Gulistan e Adab Chapter 8 tanzo mazah ghalib jadid shora ki ek majlis me طنز و مزاح غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں Solutions

طنز و مزاح ادب کی کوئی خاص صنف نہیں ہے بلکہ یہ اظہار کا ایک انداز یا اسلوب ہے۔ اردو ادب میں طنز و مزاح کو اکثر ایک ہی سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ دونوں الگ الگ ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ زیادہ تر اردو لکھنے والوں نے طنز و مزاح کو ملا کر پیش کیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ ان دونوں کو ایک ہی سمجھنے لگے ہیں۔

اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت کافی پرانی ہے۔ جعفر زٹلی کو اردو طنز و مزاح کا پہلا شاعر کہا جاتا ہے۔ وہ سترھویں صدی کے ایک باغی شاعر تھے، اور ان کے مزاح میں پھکڑ پن (یعنی ہلکی پھلکی مزاحیہ باتیں) نمایاں ہے۔ اٹھارہویں صدی میں میرؔ اور سوداؔ کے ہاں بھی طنزیہ اور مزاحیہ انداز پایا جاتا ہے۔ اردو ادب میں طنز و مزاح کی بہترین مثالیں پہلے سودا کے کلام میں اور بعد میں غالب کی تحریروں میں نظر آتی ہیں۔

انیسویں صدی میں طنز و مزاح کو سب سے زیادہ ترقی منشی سجاد حسین کے اخبار “اودھ پنچ” نے دی۔ اس اخبار کے ذریعے سیاسی اور معاشرتی طنز کو نمایاں طور پر فروغ ملا۔ شاعری میں طنز و مزاح کے حوالے سے اکبر الہ آبادی کا نام سب سے بڑا سمجھا جاتا ہے، جبکہ نثر میں منشی سجاد حسین اور پنڈت رتن ناتھ سرشار کی تحریریں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔

بیسویں صدی میں طنز و مزاح کو نثر میں ترقی دینے والوں میں فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، مرزا عظیم بیگ چغتائی، پطرس بخاری، شوکت تھانوی، ملا رموزی، کنھیا لال کپور، ابن انشا، شفیق الرحمن، فکر تونسوی، مشفق خواجہ، یوسف ناظم، کرنل محمد خاں، اور مجتبی حسین جیسے مشہور نام شامل ہیں۔

موجودہ دور میں اردو طنز و مزاح کے سب سے بڑے لکھنے والے مشتاق احمد یوسفی ہیں۔ ان کی تحریریں طنز و مزاح کی ایک اعلیٰ مثال ہیں اور انہیں اس صنف کے بہترین نمائندوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

کنھیا لال کپور 1910 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہیں پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور انگریزی کے استاد مقرر ہو گئے۔ ملک کی تقسیم کے بعد وہ ہندوستان آ گئے اور گورنمنٹ کالج، موگا (پنجاب) میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ یہیں 1980 میں ان کا انتقال ہوا۔ کنھیا لال کپور ملک کی تقسیم سے پہلے ہی مشہور ہو چکے تھے۔

انھوں نے اپنے مضامین میں خاص انداز کی نثر اور شاعری کے ذریعے انسانی رویوں کو طنز کا نشانہ بنایا۔ انہیں پیروڈی لکھنے میں خاص مہارت حاصل تھی۔ ان کا اصل میدان طنز و مزاح تھا، اور ان کی تحریریں اسی وجہ سے خاص پہچان رکھتی ہیں۔

ان کی مشہور کتابوں میں دو نوک نشتر، بال و پر، نرم گرم، گردِ کارواں، نازک خیالیاں، نئے شگوفے، سنگ و خشت، چنگ و رباب، شیشہ و تیشہاورکامریڈ شیخ چلی شامل ہیں۔

کنھیا لال کپور نے سماجی ناہمواریوں کو بہت موثر انداز میں پیش کیا۔ ان کی تحریروں میں ایک احتجاجی پہلو بھی نظر آتا ہے۔ وہ طنز کرنے میں کسی بھی رورعایت کے قائل نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں جرات اور بے باکی ان کی خاص پہچان ہے۔

ان کے کئی انشائیے بہت مشہور ہوئے، جن میں برج بانو، گھر یاد آتا ہے، زندہ باد، اردو افسانہ نویسی کے چند نمونے، مقبولِ عام فلمی سین، چار ملنگوں کی داستان، چوپٹ راجا سبز باغاورجانشین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

اس کتاب میں شامل کنھیا لال کپور کا مضمون جدید شاعری، خاص طور پر آزاد شاعری، پر ہلکے پھلکے طنز کا اظہار ہے۔ انہوں نے غالب کے ذریعے اپنے دور کے مشہور شاعروں کی شاعری کے مزاحیہ پہلوؤں کو اجاگر کیا، جو قارئین کے لیے بہت دلچسپی کا سامان فراہم کرتا ہے۔

