میر انیس (1802-1874)
میر انیس فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میر ببر علی تھا۔ ان کے والد میر خلیق بھی مشہور مرثیہ گو تھے۔ مرثیہ گوئی کی تاریخ میں میر انیس کا بڑا مقام ہے۔ ان کے مرثیوں کی خاص بات بیان کی صاف اور آسان زبان، روانی، اور جذبات کی خوبصورتی ہے۔ قدرتی مناظر کی عکاسی اور ڈرامائی انداز پیدا کرنے میں بھی وہ ماہر تھے۔ مرثیوں کے علاوہ انہوں نے رباعیاں، نوحے اور سلام بھی لکھے، لیکن اردو شاعری میں وہ خاص طور پر اپنے مرثیوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔
رباعیات کی تشریح
پہلی رباعی
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
اس شعر میں میر انیس انسانی کردار کا ایک اہم پہلو بیان کرتے ہیں۔ شاعر کے نزدیک، جو مرتبہ اور عزت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے، وہ انسان کے لیے ایک آزمائش بھی ہوتی ہے۔ اگر یہ مرتبہ واقعی اللہ کی عطا ہو تو وہ انسان کو مزید عاجز اور منکسر المزاج بنا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک سچا عالم یا نیک شخص جب شہرت اور عزت حاصل کرتا ہے، تو اس کے دل میں شکر اور انکساری بڑھتی ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سب اس کی اپنی محنت سے نہیں بلکہ اللہ کے فضل سے ہے۔ اس طرح اصل عظمت یہ ہے کہ انسان بلند مقام پر پہنچ کر بھی اپنے اخلاق میں نرمی اور عاجزی برقرار رکھے۔
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے
اس شعر میں شاعر ایک بڑی حقیقت کو مثال کے ذریعے واضح کرتا ہے۔ جیسے خالی برتن کو اگر ہلایا جائے تو اس سے زیادہ آواز آتی ہے، اسی طرح کم عقل اور کم علم لوگ اپنی تعریفیں خود کرتے پھرتے ہیں۔ وہ اپنی خامیوں کو چھپانے کے لیے اپنی بڑائی بیان کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں وہ علم، اخلاق اور کردار میں خالی ہوتے ہیں۔ یہاں شاعر نے بڑے خوبصورت انداز میں بتایا کہ حقیقی اہلِ علم اور صاحبِ ظرف لوگ خاموش اور متواضع رہتے ہیں، جبکہ کم ظرف لوگ شور مچاتے ہیں۔
دوسری رباعی
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
اس شعر میں شاعر دنیا کی ناپائیداری کو بیان کر رہا ہے۔ دنیا کو وہ ایک ایسی مسافر خانہ قرار دیتا ہے جہاں لوگ آتے ہیں، کچھ دیر رہتے ہیں، اور پھر چلے جاتے ہیں۔ دنیا کی ہر چیز عارضی ہے: خوشی، غم، دولت، صحت — سب کچھ بدلتا رہتا ہے۔ شاعر کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو دنیا کی حقیقت سمجھنی چاہیے اور اس میں ہمیشہ رہنے کا لالچ نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ منظر ایک قافلے کی طرح ہے جو کسی سرائے پر رات گزار کر اگلے دن روانہ ہو جاتا ہے۔
جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
یہ شعر زندگی کے دو اہم ادوار کا نقشہ کھینچتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ بڑھاپا ایسا مہمان ہے جو ایک بار آ جائے تو واپس نہیں جاتا۔ انسان کی توانائی، تیزی اور جوانی کا جوش آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ بڑھاپا لے لیتا ہے۔ دوسری طرف، جوانی ایک ایسا وقت ہے جو ایک بار گزر جائے تو کبھی واپس نہیں آتا۔ اس میں انسان کے پاس صحت، طاقت اور خوابوں کی دنیا ہوتی ہے، مگر وہ لمحے تیزی سے بیت جاتے ہیں۔ یہ شعر ہمیں وقت کی قدر کرنے اور زندگی کے ہر دور کو سمجھ داری سے گزارنے کا پیغام دیتا ہے۔
رباعیات کا خلاصہ
