Gulistan e Adab Chapter 7 inshaiya machar انشائیہ مچھر Solutions

انشا کا لفظ اردو میں مختلف طریقوں سے استعمال ہوتا ہے، اور “انشائیہ” بھی اسی سے نکلا ہے۔ محققین کے مطابق، انگریزی سے ماخوذ ہے، اور انگریزی میں عربی لفظ “السّعی” سے آیا ہے جس کا مطلب ہےکوشش کرنے کے۔

شروع میں مضمون نگاری اور انشائیہ نگاری میں کوئی خاص فرق نہیں تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان دونوں میں فرق پیدا ہوا، اور انشائیہ ایک الگ صنف بن کر سامنے آیا۔ انشائیہ نگار اپنے ذاتی تجربات اور خیالات کو سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

انشائیے کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں سنجیدہ اور غیر سنجیدہ موضوعات کو دلچسپ اور خوش مزاج انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ خیالات کو منفرد انداز میں جوڑنے کا فن ہے۔ انشائیہ نگار اکثر معمولی باتوں کو اہم اور معنی خیز بنا دیتا ہے، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات بے معنی لگتی ہے۔

اختصار (کم الفاظ میں زیادہ بات کہنا) انشائیے کی پہچان ہے۔ اس میں زیادہ مزاح یا ہنسی مذاق کے بجائے ہلکی سی دلچسپی اور زیرلب مسکراہٹ پیدا کی جاتی ہے۔ خیالات کو نیا اور منفرد انداز دینا انشائیے کی ایک بڑی خوبی ہے۔

اردو میں انشائیہ کی شروعات سر سید احمد خان کے رسالے “تہذیب الاخلاق” سے ہوئی۔ اس کے بعد مولوی نذیر احمد اور مولانا ذکاء اللہ نے اس صنف کو پروان چڑھایا۔ بعد میں “اودھ پنچ” اور”مخزن” جیسے رسائل نے انشائیے کو مقبول بنایا۔

اس صنف کو مقبول بنانے میں میر ناصر علی، سجاد حیدر یلدرم، سلطان حیدر جوش، سجاد انصاری، نیاز فتح پوری، مہدی افادی، فرحت اللہ بیگ، قاضی عبدالغفار، پطرس بخاری، سید محفوظ علی بدایونی، خواجہ حسن نظامی، رشید احمد صدیقی، اور مشتاق احمد یوسفی جیسے مشہور مصنفین کا بہت اہم کردار رہا ہے۔

خواجہ حسن نظامی دہلی میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی ان کے والد اور والدہ کا انتقال ہو گیا، اور ان کی پرورش بڑے بھائی نے کی۔ ابتدائی تعلیم دہلی میں ہی حاصل کی، جہاں عربی اور فارسی زبانوں کی تعلیم پائی۔ انہیں کتابیں پڑھنے اور مضمون لکھنے کا شوق بچپن سے تھا۔ ابتدا میں اخبارات کے لیے چھوٹے چھوٹے مضامین لکھے، مگر جلد ہی تحریر و تصنیف ان کا مستقل کام بن گیا۔

خواجہ حسن نظامی نے بہت سی کتابیں لکھیں، جن میں انشائیے، سفرنامے، روزنامچے، قلمی چہرے اور نوحے شامل ہیں۔ انہوں نے کئی رسالے بھی شائع کیے، جن میں منادی کو خاص طور پر شہرت ملی۔

خواجہ حسن نظامی کا طرز تحریر بہت خاص اور منفرد تھا۔ ان کی نثر میں ادب، علم، اور روحانیت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ان کا دلکش انداز تحریر معمولی باتوں اور عام واقعات کو بھی غیر معمولی بنا دیتا تھا۔ ان کی تحریر کی اہم خصوصیات سادگی، بے تکلفی، اور ہلکا پھلکا طنز ہیں۔ ان کی زبان میں دہلی کے روزمرہ کے الفاظ اور محاورے پڑھنے والوں کے لیے خاص لطف پیدا کرتے ہیں۔

مرقع نگاری اور منظر کشی میں انہیں خاص مہارت حاصل تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی باتیں بیان کر دیتے تھے۔

ان کی مشہور کتابوں میں سی پارہء دل، کانا باتی، چٹکیاں اور گدگدیاں، بہادر شاہ کا روزنامچہ، بیگمات کے آنسو، غدر کے صبح و شام، آپ بیتی اور روزنامچہ حسن نظامی شامل ہیں۔ زیرِ نظر انشائیہ “مچھر” ان کے انداز تحریر کی بہترین نمائندگی کرتا ہے۔