یہ کہانی اردو کے عظیم شاعر مرزا غالبؔ اور جدید شعرا کے درمیان ایک خیالی مکالمہ ہے۔ مجلس میں کئی جدید شعرا موجود ہیں، جیسے م ن ارشد، ڈاکٹر قربان حسین خالص، ہیرا جی، راجہ مہر علی خاں، پروفیسر غیظ احمد غیظ، بکرماجیت ورما، اور عبدالحی نگاہ۔ غالبؔ کو جنت سے خصوصی دعوت دی گئی ہے تاکہ وہ جدید شاعری کو سن سکیں اور اس کے بارے میں اپنی رائے دیں۔

غالبؔ جب مجلس میں آتے ہیں تو تمام شعرا ان کا استقبال کرتے ہیں۔ غالبؔ مجلس میں شرکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنت میں جا کر انہوں نے کوئی نیا شعر نہیں کہا۔ ایک شاعر غالبؔ کے مشہور شعر “خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو” پر طنز کرتا ہے کہ خط لکھنے کا فائدہ کیا جب مطلب ہی نہ ہو۔

غالبؔ اپنی ایک غزل سناتے ہیں، لیکن جدید شعرا اس پر عجیب تبصرے کرتے ہیں اور شعر میں “تبدیلی” تجویز کرتے ہیں۔ غالبؔ حیرانی سے ان کے خیالات سنتے ہیں، لیکن اکثر طنز کرتے ہیں کہ یہ اشعار بے معنی ہیں۔

جدید شعرا نے اپنی تخلیقات پیش کیں، جو قدیم شاعری سے بالکل مختلف ہیں۔ م ن ارشد کی نظم “بدلہ” اور ڈاکٹر خالص کی نظم “عشق” میں قافیہ اور ردیف کے بغیر شاعری کے نئے انداز کو پیش کیا گیا۔ غالبؔ کو یہ سب سمجھ نہیں آتا اور وہ ان نظموں کو بے ربط اور عجیب قرار دیتے ہیں۔

راجہ مہر علی خاں کی نظم “ڈاک خانہ” اور بکرماجیت ورما کے گیت “بول کبوتر بول” نے غالبؔ کو مزید پریشان کیا۔ گیتوں کو سن کر غالبؔ حیرت سے کہتے ہیں کہ ان کے زمانے میں گیت صرف عورتیں یا میراثی گاتے تھے، لیکن اب شعرا بھی گیت لکھ رہے ہیں۔

جدید شاعری کے موضوعات، انداز اور خیالات غالبؔ کے لیے اجنبی اور ناقابل فہم ہیں۔ جب شعرا “بول کبوتر بول” گیت کے دوران زور زور سے شور مچاتے ہیں، تو غالبؔ برداشت نہیں کر پاتے اور گھبرا کر مجلس سے نکل جاتے ہیں۔

یہ کہانی قدیم اور جدید شاعری کے فرق کو ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے انداز میں بیان کرتی ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہر دور کا ادب اپنے وقت کے مسائل اور خیالات کا عکاس ہوتا ہے، لیکن قدیم اور جدید کے درمیان یہ اختلاف اکثر نااتفاقی اور طنز کا باعث بنتا ہے۔ کنھیا لال کپور نے اس کہانی میں طنز کے ذریعے یہ واضح کیا ہے کہ ادب وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے، لیکن ہر دور کے ادب کا اپنا مقام ہوتا ہے۔

مرزا غالبؔ نے محفل میں اپنا مشہور اور کلاسیکی انداز کا شعر سنایا

یہ شعر غالبؔ کے مخصوص رومانوی مزاج کا آئینہ دار تھا، جس میں ان کا عشق، جذبات اور شاعری کا ایک منفرد رنگ جھلکتا ہے۔ شعر سننے کے بعد ایک جدید شاعر نے طنزیہ انداز میں کہا

یہ تبصرہ دراصل جدید شعرا کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، جو شاعری میں حقیقت پسندی اور عملیت کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک شاعری کا مقصد صرف خیالی اور رومانوی جذبات کی ترجمانی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا کوئی ٹھوس مقصد ہونا چاہیے۔

مرزا غالبؔ نے اس طنز کو سن کر مسکراتے ہوئے کہا

یہ مکالمہ پرانے اور نئے شعری رجحانات کے فرق کو نمایاں کرتا ہے، جہاں غالبؔ کی شاعری جذبات اور تخیل پر مبنی تھی، جبکہ جدید شعرا حقیقت اور مقصدیت کو ترجیح دیتے تھے۔