پہلی رباعی میں میر انیس نے انسانی کردار کی اصل خوبصورتی بیان کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ مرتبہ اور عزت جو اللہ کی طرف سے ملتی ہے، انسان کو غرور میں مبتلا نہیں کرتی بلکہ اس کے دل میں عاجزی اور انکساری پیدا کرتی ہے۔ یہ عزت دراصل شکر گزاری کا باعث بنتی ہے اور انسان کو مزید نیک بناتی ہے۔ اس کے برعکس، کم عقل اور کم ظرف لوگ اپنی بڑائی خود بیان کرتے ہیں۔ وہ خالی برتن کی مانند ہوتے ہیں جو بجنے پر زیادہ آواز کرتا ہے، مگر حقیقت میں اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ اس رباعی کا پیغام یہ ہے کہ اصل عظمت اور شان خاموش خدمت، اخلاق اور عاجزی میں ہے، نہ کہ شور مچانے میں۔
دوسری رباعی میں میر انیس دنیا کی حقیقت اور وقت کی اہمیت کو نہایت سادہ مگر گہری مثالوں سے واضح کرتے ہیں۔ وہ دنیا کو ایک ایسی فانی سرائے قرار دیتے ہیں جہاں سب کچھ عارضی ہے، سب چیزیں آنے اور جانے والی ہیں۔ پھر وہ زندگی کے دو اہم ادوار کی حقیقت بیان کرتے ہیں: بڑھاپا ایک ایسا دور ہے جو آ جائے تو کبھی واپس نہیں جاتا، اور جوانی ایک ایسی دولت ہے جو ایک بار چلی جائے تو دوبارہ نہیں ملتی۔ یہ اشعار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ وقت کو ضائع نہ کریں اور اپنی جوانی کو اچھے اعمال اور نیک مقصد کے لیے استعمال کریں، کیونکہ ایک دن بڑھاپا آنا لازمی ہے۔
یوں دونوں رباعیاں مل کر انسان کو عاجزی، دنیا کی ناپائیداری، اور وقت کی قدر کا سبق دیتی ہیں۔ میر انیس کے یہ اشعار سادہ الفاظ میں گہری حکمت رکھتے ہیں اور پڑھنے والے کے دل پر اثر چھوڑتے ہیں۔
معروضی سوالات
سوال 1 ۔ میر انیس کا اصل نام کیا تھا؟
الف) میر خلیق
ب) میر ببر علی
ج) میر حسن
د) میر غلام علی
جواب ۔ ب) میر ببر علی
سوال 2 ۔ میر انیس کہاں پیدا ہوئے تھے؟
الف) لکھنؤ
ب) دہلی
ج) فیض آباد
د) آگرہ
جواب ۔ ج) فیض آباد
سوال 3 ۔ میر انیس کے والد کا نام کیا تھا؟
الف) میر حسن
ب) میر خلیق
ج) میر تقی میر
د) میر غلام علی
جواب۔ ب) میر خلیق
سوال 4 ۔ میر انیس کس صنفِ شاعری میں سب سے زیادہ مشہور ہیں؟
الف) غزل
ب) مرثیہ
ج) قصیدہ
د) مثنوی
جواب ۔ ب) مرثیہ
سوال 5 ۔ میر انیس کی شاعری میں کس چیز کو خاص اہمیت حاصل ہے؟
الف) محاورہ
ب) بیان کی صفائی، سلاست اور جذبات نگاری
ج) طنز و مزاح
د) مذہبی مناظرے
جواب ۔ ب) بیان کی صفائی، سلاست اور جذبات نگاری
سوال 6 ۔ میر انیس نے مرثیوں کے علاوہ اور کیا لکھا؟
الف) غزل اور قصیدہ
ب) نوحے، رباعیاں اور سلام
ج) خط اور مضمون
د) افسانے اور ناول
جواب ۔ ب) نوحے، رباعیاں اور سلام
سوال 7 ۔ “رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے” اس مصرعے میں شاعر نے کس صفت کا ذکر کیا ہے؟
الف) غرور
ب) عاجزی
ج) حسد
د) شجاعت
جواب ۔ ب) عاجزی
سوال 8 ۔ جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے” میں شاعر نے کس چیز سے تشبیہ دی ہے؟
الف) بھرے ہوئے برتن سے
ب) خالی برتن سے
ج) پہاڑ سے
د) درخت سے
جواب ۔ ب) خالی برتن سے
سوال 9 ۔ “جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا” کا مطلب کیا ہے؟
الف) بڑھاپا آتا ہے اور چلا جاتا ہے
ب) بڑھاپا آ کر ہمیشہ رہتا ہے
ج) بڑھاپا کبھی نہیں آتا
د) بڑھاپا جوانی میں بدل جاتا ہے
جواب ۔ ب) بڑھاپا آ کر ہمیشہ رہتا ہے
سوال 10 ۔ “جو جا کے نہ آئے وہ جوانی” کا مطلب کیا ہے؟
الف) جوانی دوبارہ واپس آتی ہے
ب) جوانی ختم ہو کر بڑھاپا آتا ہے
ج) جوانی ہمیشہ رہتی ہے
