اقبال (1877-1938)
اقبال اردو کے بہت بڑے شاعر اور سوچنے والے تھے۔ وہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ اپنی گہری سوچ اور اچھی شاعری کی وجہ سے ان کا نام پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بھی خوبصورت نظمیں لکھی ہیں۔ اقبال کی شاعری دنیا کے بڑے شاعروں میں شمار کی جاتی ہے۔ وہ اردو کے سب سے بڑے فلسفی شاعر ہیں۔ بچوں کے لیے ان کی مشہور نظمیں جیسے بچے کی دعا، قومی ترانہ، پہاڑ اور گلہری، جگنو، ہمدردی، پرندے کی فریاد اور ماں کا خواب بہت پسند کی جاتی ہیں۔ ان نظموں کے ذریعے اقبال نے بچوں میں بڑے خواب دیکھنے، ایمانداری، سچائی، محبت، بھائی چارے، انصاف، اچھے کردار، ہمدردی، اور مل جل کر رہنے کی صفات پیدا کی ہیں۔
اقبال کی کئی کتابیں اردو کے علاوہ فارسی اور انگریزی زبانوں میں بھی چھپ چکی ہیں اور ان کی شاعری کے ترجمے دنیا کی بہت سی زبانوں میں کیے گئے ہیں۔
نظم پہاڑ اور گلہری کی تشریح
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تُجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
یہاں پہاڑ اپنی بڑی طاقت اور مقام کی بنا پر گلہری کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ وہ گلہری کو کہتا ہے کہ تمہاری حیثیت اتنی چھوٹی ہے کہ اگر تمہیں شرم محسوس ہوتی ہے تو پانی میں جا کر خود کو ختم کر دو۔ پہاڑ اپنی برتری کا احساس دلا رہا ہے اور گلہری کی معمولی حیثیت کو بے وقعت قرار دے رہا ہے۔
ذرا سی چیز ہے اس پر غرور، کیا کہنا!
یہ عقل اور یہ سمجھ یہ شعور، کیا کہنا
پہاڑ گلہری کی چھوٹی سی موجودگی پر اس کے غرور کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ مگر ساتھ ہی وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتا ہے کہ گلہری میں عقل، سمجھ اور شعور ہے، جو ایک اچھی بات ہے اور اسے سراہا جانا چاہیے۔ یہاں پہاڑ بتا رہا ہے کہ چھوٹی چیز میں عقل ہو تو وہ بڑی چیزوں سے بھی بڑھ کر قدر رکھتی ہے۔
خدا کی شان ہے، نا چیز، چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں، یوں با تمیز بن بیٹھیں
پہاڑ کہتا ہے کہ خدا کی طاقت بڑی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا وجود بھی اہم بن جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ لوگ جو سمجھدار نہیں ہوتے، اچھی عادات اور تمیز اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ خدا کی عظمت اور قدرت کی نشانی ہے کہ وہ ہر مخلوق کو کچھ نہ کچھ خوبیاں دیتا ہے، چاہے وہ کتنے ہی چھوٹے کیوں نہ ہوں۔
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
یہاں پہاڑ اپنے وقار اور شان کا اظہار کرتے ہوئے گلہری کی حیثیت کو بہت کم سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک گلہری کی اہمیت اس زمین کی طرح کم ہے جو کہ اس کی عزت و وقار کے سامنے بالکل چھوٹی اور بے معنی ہے۔ یہ پہاڑ کی بڑائی اور خود اعتمادی کا اظہار ہے۔
جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں
پہاڑ اپنی خوبیوں اور طاقت کی بنا پر گلہری سے برتر سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو خصوصیات اور طاقتیں میرے پاس ہیں، وہ تمہیں نصیب نہیں ہو سکتیں۔ یہاں پہاڑ اپنے آپ کو بڑا اور گلہری کو بہت چھوٹا اور کمزور ظاہر کر رہا ہے۔
کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچّی باتیں ہیں، دل سے انہیں نکال ذرا
گلہری پہاڑ کی بڑائی اور تلخ باتیں سن کر اپنے جذبات کو قابو میں لاتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ یہ باتیں چھوٹی اور غیر اہم ہیں، انہیں دل سے نکال دو، یعنی ان باتوں پر زیادہ دھیان نہ دو اور ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔
جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
گلہری اپنی چھوٹے پن کو قبول کرتی ہے مگر کہتی ہے کہ اگر میں تمہاری طرح بڑی نہیں ہوں تو بھی تم میرے برابر چھوٹے ہی ہو۔ وہ پہاڑ کو بتانا چاہتی ہے کہ بڑے پن کا مطلب یہ نہیں کہ تم ہمیشہ بڑے رہو گے، اور چھوٹے پن میں بھی قدر ہوتی ہے۔
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اس کی حکمت ہے
گلہری اپنی بات کو منطقی انداز میں آگے بڑھاتی ہے کہ ہر چیز خدا کی بنائی ہوئی ہے اور ہر مخلوق کے بننے میں خدا کی حکمت پوشیدہ ہے۔ کچھ چیزیں بڑی ہیں اور کچھ چھوٹی، یہ سب خدا کی مرضی اور نظام ہے۔
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے
گلہری کہتی ہے کہ خدا نے تمہیں دنیا میں بڑا بنایا ہے، اور مجھے اپنی صلاحیت دی ہے کہ میں درخت پر چڑھ سکوں۔ یعنی ہر ایک کو خدا نے اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق خاص خوبی اور کردار دیا ہے۔
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نِری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں
گلہری پہاڑ کو چیلنج کرتی ہے کہ تمہارے پاس قدم اٹھانے یعنی حرکت کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ تم صرف اپنی ظاہری بڑائی دکھاتے ہو، حقیقت میں تمہارے اندر کوئی خاص خوبی نہیں ہے۔
جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہُنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
گلہری پہاڑ سے کہتی ہے کہ اگر تم واقعی بڑے ہو تو میرے جیسے مہارت دکھاؤ، یعنی اپنی حرکت کی قابلیت دکھاؤ۔ تم جو چھال یا رکاوٹ ہے، اسے توڑ کر اپنے آپ کو ثابت کرو۔
نہیں ہے چیز نِکَمّی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قُدرت کے کارخانے میں
آخر میں گلہری یہ بات کرتی ہے کہ دنیا میں کوئی چیز کمزور یا خراب نہیں ہے۔ قدرت نے ہر چیز کو خاص بنایا ہے اور کوئی بھی چیز فضول یا بیکار نہیں ہے۔ ہر مخلوق میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہوتی ہے۔
نظم پہاڑ اور گلہری کا خلاصہ
