NCERT 10 Jaan Pahechan chapter 19 ae sharif insano اے شریف انسانو solution

ساحرؔ کا اصل نام عبد الحئی تھا اور وہ ساحر لدھیانوی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ لدھیانہ (پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی انہوں نے شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ 1936 میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی، جس سے ساحرؔ بھی جُڑ گئے۔ 1947 میں ملک کی تقسیم کے بعد وہ دہلی چلے آئے، اور پھر بہتر روزگار کی تلاش میں ممبئی گئے۔ وہاں انہوں نے فلموں کے لیے گانے لکھے۔

ساحرؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے ہندوستانی فلموں کے گانوں کا معیار بہت بلند کیا۔ اپنے دور میں وہ سب سے مشہور گیت کار تھے۔ ان کے فلمی گانوں میں بھی ان کی شاعری کی تمام خوبیاں نظر آتی ہیں۔ ان کے گیتوں میں عوام کے دکھ درد اور ماحول کی مشکلات کی عکاسی ملتی ہے۔

ان کی پہلی شاعری کا مجموعہ “تلخیاں” تھا، جو کئی بار شائع ہوا۔ “آؤ کہ کوئی خواب بنیں” بھی ان کے مشہور شعری مجموعوں میں شامل ہے۔ “گاتا جائے بنجارہ” میں ساحرؔ کے فلمی گانے جمع کیے گئے ہیں۔ ساحرؔ کی نظم “پر چھائیاں” اردو کی طویل نظموں میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔

یہ مصرع شاعر کی طرف سے ایک عاجزانہ اور سنجیدہ پکار ہے۔ شاعر یہاں تمام اچھے، باشعور اور بااخلاق انسانوں کو مخاطب کر رہا ہے تاکہ وہ اس دردناک موضوع پر غور کریں۔

یہاں شاعر اس بات پر زور دے رہا ہے کہ چاہے کسی کا خون ہمارا ہو یا کسی دوسرے کا، سب انسان ہی ہیں، سب کا خون ایک جیسا ہے۔ انسانیت کے لیے خون کا رنگ یا ملک کی سرحد کوئی معنی نہیں رکھتا۔

چاہے جنگ دنیا کے مشرقی حصے میں ہو یا مغربی حصے میں، ہر جگہ پر امن کا خون بہایا جا رہا ہے۔ یعنی جنگ صرف جنگ نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کو نقصان پہنچاتی ہے۔

یہ شعر بتاتا ہے کہ جب بم عام لوگوں کے گھروں پر گرتے ہیں یا سرحدوں پر لڑائی ہوتی ہے، تو اس کا اثر صرف تباہی نہیں بلکہ ملک کی ترقی اور تعمیر کی روح بھی زخمی ہوتی ہے۔ جنگ کی وجہ سے ملک کی عمارتیں، منصوبے اور خوشحالی رک جاتی ہے۔

چاہے ہمارے کھیت جلیں یا دوسرے ملکوں کے، اس سے کسانوں کی محنت اور عام لوگوں کی روزی روٹی متاثر ہوتی ہے۔ لوگ بھوک اور کمی کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں، کیونکہ زمین جلنے سے کھانے کی پیداوار کم ہو جاتی ہے۔

یہاں شاعر جنگی ٹینکوں کی پیش قدمی یا پیچھے ہٹنے کی بات کر رہا ہے، مگر اصل نقصان زمین کو پہنچتا ہے جو بانجھ یعنی زرخیز نہیں رہتی۔ اس سے کھیت پیداوار بند ہو جاتے ہیں اور زمین بے آباد ہو جاتی ہے۔

چاہے جنگ میں جیت ہو یا شکست، اصل درد اور غم ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں۔ زندگی ہمیشہ مرنے والوں کے لیے روتی ہے، چاہے نتیجہ کوئی بھی ہو۔

یہ مصرع اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جنگ مسئلوں کو ختم نہیں کرتی بلکہ ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ مسائل کا حل تشدد یا لڑائی نہیں ہے۔

جنگ آج آگ اور خون کا باعث بنتی ہے، یعنی تباہی اور قتل عام ہوتا ہے، اور کل بھوک اور غربت کو جنم دیتی ہے کیونکہ جنگ سے معیشت تباہ ہوتی ہے اور لوگوں کو بنیادی چیزیں نہیں ملتیں۔

لہٰذا شاعر کہتا ہے کہ بہتر یہی ہے کہ جنگ نہ ہو، امن قائم رہے تاکہ انسانیت محفوظ رہے۔

آخری مصرعہ میں شاعر نے دعا کی ہے کہ ہم سب کے گھروں میں امن کی روشنی قائم رہے، جیسے کسی گھر میں شمع جلتی رہے۔ یہ امن کی علامت ہے، جو زندگی کو خوشگوار بناتی ہے۔

