میر امن کی حالات زندگی
میر امن آج بہت مشہور ہیں، لیکن اپنے وقت میں وہ بالکل غیر معروف بلکہ گمنام رہے۔ دہلی، عظیم آباد اور پھر کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کی ملازمت سے پہلے ان کی زندگی زیادہ تر گمنامی اور غیر ادبی ماحول میں گزری۔ اسی وجہ سے وہ اہلِ علم کی نظروں سے چھپے رہے۔ اگر میر امن نے اپنی کتابوں باغ و بہار اور گنج خوبی میں اپنے بارے میں چند سطریں نہ لکھی ہوتیں، تو آج یہ جاننا مشکل ہوتا کہ وہ کون تھے اور کہاں کے رہنے والے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی یہ چند سطریں بھی اشاروں اور ابہام سے بھری ہوئی ہیں۔ اسی لیے ان کے اصل نام، تاریخ پیدائش، تعلیم اور ابتدائی مشاغل کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا آسان نہیں۔ لیکن انہی چند باتوں سے بعد میں ان کی سوانح کے بارے میں کچھ اندازہ لگایا گیا۔
نام، خاندان اور تعلیم
میر امن کی پیدائش کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ وہ دہلی کے رہنے والے تھے اور خود کو دہلی والا کہتے ہیں۔ البتہ ان کے اصل نام کے بارے میں مختلف رائے ملتی ہے۔ کسی نے انہیں میر امن کہا، کسی نے میر امان، کسی نے میر امان علی دہلوی اور کسی نے میر امام علی اسدی۔ خود انہوں نے اپنی کتابوں میں اپنا نام میر امن اور تخلص لطف لکھا ہے۔
گمان ہے کہ میر امن کا خاندان مغل بادشاہوں کے قریب رہا ہوگا اور بادشاہ وقت ان پر اعتماد کرتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہیں خانہ زاد موروثی کا لقب نہ ملتا اور نہ ہی ان کے خاندان کو منصب اور جاگیر ملتی۔ انہی بادشاہوں نے ان کے بزرگوں کو یہ سب کچھ دیا تھا۔ لیکن جب میر امن جوان ہوئے تو مغل سلطنت زوال کا شکار ہو رہی تھی اور اس کی شان و شوکت پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔
میر امن کی پیدائش کے بارے میں کوئی پختہ ثبوت نہیں، لیکن اندازہ ہے کہ وہ 1745 میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش اور ابتدائی تعلیم دہلی کے سید واڑہ علاقے میں ہوئی، جہاں زیادہ تر شریف گھرانے آباد تھے۔ ان کا خاندان بھی انہی میں شمار ہوتا تھا۔ اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ میر امن کو اچھا تعلیمی ماحول ملا۔ ان کی مادری زبان اردو تھی، مگر چونکہ اس وقت شریف لوگ فارسی زبان اور ادب پر عبور رکھتے تھے، اس لیے میر امن نے بھی فارسی پڑھی اور اس کے بڑے ادبی کاموں سے واقف ہوئے۔
ان کے بچپن اور جوانی کا زمانہ مغل سلطنت کے زوال کا دور تھا۔ اس وقت اردو ایک الگ زبان کی صورت میں ابھر رہی تھی، لیکن فارسی کی اہمیت ختم نہیں ہوئی تھی۔ میر امن فارسی ادب سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ انہوں نے اخلاق محسنی (فارسی) کا ترجمہ گنج خوبی کے نام سے کیا اور نو طرز مرصع کو فارسی انداز سے بدل کر باغ و بہار میں ڈھالا۔
دہلی سے ہجرت