یہ نظم ایک بڑے پہاڑ اور ایک چھوٹی گلہری کے درمیان گفتگو پر مبنی ہے جس میں پہاڑ اپنی طاقت اور حجم کی وجہ سے گلہری کو حقیر سمجھتا ہے اور اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ پہاڑ کہتا ہے کہ تمہاری حیثیت بہت چھوٹی ہے، تمہیں شرم آنی چاہیے اور اپنی بے وقعتی کا ادراک کرنا چاہیے۔ وہ گلہری کی چھوٹی سی حیثیت پر طنز کرتا ہے اور اپنی عظمت اور وقار کو ظاہر کرتا ہے۔ پہاڑ خود کو بہت بڑا اور مضبوط سمجھتا ہے اور گلہری کو کمزور جانتا ہے۔
لیکن گلہری اس تنقید کا بہادری سے جواب دیتی ہے اور پہاڑ کی سوچ کو چیلنج کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ہر چیز خدا کی قدرت کا حصہ ہے، کوئی چیز بڑی یا چھوٹی اتفاق سے نہیں بنی بلکہ یہ سب حکمت اور منصوبہ بندی کے تحت ہے۔ گلہری کہتی ہے کہ اگرچہ وہ جسمانی طور پر چھوٹی ہے مگر اسے خدا نے خاص مہارت اور طاقت دی ہے، جیسے درختوں پر چڑھنے کی صلاحیت، جس کا پہاڑ کے پاس فقدان ہے۔ گلہری پہاڑ کی ظاہری بڑائی کو سچائی نہیں مانتی اور کہتی ہے کہ اگر وہ واقعی بڑا ہے تو اسے اپنی صلاحیت دکھانا چاہیے، مثلاً وہ اپنی رکاوٹیں توڑ کر کچھ کر کے دکھائے۔
آخر میں گلہری خدا کی بنائی ہوئی ہر چیز کی قدر اور اہمیت بیان کرتی ہے، یہ کہ دنیا میں کوئی چیز کمزور یا خراب نہیں، ہر مخلوق کی اپنی جگہ اور اہمیت ہے۔ اس نظم کا پیغام ہے کہ بڑائی صرف جسمانی حجم یا ظاہری شان سے نہیں بلکہ صلاحیت، عقل، ہمت اور کام کرنے کی لگن سے ہوتی ہے۔ ہر شخص کو اپنی خاصیتوں پر فخر کرنا چاہیے اور دوسروں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ نظم انسانوں میں برابر کی عزت اور حوصلہ افزائی کا درس دیتی ہے۔
معروضی سوالات
سوال 1 ۔ اقبال کہاں پیدا ہوئے تھے؟
الف) لاہور
ب) کراچی
ج) سیالکوٹ
د) اسلام آباد
جواب ۔ ج) سیاکوٹ
سوال 2 ۔ اقبال کون سے زبانوں میں کتابیں لکھ چکے ہیں؟
الف) اردو اور ہندی
ب) اردو، فارسی اور انگریزی
ج) صرف اردو
د) اردو اور عربی
جواب ۔ ب) صرف اردو
سوال 3 ۔ پہاڑ نے گلہری کو کیا کہا؟
الف) تم بڑی ہو
ب) پانی میں جا کے ڈوب مر جاؤ
ج) تم بہترین ہو
د) درخت پر چڑھ جاؤ
جواب۔ ب) پانی میں جا کے ڈوب مر جاؤ
سوال 4 ۔ گلہری نے پہاڑ کو کیا جواب دیا؟
الف) میں تم سے بڑی ہوں
ب) یہ باتیں میرے دل سے نکال دو
ج) تم بہت چھوٹے ہو
د) میں درخت پر نہیں چڑھ سکتی
جواب۔ ب) یہ باتیں میرے دل سے نکال دو
سوال 5 ۔ اقبال کی کون سی نظمیں بچوں میں بہت مقبول ہوئیں؟
الف) بچے کی دعا، قومی ترانہ، پہاڑ اور گلہری
ب) شہر کا منظر
ج) جنگل کی کہانی
د) دریا کا سفر
جواب۔ الف) بچے کی دعا، قومی ترانہ، پہاڑ اور گلہری
سوال 6 ۔ گلہری کے پاس کون سی خاص خوبی ہے؟
الف) پہاڑ جیسی طاقت
ب) درخت پر چڑھنے کی صلاحیت
ج) پانی میں تیرنے کی طاقت
د) زمین کھودنے کی مہارت
جواب۔ ب) درخت پر چڑھنے کی صلاحیت
