Bihar Class 12 kahkashan chapter 1 khaka nigari nazeer ahmad ki kahani خاکہ نگاری نظیر احمد کی کہانی Solutions

خاکہ نگاری دراصل کسی شخصیت کی تحریری تصویر کشی کا نام ہے۔ یہ تصویر کسی بھی انداز کی ہو سکتی ہے چاہے وہ سنجیدہ اور پر وقار ہو یا پھر ہلکی پھلکی اور ظریفانہ۔ اسی وجہ سے خاکوں کی بہت سی قسمیں بن گئی ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ خاکہ لکھنے والا شخصیت کے خدوخال واضح کرتے وقت تھوڑی سی دل لگی سے بھی کام لیتا ہے۔ اسی طرح زیادہ تر خاکے کہیں نہ کہیں ہلکے پھلکے انداز کے ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خاکہ اڑانا ایک محاورہ بنا۔ حالانکہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ اچھی خاصی تعداد میں ایسے خاکے موجود ہیں جو بہت سنجیدہ یا علم سے بھرپور ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ خاکے ہر طرح کے انداز میں لکھے جا سکتے ہیں۔

اگر ہم اردو ادب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ بات محسوس ہوگی کہ ناولوں، افسانوں، تذکروں اور داستانوں کے ساتھ ساتھ مثنویوں میں بھی خاکہ نگاری کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔ کردار بنانے کے مرحلے میں اکثر کردار کا ایک ابتدائی خاکہ پیش کرنے کا رواج رہا ہے۔ شاید انہیں جگہوں سے خاکہ نگاری کی پہلی جھلکیاں ملی ہوں جنہیں مصنفین نے آہستہ آہستہ ایک الگ صنفِ ادب کے طور پر ترقی دی ہے۔ اب کہانیوں اور ناولوں کے علاوہ الگ سے بھی بڑی تعداد میں خاکے دستیاب ہیں۔

خاکوں میں ایک ساتھ خود نوشت سوانح عمری، یادیں، انشائیے اور افسانوں کے ساتھ ساتھ مضامین کے اجزا بھی شامل ہوتے ہیں۔ خاکہ نگار کی کمال یہ ہے کہ وہ ان تمام انواع کی حدود کو سمجھتے ہوئے اپنے خاکے کی حدیں طے کرے۔ بہترین خاکہ وہی ہوگا جس میں سوانح عمری، آنکھوں دیکھے واقعات، شخصیت کے دلچسپ پہلوؤں، اور اس شخص کی اصل قدر و قیمت کا پتہ چلے۔ اگر خاکہ نگار ان تمام حصوں میں توازن نہیں بنا پاتا تو اس کی کامیابی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ خاکہ نگار اگر صرف واقعات اکٹھے کر دے تو بھی وہ اچھا خاکہ نہیں کہلائے گا۔ اگر وہ صاحبِ خاکہ کی زندگی کی پریشانیاں بیان کرتے ہوئے پڑھنے والے کو اُداس ہی کرتا رہے تو بھی وہ اچھا خاکہ نہیں ہوگا۔ اگر خاکے میں اتنی مذاق کی باتوں کی بھر مار کر دی جائے کہ پڑھنے والا ہنستے ہنستے تھک جائے تب بھی خاکہ نگاری کے تمام کام پورے نہیں ہوں گے۔ خاکہ نگار اگر ان تمام مراحل میں ماہرانہ توازن بنا لے تو وہ خاکہ بے مثال مانا جائے گا۔

اردو ادب میں خطوطِ غالب اور آبِ حیات جیسی کتابوں میں شخصیات سے متعلق ایسی تحریریں ملتی ہیں جنہیں خاکہ نگاری کے سلسلے کی پہلی تحریریں سمجھنا چاہیے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنے استاد ڈپٹی نذیر احمد کا خاکہ ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی کے نام سے لکھا جسے خاکہ نگاری کی تاریخ میں ایک شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ رشید احمد صدیقی نے علم سے بھرپور اور سنجیدہ خاکوں کی ایک مضبوط روایت قائم کی۔ اشرف صبوحی اور شاہد احمد دہلوی نے باقاعدہ طور پر خاکے لکھے۔ ہلکے پھلکے انداز لکھنے والوں اور افسانہ نگاروں نے بھی توجہ سے خاکہ نگاری کی طرف دھیان دیا۔ اس صنف کو مقبول بنانے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ مزاح نگاروں میں شوکت تھانوی، یوسف ناظم، مجتبیٰ حسین اور احمد جمال پاشا نے جبکہ افسانہ نگاروں میں عصمت چغتائی اور منٹو نے بہترین خاکے لکھے۔ اب عام طور پر ادب سے وابستہ لوگوں، شاعروں یا بہت مشہور شخصیات کے ہی خاکے لکھے جاتے ہیں۔

