NCERT 10 Jaan Pahechan chapter 17 raziya sultan رضیہ سلطان solution

رضیہ سلطان ہندوستان کی پہلی خاتون حکمران تھی، جو دہلی کے بادشاہ التتمش کی بیٹی تھی۔ بچپن سے ہی وہ ذہین، محنتی اور باصلاحیت تھی، اسی لیے التتمش نے اپنی زندگی میں ہی اسے اپنا جانشین مقرر کر دیا اور چاندی کے سکوں پر اس کا نام درج کروا دیا۔ التتمش کی وفات کے بعد وزیر نے جب بادشاہ کی وصیت سنائی تو ترک امیروں نے عورت کو حکمران بنانے سے انکار کیا۔ رضیہ نے امن کی خاطر اپنے بھائی رکن الدین کو تخت دیا، مگر وہ عیش و عشرت میں ڈوب گیا اور اس کی ماں نے ظلم و زیادتی سے عوام کو پریشان کیا، جس پر عوام نے اسے قتل کر دیا۔ عوام اور بزرگ صوفی کاظم الدین زاہد کے اعلان پر رضیہ تخت نشین ہوئی۔ اس نے عہد کیا کہ عوام کی بھلائی اور سلطنت کی ترقی کے لیے دن رات کام کرے گی۔ رضیہ بہادر اور باوقار حکمران تھی، فوج کی کمان خود سنبھالتی، قبا اور کلاہ پہنتی، اپنے نام کے سکے جاری کرتی، امن قائم رکھتی، تجارت کو فروغ دیتی، سڑکیں بنواتی، درخت لگواتی، کنویں کھدواتی اور مدرسے و کتب خانے قائم کرتی۔ وہ اچھی گھڑ سوار اور جنگی فنون میں ماہر تھی۔

اس نے برابری اور بھائی چارہ قائم کیا اور اہم عہدے قابلیت کی بنیاد پر دیے، حتیٰ کہ میرآخور کا اعلیٰ عہدہ ایک حبشی غلام یاقوت کو دیا، جو ایماندار اور محنتی تھا۔ ترک امیر اس پر ناراض ہوئے اور بھٹنڈا کے گورنر التونیہ کو بغاوت پر اکسایا۔ رضیہ جنگ کے لیے نکلی مگر طویل سفر اور گرمی کے باعث فوج کمزور پڑ گئی، نتیجتاً وہ قید ہو گئی اور بہرام شاہ کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔ بعد میں التونیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، اس نے رضیہ سے معافی مانگ کر اس سے شادی کر لی اور دہلی کا تخت واپس لینے کی کوشش کی۔ مگر مخالف فوج زیادہ اور طاقتور تھی، اس لیے راستے میں ہی جنگ ہوئی۔ سخت مقابلے کے بعد رضیہ کو شکست ہوئی اور وہ قتل کر دی گئی۔

ساڑھے تین سال کی مختصر حکمرانی میں رضیہ سلطان نے اپنی قابلیت، عدل، حوصلے اور حسنِ انتظام سے ثابت کر دیا کہ وہ اعلیٰ درجے کی حکمراں تھی جو مرد حکمرانوں سے کسی طرح کم نہ تھی۔

الف) قطب الدین ایبک
ب) شمس الدین التتمش
ج) علاء الدین خلجی
د) غیاث الدین بلبن

الف) بیٹے بیمار تھے
ب) بیٹے عیش پسند تھے
ج) بیٹی زیادہ خوبصورت تھی
د) وزیر نے سفارش کی تھی

الف) نیک دل عورت
ب) حاسد عورت
ج) بہادر عورت
د) عالمہ عورت

الف) ترک امیروں کو عہدے دینا
ب) عوام کی بھلائی اور سلطنت کی ترقی
ج) بھائی کو معاف کرنا
د) جنگ سے پرہیز

الف) ترک امیر کو
ب) اپنے بھائی کو
ج) حبشی غلام یاقوت کو
د) راجپوت سردار کو

الف) بہرام
ب) یاقوت
ج) التونیہ
د) کاظم الدین زاہد

الف) تجارت بڑھانا
ب) دہلی کا تخت واپس لینا
ج) ترک امیروں کو عہدے دینا
د) نئی فوج تیار کرنا

الف) دو سال
ب) چار سال
ج) ساڑھے تین سال
د) پانچ سال

الف) تیراکی
ب) گھڑ سواری اور جنگی اسلحوں کے استعمال میں
ج) مصوری
د) تعمیرات

الف) دہلی سے گجرات تک
ب) بنگال سے سندھ تک
ج) پنجاب سے بہار تک
د) ملتان سے دکن تک

رضیہ سلطان ایک بہادر، ذہین اور محنتی حکمران تھی۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ ہوشیار تھی۔ بچپن سے ہی اسے پڑھنے لکھنے اور علم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ وہ نہ صرف اچھی گھڑ سوار تھی بلکہ جنگی اسلحوں کے استعمال میں بھی ماہر تھی۔ تخت پر بیٹھنے کے بعد اس نے عوام کی بھلائی اور سلطنت کی ترقی کے لیے بے شمار کام کیے، جیسے امن قائم کرنا، تجارت کو فروغ دینا، سڑکیں اور کنویں بنوانا، درخت لگوانا، مدرسے اور سرکاری کتب خانے قائم کرنا۔ اس نے برابری اور بھائی چارے کو عام کیا اور ثابت کیا کہ عورت بھی مرد حکمرانوں کی طرح کامیاب حکومت چلا سکتی ہے۔

