یادیں
اردو کے کئی ادیبوں نے اپنی زندگی کے اہم تجربات اور واقعات کو ‘یادیں’ کے عنوان سے لکھا ہے۔ یادیں لکھنے کا انداز سوانح سے مختلف ہوتا ہے۔ سوانح میں زندگی کے واقعات ترتیب سے بیان کیے جاتے ہیں، جب کہ یادیں میں واقعات کو ترتیب میں رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔ یادیں لکھنے والا اپنی زندگی کے بہت سے واقعات میں سے صرف اُن کا انتخاب کرتا ہے جو خاص اور اہم ہوتے ہیں۔ اب کچھ ادیب یادیں کے لیے ‘یاد نگاری’ کی اصطلاح بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔ اگرچہ یاد نگاری باقاعدہ ادب کی صنف نہیں، لیکن کئی دلچسپ تحریریں سامنے آئی ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ مستقبل میں اسے ایک الگ صنف کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔
سجاد ظہیر 1905 میں لکھنؤ کے ایک معزز اور علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد، سر وزیر حسن، اپنے وقت کے نامور قانون دان تھے۔ سجاد ظہیر کو ادبی دنیا میں “بنے بھائی” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے انگلستان سے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی، لیکن وکالت کو اپنا پیشہ نہ بنا سکے۔ اُن کی شخصیت میں ایک ادیب، شاعر، اور صحافی کے ساتھ ساتھ ایک فکر انگیز سیاسی سوچ رکھنے والا انسان بھی چھپا ہوا تھا۔ مارکسی فلسفے کا مطالعہ کرتے ہوئے کارل مارکس کے نظریات نے ان کی سوچ کو نئی راہ دکھائی۔
سجاد ظہیر
انگلستان میں تعلیم کے دوران ہی سجاد ظہیر کو ہندوستان کی غربت اور پسماندگی کی جڑیں انگریزی سامراج کی پالیسیوں میں نظر آئیں، اور انہوں نے آزادی کو ان مسائل کا واحد حل سمجھا۔ اسی دوران، ملک راج آنند، جیوتی گھوش، اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر جیسے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر انہوں نے “انجمن ترقی پسند مصنفین” کی بنیاد رکھی، جو 1936 میں ہندوستان میں ایک ادبی تحریک کی صورت اختیار کر گئی اور اردو ادب کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوئی۔
سجاد ظہیر نے اپنے قیامِ انگلستان کے دوران کئی افسانے لکھے جو “انگارے” کے نام سے شائع ہوئے اور ادب میں تہلکہ مچا دیا۔ ان کا ناول “لندن کی ایک رات” اپنی انفرادیت اور انداز کی بدولت خاصی شہرت کا حامل رہا۔ 1948 میں وہ پاکستان چلے گئے، جہاں اپنے سیاسی نظریات کے سبب حکومتی غضب کا شکار ہوئے اور جیل بھی گئے۔ جیل کے ایام میں انہوں نے “روشنائی” اور “ذکر حافظ” جیسی اہم کتابیں تحریر کیں۔
1955 میں وہ ہندوستان واپس لوٹے اور اپنا تمام وقت اور توانائی ترقی پسند تحریک کے فروغ کے لیے وقف کر دی۔ ساتھ ہی اُن کا قلم بھی رواں رہا۔ ان کی کتاب “پگھلا نیلم” کو نثری نظم کا پہلا مجموعہ تصور کیا جاتا ہے، اور جیل سے اپنی اہلیہ رضیہ سجاد ظہیر کے نام لکھے گئے خطوط “نقوش زنداں” کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ سجاد ظہیر ایک قابل قدر صحافی بھی تھے، جنہوں نے مختلف ادوار میں “چنگاری”، “بھارت”، “قومی جنگ”، “عوامی دور”، اور “حیات” جیسے اخبارات و رسائل کی ادارت کی۔
روشنائی کا خلاصہ
