Novel ki Tareef aur Ajzaye Tarkeebi ناول کی تعریف اور اجزائے ترکیبی

ناول انگریزی زبان کا لفظ ہے جو لاطینی زبان کے لفظ نووس سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے نئی چیز۔ روم کے پرانے بادشاہوں ہیڈریم اور جسٹی نین کے زمانے میں جو نئے فرمان یا قانون جاری ہوتے تھے، انھیں “ناولاس” کہا جاتا تھا۔ بعد میں جب انگریزی ادب میں رومانس جو اردو کی داستانوں کی طرح افسانوی صنف ہے ایک نئی صنف شروع ہوئی تو اسے “ناول” یعنی “نیا” کہا گیا۔ اس صنف کا نام ناول رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہر ناول کے کردار اور کہانی ہمیشہ الگ اور نئی ہوتی ہے۔ ادب کی دوسری اصناف کی طرح ناول کی بھی کوئی ایک حتمی تعریف نہیں ملتی۔ ہر ادیب اور نقاد نے اپنی سوچ کے مطابق ناول کو بیان کیا ہے۔ ان تعریفوں سے ناول کی شکل اور اس کے اہم حصے سامنے آتے ہیں۔ بعض تعریفوں میں کہانی کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے تو بعض میں کردار یا زندگی کی عکاسی کو۔

ای۔ ایم۔ فارسٹر نے اپنی کتاب ایسپیٹس آف ناول میں کہا ہے کہ

ہنری جیمس نے اپنی کتاب فیوچر آف ناول میں یوں لکھا ہے

رالف فاکس کے مطابق

قمر رئیس اور خلیق انجم نے اپنی کتاب اصنافِ ادب اردو میں ناول کو یوں بیان کیا ہے

ان مختلف تعریفوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ناول کیا ہے اور اس کی اہم خصوصیات کیا ہیں۔ ان تعریفوں سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں

ناول کے بنیادی اجزا درج ذیل ہیں

ناول کا سب سے اہم جزو “قصہ” یا “کہانی” ہے۔ ممتاز نقاد ای۔ ایم۔ فارسٹر نے کہا ہے کہ قصہ ناول کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ جیسے انسان ریڑھ کی ہڈی کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا، ویسے ہی ناول کہانی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔

کہانیاں سننا اور ان سے لطف لینا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اسی لیے لوگ ناول پڑھتے ہیں کیونکہ اس میں ایک کہانی موجود ہوتی ہے۔ بعض ناولوں میں ایک مرکزی کہانی ہوتی ہے، جبکہ کچھ میں کئی ذیلی کہانیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ایک واقعے کے بعد دوسرا واقعہ بیان کرنا اصل میں کہانی کہنا ہے۔

عام طور پر قصے کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ یہ کچھ واقعات یا حرکات کا سلسلہ ہے جو ترتیب سے پیش ہو کر کسی نتیجے تک پہنچے اور ہر قصے میں بنیادی تین حصے ہوتے ہیں

کہانی میں وقت کی ترتیب کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ زندگی میں بھی ہر کام ایک ہی وقت میں نہیں ہوتا۔ اسی لیے ناول کی کہانی میں وقت کے حساب سے ترتیب رکھی جاتی ہے۔ کہانی میں دلچسپی اور تجسس کا موجود ہونا ضروری ہے۔ واقعات کو جوڑنے والا دھاگا کبھی ٹوٹنا نہیں چاہیے، ورنہ کہانی کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ ایک اچھا قصہ وہ ہے جو پڑھنے یا سننے والے کو خوشی دے۔ لیکن بہترین قصہ وہ سمجھا جاتا ہے جو خوشی کے ساتھ ساتھ سوچنے کی صلاحیت اور نئی آگاہی بھی دے۔ قصہ ہر افسانوی صنف میں اہمیت رکھتا ہے، لیکن ناول کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کسی فرد کی پوری زندگی اور اس کے حالات کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ناول میں حقیقی زندگی کو تفصیل کے ساتھ دکھایا جاتا ہے۔ افسانے کے برعکس، ناول کے قصے کو جتنا چاہے پھیلایا جا سکتا ہے۔ اسی لیے اردو میں جہاں ایک چادر میلی سی جیسا مختصر ناول موجود ہے، وہیں لہو کے پھول جیسا طویل ناول بھی ہے جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔ دنیا کی دوسری زبانوں جیسے انگریزی، روسی، فرانسیسی اور عربی ناولوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔

ناول کے قصے کی کئی قسمیں ہیں

کچھ قصے ایسے ہوتے ہیں جن میں صرف ہیرو اور ہیروئن ہی اہم کردار ہوتے ہیں، اور پوری کہانی انہی کے گرد گھومتی ہے۔

کچھ قصوں میں ہیرو اور ہیروئن کے ساتھ ولن بھی ہوتا ہے، جو کہانی میں کشمکش پیدا کرتا ہے۔

ایک اور قسم یہ ہے کہ کہانی جس واقعے سے شروع ہوتی ہے، آخر میں پھر اسی پر واپس آجاتی ہے۔

ناول کے بنیادی اجزا میں پلاٹ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ پلاٹ دراصل واقعات کی ترتیب اور ان کے ربط کو کہا جاتا ہے۔ اگر ناول کو ایک عمارت سمجھا جائے تو پلاٹ اس عمارت کی بنیاد ہے۔ جیسے ایک عمارت کے تمام حصے آپس میں جُڑے ہوتے ہیں اور ایک مکمل شکل اختیار کرتے ہیں، ویسے ہی پلاٹ ناول کے مختلف حصوں کو جوڑ کر ایک مربوط کہانی بناتا ہے۔ اچھے پلاٹ میں واقعات اس طرح ترتیب پاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے جُڑے اور متاثر نظر آتے ہیں۔ محض واقعات کو بیان کرنا قصہ کہلاتا ہے، لیکن جب ان میں منطقی ربط ہو تو وہ پلاٹ بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کہا جائے کہ “ایک راجا تھا، ایک رانی تھی، پہلے راجا مر گیا اور پھر رانی بھی مر گئی” تو یہ قصہ ہے۔ لیکن جب یوں کہا جائے کہ “ایک راجا تھا، ایک رانی تھی، پہلے راجا کی موت ہوئی اور اس کے غم میں رانی بھی مر گئی” تو یہ پلاٹ ہے، کیونکہ اس میں واقعات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ایک دوسرے کو معنی دیتے ہیں۔

عام طور پر پلاٹ کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے حصے میں کرداروں کا تعارف کرایا جاتا ہے۔ دوسرے حصے میں واقعات میں پیچیدگیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ تیسرے حصے میں یہ پیچیدگیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ سلجھنا مشکل لگنے لگتا ہے۔ چوتھے حصے میں یہ اُلجھاؤ سلجھنے لگتا ہے اور پانچویں حصے میں کہانی اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ تاہم یہ ترتیب کوئی لازمی قاعدہ نہیں ہے۔ ہر ناول نگار اپنی ضرورت اور موضوع کے مطابق پلاٹ کو ترتیب دیتا ہے اور یہ ایک تخلیقی عمل ہے جس میں مختلف تجربات کیے جا سکتے ہیں۔

اچھا پلاٹ وہ ہے جس میں غیر ضروری واقعات شامل نہ ہوں اور ہر بات کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد دے۔ پلاٹ میں سادگی اور فطری پن ہونا چاہیے تاکہ قاری کو کسی زبردستی یا بناوٹ کا احساس نہ ہو۔ جیسے ایک ماہر سنگ تراش پتھر کو اس طرح تراشتا ہے کہ وہ خوبصورت مجسمہ بن جائے لیکن کاریگری چھپی رہتی ہے، ویسے ہی پلاٹ میں بھی فنی مہارت کے ساتھ سادگی دکھائی دینی چاہیے۔ پلاٹ کی کئی قسمیں ہیں۔ ڈھیلا پلاٹ وہ ہے جس میں مختلف واقعات ایک ہی کردار کے گرد گھومتے ہیں لیکن ان میں زیادہ ربط نہیں ہوتا۔ اس کی بہترین مثال پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ناول فسانہ آزاد ہے۔ اس کے برعکس مربوط یا گھٹا ہوا پلاٹ وہ ہے جس میں تمام واقعات ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں اور کہانی کا بہاؤ قائم رہتا ہے۔ فردوس بریں اور امراؤ جان ادا اسی قسم کی بہترین مثالیں ہیں۔ کچھ پلاٹ صرف ایک ہی کہانی پر مبنی ہوتے ہیں جبکہ بعض میں قصہ در قصہ کی صورت بھی ملتی ہے۔ بعض ناولوں میں کہانی صرف ہیرو اور ہیروئن کے گرد گھومتی ہے، لیکن کئی ناول ایسے بھی ہیں جن میں دوسرے کرداروں کے حالات بھی ساتھ ساتھ بیان ہوتے ہیں۔ ایسے پلاٹ کو کامیاب بنانے کے لیے ناول نگار کو بڑی احتیاط سے مختلف کہانیوں کو الگ الگ بھی رکھنا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے جوڑنا بھی پڑتا ہے۔ اصل فن یہ ہے کہ کہانیاں آپس میں ملیں مگر اُلجھیں نہیں۔

