NCERT 10 Jaan Pahechan chapter 11 Sheikh mohammed Ibrahim zauq شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ solution

ذوقؔ کا اصل نام شیخ محمد ابراہیم تھا۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پائی۔ ان کے والد ایک سپاہی تھے۔ ذوقؔ نے باقاعدہ اسکول کی تعلیم نہیں لی، مگر اپنی سمجھ بوجھ اور محنت سےعلم حاصل کیا۔ وہ شاہ نصیرؔ کے شاگرد اور بہادر شاہ ظفرؔ کے استاد تھے۔ بہادر شاہ ظفرؔ نے انہیں ملک الشعرا اور خاقانی ہند کے لقب دیے۔

ذوقؔ نے کئی طرح کی شاعری کی، لیکن ان کی اصل پہچان قصیدہ گو شاعر کے طور پر ہے، خاص طور پر بہادر شاہ ظفرؔ پر لکھے گئے قصیدے بہت مشہور ہیں۔ وہ غزل کے بھی ایک اچھے شاعر تھے۔ ذوقؔ نے اپنی شاعری میں نیا انداز پیدا کیا اور زبان کو صاف اور محاورے کو درست رکھنے پر خاص توجہ دی۔

چلیں، میں اس غزل کی تشریح کو زیادہ تفصیل اور گہرائی کے ساتھ پیش کرتا ہوں تاکہ ہر شعر کا مفہوم اور شاعر کا احساس واضح ہو جائے، اور آخر میں ایک جامع خلاصہ بھی ملے۔

شاعر کہتا ہے کہ ہم اس دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آئے، بلکہ زندگی ہمیں قدرت نے دی۔ اسی طرح، جب موت کا وقت آتا ہے تو وہ بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا، بلکہ قضا (موت) آ کر ہمیں لے جاتی ہے۔ یہ بات انسانی بے بسی کو ظاہر کرتی ہے انسان سوچتا ہے کہ وہ آزاد ہے، مگر پیدائش اور موت دونوں اس کے اختیار سے باہر ہیں۔ اس شعر میں زندگی اور موت کے فلسفے کو سادہ مگر گہری بات میں سمیٹا گیا ہے زندگی کی شروعات اور اختتام دونوں پر انسان کا کوئی اختیار نہیں۔

یہاں شاعر مثال دیتا ہے حضرت خضرؑ کی، جنہیں طویل عمر ملی۔ شاعر کہتا ہے کہ چاہے کسی کو کتنی ہی لمبی زندگی مل جائے، اس کا ایک مقررہ وقتِ موت ضرور ہوتا ہے۔ جب وہ وقت آتا ہے تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ زندگی ایک لمحے کی طرح ہے: ہم پیدا ہوتے ہیں، چند لمحے گزار کر چلے جاتے ہیں۔ اس سے شاعر یہ بتانا چاہتا ہے کہ لمبی عمر کا غرور بھی بیکار ہے، کیونکہ موت ہر حال میں آ کر رہتی ہے۔

شاعر دنیا کو ایک شطرنج کی بساط سے تشبیہ دیتا ہے۔ زندگی ایک کھیل کی طرح ہے جس میں ہم قدم اُٹھاتے ہیں (فیصلے کرتے ہیں)۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم زندگی کے اس کھیل میں بہت ہی برے کھلاڑی ثابت ہوئے، کیونکہ جو بھی فیصلہ کیا، وہ نقصان دہ نکلا۔ یہ شعر خود احتسابی (Self-criticism) اور اپنی کمزوری کا اعتراف بھی ہے، اور دنیاوی ناکامیوں کا نوحہ بھی۔

شاعر کہتا ہے کہ دنیا سے دل نہ لگانا ہی بہتر ہے، کیونکہ دنیا سے وابستگی انسان کو دکھ اور مصیبت میں ڈال دیتی ہے۔ مگر عملی زندگی میں ایسا ممکن نہیں، کیونکہ کوئی بھی کام محنت اور دلچسپی کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس شعر میں ایک عملی حقیقت بیان کی گئی ہے — ہم چاہ کر بھی دنیاوی تعلقات اور دلچسپیوں سے الگ نہیں رہ سکتے، کیونکہ زندگی کے تقاضے ہمیں اس میں شامل ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔

شاعر عقل اور فہم پر غرور کرنے والے کو نصیحت کرتا ہے کہ اپنی سمجھ بوجھ پر فخر نہ کرو، کیونکہ جو قسمت میں لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ انسان چاہے جتنی بھی حکمت استعمال کرے، تقدیر کے فیصلے نہیں بدل سکتا۔ یہاں شاعر انسانی کمزوری اور تقدیر کی طاقت کو واضح کر رہا ہے — علم اور عقل کے باوجود، انسان کائناتی فیصلوں کے آگے بے بس ہے۔

اس غزل میں ذوقؔ نے زندگی، موت، قسمت اور دنیا سے تعلقات کے بارے میں گہری سوچ پیش کی ہے۔ شاعر سب سے پہلے اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ انسان کی پیدائش اور موت دونوں اس کے اختیار میں نہیں۔ چاہے زندگی کتنی ہی لمبی ہو، موت کا وقت طے ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کئی فیصلے کرتا ہے، مگر اکثر وہ ناکام یا غلط ثابت ہوتے ہیں۔ شاعر مشورہ دیتا ہے کہ دنیا سے دل نہ لگایا جائے، مگر ساتھ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ زندگی کے عملی کام دنیا سے جڑے بغیر نہیں چلتے۔ آخر میں وہ بتاتا ہے کہ انسان کی عقل و فہم تقدیر کے فیصلوں کو نہیں بدل سکتی جو مقدر میں ہے وہی ہوگا۔

