NCERT 10 Jaan Pahechan chapter 7 zabano ka ghar hindustan زبانوں کا گھر ہندوستان Solution

پروفیسر سید احتشام حسین کی پیدائش قصبہ ماہل، ضلع اعظم گڑھ (یوپی)میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اور آگے کی تعلیم کے لیے الہ آباد چلے گئے۔ بعد میں ان کا انتقال بھی الہ آباد میں ہوا۔ احتشام حسین اردو کے مشہور نقادوں (تنقید کرنے والوں) میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ ترقی پسند تحریک سے جڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے کئی اہم کتابیں لکھی ہیں، جیسے: تنقیدی جائزے، روایت اور بغاوت، ادب اور سماج، ذوقِ ادب اور شعور، افکار و مسائل، اور اعتبارِ نظر۔ انہوں نے امریکہ اور یورپ کا ایک سفرنامہ بھی لکھا۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے ایک خاص کتاب اردو کی کہانی لکھی، جس میں اردو زبان اور ادب کی تاریخ کو مختصر، آسان اور دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ سبق اسی کتاب اردو کی کہانی سے لیا گیا ہے۔

یہ سبق ہندوستان کی مختلف زبانوں، قوموں اور ان کے میل جول کی دلچسپ کہانی بیان کرتا ہے۔ ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے جہاں پہاڑ، ندیاں، ریگستان، زرخیز زمینیں اور بنجر زمینیں سب کچھ موجود ہیں۔ یہاں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں—کالے، گورے، لمبے، چھوٹے، دیہاتی، شہری، سب الگ الگ طریقے سے زندگی گزارتے ہیں اور بہت سی زبانیں اور بولیاں بولتے ہیں۔ پانچ ہزار سال پہلے کے لوگ درختوں کے پھل اور جڑیں کھا کر یا شکار کرکے زندگی گزارتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ ہندوستان بھی آئے اور یہاں بس گئے۔ جیسے کول اور منڈا قبیلے، جو آج بھی مشرقی ہندوستان میں رہتے ہیں اور اپنی بولیاں بولتے ہیں۔

ان کے بعد دراوڑی قوم مغرب سے آ کر ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں آباد ہوئی۔ آج بھی مدراس، میسور، آندھرا پردیش اور کیرل میں ان کی نسل کے لوگ بستے ہیں۔ ان کی زبانیں تمل اور تیلگو وغیرہ ہیں۔ پھر تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے آریہ قوم ایران اور ترکستان کی طرف سے آئی۔ یہ لوگ طاقتور، خوبصورت اور سمجھدار تھے۔ انھوں نے شمالی ہندوستان میں راج قائم کیا اور سنسکرت زبان بولی، جو آریائی خاندان کی زبان ہے۔ اسی خاندان میں یونانی، جرمن اور فارسی جیسی زبانیں بھی شامل ہیں۔

وقت کے ساتھ عام لوگ سنسکرت سے دور ہوتے گئے اور مختلف بولیاں استعمال کرنے لگے، جنہیں پراکرت کہا گیا۔ الگ الگ علاقوں میں الگ الگ پراکرتیں بولی جاتی تھیں۔ پھر سادھوؤں اور سنتوں نے عام لوگوں کو اپنی بات سمجھانے کے لیے انہی پراکرتوں میں بھجن اور گیت کہے۔ شمالی بھارت میں جو پراکرت بولی جاتی تھی، اسے شور سینی کہا جاتا تھا۔ اسی سے ہندی، اردو اور ہندوستانی زبانیں وجود میں آئیں۔ اس سبق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بنگالی، مراٹھی، گجراتی، پنجابی، سندھی، آسامی اور اُڑیا بھی نئی آریائی زبانیں ہیں۔ جب مسلمان ہندوستان آئے تو ان زبانوں کو اور بھی فروغ ملا۔