اس اقتباس میں سجاد ظہیر نے امرتسر میں پنجاب کسان کمیٹی اور ترقی پسند مصنفین کی کانفرنسز کی روداد بڑے خوبصورت انداز میں بیان کی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ پنجاب کے کسان تحریک کی مضبوطی اور اتحاد نے انہیں متاثر کیا۔ جلیانوالہ باغ میں منعقدہ اس کسان کانفرنس میں انقلابی جذبے سے سرشار کسانوں کا جم غفیر ان کے لیے تحریک اور عزم کا باعث بنا۔ وہ اس منظر کو اپنے انقلابی شعور کے فروغ کے لیے نہایت اہم گردانتے ہیں۔
ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کا انعقاد بھی اسی مقام پر کیا گیا۔ فیض احمد فیض نے کانفرنس کے انتظامات کی ذمہ داری نبھائی، حالانکہ انہیں مقامی اداروں سے تعاون نہیں مل سکا۔ اس بے سرو سامانی کے باوجود فیض اور دیگر ترقی پسند ادیبوں نے کسانوں کے ساتھ اس ادبی تجربے کو دل سے سراہا۔ اس کانفرنس میں شریک ہونے والے ادیبوں میں چراغ حسن حسرت، ڈاکٹر تاثیر، اور دیگر سرکردہ ادیب شامل تھے۔ سجاد ظہیر کو یہ موقع اہم اس لیے لگا کہ یہ ادیب عوام کے قریب آکر ان کی فکری اور شعوری ترقی کا حصہ بن سکے۔ ان کے مطابق، اس کانفرنس نے ادیبوں کو یہ احساس دلایا کہ انہیں عوام سے جڑنے کے لیے مزید محنت اور سادگی کے ساتھ ان کے جذبات و خیالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بعد میں، علامہ اقبال سے لاہور میں ملاقات کا ذکر بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس ملاقات میں سجاد ظہیر نے اپنی نوجوان نسل کی ترقی پسند ادبی تحریک کے نظریات پر گفتگو کی، اور اقبال نے اس تحریک کو سنجیدگی سے سنا۔ اقبال نے یہ تسلیم کیا کہ سوشلزم کے حوالے سے ان کا مطالعہ محدود رہا، اور انہیں اس پر مزید تحقیق کی خواہش تھی۔ سجاد ظہیر نے محسوس کیا کہ اقبال کی اس تحریک کے ساتھ ہمدردی موجود ہے اور وہ چاہتے تھے کہ مزید ملاقاتوں میں اس تحریک کے اصول اور اثرات پر بات کی جائے، مگر بدقسمتی سے دوبارہ اقبال سے ملاقات نہ ہو سکی۔
یہ مضمون اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کی ابتدائی کاوشوں، اس کے نمایاں کرداروں، اور ان کے انقلابی عزائم کو بیان کرتا ہے۔ سجاد ظہیر نے اس یادگار ملاقات کے ذریعے اپنے وقت کے لوگوں اور نظریات کے فکری اتحاد اور جدوجہد کو نمایاں کیا ہے۔
سوالات و جوابات
سوال 1 ۔ پنجابی کسان کانفرنس اور ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کہاں منعقد ہوئی تھی؟
جواب ۔
پنجابی کسان کانفرنس اور ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس دونوں جلیانوالہ باغ، امرتسر میں منعقد ہوئیں۔ جلیانوالہ باغ کا انتخاب کسان کانفرنس کے لیے کیا گیا تھا، جہاں ہزاروں پنجابی کسانوں کا اجتماع ہوا۔ ترقی پسند مصنفین کو ابتدائی طور پر کسی اسکول یا کالج میں کانفرنس کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ ایم اے او کالج جیسے اداروں نے، جہاں فیض احمد فیض پڑھاتے تھے اور تاثیر پرنسپل تھے، بھی ہال دینے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا، ترقی پسندوں نے کسان کانفرنس کے اختتام کے بعد جلیانوالہ باغ کے پنڈال کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ کانفرنس فیض احمد فیض کی نگرانی میں منعقد ہوئی اور ترقی پسند تحریک کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ چونکہ کسان کانفرنس ایک بڑے پنڈال میں ہو رہی تھی، ترقی پسندوں کو جگہ کا محدود استعمال کرنا پڑا۔ کانفرنس کا انعقاد ایک چھوٹے سے چبوترے پر ہوا، جہاں پرانی دری بچھی ہوئی تھی اور حاضرین دری پر ہی بیٹھ گئے۔