سوال 7 ۔ اقبال کی شاعری میں بچوں میں کون سی صفات پیدا ہوتی ہیں؟
الف) حسد اور جھوٹ
ب) بلند خیالی، محبت اور انصاف
ج) خوف اور غصہ
د) کاہلی اور غیبت
جواب۔ ب) بلند خیالی، محبت اور انصاف
سوال 8 ۔ گلہری نے کہا کہ بڑا یا چھوٹا ہونا کس کی حکمت ہے؟
الف) انسان
ب) خدا کی
ج) پہاڑ کی
د) درخت کی
جواب۔ ب) خدا کی
سوال 9 ۔ پہاڑ نے گلہری کی کس چیز کی تنقید کی؟
الف) اس کی آواز
ب) اس کی چھوٹائی اور غرور
ج) اس کے لباس
د) اس کے رنگ
جواب۔ ب) اس کی چھوٹائی اور غرور
سوال 10 ۔ اقبال کو اردو کے کس نوعیت کے شاعر کہا جاتا ہے؟
الف) غزل گو
ب) فلسفی شاعر
ج) رومانوی شاعر
د) مزاحیہ شاعر
جواب۔ ب) فلسفی شاعر
سوال و جواب
سوال 1۔ پہاڑ نے گلہری سے ڈوب مرنے کو کیوں کہا؟
جواب ۔
پہاڑ اپنی بڑی جسامت اور طاقت پر فخر کرتا تھا اور گلہری کو بہت چھوٹا اور کمزور سمجھتا تھا۔ اس نے گلہری کی معمولی حیثیت کو دیکھ کر اسے شرمندہ کرنے کے لیے کہا کہ اگر اسے شرم آتی ہے تو پانی میں جا کر ڈوب مر جائے۔ پہاڑ کا مقصد گلہری کو نیچا دکھانا اور اپنی برتری کا احساس دلانا تھا۔
سوال 2۔ گلہری نے پہاڑ کو کیا جواب دیا؟
جواب ۔
گلہری نے پہاڑ کی تلخ باتوں کو سن کر صبر اور حکمت سے جواب دیا۔ اس نے کہا کہ یہ باتیں چھوٹی اور بے معنی ہیں، انہیں دل سے نکال دو۔ گلہری نے پہاڑ کو یہ بھی سمجھایا کہ خدا نے ہر مخلوق کو خاص خصوصیات دی ہیں، چاہے وہ بڑی ہو یا چھوٹی۔ اس نے اپنی چھوٹی جسامت کے باوجود اپنی مہارت اور چالاکی پر فخر کیا اور پہاڑ کی بڑائی کو محض ظاہری سمجھا۔
سوال 3۔ پہاڑ نے اپنی بڑائی میں کیا کہا؟
جواب ۔
پہاڑ نے اپنی شان اور وقار کے بارے میں کہا کہ اس کی عظمت زمین کی چھوٹائی سے بہت بلند ہے۔ وہ خود کو گلہری سے کہیں زیادہ طاقتور اور بڑا سمجھتا تھا۔ پہاڑ نے کہا کہ جو خصوصیات اور طاقتیں اس کے پاس ہیں، وہ گلہری کے نصیب میں نہیں۔ اس نے اپنی بڑی ہستی اور مضبوطی پر بہت ناز کیا۔
سوال 4۔ کن باتوں سے خدا کی قدرت کا پتا چلتا ہے؟
جواب ۔
خدا کی قدرت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے ہر چیز کو بہت خوبصورتی اور حکمت سے پیدا کیا ہے۔ کچھ چیزیں بڑی ہوتی ہیں اور کچھ چھوٹی، مگر ہر ایک کی اپنی جگہ اور اہمیت ہے۔ خدا نے ہر مخلوق کو خاص خصوصیات دی ہیں اور کوئی چیز بے کار یا کمزور نہیں ہے۔ یہی بات قدرت کی عظمت اور اس کی حکمت کو ظاہر کرتی ہے۔
سوال 5۔ گلہری ایسا کون سا کام کر سکتی ہے جو پہاڑ کے بس کا نہیں ہے؟
جواب ۔
گلہری درختوں پر چڑھنے کی خاص مہارت رکھتی ہے، جو پہاڑ کی جسمانی ساخت کی وجہ سے ممکن نہیں۔ یہ کام گلہری کی چالاکی، ہنر اور قوت کا ثبوت ہے۔ گلہری نے پہاڑ کو چیلنج دیا کہ اگر وہ واقعی بڑا ہے تو وہ اپنی طاقت اور مہارت دکھائے، لیکن پہاڑ کے پاس وہ صلاحیت نہیں ہے جو گلہری کے پاس ہے۔ اس طرح گلہری نے ظاہر کیا کہ بڑی چیز کا مطلب صرف جسمانی حجم نہیں بلکہ صلاحیت اور ہنر بھی ہے۔