خواجہ حسن نظامی نے اپنے منفرد اور دلکش انداز میں مچھر کی اہمیت، طاقت اور انسان کے ساتھ اس کے تعلق کو نہایت دلچسپ اور طنزیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ انشائیہ مچھر کی روزمرہ زندگی اور انسان کے رویے کو بیان کرتے ہوئے ایک ایسے چھوٹے سے وجود کی بڑائی دکھاتا ہے، جسے عام طور پر بے وقعت سمجھا جاتا ہے۔

مصنف مچھر کو ایک ناپسندیدہ لیکن ناقابلِ شکست مخلوق کے طور پر بیان کرتے ہیں جو رات کو انسان کی نیند خراب کرتا ہے اور سب کو ستاتا ہے، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا۔ مچھر نہ صرف انسان بلکہ اس کے پالتو جانوروں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ دشمن کے دوست بھی دشمن ہی سمجھے جاتے ہیں۔

انسان مچھر کو ختم کرنے کے لیے بے شمار طریقے آزماتا ہے، جیسے مختلف ادویات، مہمیں، اور حربے، لیکن مچھر ہر بار انسان کو مات دیتا ہے۔ انسان کا الزام ہے کہ مچھر بزدل ہے، کیونکہ وہ رات کے وقت حملہ کرتا ہے اور سوتے ہوئے انسان کو تنگ کرتا ہے۔ مچھر اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ حملے سے پہلے خبردار کرتا ہے اور کان میں جا کر اپنی موجودگی کا اعلان کرتا ہے۔

مچھر اپنے تاریخی کارناموں کا حوالہ بھی دیتا ہے، جیسے نمرود کی شکست، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اس کی طاقت کو کم نہ سمجھا جائے۔ مچھر خود کو ایک ناصح اور مصلح کے طور پر پیش کرتا ہے، جو رات کے وقت انسان کو غفلت سے جگا کر خدا کی یاد دلانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ صوفیاء کے طرزِ زندگی کو مثالی قرار دیتا ہے، جو مچھر کے وجود کو ایک روحانی درس کے طور پر دیکھتے ہیں۔

مصنف نے مچھر کے ذریعے نہ صرف انسان کے رویوں پر طنز کیا ہے بلکہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ہر مخلوق کی اپنی اہمیت ہے، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔ مچھر کی زبان میں انسان کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ اگر وہ انصاف اور رحم کا مظاہرہ کرے، تو مچھر بھی سکون کے ساتھ جینے کا موقع دے سکتا ہے۔ ورنہ، مچھر اپنی فطرت کے مطابق انسان کی زندگی میں کھلبلی مچاتا رہے گا۔

خواجہ حسن نظامی نے اپنے اسلوب میں مزاح، طنز، اور حقیقت نگاری کو اس خوبصورتی سے پرویا ہے کہ یہ انشائیہ ایک طرف قاری کو مسکرانے پر مجبور کرتا ہے اور دوسری طرف سوچنے پر اُبھارتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک چھوٹی سی مخلوق کے کردار کو اجاگر کرتا ہے بلکہ انسان کے رویے اور اس کی غفلت پر ایک گہری تنقید بھی ہے۔

مضمون نگار نے مچھر کا حلیہ نہایت مزاحیہ اور طنزیہ انداز میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے مچھر کی شکل کو “کالا بھتنا” کہا ہے اور اس کے لمبے اور غیر متناسب پاؤں کا ذکر کیا ہے۔ مچھر کے چہرے کو “بے ڈول” یعنی بے ترتیب قرار دیا، جس سے یہ تاثر دیا کہ وہ نہایت غیر دلکش ہے۔ مصنف کے نزدیک مچھر کی ظاہری حالت کمزوری اور بدصورتی کی علامت ہے، لیکن ساتھ ہی وہ مچھر کی جرأت اور حوصلے کو نمایاں کرتے ہیں۔ مضمون میں مچھر کی معمولی جسمانی ساخت اور انسان جیسے بڑے اور طاقتور مخلوق کے ساتھ اس کی جنگ کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہ طنزیہ انداز ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ مخلوق چاہے کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، اس کی اہمیت اور طاقت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔

سبق میں مچھر کی زندگی اور انسان کے ساتھ اس کے تعلق کے ذریعے کئی نصیحتیں کی گئی ہیں، جو درج ذیل ہیں:

مچھر کی معمولی حیثیت کے باوجود اس کی موجودگی انسان کے لیے سبق آموز ہے۔ مصنف یہ بتاتے ہیں کہ ہر جاندار اپنی اہمیت رکھتا ہے اور ہمیں کسی بھی مخلوق کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔

مچھر کا رات کو انسان کے کان میں بھنبھنانا دراصل اس بات کا پیغام ہے کہ انسان کو خدا کی یاد کے لیے بیدار رہنا چاہیے۔ یہ نصیحت کی گئی ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔

مچھر کے ستانے کے باوجود انسان کو یہ برداشت کرنے اور معاف کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ یہ سبق دیا گیا ہے کہ زندگی کے چھوٹے مسائل یا تکالیف پر مشتعل ہونے کے بجائے صبر کرنا چاہیے۔

مچھر کا وجود انسان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ اپنی بڑی جسامت اور طاقت کے باوجود اس چھوٹے سے جاندار پر قابو نہیں پا سکتا۔ یہ نصیحت دی گئی ہے کہ انسان کو اپنی خامیوں پر غور کرنا چاہیے اور غرور سے بچنا چاہیے۔

مچھر انسان کو یہ نصیحت کرتا ہے کہ زندگی میں شفافیت اور ہمت سے کام لیں۔ وہ کہتا ہے کہ وہ اپنے حملے سے پہلے خبردار کرتا ہے، اس لیے انسان کو بھی اپنے اعمال میں انصاف اور ہمت کو اپنانا چاہیے۔

مصنف نے مچھروں کے اس عمل کو شوخیانہ ریمارک کہا ہے کہ وہ انسان کے خلاف لکھے گئے مضامین پر بیٹھ کر اپنا ردعمل دیتے ہیں۔ مچھر ڈاکٹر کی میز پر رکھے اخبار (پانیر) پر آ کر انسان کے خون کی بوندیں گرا دیتا ہے، جو وہ انسان سے چوس کر لایا ہوتا ہے۔ یہ عمل گویا ایک طنزیہ جواب ہے، جیسے مچھر انسان کو یہ بتا رہا ہو کہ تم جتنے مرضی منصوبے بنالو، تم مجھے ختم نہیں کرسکتے۔
مصنف نے اسے شوخیانہ ریمارک اس لیے کہا کیونکہ یہ عمل مچھر کی طرف سے انسان کی بے بسی اور ناکامی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ یہ مزاحیہ انداز میں یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان اپنی بڑی عقل اور منصوبہ بندی کے باوجود مچھر جیسے چھوٹے جاندار سے ہار جاتا ہے۔

اس جملے میں مصنف نے مچھر کے رویے کو بیان کرنے کے ساتھ انسان کو ایک اہم سبق دیا ہے۔ مچھر انسان کے پالتو جانوروں کو بھی اپنا دشمن سمجھتا ہے، کیونکہ وہ جانور انسان کے قریب رہتے ہیں اور اس کے ساتھ وفاداری کرتے ہیں۔ مصنف کے مطابق مچھر یہ سمجھتا ہے کہ دشمن کے دوست بھی اس کے خلاف سازش کا حصہ ہیں، اس لیے وہ ان جانوروں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔

یہ جملہ ایک گہری حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔ مصنف ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دشمنی ایک ایسا جذباتی رویہ ہے جو ہمیں انصاف اور غیر جانبداری سے دور کر دیتا ہے۔ جب ہم کسی کو دشمن سمجھ لیتے ہیں، تو ہم اس کے قریب رہنے والوں کو بھی بلا وجہ دشمن تصور کرنے لگتے ہیں۔
یہ جملہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دشمنی اور مخالفت میں ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے اور کسی کے قریب رہنے والوں یا اس کے دوستوں کے ساتھ غیر ضروری بغض نہیں رکھنا چاہیے۔ اس میں انسان کو یہ بھی نصیحت کی گئی ہے کہ جذباتی فیصلے لینے سے پہلے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور دوسروں کے بارے میں بے جا تعصب نہ رکھیں۔
مصنف نے مچھر کے کردار کو انسان کے رویے کا آئینہ بنا کر پیش کیا ہے تاکہ ہم اپنی غلطیوں پر غور کریں اور اپنے رویے کو بہتر بنائیں۔

Scroll to Top