بنیادی بات یہ کہ پلاٹ ناول کی جان ہے۔ یہی وہ حصہ ہے جو واقعات کو ترتیب دیتا ہے، کہانی کو آگے بڑھاتا ہے اور قاری کو شروع سے آخر تک اپنے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔ اگر پلاٹ مضبوط اور دلچسپ ہو تو ناول کی کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔

ناول میں کردار کی اہمیت وہی ہے جو سماج میں انسان کی ہوتی ہے۔ جیسے معاشرے میں ہر فرد اپنی پہچان اور کردار رکھتا ہے، اسی طرح ناول میں کردار کہانی کو جان بخشتے ہیں۔ ناول کے کردار ہماری دنیا کے حقیقی انسانوں سے ہی ماخوذ ہوتے ہیں، لیکن یہ ان کا سیدھا چربہ نہیں ہوتے بلکہ ناول نگار ان میں تخیل اور فن کے ذریعے تبدیلی کرتا ہے۔ اسی لیے نصوح، ظاہر دار بیگ، خوجی، امراو جان ادا اور ہوری جیسے کردار حقیقت میں موجود نہیں تھے، لیکن ان کی خصوصیات ہماری حقیقی زندگی سے ہی لی گئی ہیں۔

کردار تخلیق کرنا ناول نگار کے لیے ایک نازک اور مشکل عمل ہوتا ہے۔ اسے نہ صرف انسانی عادات و اطوار اور نفسیات کا گہرا شعور ہونا چاہیے بلکہ مشاہدے کی باریک بینی بھی ضروری ہے۔ وہی ناول نگار کامیاب کردار تخلیق کر سکتا ہے جو حساس ہو اور زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کامیاب کردار قاری کے ذہن میں ایک واضح اور مکمل تصویر بناتے ہیں اور ایسا تاثر چھوڑتے ہیں جو ناول ختم ہونے کے بعد بھی یاد رہتا ہے۔ کردار نگاری میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کردار قدرتی اور حقیقت کے قریب نظر آئیں۔ ان کی خوشی، غم، محبت اور نفرت قاری کو متاثر کرے اور وہ محض مصنف کی کٹھ پتلی نہ لگیں۔ کردار اگر زندہ انسانوں کی طرح دکھائی دیں تو قاری ان سے اجنبیت محسوس نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اچھے کردار ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔

کردار دو طریقوں سے پیش کیے جاتے ہیں ایک تشریحی طریقے میں ناول نگار کردار کی خصوصیات اور خیالات براہ راست بیان کرتا ہے، جبکہ دوسرا ڈرامائی طریقے میں کردار اپنی گفتگو اور عمل سے خود کو ظاہر کرتا ہے۔ اچھے کردار وہ ہیں جو ناول کے آخر تک اپنے بارے میں نئی جھلکیاں دکھاتے رہیں۔

کرداروں کی کئی اقسام ہیں، جنہیں درج ذیل بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا ہے

ارتقا کے اعتبار سے کرداروں کی دو قسمیں ہیں ایک فلیٹ (سیدھے سادے) اور دوسرا راؤنڈ (بدلنے والے)۔