مرزا فرحت اللہ بیگ کے پردادا مرزا افضل بیگ بدخشاں سے گھر بار چھوڑ کر شاہ عالم ثانی کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے اور فوج میں نوکری کر لی ۔ فرحت اللہ بیگ کے دادا مرزا عبد اللہ بیگ کے پاس زیادہ پیسہ نہیں تھا۔ 1857 کی لڑائی نے اس خاندان کو بھی متاثر کیا اور وہ دہلی چھوڑ کر حیدرآباد دکن چلے گئے۔

تذکرہ لکھنے والوں کے مطابق مرزا فرحت اللہ بیگ ستمبر 1883 میں پیدا ہوئے، لیکن ان کا اپنا کہنا ہے کہ ان کی پیدائش اگست 1885 میں ہوئی تھی اور یہی بات صحیح ہے۔ وہ دہلی کے محلہ چوڑی والان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مرزا حشمت اللہ بیگ تھا۔ فرحت اللہ بیگ جب پیدا ہوئے تو صرف دس دن کے تھے کہ ان کی والدہ مشرف جہاں بیگم کا انتقال ہو گیا۔ ان کی بیوہ پھوپھی جن کا نام حسن جہاں بیگم تھا اور جن کی کوئی اولاد نہیں تھی نے انہیں اپنے بیٹے کی طرح پالا۔ حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ کی مسجد میں ایک بزرگ سید ولی اللہ رہتے تھے انہوں نے ہی فرحت اللہ بیگ کی بسم اللہ خوانی کرائی۔ انہوں نے مولوی قمرالدین سے قرآن پاک پڑھنا سیکھا ۔ گورنمنٹ ہائی اسکول کشمیری دروازہ دہلی سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1901 میں وہ ہندو کالج میں داخلا لیا اور 1903 میں انہوں نے وہاں سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے سینٹ اسٹیفنز کالج سے بی اے کیا۔ انہوں نے اسی کالج میں ایم اے میں بھی داخلہ لیا لیکن گھر کی مالی حالت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے یہ تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ اپنے اسکول اور کالج کے زمانے میں انہیں کھیلوں کا بہت شوق تھا۔ وہ کرکٹ، ٹینس، بلیرڈ، چوسر اور شطرنج جیسے سبھی کھیل کھیلتے تھے۔

روزگار کی تلاش میں مرزا فرحت اللہ بیگ حیدرآباد آئے اور وہاں کے ایک اسکول میں انگریزی کے استاد لگ گئے۔ 1908 میں انہیں وہاں کے ہائی کورٹ میں مترجم بنا دیا گیا۔ 1910 میں انہوں نے عدالتی کا امتحان پاس کیا اور اس شعبے میں مختلف عہدوں پر ترقی پاتے ہوئے 1939 میں ہائی کورٹ کے انسپکٹنگ آفیسر بن گئے۔ وہ 1942 میں اس عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

مرزا فرحت اللہ بیگ کی شادی اگست 1908 میں ان کے چچا ساجد بیگ کی بیٹی نسیمہ سلطانہ سے ہوئی۔ ان کے انتقال کے بعد انہوں نے دوسری شادی اپنی پہلی بیوی کی بہن حمیدہ سلطانہ سے کی۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کا انتقال 27 اپریل 1947 کو دل کے دورے سے ہوا۔ انہیں ٹھکی جیل کے قریب واقع قبرستان سرائے الہی چمن میں دفنایا گیا۔