آخر میں، سبق ہمیں بتاتا ہے کہ اردو زبان ہندوستان میں ہی پیدا ہوئی، یہ باہر سے نہیں آئی۔ اس کی جڑیں ہندوستانی زمین میں ہیں، اور یہ ہندوستان ہی کی زبان ہے، چاہے دنیا میں کہیں بھی بولی جائے۔ یہ سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ ہندوستان ایک زبانوں کا گھر ہے، جہاں فرق ہونے کے باوجود سب ایک ساتھ رہتے ہیں۔

الف) الہ آباد
ب) دہلی
ج) ماہل، اعظم گڑھ
د) لکھنؤ

الف) اصلاحی تحریک
ب) اسلامی تحریک
ج) ترقی پسند تحریک
د) تعلیمی تحریک

الف) رشید احمد صدیقی
ب) سید احتشام حسین
ج) آل احمد سرور
د) سرسید احمد خان

الف) پنجاب
ب) راجستھان
ج) بہار، بنگال، چھوٹا ناگپور
د) گجرات

الف) راجستھان، پنجاب
ب) کیرل، مدراس، آندھرا پردیش، میسور
ج) بہار، جھارکھنڈ
د) اڑیسہ، بنگال

الف) دو ہزار سال پہلے
ب) ایک ہزار سال پہلے
ج) ساڑھے تین ہزار سال پہلے
د) پانچ سو سال پہلے

الف) دراوڑی
ب) آریائی
ج) عربی
د) ایرانی

الف) فارسی
ب) ہندی
ج) پراکرت
د) اردو

الف) عربی اور فارسی
ب) ہندی، اردو، ہندوستانی
ج) بنگالی اور تامل
د) انگریزی اور جرمن

الف) ایران
ب) ترکی
ج) عرب
د) ہندوستان

ہندوستان ایک لمبا چوڑا، رنگا رنگ، اور متنوع (مختلف) ملک ہے۔ یہاں قدرتی مناظر کی ہر قسم موجود ہے — کہیں اونچے اونچے پہاڑ ہیں، کہیں گہری ندیاں بہتی ہیں، کہیں خشک اور سنسان ریگستان ہیں تو کہیں ایسی زرخیز زمینیں ہیں جو سونا اگلے، یعنی بہت کچھ پیدا ہو۔ بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں زمین بالکل بنجر ہے اور کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ ہندوستان کے لوگ بھی بہت مختلف ہیں۔ ان میں رنگ، نسل، شکل و صورت، بول چال اور رہن سہن کے لحاظ سے فرق پایا جاتا ہے۔ یہاں کچھ لوگ کالے رنگ کے ہیں، کچھ گورے، کچھ خوبصورت اور کچھ عام شکل و صورت والے، کوئی لمبا ہے تو کوئی پستہ قد، کوئی جنگلوں میں سادہ زندگی گزار رہا ہے تو کوئی بڑے شہروں میں ترقی یافتہ زندگی گزار رہا ہے۔

یہ ملک صرف قدرتی خوبصورتی یا رنگا رنگی کے لیے ہی مشہور نہیں بلکہ یہاں بہت سی زبانیں، بولیاں اور ثقافتیں بھی موجود ہیں۔ کچھ لوگ پانچ ہزار برس سے یہاں آباد ہیں، تو کچھ حالیہ صدیوں میں آ کر بسے ہیں۔ اس کے باوجود، سب مل جل کر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہی ہندوستان کی اصل پہچان ہے ۔

ہندوستان میں جو قدیم ترین لوگ آباد ہوئے، وہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں جنگلوں اور پہاڑوں میں رہتے تھے۔ یہ لوگ درختوں کے پھل، جڑیں اور جانوروں کا شکار کر کے اپنی زندگی گزارتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ آج بھی موجود ہیں، جن کی نسلیں کول اور منڈا قبیلوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ قبیلے آج بھی بہار، بنگال، چھوٹا ناگپور اور وندھیا چل کے پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ ان کی اپنی الگ زبانیں اور بولیاں ہیں، جو آج بھی محفوظ ہیں۔