سوال 2 ۔ جنگ آزادی کی تاریخ میں جلیانوالہ باغ کی کیا اہمیت ہے؟
جواب ۔
جلیانوالہ باغ ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ میں ایک اہم اور المناک مقام رکھتا ہے۔ یہ باغ 13 اپریل 1919 کو برطانوی سامراج کے ظلم و ستم کا گواہ بنا جب امرتسر میں ہونے والے قتل عام نے ہندوستانی عوام کے دلوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ یہ دن ہندوستانیوں کے لیے ہمیشہ کے لیے یادگار اور برطانوی استبداد کا سب سے بھیانک چہرہ دکھانے والا دن بن گیا۔ اس واقعے نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کو برطانوی راج کی بربریت سے واقف کروایا۔
جلیانوالہ باغ قتل عام کے پس منظر
1919 میں برطانوی حکومت نے رولیٹ ایکٹ منظور کیا تھا، جس کے تحت کسی بھی ہندوستانی کو بغیر مقدمے کے گرفتار کرنے اور قید کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ اس ایکٹ نے پورے ہندوستان میں شدید غم و غصہ پیدا کیا، کیونکہ اسے بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی کے طور پر دیکھا گیا۔ اس کے خلاف احتجاج پورے ملک میں شروع ہوگیا۔ پنجاب میں بھی انگریزوں کے خلاف شدید غصہ تھا، اور امرتسر میں کئی لوگ پرامن طور پر اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
13 اپریل 1919 کو، جو کہ بیساکھی کا دن تھا، جلیانوالہ باغ میں ہزاروں لوگ جمع ہوئے تھے۔ ان میں سے بیشتر لوگ ایک پرامن جلسے میں شرکت کرنے کے لیے آئے تھے، جبکہ کچھ لوگ صرف بیساکھی کے تہوار کے لیے وہاں موجود تھے۔ اس مجمع میں بچے، عورتیں، بوڑھے، اور نوجوان سب شامل تھے، جو اس دن کے تہوار اور جلسے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
قتل عام کا واقعہ
اسی دن، برطانوی افسر جنرل ریجنالڈ ڈائر نے بغیر کسی پیشگی وارننگ کے فوجی دستے کے ساتھ جلیانوالہ باغ کا محاصرہ کر لیا۔ باغ کا ایک ہی تنگ دروازہ تھا، جسے جنرل ڈائر نے فوجیوں کے ساتھ بند کر دیا۔ ڈائر نے کسی بھی طرح کے انتباہ یا ہدایت دیے بغیر مجمع پر فائرنگ کا حکم دے دیا۔ فوجیوں نے بندوقیں تان کر مجمع پر فائرنگ شروع کر دی اور مسلسل دس منٹ تک گولیاں چلائی گئیں۔
یہ فائرنگ اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ فوجیوں کی گولیاں ختم نہ ہو گئیں۔ اس وحشیانہ کارروائی میں ہزاروں بے گناہ مرد، عورتیں، اور بچے مارے گئے، جبکہ سینکڑوں شدید زخمی ہوئے۔ کئی لوگ اپنی جان بچانے کے لیے باغ میں موجود ایک کنویں میں کود گئے، لیکن وہ بھی وہاں دم توڑ گئے۔ مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں سرکاری اور غیر سرکاری رپورٹس میں اختلاف ہے، تاہم کچھ رپورٹس کے مطابق تقریباً 1000سے زائد لوگ شہید ہوئے اور1500سے زیادہ زخمی ہوئے۔
جلیانوالہ باغ کی جنگ آزادی میں اہمیت
انقلابی رد عمل کا نقطہ آغاز