میر امن کا بچپن اور ابتدائی جوانی دہلی میں امن و سکون کے ساتھ گزری۔ لیکن ان کی زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب وہ مجبوری میں دہلی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ وہ جلاوطنی کی حالت میں دہلی سے ہجرت کر گئے۔
اس ہجرت کی اصل وجہ انہوں نے کھل کر بیان نہیں کی، بس اشاروں میں ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق سلطنتِ مغلیہ کا بادشاہ شاہ عالم ثانی، جو تخلص میں آفتاب کہلاتا تھا، کچھ سیاسی مجبوریوں کے باعث دہلی کے تخت پر نہیں بیٹھ سکتا تھا اور الہ آباد میں رہنے پر مجبور تھا۔ بادشاہ کی غیر موجودگی میں دہلی کے حالات بہت خراب ہوگئے۔
پہلے جاٹوں نے دہلی کو نقصان پہنچایا، پھر افغانیوں نے اس کو اور زیادہ تباہ کر دیا۔ یہی دو بڑے اسباب تھے جن کی وجہ سے میر امن نے دہلی سے ہجرت کی۔
فورٹ ولیم کالج اور میر امن
اٹھارہویں صدی میں کلکتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا دارالحکومت تھا۔ یہاں سے کمپنی کی تجارت بھی بڑھی اور ہندوستان پر حکومت کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا۔ اس مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے برطانوی عہدیداروں نے کئی تدابیر اختیار کیں۔ انہی میں ایک تعلیمی ادارہ قائم کرنا بھی شامل تھا، جہاں انگلینڈ سے آنے والے انگریز افسروں کو ہندوستان کی تہذیب، زبان اور حالات سے واقف کرایا جا سکے تاکہ وہ مختلف اضلاع میں بہتر طریقے سے حکومت کر سکیں۔
اسی مقصد کے لیے 10 مئی 1800 کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل لارڈ رچرڈ ولزلی نے کلکتہ میں ایک کالج قائم کیا جو بعد میں فورٹ ولیم کالج کے نام سے مشہور ہوا۔ لیکن لندن میں بیٹھے کورٹ آف ڈائریکٹر اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایسا ادارہ مستقبل میں ان کے سیاسی منصوبوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا اور کمپنی اس کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی۔ انہوں نے ولزلی کو خط لکھ کر کہا کہ کالج بند کر دیا جائے۔ مگر یہ خط تب پہنچا جب کالج کا افتتاح ہو چکا تھا، اور ولزلی نے اسے بند کرنے سے انکار کر دیا۔
ولزلی نے کالج کے لیے ایک نصاب تیار کیا جس میں ہندوستان کی اہم زبانیں، قوانین، سیاست، یونانی و لاطینی زبانیں، انگریزی ادب، سائنس، تاریخ اور جغرافیہ سب شامل تھے۔ ہندوستانی زبانوں کے لیے ایک الگ شعبہ بنایا گیا اور 17 اگست 1800 کو جان گلکرسٹ کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ 29 اپریل 1801 کو میر امن اور دوسرے ادبا جیسے میر بہادر علی حسینی اسی کی سفارش پر کالج میں ملازم ہوئے۔ ان ملازمین کو منشی کہا جاتا تھا۔ ان کا اصل کام کتابوں کے تراجم کرنا تھا ساتھ ہی کالج کے طلبہ کو زبان و بیان کی مشق کرانا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔
جان گلکرسٹ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا مگر ہندوستان میں رہتے ہوئے اس نے اردو (اس وقت “ہندوستانی” کہلاتی تھی) پر گہری دسترس حاصل کر لی تھی۔ اس نے زبان کی قواعد پر کئی کتابیں بھی لکھی تھیں۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ کسی نئی زبان کو سیکھنے میں کن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے ترجمے کرنے والے منشیوں کو ہدایت دی کہ وہ اپنی تحریروں میں سادہ، عام فہم اور محاورے دار زبان استعمال کریں تاکہ ہر خاص و عام، ہندو یا مسلمان، مرد یا عورت، سب اسے سمجھ سکیں۔ میر امن اور دوسرے ادیبوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ان ہدایات پر سختی سے عمل کیا۔ یوں فورٹ ولیم کالج سے اردو نثر کی ایک نئی روایت کا آغاز ہوا۔
گلکرسٹ نے خود کوئی ترجمہ نہیں کیا لیکن اس کے خواب کو پورا کرنے والوں میں میر امن کا نام سب سے نمایاں ہے۔ کالج کا مقصد ہندوستانی زبان و ادب کو فروغ دینا نہیں تھا، بلکہ انگریز افسروں کو زبان سکھانا تھا۔ لیکن اتفاق سے اسی بہانے اردو، بنگلہ، مرہٹی اور ہندی جیسی زبانوں کو نئی زندگی ملی اور ان کا دائرہ وسیع ہوا۔ کالج کی شائع کردہ کئی کتابیں مغربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوئیں اور بیرونِ ملک تک مشہور ہوئیں۔ ان میں سب سے بڑی مثال میر امن کی باغ و بہار ہے، جسے انیسویں صدی میں انگریزی، پرتگالی، فرانسیسی اور لاطینی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔
جان گلکرسٹ جو میر امن کا قدردان تھا، 1804 میں اختلافات کی وجہ سے کالج چھوڑ گیا۔ اس کے تقریباً ایک سال بعد 30 جولائی 1805 کو کالج کا بانی لارڈ ولزلی بھی انگلینڈ واپس چلا گیا۔ اس کے بعد شعبۂ ہندوستانی کی ذمہ داری پیٹن جیمس ماؤٹ نے سنبھالی۔ انہی دنوں میر امن نے بڑھاپے کی وجہ سے ملازمت چھوڑنے کی درخواست دی جو 4 جون 1806 کو قبول کر لی گئی۔
میر امن کی وفات اور ان کے پس ماندگان
فورٹ ولیم کالج سے میر امن کی وابستگی تقریباً پانچ سال، ایک مہینہ اور چھ دن رہی۔ مگر کالج کی ملازمت چھوڑنے کے بعد وہ کلکتہ میں رہے یا عظیم آباد واپس چلے گئے یا کسی اور شہر کا رخ کیا، اس بارے میں تحقیق کرنے والوں کی رائے مختلف ہے۔
اکثر محققین کا خیال ہے کہ چونکہ میر امن نے ملازمت سے سبکدوشی کی وجہ بڑھاپا بتایا تھا، اس لیے غالب گمان ہے کہ وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے ہوں گے۔ لیکن ڈاکٹر فیروز احمد اور مرزا حامد بیگ اس خیال سے متفق نہیں ہیں۔ ڈاکٹر فیروز احمد نے اپنی رائے کے حق میں دو اہم ثبوت پیش کیے ہیں
باغ و بہار کے انگریزی ایڈیشن کے مرتب ایل۔ ایف۔ اسمتھ کی کتاب دی ٹیل آف فور درویش اشاعت 1813 میں ذکر ہے کہ اس زمانے تک میر امن زندہ تھے۔
باغ و بہار کے ایک قلمی نسخے (1247ھ/1832) کے دیباچے میں صرف امام علی اسدی ہی نہیں بلکہ ان کے بیٹے احسان علی کا نام بھی درج ہے۔
یہی احسان علی وہ ہیں جن کے لیے 1832 میں امام علی اسدی نے باغ و بہار کا قلمی نسخہ لکھا۔ اسے ڈاکٹر فیروز احمد نے 2012 میں شائع کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میر امن کا ایک بیٹا احسان علی تھا اور وہ اس زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت کے سلسلے میں ہانسی چھاؤنی میں موجود تھے۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ میر امن کالج سے سبکدوشی کے بعد بھی 1832 تک زندہ تھے اور ہانسی میں مقیم تھے۔