ان قبائلی قوموں کی زندگی، زبان، لباس اور رہن سہن آج بھی باقی ہندوستان سے الگ نظر آتا ہے، لیکن ان کا حصہ ہندوستانی ثقافت کا اہم جزو ہے۔

دراوڑ وہ قوم تھی جو ہزاروں برس پہلے مغربی سمت سے آ کر ہندوستان میں آباد ہوئی۔ انہوں نے جنوبی ہندوستان کے علاقوں میں ترقی کی اور وہیں رہائش اختیار کی۔ آج یہ قوم مدراس (چنئی)، میسور، آندھرا پردیش اور کیرل میں زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہے۔

دراوڑ قوم نے جو زبانیں اپنائیں، وہ دراوڑی زبانیں کہلاتی ہیں۔ ان میں مشہور زبانیں یہ ہیں

یہ زبانیں اب بھی جنوبی ہندوستان کی اہم زبانیں ہیں اور کروڑوں لوگ انہیں بولتے ہیں۔

سنسکرت زبان آریائی زبانوں کی ایک اہم شاخ ہے۔ آریہ قوم جب تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے ایران اور ترکستان کی سمت سے ہندوستان آئی تو وہ ایک خاص زبان بولتی تھی، جسے ہم “آریائی زبان” کہتے ہیں۔

اسی زبان سے سنسکرت پیدا ہوئی۔ سنسکرت کو بعد میں ہندوؤں کی مذہبی، علمی اورادبی زبان کا درجہ ملا۔ اس زبان میں مذہبی کتابیں، نظموں اور ویدوں کی تخلیق ہوئی۔

آریائی زبانوں کے خاندان میں اور بھی زبانیں شامل ہیں، جیسے

ان زبانوں میں آج بھی الفاظ اور اندازِ بیان کی مشابہت پائی جاتی ہے، جس سے ان کے ایک ہی خاندان سے ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

آریائی زبانیں جب عام لوگوں تک پہنچیں تو ان کی آسان اور بول چال والی شکلیں بننے لگیں۔ ان آسان شکلوں کو پراکرتیں کہا جاتا ہے۔ مختلف علاقوں میں مختلف پراکرت زبانیں بولی جاتی تھیں۔ شمالی ہندوستان (اُتری بھارت) میں جو پراکرت بولی جاتی تھی، وہ شور سینی پراکرت کہلاتی ہے۔ اسی زبان سے آگے چل کر ہندوستانی، ہندی اور اردو جیسی زبانیں وجود میں آئیں۔

پراکرت وہ زبانیں تھیں جو سنسکرت سے آسان، عوامی اور بول چال کی زبانیں تھیں، اسی لیے سادھو، سنت، اور بھگتوں نے اپنے بھجن، گیت اور دینی پیغام پراکرت زبانوں میں ہی عوام تک پہنچائے۔

ہند آریائی زبانیں وہ زبانیں ہیں جو آریائی زبان کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کی بنیاد شور سینی یا دیگر پراکرت زبانوں میں ہے۔ یہ زبانیں آج کے ہندوستان، پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش میں بولی جاتی ہیں۔

اہم ہند آریائی زبانیں یہ ہیں

ان زبانوں نے نہ صرف ادب، شاعری، اور نثر میں ترقی کی، بلکہ روزمرہ زندگی کی زبان بھی بن گئیں۔

اردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی۔ یہ باہر سے آنے والی زبان نہیں تھی، بلکہ یہیں کی مختلف زبانوں، بولیوں اور تہذیبوں کے میل سے وجود میں آئی۔

اردو کی بنیاد شور سینی پراکرت میں ہے۔ جب مختلف قومیں، جیسے ہندو، مسلمان، فارسی، عرب، ترک اور مقامی لوگ آپس میں گھل مل گئے تو ایک نئی زبان وجود میں آئی، جسے ہم اردو کہتے ہیں۔

