NCERT 10 Jaan Pahechan chapter 5 meer taqi meer میر تقی میرؔ Solutions

میر تقی میر آگرہ میں 1722 میں پیدا ہوئے۔ جب وہ چھوٹے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ کچھ وقت بعد وہ دلی آ گئے۔ دلی میں حالات خراب ہونے لگے تو میر روزگار کی تلاش میں لکھنؤ چلے گئے۔ اپنی باقی زندگی وہیں گزاری اور 1810 میں لکھنؤ میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ میر تقی میر اردو کے مشہور اور بڑے شاعر ہیں۔ انھیں اردو غزل کا امام کہا جاتا ہے۔ وہ سادہ اور عام زبان میں دل کو چھو لینے والی شاعری کرتے تھے۔ غزل کے علاوہ انہوں نے اور بھی کئی طرح کی شاعری کی، جیسے مثنویاں۔ ان کی مشہور مثنویاں ہیں: بہارِ عشق، شعلۂ عشق اور دریاۓ عشق۔

فارسی میں بھی انہوں نے لکھا۔ انہوں نے اردو شاعروں کے بارے میں ایک کتاب نکات الشعرا لکھی، اور اپنی زندگی کے بارے میں ذکرِ میر کے نام سے سوانح بھی لکھی۔ انہیں ادب کی دنیا میں خدائے سخن کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ انسان کی زندگی بلبلے (حباب) کی طرح نازک اور عارضی ہے۔ جیسے پانی کا بلبلا لمحوں میں بنتا ہے اور فوراً ٹوٹ جاتا ہے، ویسے ہی انسان کی زندگی بھی کچھ لمحوں کی ہے۔
دنیا کی چمک دمک، اس کی رونقیں اور دکھاوے ایک سراب یعنی دھوکہ ہیں، جو دور سے حقیقت لگتے ہیں مگر قریب جا کر کچھ بھی نہیں ہوتے۔ اس شعر میں دنیا کی ناپائیداری اور فریب کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔

اس شعر میں شاعر محبوب کے ہونٹوں کی خوبصورتی بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے ہونٹوں کی نازک نازک حرکت، ان کا ناز، ایسا ہے جیسے گلاب کی پتّی ہو نرم، نازک، خوشبو دار اور دلکش۔
یہ محبوب کی معصومیت اور جمال کا اعلٰی درجہ ہے جسے شاعر بیان کرنے سے قاصر ہے، اس لیے ایک حسین مثال کے ذریعے اس کو سمجھایا ہے۔

شاعر اپنی بے قراری کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ بار بار محبوب کے دروازے پر جا رہا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا دل بےچین ہے، اس کی حالت اضطراب بے کلی کی سی ہو گئی ہے۔
عاشق اپنی محبت میں بے بس ہو چکا ہے، اور اس کی ساری زندگی محبوب کے در پر حاضری دینے میں گزر رہی ہے۔ یہ عشق کی شدت اور جذباتی بےچینی کو ظاہر کرتا ہے۔

اس شعر میں شاعر ایک طنزیہ اور درد بھرا واقعہ بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب میں نے کچھ کہا، تو محبوب فوراً پہچان گیا کہ یہ آواز اُس بدحال عاشق (یعنی شاعر خود) کی ہے۔
خانہ خراب’ کا مطلب ہے تباہ حال، جس کی زندگی برباد ہو چکی ہو۔’
یہ شعر محبوب کی بے نیازی اور عاشق کی بےقدری کو دکھاتا ہے، کہ عاشق کی محبت کو صرف مذاق سمجھا جا رہا ہے۔

اس شعر میں شاعر محبوب کی آنکھوں کا ذکر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ محبوب کی نیم باز (آدھی کھلی) آنکھوں میں وہی کشش، وہی نشہ، اور وہی مستی ہے جو شراب میں ہوتی ہے۔
ان آنکھوں کی لذت اور دلکشی اتنی زیادہ ہے کہ دیکھنے والا ہوش کھو بیٹھے۔
یہ شعر عشق کی انتہا اور محبوب کے حسن کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