مزید تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ میر امن بعد میں حیدر آباد بھی گئے۔ لیکن وہ وہاں کب تک زندہ رہے اور کیا ان کا انتقال وہیں ہوا، یہ بات ابھی یقینی طور پر معلوم نہیں۔
میر امن نے اپنے خاندان میں چھوٹے بڑے دس افراد کا ذکر کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کثیر العیال تھے۔ لیکن ان کے پس ماندگان میں صرف احسان علی کا نام ہی ملتا ہے، کسی دوسرے فرد کا ذکر نہیں۔
میر امن کی ادبی خدمات
فورٹ ولیم کالج کی ملازمت سے میر امن کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہ دور ان کی شخصیت میں چھپی ہوئی تخلیقی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی کتابیں گنج خوبی اور اس سے بھی زیادہ مشہور باغ و بہار اسی تخلیقی صلاحیت کا واضح ثبوت ہیں۔
بدقسمتی سے میر امن کی زندگی کا یہ دور زیادہ لمبا نہ تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسی ملازمت کی وجہ سے ہم ان سے واقف ہوئے اور وہ میر امن دہلوی کے نام سے مشہور ہوئے۔
اگرچہ میر امن کی دونوں کتابیں ترجمے ہیں، لیکن ان میں صرف ترجمہ ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کی تالیف اور تصنیف کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ میر امن نے یہ کتابیں کب، کس کے کہنے پر اور کس انداز میں مکمل کیں۔
الف . باغ و بہار
فورٹ ولیم کالج سے وابستگی کے دوران میر امن کا پہلا بڑا کام قصہ چہار درویش کا اردو ترجمہ تھا۔ یہ قصہ اپنی فطرت میں داستانی خصوصیات رکھتا ہے اور صدیوں سے عوام میں مقبول چلا آ رہا تھا۔ یہ بات یقینی نہیں کہ جان گلکرسٹ نے یہ قصہ کہاں اور کس سے سنا یا کس زبان میں پڑھا، لیکن اتنا طے ہے کہ وہ اس کے اس اردو ترجمے سے ضرور واقف تھا جو نو طرز مرصع کے نام سے پہلے ہی موجود تھا۔
لیکن نو طرز مرصع کی زبان فارسی آمیز، مشکل اور نہایت پر تکلف تھی۔ اگرچہ اس میں ہندوستانی تہذیب کی جھلکیاں نمایاں تھیں، مگر عام فہم نہیں تھی۔ اسی وجہ سے گلکرسٹ نے فیصلہ کیا کہ اس قصے کو آسان اور سادہ زبان میں لکھوایا جائے تاکہ ہر شخص اسے سمجھ سکے۔
گلکرسٹ کی ہدایت پر میر امن نے ترجمے کا آغاز 1215ھ کے آخری مہینے میں کیا اور یہ کام 1217ھ کے شروع میں مکمل ہوا۔ اس کا پہلا نام قصہ چہار درویش تھا اور یہی نام اس مینول میں درج ہے جو گلکرسٹ نے 1801 میں فورٹ ولیم کالج کے طلبہ کے لیے مرتب کیا تھا۔ اس مینول میں باغ و بہار کے ابتدائی 102 صفحات شامل تھے۔
کتاب کی اشاعت کے دوران میر امن نے اپنے مسودے پر نظر ثانی کی اور آخر میں ایک قطعہ تاریخ شامل کرتے ہوئے اس کا نیا نام باغ و بہار رکھا۔ یہ نام کتاب کا بھی ہے اور اسی سے 1217ھ مطابق 1803 عیسوی کی تاریخ بھی ظاہر ہوتی ہے۔ کتابی شکل میں شائع ہونے میں کچھ وقت لگا اور آخرکار یہ 1804 میں شائع ہوئی۔ اس طرح 1804 ہی باغ و بہار کی پہلی اشاعت کا سال مانا جاتا ہے۔