م ن ارشد نے محفل میں اپنی نظم “بدلہ” پیش کی، جو جدید شاعری کی نمائندہ نظم تھی۔ یہ نظم مکمل طور پر آزاد انداز میں لکھی گئی تھی، اور اس میں نہ قافیہ تھا، نہ ردیف، اور نہ ہی کوئی مخصوص عروضی ساخت۔ نظم کے موضوع میں زندگی کے تلخ حقائق کو پیش کیا گیا تھا، اور یہ جذباتی اور روایتی شاعری سے مختلف تھی۔

جب نظم مکمل ہوئی تو ہیرا جی، جو روایتی شاعری کے دلدادہ تھے، طنزیہ لہجے میں بولے
!یہ نظم تو ایسی لگتی ہے جیسے کسی نیم پاگل شخص نے اپنی رات کی نیند خراب کر کے لکھی ہو”

یہ تبصرہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ روایتی شعرا جدید شاعری کے غیر روایتی انداز کو نہ سمجھ سکتے تھے اور نہ قبول کر سکتے تھے۔ ہیرا جی کے لیے شاعری وہی تھی جو قواعد و ضوابط کے تابع ہو اور جو سامعین کے جذبات کو براہِ راست متاثر کرے۔ جدید شاعری کے آزاد طرزِ بیان اور علامتی انداز کو وہ فضول اور بے معنی سمجھتے تھے۔

م ن ارشد نے اس تبصرے کے جواب میں کہا
“شاعری کا مقصد روایات کو دہرانا نہیں بلکہ حقیقت کو نئے انداز میں پیش کرنا ہے، چاہے وہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔”

یہ گفتگو روایتی اور جدید شعری نظریات کے درمیان واضح فرق کو ظاہر کرتی ہے۔

ڈاکٹر خالص نے جدید شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے اس کی چند اہم خصوصیات بیان کیں

جدید شاعری میں عروض، قافیہ، اور ردیف کی پابندیاں ختم ہو گئی ہیں۔ شاعر اپنے خیالات کو کسی بھی انداز میں بیان کر سکتا ہے۔

جدید شاعری صرف عشق و محبت تک محدود نہیں رہی بلکہ اس میں سیاسی، سماجی، نفسیاتی، اور فلسفیانہ موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔

شاعر اپنے ذاتی خیالات، تجربات، اور احساسات کو براہِ راست بیان کرتا ہے۔

جدید شاعری میں علامتوں اور استعاروں کا استعمال بڑھ گیا ہے، جو گہرائی اور مختلف تشریحات کا باعث بنتی ہیں۔

ڈاکٹر خالص نے اپنی نظم “عشق” بھی سنائی، جو جدید طرز کی شاعری کا بہترین نمونہ تھی۔ اس نظم میں روایتی عشق کی تعریف کے بجائے، محبت کو ایک جدوجہد اور انسان کی داخلی کشمکش کے طور پر پیش کیا گیا۔

غالبؔ نے اس نظم کو سن کر حیرت سے کہا


!عشق کو اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا کہ وہ خود اپنے معنی بھول جائے”

یہ گفتگو جدید شاعری کے نئے انداز اور روایتی شاعری کے جمالیاتی اصولوں کے درمیان تضاد کو نمایاں کرتی ہے۔

بکرماجیت ورما نے محفل میں ایک گیت “بول کبوتر بول” پیش کیا۔ یہ گیت نغماتی انداز میں تھا، جس میں لوک گیتوں کا رنگ جھلکتا تھا۔ اس گیت کی صنف گیت تھی، جو ہلکے پھلکے انداز میں جذبات اور خیالات کو موسیقی کے ساتھ بیان کرنے کے لیے مشہور ہے۔

گیت کے دوران، اس کی نغمگی اور روانی نے جدید سامعین کو متاثر کیا، مگر مرزا غالبؔ نے یہ سن کر کہا
“یہ شاعری نہیں، گانے والوں کا کام ہے۔ شعر وہی ہے جو بغیر موسیقی کے اپنی تاثیر قائم رکھ سکے۔”

غالبؔ کے زمانے میں گیت کو سنجیدہ ادب کی صنف نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک گیت صرف تفریح کے لیے تھے اور ان کا شاعری کی بلندیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

بکرماجیت ورما نے جواب دیا

یہی تو فرق ہے، غالب صاحب! آج کا دور شاعری کو عوام کے قریب لانے کا ہے، نہ کہ اسے کتابوں میں قید کرنے کا۔”

یہ تبادلہ خیالات اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ شاعری کی روایات اور اس کے استعمال میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی ہے، اور ہر دور کے شعرا اپنے انداز اور ضروریات کے مطابق شاعری کی نئی راہیں نکالتے ہیں۔

Scroll to Top