NCERT 10 Jaan Pahechan chapter 10 Dr bhimrao ambedkar ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر solution

ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا اصل نام بھیم راؤ سکپال تھا۔ وہ 14 اپریل 1891 کو مدھیہ پردیش کے قصبے مہو میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق مہاراشٹر کے مہار خاندان سے تھا۔ اُس زمانے میں چھوت چھات یعنی ذات پات کا بھید بھاؤ عام تھا۔ بچپن سے ہی ڈاکٹر امبیڈکر کو اس ناانصافی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بار وہ اسکول جا رہے تھے کہ بارش تیز ہو گئی۔ وہ ایک مکان کی دیوار کے پاس کھڑے ہونا چاہتے تھے، مگر مکان کی مالکن نے انہیں ڈانٹ کر وہاں سے ہٹا دیا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ چھوٹی ذات سے تعلق رکھتے تھے۔

ڈاکٹر امبیڈکر اپنے استادوں کی بہت عزت کرتے تھے۔ ستارا کے ایک اسکول میں امبیڈکر نام کے ایک استاد تھے جو ذات پات میں فرق نہیں کرتے تھے اور سب کے ساتھ برابر سلوک کرتے تھے۔ وہ بھیم راؤ کو خاص طور پر پسند کرتے تھے۔ استاد اور شاگرد کا یہ رشتہ اتنا مضبوط ہوا کہ بعد میں بھیم راؤ سکپال کا نام بھیم راؤ امبیڈکر ہو گیا۔ تعلیم حاصل کرنے میں انہیں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر ان میں پڑھنے کا شوق اور محنت کا جذبہ بہت تھا۔ اسی وجہ سے وہ آگے بڑھتے گئے اور آخرکار اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان جانے کا موقع ملا۔ تعلیم مکمل کر کے وطن واپس آئے تو انہوں نے چھوت چھات اور ذات پات ختم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس برائی نے ملک کے بڑے حصے کو غربت اور جہالت میں ڈوبا رکھا تھا۔

ڈاکٹر امبیڈکر نے کمزور طبقے پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ گاؤں گاؤں اور شہر شہر جا کر لوگوں کو جگاتے، ان کے دل سے ڈر نکالتے اور خوداعتمادی پیدا کرتے۔ ان کا ماننا تھا کہ عزت سے زندگی گزارنے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے، کیونکہ تعلیم بہت سی برائیاں ختم کر دیتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے کئی اسکول اور کالج قائم کیے اور عورتوں کی ترقی پر بھی خاص توجہ دی۔ وہ ہمیشہ قومی اتحاد اور بھائی چارے کی بات کرتے تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ بھارت کا دستور بنانا ہے۔ آزادی کے بعد دستور بنانے کی ذمہ داری انہی کو دی گئی، اسی لیے انہیں “بھارت کے دستور کا معمار” کہا جاتا ہے۔

یہ عظیم رہنما 6 دسمبر 1954 کو دنیا سے رخصت ہو گیا۔

الف) بھیم راؤ پاٹل
ب) بھیم راؤ سکپال
ج) بھیم راؤ دیشمکھ
د) بھیم راؤ یادو

الف) 14 اپریل 1891
ب) 6 دسمبر 1954
ج) 15 اگست 1947
د) 2 اکتوبر 1869

الف) ممبئی
ب) مہو
ج) ستارا
د) دہلی

الف) برہمن
ب) مہار
ج) شُدر
د) راجپوت

الف) صرف امیر لوگوں کو پڑھانا
ب) ذات پات کو نہ ماننا
ج) صرف لڑکوں کو تعلیم دینا
د) چھوٹے بچوں کو سزا دینا

الف) اسکول کے دوست نے دیا
ب) استاد کے نام سے ملا
ج) انگلستان میں رکھا گیا
د) خاندان نے بدل دیا

الف) امریکہ
ب) انگلستان
ج) جاپان
د) فرانس

الف) وزیر اعظم بنانا
ب) دستور تیار کرنا
ج) گورنر بنانا
د) صدر بنانا

الف) بھارت کے لوہ مرد
ب) بھارت کے دستور کا معمار
ج) بھارت کے باپو
د) بھارت کے ہیرو

الف) 6 دسمبر 1954
ب) 14 اپریل 1891
ج) 15 اگست 1947
د) 26 جنوری 1950

ڈاکٹر کا پورا نام بھیم راؤ رامجی امبیڈکر تھا۔ وہ 14 اپریل 1891 کو مہو میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان مہاراشٹر کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتا تھا اور وہ مہار برادری سے تعلق رکھتے تھے — جسے اُس دور میں عام طور پر ‘چھوٹے ذات’ یا ‘انٹوچ ایبل’ سمجھا جاتا تھا۔ یہ پس منظر ہی تھا جس کی وجہ سے انہیں بچپن سے ذات پات کی زیادتیاں جھیلنی پڑیں۔