جلیانوالہ باغ کا قتل عام برطانوی سامراج کے خلاف ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس واقعے نے ہندوستانی عوام کے اندر آزادی کی جدوجہد کو مزید تقویت دی۔ لوگ جو پہلے پرامن تحریکوں کے ذریعے تبدیلی چاہتے تھے، اس واقعے کے بعد برطانوی حکومت کے خلاف مزاحمت اور انقلابی سوچ کی طرف مائل ہوگئے۔
گاندھی جی کی قیادت میں عدم تعاون کی تحریک
مہاتما گاندھی، جو پہلے برطانوی حکومت کے ساتھ کچھ حد تک مصالحت کے حامی تھے، اس واقعے کے بعد اپنے مؤقف میں سخت تبدیلی لے آئے۔ انہوں نے اس واقعے کو “ایک غیر انسانی اور وحشیانہ فعل” قرار دیا اور برطانوی حکومت سے ہر قسم کے تعاون کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی واقعے کے بعد عدم تعاون کی تحریک شروع ہوئی، جس میں ہندوستانیوں نے انگریزوں کے ساتھ ہر طرح کے تعاون سے انکار کیا، سرکاری عہدوں سے استعفیٰ دیے، اور غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔
برطانوی حکومت کے خلاف عالمی مذمت
جلیانوالہ باغ قتل عام نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں برطانوی حکومت کی شدید مذمت کروائی۔ عالمی سطح پر اس واقعے کی مذمت کی گئی، اور برطانوی حکومت کو ہندوستان میں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا گیا۔
بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں کا جنم
جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہندوستان کے نوجوانوں پر گہرے اثرات مرتب کرنے والا واقعہ تھا۔ اس واقعے نے بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں کو برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کرنے کی ترغیب دی۔ بھگت سنگھ نے خود تسلیم کیا کہ جلیانوالہ باغ کا واقعہ ان کی سیاسی بیداری اور انقلابی سوچ کے آغاز کا سبب بنا۔
برطانوی سامراج کے چہرے کی اصلیت
اس واقعے نے برطانوی سامراج کے “مہذب حکمرانی” کے دعوے کو بے نقاب کر دیا۔ اس کے بعد، ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی۔ ہندوستانی عوام سمجھ گئے کہ برطانوی حکومت صرف اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے ان کی آزادیوں کو کچلنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
شہیدوں کی قربانیوں کا تسلسل
جلیانوالہ باغ میں قربان ہونے والے ہزاروں ہندوستانیوں نے ہندوستانی عوام کے دلوں میں آزادی کے لیے مرمٹنے کا عزم پیدا کیا۔ ان شہیدوں کی قربانیوں کو ہندوستانی عوام نے ہمیشہ یاد رکھا، اور ان کی یاد نے ہندوستانیوں کو برطانوی تسلط کے خلاف متحد کیا۔
جلیانوالہ باغ کا بعد کا اثر
جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے بعد، برطانوی حکومت نے جنرل ڈائر کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی، جس سے ہندوستانی عوام میں مزید غم و غصہ پھیلا۔ جنرل ڈائر کو بعد میں برطانوی ہاؤس آف کامنز نے تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن برطانوی ہاؤس آف لارڈز نے اسے ایک “ہیرو“ کے طور پر سراہا، جو ہندوستانیوں کے لیے ایک اور توہین آمیز بات تھی۔