فلیٹ کردار میں ارتقا نہیں ہوتا۔ یہ شروع سے آخر تک ایک جیسے رہتے ہیں اور ان کی پہچان کسی ایک خاص صفت سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کے نصوح، ابن الوقت اور حجتہ الاسلام، سرشار کے ناول فسانہ آزاد کا خوجی اور پریم چند کے گئودان کا ہوری۔

راؤنڈ کردار وقت اور حالات کے مطابق بدلتے ہیں۔ وہ قاری کو حقیقی انسان لگتے ہیں کیونکہ ان میں خوشی، غم اور حالات کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ جیسے عزیز احمد کے ناول گریز کا نعیم، عبداللہ حسین کے اداس نسلیں کا نعیم، ممتاز مفتی کے علی پور کا ایلی کا ایلی اور الیاس احمد گدی کے فائر ایریا کا سہدیو۔

پلاٹ کے اعتبار سے کردار تین طرح کے ہوتے ہیں

مرکزی کردار ۔ یہ کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں اور ان ہی پر ناول کی جان ٹکی ہوتی ہے، جیسے ہیرو یا ہیروئن۔ کبھی ویلین بھی مرکزی کردار ہو سکتا ہے۔

معاون کردار ۔ یہ کہانی کے بڑے حصے میں موجود نہیں رہتے بلکہ کسی خاص مقصد کے لیے آتے ہیں اور پھر پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔

ذیلی کردار ۔ یہ بہت چھوٹے کردار ہوتے ہیں جن سے صرف کہانی کو سہارا ملتا ہے۔ مثال کے طور پر امراؤ جان ادا میں امراؤ جان مرکزی کردار ہے، خانم اور فیضو معاون کردار ہیں جبکہ مولوی صاحب اور گوہر مرزا ذیلی کردار ہیں۔

کردار ان کے کردار ادا کرنے کے دائرے کے لحاظ سے بھی تقسیم کیے جاتے ہیں

سماجی کردار ۔ جو معاشرے کے مسائل اور قدروں کو ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے پریم چند کے زیادہ تر ناولوں میں۔

سیاسی کردار ۔ جو تحریکوں اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں، جیسے حیات اللہ انصاری کا لہو کے پھول۔

فنتاسیائی کردار ۔ جن میں جانور یا غیر حقیقی مخلوق انسان کی طرح بولتے اور عمل کرتے ہیں، جیسے کرشن چندر کے ایک گدھے کی سرگذشت کا مسٹر ڈنکی آف بارہ بنکی۔

نفسیاتی کردار ۔ جو انسان کی اندرونی کیفیات کو پیش کرتے ہیں، جیسے ٹیڑھی لکیر کی شمن اور علی پور کا ایلی کا ایلی۔

تاریخی کردار ۔ جو تاریخ سے لیے گئے ہوتے ہیں لیکن ان میں تخیل بھی شامل ہوتا ہے، جیسے قاضی عبدالستار کے خالد بن ولید اور دارا شکوہ۔

کرداروں کو طبقے کے لحاظ سے بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

اعلی طبقے کے کردار اپنی شان و شوکت اور معاشرتی اثرات کے ساتھ آتے ہیں۔

متوسط طبقہ محنت، جدوجہد اور متوسط زندگی کی نمائندگی کرتا ہے۔

نچلے طبقے کے کردار غربت اور مسائل کو سامنے لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر گئودان کا ہوری نچلے متوسط طبقے کی نمائندگی کرتا ہے،رائے صاحب اعلی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور سلیا نچلے طبقے کی علامت ہے۔

کردار نگاری ناول کی جان ہے۔ کرداروں کے بغیر کہانی محض لفظوں کا مجموعہ رہ جاتی ہے۔ اچھے کردار وہ ہیں جو قاری کو حقیقت کے قریب لگیں، وقت کے ساتھ بدلیں، اور ناول ختم ہونے کے بعد بھی یاد رہیں۔ یہی فن کار کی اصل کامیابی ہے۔