مرزا فرحت اللہ بیگ نے کئی مضامین لکھے ادیبوں کے حالاتِ زندگی پر قلمبند کیے، اور شاعری بھی کی۔ لیکن ان کی شہرت کی سب سے بڑی وجہ ان کا لکھا ہوا بے مثال خاکہ ‘ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی’ ہے۔ یہ خاکہ پہلی بار انجمن ترقی اردو ہند کے رسالے ‘اردو’ کے جولائی 1927 کے شمارے میں چھپا تھا۔ یہ خاکہ نہ صرف ان کا بلکہ اردو زبان کے بہترین خاکوں میں سے ایک ہے۔ ‘دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ’ اور ‘پھول والوں کی سیر’ بھی ان کی بہت مشہور تحریریں ہیں۔ ان کے مضامین ‘مضامینِ فرحت’ کے نام سے سات جلدوں میں ہے۔ ان کی دوسری اہم کتابوں میں انشا، دیوانِ یقین، دیوانِ نظیر، میری داستان اور میری شاعری شامل ہیں۔

یہ کہانی مرزا فرحت اللہ بیگ کی لکھی ہوئی ہے جس میں وہ اپنے استاد ڈپٹی نذیر احمد کے ساتھ گزارے ہوئے ایک واقعے کو بیان کرتے ہیں۔

فرحت اللہ بیگ اور ان کا دوست میاں دانی اپنے استاد مولوی نذیر احمد کے گھر سبق پڑھنے جاتے ہیں۔ ان کا ایک اور دوست رضا بھی ان کے ساتھ جانے کی ضد کرتا ہے۔ جب تینوں استاد کے پاس پہنچتے ہیں تو رضا سے سبق پڑھنے میں کئی غلطیاں ہوتی ہیں۔ مولوی صاحب اس سے ناراض ہو جاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ وہ پہلے کچھ دن اور پڑھ لے پھر ان کے پاس آیا کرے۔ یہ سن کر رضا شرمندہ ہو جاتا ہے اور وہاں سے چلا جاتا ہے۔

اس کے بعد فرحت اور دانی کی باری آتی ہے۔ فرحت سے بھی سبق پڑھنے میں غلطی ہو جاتی ہے۔ جب دانی پڑھتا ہے تو وہ شعر کو ایسا پڑھتا ہے جیسے وہ نثر ہو۔ اس پر مولوی صاحب کو بہت غصہ آتا ہے۔ وہ کتاب پھینک دیتے ہیں اور دونوں شاگردوں کو گھر سے باہر نکل جانے کو کہتے ہیں۔

لیکن فرحت اللہ بیگ ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہیں۔ وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور مولوی صاحب سے ضد کرتے ہیں کہ وہ تب ہی جائیں گے جب استاد انہیں پڑھا دے گا۔ آخرکار مولوی صاحب ان کی ضد کے آگے ہار مان لیتے ہیں اور انہیں پڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ بعد میں مولوی صاحب کہتے ہیں کہ دراصل وہ ان کے علم کے شوق کو آزما رہے تھے اور اگر وہ اس دن چلے جاتے تو شاید آگے نہ پڑھ پاتے۔

یہ کہانی ایک استاد اور شاگرد کے درمیان محبت اور ہنسی مذاق کے تعلق کو دکھاتی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ علم حاصل کرنے کے لیے لگن اور ضد کتنی ضروری ہوتی ہے۔ ایک اچھا استاد دراصل شاگرد کے اندر علم کے شوق کو دیکھنا چاہتا ہے چاہے اس کے لیے اسے ضد ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔

وہ مولوی صاحب کے گھر اپنا سبق پڑھنے اور ان سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے تھے۔

ایک عربی شاعر مُتَنَبّی کے اشعار پڑھانے کے دوران میاں رضا کی چھٹی ہوگئی۔

فرحت اللہ بیگ صرف و نحو میں کمزور تھے۔ وہ شعر پڑھتے وقت اعراب میں غلطیاں کرتے تھے  جس سے شعر کا وزن اور معنی بدل جاتے تھے۔

میاں دانی اعراب کی غلطی تو نہیں کرتے تھے، لیکن وہ شعر کو بالکل عام نثر کی طرح پڑھ دیتے تھے جس سے شعر کا وزن اور آہنگ ختم ہو جاتا تھا۔