باغ و بہار کا ماخذ
باغ و بہار میں شامل قصے اور اس کے مختلف حصے شروع سے ہی محققین کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ اس بات کی ابتدا خود میر امن نے کی۔ انہوں نے باغ و بہار کے دیباچے میں یہ قصہ امیر خسرو سے منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
یہ قصہ چار درویش کا ابتدا میں امیر خسرو دہلوی نے اس وقت کہا جب حضرت نظام الدین اولیا کی طبیعت خراب تھی۔ مرشد کا دل بہلانے کے لیے امیر خسرو یہ قصہ سنایا کرتے۔ اللہ کے کرم سے جلد ہی شفا ہوگئی۔ پھر غسلِ صحت کے دن حضرت نے یہ دعا دی کہ جو کوئی اس قصے کو سنے گا، خدا کے فضل سے تندرست رہے گا۔ تب سے یہ قصہ فارسی میں مشہور ہوا۔ مرتبہ ڈاکٹر فیروز احمد
اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ میر امن کے نزدیک چہار درویش کے اصل خالق امیر خسرو (م 1325) تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بات میں عقیدت زیادہ ہے اور سچائی کم۔ بعد کے تمام محققین مثلاً مولوی عبدالحق، محمود شیرانی، رشید حسن خاں اور جمیل جالبی نے میر امن کے اس دعوے کو درست نہیں مانا۔
اصل میں باغ و بہار کا ماخذ نو طرز مرصع ہے۔ میر امن نے اس کتاب سے قصہ تو لیا لیکن زبان و بیان کو مکمل طور پر اپنے انداز میں پیش کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ نو طرز مرصع اپنی مشکل اور بناوٹی زبان کی وجہ سے غیر مقبول ہوگئی، جب کہ باغ و بہار اپنی سادہ اور آسان نثر کے سبب بہت مقبول ہوئی۔
باغ و بہار کے قصے پر کئی منظوم (شاعری کی شکل میں) ترجمے بھی کیے گئے، لیکن یہاں ایک اور نثری ترجمے کا ذکر ضروری ہے جس کا نام بھی باغ و بہار ہے۔ یہ ترجمہ محمد غوث زریں (لکھنو) نے کیا اور اس کی تاریخ بھی وہی ہے یعنی 1217ھ۔ یہ دونوں کتابیں ایک ہی زمانے میں لکھی گئیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ دونوں مترجم ایک دوسرے کے کام سے واقف تھے یا نہیں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ زبان اور انداز کے اعتبار سے میر امن کی باغ و بہار زیادہ اعلیٰ اور بہتر ہے۔
ب ۔ گنج خوبی
گنج خوبی فارسی درسی کتاب اخلاق محسنی مصنف ملا واعظ کاشفی کا اردو ترجمہ ہے، جو اپنی شہرت اور اہمیت کے باعث ایک بڑی کتاب مانی جاتی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ میر امن نے باغ و بہار کے بعد 1803 میں شروع کیا اور تقریباً ایک سال بعد مکمل کیا۔
باغ و بہار کے مقابلے میں گنج خوبی ایک زیادہ مشکل اور بھاری کتاب ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اخلاق محسنی خود ایک بڑی اور تفصیلی کتاب ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں موضوعات اور مضامین کی تعداد بھی زیادہ ہے۔
اس کتاب کے بارے میں عبدالرحیم جاگیر دار لکھتے ہیں کہ