رکن الدین دہلی کے بادشاہ شمس الدین التتمش کا بیٹا اور رضیہ سلطان کا بھائی تھا۔ رضیہ نے اپنے عورت ہونے پر اعتراض کرنے والے امیروں کو خوش کرنے کے لیے تخت رکن الدین کے حوالے کیا، لیکن وہ عیش و عشرت میں ڈوب گیا اور اپنی ماں کے ساتھ مل کر عوام پر ظلم کرنے لگا۔ اس کی ماں دوسری بیگمات اور ان کے بچوں کو ستاتی تھی اور رضیہ کی مقبولیت سے حسد کرتی تھی۔ رکن الدین کی عیش پسندی اور ماں کی زیادتیوں کی وجہ سے دہلی کے عوام ناراض ہو گئے اور آخرکار اسے گرفتار کر کے قتل کر دیا۔

التتمش نے اپنی زندگی میں ہی اپنی بیٹی رضیہ سلطان کو جانشین مقرر کر دیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے بیٹے عیش پسند ہیں اور حکومت چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، جبکہ رضیہ بہادر، محنتی اور ذہین ہے۔ اپنے آخری دنوں میں اس نے چاندی کے سکوں پر بھی رضیہ کا نام درج کرا دیا۔ وصیت میں واضح طور پر لکھا تھا کہ اس کی وفات کے بعد دہلی کے تخت پر رضیہ بیٹھے گی۔

تخت نشینی کے بعد رضیہ سلطان نے دربار میں اعلان کیا کہ وہ عوام کی بھلائی، سلطنت کی ترقی، امن قائم کرنے اور انصاف فراہم کرنے کے لیے دن رات محنت کرے گی۔ اس نے کہا کہ وہ اس وقت تک آرام نہیں کرے گی جب تک یہ ثابت نہ کر دے کہ وہ مرد حکمرانوں سے کسی طرح کم نہیں ہے۔

رضیہ سلطان نے میر آخور (شاہی اصطبل کے سربراہ) کا اعلیٰ عہدہ ایک حبشی غلام یاقوت کو دیا، کیونکہ وہ ایمان دار، جفاکش اور کام میں ماہر تھا۔ یہ عہدہ پہلے صرف ترک امیروں کو دیا جاتا تھا، اس لیے ترک امیروں نے اسے پسند نہیں کیا اور یہ بھی اس کے خلاف سازش کی ایک بڑی وجہ بنی۔

رضیہ کی فوج کا پہلا بڑا مقابلہ بھٹنڈا کے گورنر التونیہ سے ہوا، جسے ترک امیروں نے بغاوت پر اکسایا تھا۔ بھٹنڈا پہنچنے پر طویل سفر اور گرمی کی وجہ سے رضیہ کی فوج کمزور ہو گئی اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی۔ بعد میں، دہلی کا تخت واپس لینے کی کوشش کے دوران، رضیہ اور التونیہ کی فوج کا مقابلہ بہرام شاہ کی فوج سے ہوا، جو تعداد میں زیادہ اور ہتھیاروں میں بہتر تھی۔ اسی جنگ میں رضیہ کو شکست ہوئی اور وہ قتل کر دی گئی۔

رضیہ سلطان نے تقریباً ساڑھے تین سال حکومت کی۔ اگرچہ یہ مدت مختصر تھی، لیکن اس دوران اس نے اپنی حکمت، بہادری اور بہترین انتظامی صلاحیتوں سے عوام کو متاثر کیا۔ اس نے سلطنت میں امن قائم کیا، تجارت اور تعلیم کو فروغ دیا، نئی سڑکیں بنوائیں، کنویں کھدوائے، درخت لگوائے اور مدارس و کتب خانے قائم کیے۔ فوج کی کمان خود سنبھالتی تھی اور قبا و کلاہ پہن کر مرد حکمرانوں کی طرح امورِ سلطنت انجام دیتی تھی۔ اس کا دور بنگال سے سندھ تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کی حکومت اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عورت بھی ایک بہترین اور کامیاب حکمران بن سکتی ہے۔

ذہن  –علم حاصل کرنے سے انسان کا ذہن روشن ہوتا ہے۔

وفاداری  –کتے کی وفاداری مشہور ہے۔

عہدہ  – میر آخور ایک اہم عہدہ تھا جو رضیہ نے یاقوت کو دیا۔

محافظ  – قلعے کے دروازے پر محافظ پہرہ دے رہے تھے۔

سوال 1 ۔ رضیہ سلطان دہلی کے بادشاہ شمس الدین التتمش کی بیٹی تھی۔
سوال 2 ۔ رضیہ ہندوستان کی پہلی ملکہ تھی۔
سوال 3 ۔ رضیہ کے شوہر کا نام التونیہ تھا۔
سوال 4 ۔ ترک امیروں نے رضیہ کے بھائی بہرام شاہ کو تخت پر بٹھا دیا۔
سوال 5 ۔ رضیہ سلطان اعلیٰ درجے کی حکمراں تھی۔

امرا → امیر

افواج → فوج

مشکل → مشکلات

بیگمات → بیگم

اختیار → اختیارات

کتاب → کتابیں

ملکہ → بادشاہ

عالم → عالمہ

بہن → بھائی

بیٹی → بیٹا

میدان چھوڑنا  – دشمن کو دیکھ کر فوج نے میدان چھوڑ دیا۔

ہتھیار ڈالنا  – لمبی لڑائی کے بعد دشمن نے ہتھیار ڈال دیے۔

موت کے گھاٹ اتارنا  – ڈاکو کو پولیس نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

بھلائی ↔ برائی

خوش حالی ↔ بدحالی

امن ↔ جنگ

شکست ↔ فتح

Scroll to Top