو ہے، جو بتاتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی زندگی کی جدوجہد سے تھک چکا ہے بلکہ زندگی کی تماشا بن چکا ہے، جہاں موت کا خیال بھی اس کے لیے سکون کا باعث نہیں ہے۔

بوڑھے کے کردار کی تصویر کشی ایک گہری اور دل کو چھو لینے والی ہے۔ اس کی جسمانی حالت، جیسے جھکا ہوا جسم، کمزور قدم، اور چہرے کی جھریاں، اس کی عمر اور زندگی کی مشکلات کو ظاہر کرتی ہیں۔ وہ ہر روز ایک خاص جگہ پر آتا ہے، جو اس کی روزمرہ کی روٹین اور مستقل مزاجی کی علامت ہے۔ اس کا گفتگو کا انداز، جیسے نوجوان کے تجربات پر سوالات اٹھانا، اس کی عقل و فہم کی عکاسی کرتا ہے۔ بوڑھے کی سوچ میں زندگی کی تلخیوں کا عکاسی ہوتی ہے، اور وہ نوجوان کی معصومیت اور عدم تجربے کو سمجھتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی زندگی کے تجربات اس کی شخصیت کو کس طرح متاثر کر چکے ہیں۔ بوڑھے کا کردار صرف ایک شخص نہیں، بلکہ اس کی شخصیت زندگی کے تلخ حقائق اور تجربات کی علامت ہے، جو انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتا ہے۔

عملی کام

افسانہ “میں، وہ” ایک بوڑھے شخص اور ایک نوجوان کے درمیان کی کہانی ہے۔ ہر صبح، بوڑھا آدمی ریلوے اسٹیشن پر آتا ہے اور ایک مخصوص بینچ پر بیٹھ کر ٹرینوں کا انتظار کرتا ہے، جیسا کہ وہ کسی خاص شخص کا منتظر ہے۔ نجوان صبح کی سیر کے لیے آتا ہے، بوڑھے کی روزمرہ کی عادات کو دیکھتا ہے اور اس کی زندگی کی تلخیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب نوجوان بوڑھے سے بات کرتا ہے تو وہ زندگی کی حقیقتوں اور تجربات کے بارے میں عمیق گفتگو کرتا ہے، جہاں بوڑھا نوجوان کو اپنی جوانی کی عدم تجربے کی حقیقتیں سمجھاتا ہے۔

بوڑھا آدمی اپنے تجربات کی بنیاد پر نوجوان کو یہ سمجھاتا ہے کہ زندگی کا حقیقی تجربہ وقت اور حالات کے ساتھ آتا ہے۔ نوجوان اس کی باتوں پر غور کرتا ہے اور زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے، نوجوان کو بوڑھے کے تجربات اور زندگی کی مشکلات کی گہرائی کا احساس ہوتا ہے۔ افسانہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ زندگی کی حقیقتیں نہ صرف عمر کے ساتھ ساتھ آتی ہیں بلکہ ان کا تجربہ بھی انسان کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔

بوڑھے کی گفتگو نوجوان کے لیے ایک گہرے سبق کی حیثیت رکھتی ہے، جو زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔ آخر میں، دونوں کردار ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھتے ہیں، جو افسانے کی مرکزی تھیم کو مزید واضح کرتا ہے کہ زندگی کی حقیقتیں ایک دوسرے سے سیکھنے کے ذریعے ہی سمجھ میں آتی ہیں۔ اس طرح، افسانہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ عمر اور تجربات کے باوجود، انسانی زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنا ایک مسلسل عمل ہے۔

Scroll to Top