یہ غزل ایک طرف انسان کی بے بسی کو ظاہر کرتی ہے، اور دوسری طرف یہ نصیحت بھی دیتی ہے کہ غرور نہ کرو، حقیقت کو پہچانو، اور زندگی کو ایک عارضی قیام سمجھو۔

پہلے شعر میں شاعر یہ بتا رہا ہے کہ پیدا ہونا اور مرنا دونوں انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے یہ سب “قضا” یعنی تقدیر یا خدائی حکم کا کام ہے۔ شعر کے الفاظ: لائی حیات، آئے؛ قضا لے چلی چلے / اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے یہ دکھاتے ہیں کہ ہم نہ اپنی مرضی سے دنیا میں آتے ہیں اور نہ اپنی مرضی سے یہاں سے جاتے ہیں۔ لفظِ خوشی کا مطلب یہاں “اپنی مرضی” یا “اپنی خواہش” ہے شاعر کہہ رہا ہے کہ جو چیز ہم چاہتے ہیں وہ ہو یا نہ ہو، اصل فیصلہ باہر سے آتا ہے۔ مطلب یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنی حدِِ قدرت تسلیم کرنی چاہیے، غرور ترک کرنا چاہیے اور زندگی کی فانی نوعیت کو سمجھ کر عاجزی اختیار کرنی چاہیے۔ اس شعر کا لبِ مطلب یہ ہے: زندگی اور موت دونوں وقتی اور مقررہ ہیں، انسان کا کنٹرول محدود ہے۔

اس جملے سے شاعر زندگی کی ناپائیداری اور عارضی حالت پر زور دے رہا ہے یعنی انسان اس دنیا میں عارضی مہمان کی مانند ہے: جلد آتا ہے اور جلد چلا جاتا ہے۔ غزل کے دوسرے شعر میں بھی یہی خیال مزید واضح ہے: ہو عمر خضر بھی تو ہو معلوم وقتِ مرگ / ہم کیا رہے یہاں، ابھی آئے ابھی چلے”۔ یہاں شاعر بتاتا ہے کہ چاہے زندگی کتنی بھی لمبی کیوں نہ ہو (جیسا کہ خضر کی مثال)، پھر بھی موت کا ایک مقررہ وقت آتا ہے۔ “ابھی” کا تکراری استعمال وقتیّت اور فوریت کا احساس دلاتا ہے — زندگی لمحہ بہ لمحہ گزرتی ہے۔ اس کا نفسیاتی اثر یہ ہے کہ انسان کو اپنی عارضی حالت کا شعور رکھنا چاہیے، غیر ضروری لالچ اور فخر سے بچنا چاہیے، اور اہم باتوں پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ وقت محدود ہے۔

“دنیا سے دل لگانا کا مطلب ہے دنیاوی چیزوں، دولت، عزت، شہرت، مادّی خواہشات یا نفس کے لالچ سے گہری وابستگی پیدا کر لینا۔ شاعر کہتا ہے: “بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے”  یعنی جذباتی یا ذہنی طور پر دنیا پر مکمل انحصار نہ کرنا ہی اچھا ہے، کیونکہ سب کچھ فانی ہے اور نقصان کا امکان ہے۔ مگر اسی شعر کی اگلی مصرعہ میں حقیقت بھی قبول کی گئی: “پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے”  یعنی عملی زندگی میں بغیر دلچسپی کے کام چلتے نہیں، روزمرہ کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہمیں دنیا کے ساتھ جڑے رہنا پڑتا ہے۔ یوں تو دنیا سے مکمل کنارہ کشی (انتہائی زہد) ہر کسی کے لیے ممکن نہیں، اس لیے شاعر اعتدال کا راستہ بتاتا ہے: دنیا سے وابستگی ضرور ہو مگر حد میں، تاکہ نقصان اور دکھ کم ہوں۔ ساده الفاظ میں: دنیا جینے کے لیے ضروری ہے، مگر اسے اپنی پہچان یا سب سے بڑی خواہش نہ بنائیں۔

شاعر اس لیے عقل یا دانش پر غرور کرنے سے منع کرتا ہے کیونکہ تقدیر (جو ہونا ہے) اکثر انسان کی سمجھ یا منصوبہ بندی سے مختلف فیصلے کرتی ہے۔ شعر میں: نازاں نہ ہو خرد پہ، جو ہونا ہے ہو وہی / دانش تری نہ کچھ، مری دانش وری چلے اس طرح شاعر کہہ رہا ہے کہ تمہاری عقل اچھی ہو یا میری عقل  آخر کار جو مقدر میں لکھا ہے وہ ہی ہوگا۔ مقصد یہ ہے کہ عقل کو مکمل طاقت سمجھ کر فخر نہ کیا جائے؛ عقل کا استعمال ضروری ہے مگر وہ ہر چیز کو قابو نہیں کر سکتی۔ شاعر کی نصیحت دو پہلو رکھتی ہے: ایک تو عاجزی (humility) کی تلقین اپنی حد مان لو؛ دوسرا یہ کہ عقل کے ساتھ امید اور برداشت بھی رکھو، کیونکہ نتائج ہمیشہ ہمارے کنٹرول میں نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شاعر تقدیر اور انسان کی عقل کے درمیان توازن چاہتا ہے عقل پر اتنا غرور نہ کرو کہ تم تقدیر کو نظر انداز کر دو، اور نہ ہی تقدیر کو بہانہ بنا کر عقل کا استعمال ترک کردو۔

حیات —  موت

خوشی —  غم

بہتر—  بدتر

مرگ —  زندگی

بُری —  اچھی

Scroll to Top