ناول کا ایک نہایت اہم جزو مکالمہ ہے۔ مکالمے ہی کہانی میں جان ڈالتے ہیں اور ڈرامائی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اچھے مکالمے لکھنا بھی ایک فن ہے اور جب ناول نگار مکالمہ لکھتا ہے تو وہ دراصل ڈراما نگاری کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ مکالمہ نہ صرف کہانی کو آگے بڑھاتا ہے بلکہ کرداروں کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ کرداروں کے ارادے، جذبات اور احساسات کا اظہار سب سے زیادہ مکالمے کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ دو کرداروں کی فطرت اور رویے کا فرق بھی قاری کے سامنے کھل کر آتا ہے۔

اچھے مکالمے کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ مکالمہ کہانی کا لازمی حصہ ہو، یعنی اس سے پلاٹ میں آگے بڑھنے کا عمل نظر آئے اور کردار کی خصوصیات واضح ہوں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مکالمہ بالکل صاف، فطری اور موقع کے مطابق ہو۔ ہر کردار کا انداز گفتگو دوسروں سے الگ ہونا چاہیے کیونکہ جس طرح حقیقی زندگی میں ہر انسان کا بولنے کا طریقہ الگ ہوتا ہے، اسی طرح ناول کے کرداروں کے مکالموں میں بھی انفرادیت ہونی چاہیے۔ ناول نگار کو اس بات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ کردار اپنی عمر، طبقے، جنس اور سماجی حیثیت کے مطابق بات کرے۔ اگر مکالمے اس اصول کے مطابق لکھے جائیں تو وہ حقیقت سے قریب تر محسوس ہوتے ہیں اور قاری پر زیادہ اثر ڈالتے ہیں۔

ناول کا تعلق ہمیشہ کسی خاص دور، طرزِ زندگی، معاشرے اور ماحول سے ہوتا ہے۔ اس لیے ناول میں جغرافیائی ماحول دکھانا بھی ضروری ہے تاکہ قاری کو یہ احساس ہو سکے کہ کہانی کس پس منظر میں گزر رہی ہے۔ ناول نگار عموماً ماحول کو بیان کرنے کے دو طریقے اپناتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سماجی زندگی کو پیش کرتا ہے، جیسے بازاروں کی گہماگہمی، سڑکوں اور گلیوں کی کیفیت، عمارتوں کا نقشہ اور وہاں کی روزمرہ زندگی کا حال۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ قدرتی مناظر دکھاتا ہے، جیسے جنگلوں کی خاموشی، پہاڑوں کی بلندی، دریاؤں کی روانی یا آبشاروں کی خوبصورتی۔

قدرتی مناظر کی پیش کش میں بھی دو انداز اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ منظر کو مصور کی طرح بالکل ویسا ہی دکھایا جائے، یعنی اس کی شکل و صورت اور اچھائی برائی جوں کی توں بیان کر دی جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مناظر کو اس انداز سے پیش کیا جائے کہ وہ قصے یا کرداروں پر اپنا اثر ڈالیں۔ اس طرح ماحول صرف پس منظر نہیں رہتا بلکہ کہانی اور کرداروں کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔

ناول میں نقطہ نظر کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ناول دراصل زندگی کی عکاسی کرتا ہے اور اس عکاسی کے دوران لازمی طور پر ناول نگار کا اپنا نظریہ یا سوچ سامنے آتی ہے۔ ہر ناول نگار کے پاس زندگی کو دیکھنے کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ وہ کچھ باتوں کو پسند کرتا ہے اور کچھ کو ناپسند، یہی پسند اور ناپسند ناول میں اُس کے نقطہ نظر کے طور پر جھلکتی ہے۔ ناول نگار کا فلسفہ حیات عام طور پر دو طریقوں سے سامنے آتا ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ وہ زندگی کے ان پہلوؤں یا واقعات کو چنتا ہے جو اخلاقی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ کرداروں کے عمل اور ردعمل کو دکھاتے ہوئے ان تجربات کو نمایاں کرتا ہے جنہیں وہ زیادہ ضروری سمجھتا ہے۔ اس دوران وہ اپنے بیانات میں بھی اخلاقی پہلو کو شامل کرتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ مختلف کرداروں کی حرکات و سکنات کی وضاحت کرتا ہے۔ کسی عمل کو ہمدردی سے بیان کرتا ہے، کسی کو اچھائی کے ساتھ، کسی پر طنز کرتا ہے اور کسی کو نفرت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اس سے قاری کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ ناول نگار زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں کیا سوچ رکھتا ہے۔

یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ناول نگار کا فلسفہ حقیقت کے قریب ہے یا نہیں۔ یہ بہت اہم سوال ہے کہ ناول میں واقعات کتنے حد تک اصل زندگی سے ملتے جلتے ہیں۔ ایک اچھے ناول میں لازمی طور پر کوئی نہ کوئی پیام چھپا ہوتا ہے، لیکن یہ پیام براہِ راست نہیں دیا جاتا بلکہ اشاروں اور کرداروں کے عمل کے ذریعے سامنے آتا ہے۔ جب کہانی اور کردار اس طرح ترتیب دیے جائیں کہ پیام خود بخود قاری کے سامنے آئے، تو اس کا اثر زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ناول نگار اپنا نظریہ یا فلسفہ براہِ راست بیان کرے تو ناول کی خوبصورتی کم ہو جاتی ہے اور قاری کی دلچسپی بھی برقرار نہیں رہتی۔

ہر ناول نگار کہانی سنانے کے لیے ایک خاص طریقہ اختیار کرتا ہے، جسے تکنیک کہا جاتا ہے۔ ایک اچھے ناول میں اس کے مختلف حصوں میں وہ ربط اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو عام زندگی میں کم ملتی ہے۔ ناول نگار ہمیشہ واقعات اور کرداروں کو کسی نہ کسی اصول کے تحت ترتیب دیتا ہے۔ کچھ ناول نگار پلاٹ پر زیادہ زور دیتے ہیں، کچھ کردار پر، جبکہ کچھ ناول نگار پلاٹ اور کردار سے زیادہ موضوع اور اندازِ بیان پر توجہ دیتے ہیں۔

ناول لکھنے کی کئی تکنیکیں ہیں، جن میں خاص طور پر بیانیہ تکنیک، شعور کی رو کی تکنیک، خطوط اور ڈائری کی تکنیک اور فلیش بیک کی تکنیک اہم سمجھی جاتی ہیں۔ بیانیہ تکنیک میں کہانی ایک راوی کے ذریعے سیدھے سادے انداز میں سنائی جاتی ہے۔ اردو کے زیادہ تر ناول اسی تکنیک میں لکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر توبتہ النصوح، امراؤ جان ادا اور گئو دان اس کی مثالیں ہیں۔ شعور کی رو کی تکنیک میں کردار کا ذہن آزاد رہتا ہے۔ وہ کبھی حال میں اور کبھی ماضی میں چلا جاتا ہے جیسے انسانی سوچ کا بہاؤ ہوتا ہے۔ لندن کی ایک رات، گریز اور آگ کا دریا میں اس تکنیک کو کامیابی سے استعمال کیا گیا ہے۔

خطوط اور ڈائری کی تکنیک میں ناول پورے کا پورا خطوط یا ڈائری کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔ اس کی مثال قاضی عبدالغفار کے ناول لیلی کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری ہیں۔ فلیش بیک کی تکنیک میں ناول نگار حال سے ماضی میں جا کر کہانی کو بیان کرتا ہے۔ خدیجہ مستور کا مشہور ناول آنگن اس کی بہترین مثال ہے۔

ناول کے بنیادی حصوں میں اسلوب بھی نہایت اہم ہے۔ اگر ناول نگار نے اچھا موضوع چنا، خوبصورت پلاٹ بنایا، زبردست کردار تخلیق کیے اور صحیح تکنیک بھی استعمال کی، لیکن اسلوب اچھا نہ ہوا تو ناول کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسلوب ہمیشہ موضوع اور کردار کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایسا اندازِ بیان ہونا چاہیے کہ قاری کی توجہ صرف کرداروں اور واقعات پر رہے، اسلوب پر نہیں۔ اردو کے کئی بڑے ناول نگاروں نے اپنا الگ اسلوب قائم کرتے ہوئے واقعات اور کرداروں کو مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میں رتن ناتھ سرشار، مرزا ہادی رسوا، پریم چند، قرۃ العین حیدر اور قاضی عبدالستار کے ناول عمدہ مثالیں ہیں۔

Scroll to Top