گنج خوبی دراصل ایک اخلاقی کتاب ہے۔ اسلامی اخلاق جب اپنی ترقی یافتہ شکل میں آیا تو اس میں کئی طرح کے اثرات شامل ہوئے۔ اس میں اسلام کے ابتدائی زمانے کی عربی روایتیں بھی ہیں، ایران، ہندوستان اور یونان کے فلسفوں کی جھلک بھی ملتی ہے، اور قرآن مجید، احادیث اور صحابہ کی زندگیوں کا اثر بھی نمایاں ہے۔ ساتھ ہی تصوف کی تحریک نے اس کو ایک نیا رنگ دیا۔ اس طرح مختلف اخلاقی نظاموں کے عناصر اس میں جمع ہو گئے اور ایک خوبصورت اور ہم آہنگ شکل اختیار کر گئے۔
انہی خصوصیات کی وجہ سے گنج خوبی کو ایک اخلاقی صحیفہ کہا گیا ہے۔ میر امن نے اس کے ترجمے میں بھی باغ و بہار کی طرح بڑی محنت اور توجہ سے کام کیا۔ لیکن چونکہ یہ کتاب زیادہ ضخیم تھی اور اس میں قصہ یا کہانی جیسی کشش نہیں تھی، اس لیے اسے وہ شہرت نہ مل سکی جو باغ و بہار کو ملی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب عام مطالعے میں کم رہی اور چھپنے کے مواقع بھی کم ملے۔
میر امن کی نثر
میر امن کی نثر کے بارے میں بات گنج خوبی سے شروع ہوتی ہے اور اس کا اطلاق ان کی مشہور کتاب باغ و بہار پر بھی ہوتا ہے۔ اگر ان کی نثر کے نمایاں پہلو بیان کیے جائیں تو وہ یہ ہیں
فارسی الفاظ کے لفظی یا جوں کے توں معنی لینے سے پرہیز
محاوروں اور روزمرہ زبان کا استعمال
عربی اور فارسی کے مشکل الفاظ اور اصطلاحات سے گریز
بول چال کی زبان کو اہمیت دینا
اردوئے معلا (خالص اور شستہ اردو) کی پاسداری
میر امن کے نزدیک ان کی نثر انہی خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ اگرچہ انہوں نے براہِ راست اپنی نثر کی سادگی اور روانی کا ذکر نہیں کیا، مگر دراصل بول چال اور اردوئے معلا کی زبان کے حوالے سے انہی خوبیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہی خصوصیات شاہ عالم ثانی کی تصنیف عجائب القصص میں بھی نظر آتی ہیں۔ ممکن ہے یہ کتاب میر امن یا گلکرسٹ کی نظر سے گزری ہو یا نہیں، مگر اس کی زبان باغ و بہار سے بہت قریب لگتی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اردو نثر کی سادہ بیانی صرف فورٹ ولیم کالج سے وابستہ نہیں بلکہ اس سے پہلے کی داستانوں میں بھی اس کا نمونہ موجود ہے، اگرچہ وہاں یہ کم پائی جاتی ہے۔
باغ و بہار کا ماخذ نوطرز مرصع کو مانا جاتا ہے، لیکن محققین کا خیال ہے کہ باغ و بہار کا بڑا حصہ اس سے مختلف ہے۔ میر امن نے نہ صرف اسلوب میں بلکہ کئی جگہوں پر واقعات اور جزئیات میں بھی تبدیلیاں کی ہیں۔ بعض جگہ تو قصے کی تفصیل نوطرز مرصع سے بالکل الگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باغ و بہار صرف ترجمہ نہیں بلکہ ایک الگ تخلیق محسوس ہوتی ہے۔
باغ و بہار میں ہندوستانی معاشرے، خاص طور پر اشرافیہ طبقے کی زندگی اور ان کے رہن سہن کا جو تفصیلی نقشہ ملتا ہے، ویسا نہ اس سے پہلے کی کسی تصنیف میں ہے اور نہ بعد کی میں۔ یہی تہذیبی ماحول اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ میر امن کی نثر میں ایک خاص دلکشی ہے۔ ان کا ہر پیرا گراف قاری کے دل و دماغ پر اثر ڈال دیتا ہے۔ یہی خصوصیت انہیں منفرد نثر نگار ثابت کرتی ہے۔ ان کی نثر میں نہ صرف ادبی لذت ہے بلکہ تخلیقی جوہر بھی شامل ہے، جو باغ و بہار کو ایک سادہ ترجمہ سے بلند اور ایک اصل تصنیف کے قریب تر بنا دیتا ہے۔