الف) ساحر علی
ب) لدھیان احمد
ج) عبد الحئی
د) محمد اقبال

الف) لدھیانہ
ب) دہلی
ج) ممبئی
د) لاہور

الف) تلخیاں
ب) آؤ کہ کوئی خواب بنیں
ج) پر چھائیاں
د) گاتا جائے بنجارہ

الف) دہلی
ب) ممبئی
ج) لاہور
د) کراچی

الف) 1936
ب) 1921
ج) 1947
د) 1950

الف) نسلِ آدم کا
ب) مسلمانوں کا
ج) کسی قوم کا
د) انسان کا نہیں

الف) روحِ تعمیر
ب) زمین
ج) پانی
د) آسمان

الف) محبت اور سکون
ب) آگ اور خون
ج) امن اور خوشحالی
د) دولت اور طاقت

الف) بھوک اور احتیاج
ب) سکون اور خوشحالی
ج) امن اور محبت
د) ترقی اور خوشحالی

الف) جنگ ہو جائے
ب) شمع ہمیشہ بجھ جائے
ج) شمع جلتی رہے
د) آنگن میں اندھیرا ہو

شاعر کا مطلب ہے کہ جنگ کی وجہ سے ملک یا معاشرے کی ترقی اور تعمیر کا جذبہ شدید متاثر ہوتا ہے۔ “روحِ تعمیر” سے مراد وہ توانائی اور حوصلہ ہے جو ملک کو آگے بڑھاتی ہے۔ جنگ میں تباہی اور بمباری سے یہ جذبہ زخمی ہو جاتا ہے، یعنی ترقی رک جاتی ہے، لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور ملک کے حالات خراب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے شاعر نے کہا ہے کہ جنگ صرف جانی نقصان نہیں بلکہ ترقی کی روح کو بھی زخمی کرتی ہے۔

“دھرتی کی کوکھ بانجھ ہونا” کا مطلب ہے کہ زمین اپنی زرخیزی کھو دیتی ہے اور فصلیں اگانا بند ہو جاتی ہیں۔ جیسے رحم بانجھ ہو تو اولاد نہیں ہوتی، ویسے ہی زمین بانجھ ہو جائے تو فصلیں نہیں اگتیں۔ جنگ کے باعث کھیت جل جاتے ہیں یا زمین خراب ہو جاتی ہے، جس سے کسانوں اور لوگوں کو بھوک اور مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شاعر نے جنگ کو “امنِ عالم کا خون” کہا ہے کیونکہ جہاں بھی جنگ ہوتی ہے، وہاں دنیا کے امن اور سکون کو نقصان پہنچتا ہے۔ جنگ میں نہ صرف انسان مرتے ہیں بلکہ پوری دنیا کا امن اور خوشحالی ختم ہو جاتی ہے۔ چاہے جنگ مشرق میں ہو یا مغرب میں، ہر جگہ امن کی قربانی دی جاتی ہے، اسی لیے شاعر نے اسے امن کا خون کہا ہے۔

جنگ ایک ایسا المناک واقعہ ہے جو انسانیت، معاشرے اور ملکوں کے لیے ناقابل برداشت نقصانات کا باعث بنتا ہے۔ جنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان انسانوں کو پہنچتا ہے۔ لاکھوں جانیں ضائع ہو جاتی ہیں، جوان اور معصوم لوگ مارے جاتے ہیں، جس سے خاندان بکھر جاتے ہیں اور لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر شدید صدمے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں، جس سے معاشرہ بے ترتیب ہو جاتا ہے۔

اقتصادی طور پر بھی جنگ بہت بڑا زہر ہے۔ جنگ کی وجہ سے ملک کی دولت ضائع ہو جاتی ہے کیونکہ ہتھیار بنانے، فوجی خرچ، اور جنگی کارروائیوں میں لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جنگ سے ملک کی صنعتی ترقی رک جاتی ہے اور زرعی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ کسانوں کو اپنا کام چھوڑنا پڑتا ہے یا فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ بے روزگار ہو جاتے ہیں کیونکہ کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں اور لوگ اپنی روزی روٹی کھونے لگتے ہیں۔

جنگ کی وجہ سے ملک کی فضا بھی خراب ہو جاتی ہے۔ فضائی، زمینی، اور سمندری جنگوں میں ماحول کو نقصان پہنچتا ہے۔ قدرتی وسائل جیسے زمین، پانی، اور جنگلات کو تباہی پہنچتی ہے، جس سے قدرتی توازن خراب ہوتا ہے۔ بہت سی جگہیں ایسی ہو جاتی ہیں جہاں انسان بسنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نفسیاتی اور سماجی نقصان بھی جنگ کی بدولت بہت بڑھ جاتے ہیں۔ جنگ نفرت، بداعتمادی، اور انتقام کی آگ بھڑکاتی ہے جو نسل در نسل چلتی رہتی ہے۔ جنگ کے بعد امن قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور معاشرے میں نفرت اور خلفشار کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ بچے جنگ کی صورت حال سے ڈرتے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت متاثر ہوتی ہے۔

آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ جنگ کے نقصانات ناقابل تلافی ہوتے ہیں۔ امن اور محبت کے ذریعے ہی ہم دنیا کو بہتر اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اختلافات کو بات چیت اور سمجھوتے سے حل کریں تاکہ جنگ کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکے۔

Scroll to Top