bagh o bahar kirdar ka jaiza باغ و بہار کے کرداروں کا جائزہ

یہ حصہ باغ و بہار کے کرداروں سے متعلق ہے۔ روایت سے الگ ہٹ کر ان کرداروں کا مطالعہ طبقاتی لحاظ سے کیا گیا ہے۔ آسانی کی خاطر انھیں اعلیٰ ، متوسط اور ادنی طبقہ سمجھا جاسکتا ہے۔

اعلیٰ طبقے کے تمام کردار خواہ بادشاہ زادہ ہو یا بادشاہزادی ، اپنے فعل و عمل کے اعتبار سے یکساں ہیں ۔ متوسط طبقے کے کردار کسی حد تک مختلف ہیں اور ان میں سے بعض قاری کو متاثر بھی کرتے ہیں۔ جب کہ ادنی طبقے میں کم از کم ایک کردار ایسا ہے جو اپنے پیشے کی لاج رکھتا ہوا نظر آتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ ایک کٹنی کا کردار ہے ۔ شاہی کرداروں کے مقابلے میں ایسے کردار زیادہ فعال اور متحرک ہیں۔ ان کی موجودگی باغ و بہار کے قصوں کو مزید دلکش اور قابل مطالعہ بناتی ہے۔

باغ و بہار ایک مختصر داستان ہے۔ طویل اور مختصر داستان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مختصر داستان میں واقعات کم اور کردار بھی محدود ہوتے ہیں۔ کردار اور واقعات کی کمی کی وجہ سے قصہ قاری کی دلچسپی برقرار رکھتا ہے۔ اگر کردار زیادہ ہوں یا واقعات کی تعداد زیادہ ہو تو قاری کسی خاص واقعہ یا کردار کے عمل کو سمجھنے میں مشکل محسوس کرتا ہے۔ اکثر قاری صرف ایک یا دو مرکزی کردار کے قریب ہوتا ہے اور باقی کردار کم توجہ حاصل کرتے ہیں۔

باغ و بہار میں عموماً تین طرح کے کردار ہیں

شاہی خاندان کے افراد جیسے بادشاہ، شہزادہ، شہزادی۔ اس گروہ میں تینوں شہزادے، آزاد بخت اور مختلف شہزادیاں شامل ہیں۔ یہ کردار مردانہ اور نسوانی دونوں طرح کے ہیں۔

دربار کے لوگ وزیر یا وزیر زادی، جو کسی خاص واقعے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ وزیر زادی جو سوداگر کے پاس جا کر اپنے باپ کی مدد کرتی ہے۔

سماجی لحاظ سے کم اہم کردار جیسے دو بوڑھی عورتیں۔ ایک چرخا کاتنے والی، جو خواجہ سگ پرست کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور دوسری بڑھیا کٹنی، جو اپنی چالاکی اور باتوں سے قاری پر اثر ڈالتی ہے۔

قصے میں شاہی کردار قصے کو وقار بخشتے ہیں، مگر ہر کردار میں زندگی یا جذبات کی جھلک نظر آتی ہے۔ بادشاہ آزاد بخت ایک اہم کردار ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد ہو، اور اسی خواہش کے سبب وہ چاروں درویشوں کی کہانی سنتا ہے۔ اس کے کردار میں انسانیت کے آثار واضح ہیں، مگر بعض پہلو جیسے کسی سوداگر کے دیے گئے پانچ مشقال کے لعل پر فخر کرنا اور تحقیق کے بغیر کسی کو سزا دینا، اس کی کم سمجھ بوجھ ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے فیصلے بعض اوقات دانشمندی سے خالی نظر آتے ہیں، جیسا کہ فرنگی ایلچی اور وزیر کی بیٹی کے سامنے سوداگر کے معاملے میں ہوا۔ آزاد بخت کے کردار میں عملی قدم یا خود اعتمادی کی کمی ہے اور وہ زیادہ تر ملک شہبال کے فیصلوں کے تابع رہتا ہے۔

چار مرکزی شہزادے اور چند شہزادیاں کہانی کے دلچسپ کردار ہیں، مگر جمیل جالبی کے مطابق یہ ٹائپ کردار ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی کم عمری میں عشق، دولت کی تلاش، گوہر کے لیے سرگردانی، بچھڑنے یا ناکامی پر خودکشی کرنے کی کیفیت، یہ سب انہیں دلچسپ بناتے ہیں مگر عملی سمجھداری یا مستقل مزاجی ان میں کم نظر آتی ہے۔

شہزادیاں عمومی طور پر حسن و عشق کی نمائندگی کرتی ہیں اور کہانی میں حالات و حادثات سے نبرد آزمائی نہیں دکھاتے۔ ان میں سب سے نمایاں کردار دمشق کی شہزادی کا ہے۔ اس کے جذبات اور پیچیدگیاں اسے دیگر شہزادیوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ کم عمری میں سوداگر یوسف کی طرف رغبت، بعد میں محبت اور قربت کی خواہش، سوداگر کی بے وفائی، اور اس کی بد دماغی، سب اسے انسانی فطرت کے قریب بناتے ہیں۔

ایک ۔ وزیرکی بیٹی اپنے باپ کی مدد کے لیے نیشاپور جاتی ہے،سوداگرکے پاس موجود بارہ لعل کا رازکھولتی ہے اوربادشاہ کے سامنے حقیقت واضح کرتی ہے۔

دو ۔ کٹنی بڑھیا ایک مختصر پیراگراف میں اس کی چالاکی اور باتوں کی مہارت دکھائی گئی، مگر یہی کردار قصے میں گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

Scroll to Top