اردو کی زبان میں

یہ زبان 1000ء کے بعد فروغ پانے لگی، اور رفتہ رفتہ ادب، شاعری، تعلیم، سیاست، صحافت، اور مذہب میں استعمال ہونے لگی۔ اردو نے ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب کی نمائندگی کی۔ اردو جہاں بھی جائے، اس کی بنیاد ہندوستانی رہے گی، کیونکہ یہ زبان اسی سرزمین کی پیداوار ہے۔

اردو زبان برصغیر کی ایک اہم اور خوبصورت زبان ہے۔ اس کی پہچان صرف ایک زبان کے طور پر نہیں بلکہ ایک تہذیب، ایک روایت، اور ایک طرزِ زندگی کے طور پر بھی کی جاتی ہے۔ اردو نے مختلف قوموں، مذاہب اور علاقوں کے لوگوں کو آپس میں جوڑنے کا کام کیا ہے۔

اردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی۔ یہ باہر سے نہیں آئی، بلکہ ہندوستانی معاشرے، بازار، دربار اور فوج میں مختلف زبانوں کے میل سے بنی۔ شروع میں عربی، فارسی، ترکی اور مقامی بولیوں نے ایک نئی زبان کی بنیاد رکھی، جسے “ریختہ” بھی کہا جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ زبان پروان چڑھی اور “اردو” کہلانے لگی۔ اردو کی بنیاد شور سینی پراکرت زبان میں ہے جو شمالی ہندوستان میں بولی جاتی تھی۔ آریاؤں کی زبان سنسکرت کی کئی شاخیں تھیں، ان میں سے ایک شاخ سے اردو زبان نے جنم لیا۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد فارسی اور عربی کے الفاظ اردو میں شامل ہوئے اور اس نے ایک دلکش اور شیریں شکل اختیار کی۔

اردو زبان کو دربار، مدرسے، بازار، اور عوامی محفلوں میں فروغ ملا۔ مغل بادشاہوں، خاص طور پر شاہجہاں اور بہادر شاہ ظفر کے دربار میں اردو کو عزت ملی۔ بعد میں اودھ، دکن، دہلی اور لکھنؤ اردو کے بڑے مراکز بنے۔ اردو شاعری نے بھی زبان کی خوبصورتی میں اضافہ کیا۔

اردو ادب کا دامن بہت وسیع ہے۔ اس میں شاعری، افسانے، ناول، ڈرامے، سوانح عمریاں، سفرنامے اور مذہبی نثر سب شامل ہیں۔ میر تقی میر، غالب، اقبال، سرسید احمد خان، مولانا حالی، پریم چند، سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض، فراق گورکھپوری اور بہت سے ادیب و شاعر اردو ادب کے روشن ستارے ہیں۔

اردو ایک نرم، میٹھی اور باادب زبان ہے۔ اس میں اخلاق، تہذیب، محبت، وفا، دکھ، سچائی اور حسنِ بیان کے تمام رنگ موجود ہیں۔ اردو کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ہر طبقے کے انسان کی زبان ہے۔ چاہے وہ امیر ہو یا غریب، عالم ہو یا عامی، سب اردو کو سمجھ سکتے ہیں۔

آج اردو صرف ہندوستان ہی نہیں، بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، افغانستان، خلیجی ممالک، یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ دنیا میں اردو بولنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ہندوستان میں یہ چھٹی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے اور کئی ریاستوں میں یہ دوسری سرکاری زبان ہے۔

اردو زبان ہماری تہذیب، ثقافت، ادب اور تاریخ کا قیمتی سرمایہ ہے۔ یہ محبت، اخوت، اتحاد اور خوبصورتی کی زبان ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اردو کو نہ صرف بولیں بلکہ اسے پڑھیں، لکھیں، سیکھیں اور اپنی نسلوں کو بھی اس کی اہمیت سے آگاہ کریں تاکہ اردو ہمیشہ زندہ اور روشن رہے۔

Scroll to Top