مولوی صاحب کا پڑھانے کا طریقہ بہت پر اثر اور یادگار تھا۔ وہ شاگردوں کو اس طرح پڑھاتے تھے کہ سبق اچھی طرح سے یاد ہو جاتا تھا لیکن دماغ پر کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ وہ عملی مثالوں کے ذریعے سمجھاتے تھے، جیسے کہ انہوں نے رضا کو نظم و نثر کے فرق کو سمجھانے کے لیے کہا کہ پہلے وہ کسی اور کے پاس جا کر بنیادی باتوں کی مشق کرے۔

مولوی صاحب کا غصّہ بار بار ہونے والی غلطیوں، پڑھنے کے انداز کی بے قاعدگی اور شاگردوں کی ڈھٹائی کا مجموعی ردعمل تھا۔ فرحت، دانی اور رضا جب پڑھتے تو اکثر اعراب درست نہیں کرتے شعر کو نثر بنا دیتے یا مطالعے میں وہ باریکی نہ دکھاتے جو مولوی صاحب کو عزیز تھی۔ مولوی صاحب شاعری اور زبان کی متعلق حساس تھے جب بار بار اچھے شعر کو بے وقوفانہ طریقہ سے پڑھا گیا اور شاگرد ان ہدایات کو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے تو ان کی برداشت جواب دے گئی مگر اصل وجہ یہ تھی کہ یہ غلطیاں مستقل مزاجی سے ہوئیں اور شاگرد کسی عاجزی یا شرمندگی کا اظہار نہیں کر رہے تھے بلکہ بعض اوقات مذاق میں کام لیتے تھے اس لیے مولوی صاحب نے سخت انداز اختیار کر کے پہلی بار غصّے میں کتاب اٹھا کر پھینک دی اور انہیں گھر سے نکلنے کا حکم دے دیا۔

فرحت اللہ بیگ نے اپنے استاد سے نہ صرف زبان و قواعد کی تکنیک سکھیں بلکہ تحقیق، مشاہدے اور تحریری باریکیوں کا وہ سلوک بھی اپنایا جو بعد میں ان کی خاکہ نگاری میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ مولوی صاحب نے انہیں یہ سمجھایا کہ نظم و نثر میں فرق کیا ہے، اعراب اور عروض کی اہمیت کیا ہے، اور مطالعے میں تسلسل و مستقل مزاجی کس قدر ضروری ہے۔ نیز استاد نے کبھی براہ راست ہدایت کے ذریعے اور کبھی سختی کے ذریعے یہ سبق دیا کہ علم کے لیے جذبہ اور لگن دونوں درکار ہیں۔ ان سب سے فرحت نے صرف قواعد ہی نہیں بلکه استاد کے ساتھ جھگڑنے، ضد دکھانے اور پھر ثابت قدم رہنے کی حکمت سیکھی ۔ یہ وہ اصول ہیں جو ان کے خاکوں میں واضح حقیقت نگاری، چشم دید مناظر اور دل چسپ شخصیتی خاکوں کی صورت میں جھلکتا بھی ہے وہ محض واقعات نہیں سناتے بلکہ شخصیات کے اندر جھانکتے اور ان کے دلچسپ پہلو اجاگر کرتے ہیں۔

فرحت اللہ بیگ کی خاکہ نگاری کی خاصیت یہ ہے کہ وہ زندگی کے چھوٹے مگر معنی خیز مناظر کو اپنی زبان میں زندہ کر دیتے ہیں ان کے خاکے میں چشم دید واقعات، مقتبس سوانح، انشائی انداز اور افسانوی رنگ کے اجزا ایک ساتھ دکھتے ہیں۔ خاکے میں ان کی کمالیت اس بات میں ہے کہ وہ ہر حصے کی حدود جانتے ہیں کب سوانح کا حصہ دینا ہے کب آنکھوں دیکھی بات شامل کرنی ہے کب مزاح یا ظرافت کی چاشنی ڈالنی ہے اور کب سنجیدگی برقرار رکھنی ہے۔ وہ شخصیت کی خامیوں اور خوبیوں کو ایک متوازن نظریے سے پیش کرتے ہیں ۔ نہ صرف تعریف بلکہ ناپسندیدگی یا تنازعہ کو بھی حقیقت کے ساتھ جگہ دیتے ہیں۔ اس لیے ان کا خاکہ “ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی” اپنے توازن، منظر نگاری اور باہمی مذاق و احترا م کے ملاپ کی وجہ سے اردو میں مقامِ خاص رکھتا ہے۔ ساتھ ہی وہ خاکہ نگاری کے خطرات کو بھی سمجھتے ہیں مثلاً اگر خاکہ نگار محض واقعات کی فہرست بنا دے تو خاکہ ساکت اور بے جان ہو جائے گا یا اگر زندگی کے دکھ اتنے بڑھا دیے جائیں کہ قاری بیزار ہو جائے تو وہ کامیاب خاکہ نہیں رہے گا اور اسی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خاکہ نگار کو توازن قائم رکھتے ہوئے حقیقت، مزاح اور تجزیہ سب کو مناسب شان میں رکھنا ہوتا ہے۔