جلیانوالہ باغ کا واقعہ نہ صرف ہندوستانی عوام کی جدوجہد آزادی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا، بلکہ اس نے ہندوستانی قوم پرستی کے جذبات کو بھی مزید بھڑکایا۔ یہ واقعہ آج بھی ہندوستانی تاریخ میں ایک افسوسناک لیکن اہم باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
نتیجہ
جلیانوالہ باغ کا قتل عام ہندوستان کی تحریک آزادی میں ایک فیصلہ کن موڑ تھا، جس نے برطانوی سامراج کی بے رحمی کو بے نقاب کیا اور ہندوستانی عوام کے دلوں میں آزادی کے لیے مرمٹنے کا عزم پیدا کیا۔ اس سانحے نے ہندوستانیوں کو یہ سکھایا کہ ان کی آزادی اور خود مختاری کی جنگ مشکل ہوگی، لیکن ضروری ہے۔
سوال 3 ۔ سجاد ظہیر نے علامہ اقبال کو کن خاص باتوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی تھی؟
جواب ۔
سجاد ظہیر نے علامہ اقبال سے ملاقات میں ترقی پسند ادب کی تحریک اور سوشلزم کے نظریات پر گفتگو کی۔ سجاد ظہیر اور ان کے ساتھی نوجوان ادیب سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہو رہے تھے، اور وہ ان نظریات کو سماجی انصاف، برابری اور عوامی حقوق کے لیے اہم سمجھتے تھے۔ اس ملاقات میں سجاد ظہیر نے اقبال کو بتایا کہ نوجوان ترقی پسند ادیب کس طرح سوشلسٹ نظریات کو اپناتے ہوئے معاشرتی مسائل کو ادب کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سجاد ظہیر کا مقصد اقبال کو ترقی پسند تحریک کی اہمیت اور اس کے اثرات کے بارے میں آگاہ کرنا تھا، اور یہ بتانا تھا کہ یہ تحریک کیسے سماجی تبدیلی کے لیے ایک انقلابی اقدام بن سکتی ہے۔ اقبال سے ان کی بات چیت کا مقصد یہ تھا کہ وہ سوشلسٹ نظریات کو سمجھیں اور اس تحریک کو مزید تقویت دیں۔
سوال 4 ۔ علامہ اقبال نے سجاد ظہیر کی باتوں کا کیا جواب دیا؟
جواب ۔
علامہ اقبال نے سجاد ظہیر کی باتوں کو غور سے سنا اور کہا کہ وہ ترقی پسند تحریک اور سوشلزم سے ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن اس کے بارے میں ان کا مطالعہ محدود ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ سوشلسٹ نظریات کو سمجھنے میں وہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے تھے، اور انہیں مزید پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
اقبال نے سوشلسٹ نظریات کے بارے میں کہا کہ ممکن ہے انہوں نے اسے صحیح طرح سے نہیں سمجھا، کیونکہ وہ اس موضوع پر زیادہ مطالعہ نہیں کر پائے۔ فیض احمد فیض نے انہیں کچھ کتابیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ابھی تک یہ کتابیں نہیں مل سکیں۔ اقبال نے اس بات کا اقرار کیا کہ وہ ترقی پسند تحریک کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور اس سے وابستہ نظریات کو مزید سمجھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے سجاد ظہیر سے کہا: “میرا نقطہ نظر آپ جانتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ مجھے ترقی پسند ادب یا سوشلزم کی تحریک کے ساتھ ہمدردی ہے۔ آپ لوگ مجھ سے ملتے رہیے۔“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ترقی پسند ادیبوں سے بات چیت میں دلچسپی رکھتے تھے اور اس تحریک کو سمجھنے میں مزید وقت دینا چاہتے تھے۔
بدقسمتی سے، سجاد ظہیر کو دوبارہ علامہ اقبال سے ملاقات کا موقع نہیں مل سکا کیونکہ جب وہ دوبارہ لاہور گئے تو علامہ اقبال وفات پا چکے تھے۔