میر تقی میر اس غزل میں زندگی کی بے ثباتی، محبوب کے حسن اور عاشق کی بے قراری کو نہایت سادہ مگر پراثر الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کی ہستی (وجود) ایک بلبلے کی مانند ہے جو لمحوں میں ختم ہو سکتی ہے، اور دنیا کی چمک دمک ایک فریب ہے، جو حقیقت میں کچھ نہیں۔

محبوب کی خوبصورتی خاص طور پر اس کے ہونٹ اور آنکھوں کا ذکر کرتے ہوئے میر کہتے ہیں کہ ان میں اتنی نزاکت اور کشش ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ میر اپنی حالت بیان کرتے ہیں کہ وہ بار بار محبوب کے در پر جا رہا ہے، گویا کہ اس کا دل بےچین اور بےقرار ہے۔ مگر محبوب اس محبت کو اہمیت نہیں دیتا، بلکہ طنزیہ انداز میں کہتا ہے کہ یہ آواز تو اسی بدحال عاشق کی ہے۔ آخر میں میر کہتے ہیں کہ محبوب کی نیم باز آنکھوں میں وہی مستی ہے جو نشہ آور شراب میں ہوتی ہے، یعنی صرف آنکھیں دیکھ کر ہی انسان مدہوش ہو جائے۔

الف) دہلی
ب) لکھنؤ
ج) آگرہ
د) لاہور

الف) امامِ سخن
ب) بادشاہِ غزل
ج) شہنشاہِ نظم
د) خدائے سخن

الف) دہلی
ب) لکھنؤ
ج) آگرہ
د) کلکتہ

الف) اردو
ب) فارسی
ج) ہندی
د) عربی

الف) بہارِ عشق
ب) شعلہ عشق
ج) دریائے عشق
د) آتشِ غزل

الف) پھول
ب) آئینہ
ج) بلبلا (حباب)
د) شمع

الف) عکس
ب) دھوکہ
ج) پانی
د) خواب

الف) آنکھ
ب) ہونٹ
ج) ہاتھ
د) رخسار

الف) مسجد
ب) بازار
ج) محبوب کے در پر
د) قبرستان

الف) غصہ
ب) نیند
ج) نشہ
د) حیرت

میر تقی میر کے مطابق انسانی زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک حباب یعنی پانی کے بلبلے کی طرح ہے۔ بلبلہ بہت نازک ہوتا ہے اور لمحوں میں ختم ہو جاتا ہے، بالکل ویسے ہی انسان کی زندگی بھی عارضی اور ناپائیدار ہے۔
یہ دنیا اور اس کی چمک دمک صرف ایک دکھاوا (نمائش) ہے، جو دور سے سچی لگتی ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک سراب یعنی دھوکہ ہے۔

جب شاعر کو بے چینی (اضطراب)کا سامنا ہوتا ہے، تو وہ بار بار محبوب کے در پر جاتا ہے۔
اس کی حالت اس قدر بےقرار ہو گئی ہے کہ وہ خود پر قابو نہیں رکھ پاتا۔
دل میں محبت کا درد، جدائی کا دکھ، اور محبوب کی بے اعتنائی نے شاعر کو اندر سے توڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ بےچین اور پریشان رہتا ہے۔
یہ عشق کی شدت اور عاشق کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔

خانہ خراب’ کا مطلب ہوتا ہے تباہ حال، برباد یا بےسہارا شخص۔’
:غزل میں شاعر کہتا ہے

اس شعر میں محبوب طنزیہ انداز میں شاعر کو خانہ خراب کہتا ہے۔
یعنی محبوب نے شاعر کی آواز سن کر پہچان لیا کہ یہ اُسی تباہ حال عاشق کی آواز ہے، جو محبت کی وجہ سے اپنی عزت، سکون، اور زندگی سب کچھ کھو چکا ہے۔
یہ لفظ ایک طرف شاعر کی بےبسی کو ظاہر کرتا ہے، اور دوسری طرف محبوب کی بےرحمی کو بھی نمایاں کرتا ہے، جو عاشق کے حال پر ہمدردی کے بجائے تمسخر کر رہا ہے۔

Scroll to Top