یہ قول مرزا فرحت اللہ بیگ کا ہےوہ اسی وقت بولے جب مولوی صاحب نے غصے میں انہیں گھر سے جانے کا حکم دیا تو فرحت نے ضداً کہا کہ وہ بغیر پڑھے نہیں جائیں گے اس کو انہوں نے کہا کہ “جب تک کوئی دھکّے دے کر نہ نکالے گا اس وقت تک تو ہم جاتے نہیں اور جائیں گے تو ابھی پھر آجائیں گے۔

اس جملے میں “دھکے دینے” کی بات محض جسمانی معنوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ علامتی انداز میں کہی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ اس قدر مضبوطی سے جمے رہے کہ استاد کو انہیں زبردستی نکالنا پڑے گا۔ اس قول کے پیچھے منطق یہ تھی کہ فرحت اور ان کے ساتھی مطالعے کے سلسلے میں اتنے پکے تھے کہ وہ درس کو چھوڑ کر جانے کو تیار نہ تھے بلکہ انھیں بھگانے کے دھکا دینا پرتا۔ علمی شوق اتنے پرزور تھے کہ استاد کو تشدد یا زبردستی سے انہیں ہٹانا پڑے گا ۔

یہ جملہ مولوی نذیر احمد نے کہا تھا، جب انہوں نے شاگردوں کی ضد اور مستقل مزاجی دیکھ کر ہنسی، غصہ اور حیرت بھرے جذبات کے ساتھ اظہارِعاجزی کیا۔ خدا محفوظ رکھے تم جیسے شاگرد بھی کسی کے نہ ہوں گے۔ شاگرد کیا ہوئے ، استاد کے استاد ہو گئے ۔ اچھا بھئی میں ہارا، میں ہارا،اچھا خدا کے لیے کتاب اٹھالا ؤ اور سبق پڑھ کر میرا پنڈ چھوڑو۔

مولوی صاحب نے یہ بات براہِ راست اپنے شاگردوں یعنی مرزا فرحت اللہ بیگ اور دانی اور ضمنی طور پر رضاسے کہی۔ اس وقت وہ شاگردوں کی مستقل موجودگی، ضد اور ان کے بے باکانہ انداز سے تنگ آ کر یہ کلام مولوی نے ان کی طرف مکمل توجہ کے ساتھ ادا کیا۔ وہ دراصل اسی فوراً واقع ہونے والی بحث اور شاگردوں کی ضد کے ردِ عمل کے طور پر یہ کہنا چاہتے تھے کہ ایسے شاگردان کے ساتھ رہنا بسا اوقات استاد کے لیے عملیاتِ صبر اور برداشت بن جاتا ہے، اس لیے یہ کلام انہی شاگردوں کو مخاطب کر کے کہا گیا۔

اس قول میں مولوی صاحب نے جن سے چھٹکارا پانے کی خواہش ظاہر کی وہ وہی شاگرد ہیں جو بار بار اشتعال اور ضد پیدا کر رہے تھے خصوصی طور پر فرحت اور دانی۔

اس مصرعے “شاگرد کیا ہوئے، استاد کے استاد ہو گئے” کا مفہوم لفظی نہیں بلکہ طنزیہ اور علامتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ شاگردوں کی ضد، غیر معمولی جوش اور اپنی راہ پر ڈٹے رہنے کی قوت نے استاد کو مجبور کر دیا کہ وہ خود شاگردوں کی روش سے سبق سیکھے یا کم از کم اس جوش کے سامنے ہار مان لے۔

Scroll to Top