د) جوانی بڑھاپے میں بدلتی ہے لیکن واپس آتی ہے
جواب ۔ ب) جوانی ختم ہو کر بڑھاپا آتا ہے
سوال و جواب
سوال 1 ۔ دل میں فروتنی کو جگہ کون دیتا ہے؟
جواب ۔
شاعر کے الفاظ ہیں: “رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے / وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے”۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جو اصل مرتبہ یا عزت انسان کو اللہ کی طرف سے ملتی ہے، وہ اس کے دل میں انکساری اور عاجزی پیدا کرتی ہے۔ جب انسان سمجھ جائے کہ اس کی کامیابی، مقام یا عزت اس کی اپنی محنت کے علاوہ کسی اعلیٰ مشیت یا نصیب کا نتیجہ بھی ہے تو وہ خود کو بڑائی کا حقدار نہیں سمجھتا بلکہ شکر گزار اور نرم خو بن جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ حقیقی بلند مرتبہ انسان کو غرور نہیں بلکہ ادب و عاجزی سکھاتا ہے۔
سوال 2 ۔ اپنی ثنا آپ کون کرتا ہے؟
جواب ۔
شاعر کہتا ہے: “کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی“ یعنی یہ کہ جو لوگ اندر سے کمزور یا خالی دل و دماغ ہوتے ہیں، وہ خود اپنی تعریف کرتے پھرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی کمی کو چھپانے کے لیے یا لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خود تعریف کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ علم، اخلاق یا ہنر میں پختہ ہوتے ہیں، وہ خاموش رہ کر اپنے کام اور کردار سے لوگو ں کو متاثر کرتے ہیں؛ انہیں خود سے بڑائی کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔
سوال 3 ۔ خالی ظرف کے صدا دینے سے کیا مراد ہے؟
جواب ۔
یہ ایک تشبیہ ہے خالی برتن جب ہلایا جاتا ہے تو اس کی آواز زیادہ آتی ہے۔ شاعر اس کو انسانوں پر لگا کر کہتا ہے کہ جو لوگ “خالی ظرف” یعنی اندر سے بے substance ہوں، وہ زیادہ شور مچاتے یا زیادہ تعریفیں خود کرتے ہیں۔ مراد یہ کہ ظاہر میں جو بڑا دکھتا ہے، ضروری نہیں کہ اندر سے مضبوط یا قابل ہو؛ اصل قدر خاموشی اور قابلیت میں ہوتی ہے، شور میں نہیں۔
سوال 4 ۔ شاعر نے دنیا کو سرائے فانی کیوں کہا ہے؟
جواب ۔
شاعر نے دنیا کو “سرائے فانی“ کہا تاکہ یہ بات واضح ہو کہ دنیا ایک عارضی ٹھکانہ ہے یہاں انسان آتا ہے، کچھ وقت رہتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ سرائے کی مثال سے وہ بتاتے ہیں کہ یہاں کچھ دیر قیام ہے، مستقل ٹھہراؤ نہیں۔ اس کا مقصد یہ سبق دینا ہے کہ دولت، شہرت، خوشی یا غم سب عارضی ہیں؛ انسان کو دنیا کے فریب میں اتنا مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے اعمال اور آخرت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔
سوال 5 ۔ بڑھاپا اور جوانی کے لیے شاعر نے کیا فرق بتایا ہے؟
جواب ۔
شاعر نے کمالِ سادگی سے فرق بتایا “جو آکے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا / جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی” اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بڑھاپا آ جاتا ہے تو وہ لوٹ کر نہیں جاتا؛ یعنی عمر بڑھنے کے بعد جسمانی قوت و توانائی واپس نہیں آتی۔ دوسری طرف جوانی وہ چیز ہے جو ایک بار گزر جائے تو دوبارہ نہیں ملتی جوانی چلی جاتی ہے اور پھر واپس نہیں آتی۔ اس فرق سے شاعر ہمیں یہ نصیحت دیتا ہے کہ جوانی کے دن قیمتی ہیں انہیں ضائع نہ کریں، نیک کاموں، علم حاصل کرنے اور اچھے اعمال میں لگائیں، اور بڑھاپے کے لیے نیز ذہنی و جسمانی تیاری کر لیں۔