اس بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں: ایک عام مانا جانے والا بیان یہ ہے کہ خاندان کا اصل خاندانی نام سکپال تھا، اور روایتی طور پر لوگ اپنے گاؤں کے نام سے بھی شناخت ہوتے تھے۔ پھر اسکول کے ریکارڈ یا استاد کی مداخلت سے نام میں تبدیلی ریکارڈ ہوئی — بعض حوالوں کے مطابق ان کے استاد نے اسکول ریکارڈ میں نام کو امبیڈکر لکھ دیا یا اسی طرح کے اثرات رہے۔ تاہم ماہرین اور محققین میں اس بارے میں اختلاف ہے اور اس تاریخی نکتے کی مختلف تشریحیں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ کہا جائے: ‘امبیڈکر’ نام کا آنا ایک عام روایت اور اسکول یا گاؤں کے ریکارڈ سے جڑا ہوا واقعہ ہے، جس کی مختلف تفصیلات مختلف مصادر میں دی گئی ہیں۔

چھوت چھات نے ملک پر گہرے اور وسیع نقصانات کیے: یہ ایک بڑی آبادی کو سماجی طور پر الگ، معاشی طور پر محروم، اور تعلیمی مواقع سے دور رکھتا رہا۔ نتیجتاً بہت سے لوگوں تک صحت، تعلیم، روزگار اور عام سہولیات کی رسائی محدود رہی — جس سے غربت اور جاہلیت پھیلی اور قومی ترقی میں رکاوٹ آئی۔ اس ظلم نے افراد کی خوداعتمادی اور معاشرتی شمولیت کو بھی کمزور کیا، اس لیے رہنماؤں جیسے امبیڈکر نے سماجی انصاف اور تعلیم کو بدلنے کی کوششیں کیں۔

بھیم راؤ امبیڈکر کا سب سے بڑا اور مشہور کارنامہ آزاد بھارت کے دستور کی تیاری میں ان کا مرکزی کردار ہے انہیں ڈرافٹنگ کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا اور اسی وجہ سے وہ عام طور پر “بھارت کے دستور کا معمار” کہلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے قانونی نظام، خواتین کے حقوق، اور محروم طبقات کے لیے ریزرویشن یا احتیاطی اقدامات کی وکالت کی؛ وہ آزاد بھارت کے پہلے وزیر قانون و انصاف بھی رہے۔ یہی وجوہات ہیں جو انہیں ملک کے اہم آئینی اور سماجی رہنماؤں میں شمار کرتی ہیں۔

راستہ

موقع

خوف

ظلم

مصیبت

تعلیم

رکاوٹ

محنت

جہالت

قوم

سوال 1 ۔ امبیڈکر کا اصل نام بھیم راؤ سکپال تھا۔ ( بھیم راؤ امبیڈ کر، بھیم راؤ سکپال)

سوال 2 ۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امبیڈ کر کو کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ (رکاوٹوں، مجبوریوں )

سوال 3 ۔ چھوت چھات کی لعنت نے ملک کو کافی نقصان پہنچایا۔ (لعنت، پھٹکار )

سوال 4 ۔ سماج میں باعزت زندگی گزارنے کے لیے تعلیم بے حد ضروری ہے۔  ( تعلیم ، ترقی )

ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا اصل نام بھیم راؤ سکپال تھا۔ وہ 14 اپریل 1891 کو مدھیہ پردیش کے قصبے مہو میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق مہاراشٹر کے مہار خاندان سے تھا، جسے اُس زمانے میں نچلی ذات سمجھا جاتا تھا۔ بچپن ہی سے انہیں ذات پات اور چھوت چھات جیسی سخت ناانصافی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بار اسکول جاتے ہوئے بارش کی وجہ سے وہ ایک مکان کی دیوار کے پاس کھڑے ہونا چاہتے تھے، مگر مکان کی مالکن نے یہ کہہ کر ہٹا دیا کہ چھوٹی ذات کا شخص دیوار کے قریب نہ کھڑا ہو۔ بھیم راؤ اپنے استادوں کی بہت عزت کرتے تھے۔ ستارا کے اسکول میں ایک استاد تھے جو ذات پات میں فرق نہیں کرتے تھے اور سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرتے تھے۔ وہ بھیم راؤ کو بہت چاہتے تھے، اسی وجہ سے بھیم راؤ کے نام کے ساتھ “امبیڈکر” شامل ہو گیا۔

تعلیم کے شوق اور محنت کے جذبے کی بدولت انہوں نے کئی رکاوٹوں کے باوجود پڑھائی جاری رکھی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آ کر انہوں نے چھوت چھات اور ذات پات ختم کرنے کی تحریک شروع کی۔ وہ گاؤں گاؤں اور شہر شہر جا کر لوگوں کو بیدار کرتے، ان کے دل سے خوف نکالتے اور خوداعتمادی پیدا کرتے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا ماننا تھا کہ عزت سے زندگی گزارنے کے لیے تعلیم ضروری ہے، کیونکہ تعلیم برائیوں کو ختم کرتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے اسکول، کالج اور تعلیمی ادارے قائم کیے اور عورتوں کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھائی۔

آزادی کے بعد انہیں بھارت کا دستور بنانے کی ذمہ داری دی گئی۔ ان کی قیادت میں ملک کا دستور تیار ہوا، اسی لیے انہیں “بھارت کے دستور کا معمار” کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر 6 دسمبر 1954 کو دنیا سے رخصت ہوئے، لیکن ان کا کام اور ان کی جدوجہد آج بھی لوگوں کو برابری، تعلیم اور انصاف کے لیے تحریک دیتی ہے۔

Scroll to Top