Bihar Board Class 11 Urdu Chapter 1 Khutba Hindu aur Musalman ek Qaum hain خطبہ ہندو اور مسلمان ایک قوم ہیں solution

خطبہ تخلیقی ادب میں شامل نہیں ہوتا لیکن اگر ہم مذاہب اور علم کی تاریخ دیکھیں تو اس کی اہمیت بہت واضح ہو جاتی ہے۔ انبیاء کرام، اولیاء اللہ اور علمائے دین کی وہ باتیں جن میں عوام کی رہنمائی اور نصیحت کے لیے کوئی خاص پیغام دیا گیا ہو وہ خطبے کے زمرے میں آتی ہیں۔

ہندوستان میں جب جدید تعلیم عام ہونا شروع ہوئی تو خطبات کو ایک باضابطہ شکل ملی۔ خاص طور پر علی گڑھ تحریک کے زمانے میں مختلف دانش وروں نے ملک بھر میں عوامی تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جو بہت مقبول ہوا۔ انگریزوں کے ہاں بھی خطبات تہذیب کا حصہ بن چکے تھے اور وہاں کے بڑے لوگ اپنے خطبات تحریری شکل میں شائع کرتے تھے۔

قومی تحریک کے دور میں کانگریس کے صدور کے خطبات کو تاریخی اہمیت حاصل ہوئی۔ لیکن اس سے پہلے ہی سرسید احمد خان ان کے رفقا اور وِویکانند کے خطبات اپنی علمی اور فکری اہمیت کی وجہ سے یادگار بن چکے تھے۔ اردو میں سرسید احمد خان ان ابتدائی لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اپنی تقریروں کو تحریری شکل دے کر دائمی حیثیت دی۔ اسی طرح ڈپٹی نذیر احمد، شبلی نعمانی، علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی، ابوالکلام آزاد، ذاکر حسین اور سید ابوالحسن علی ندوی کے خطبات بھی ہمارے لیے قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان سب کے خطبات علم اور فکر کی بنیاد پر قائم تھے اور ان کی کوششوں سے ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔

اردو میں خطبہ، خطبات، خطاب، لیکچر اور اڈریس جیسی اصطلاحیں عام ہیں۔ یہ عام تقریر سے اس لیے الگ ہیں کہ یہ بڑے دانش وروں کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان کے موضوعات خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ایسے خطبات کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر یہ خطبات عقل اور حقائق کی بنیاد پر حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ہر خطبے کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے سنیں اور اس سے عوام اور قوم کو فائدہ پہنچے۔

سرسید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میر متقی اور دادا کا نام سید ہادی تھا۔ ان کے خاندان کے لوگ شاہ جہاں کے زمانے میں ہندوستان آئے اور بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ یہ گھرانہ معزز اور مذہبی حیثیت رکھتا تھا۔ سرسید کی ابتدائی تعلیم ان کی والدہ عزیز النسا بیگم نے دی۔ انہوں نے قرآن کریم کے چند پارے اور اردو کی بنیادی کتابیں پڑھائیں اور بیٹے کی تربیت بڑی محبت اور سلیقے سے کی۔ سرسید کا بچپن نانیہال میں گزرا اس لیے ان کے نانا خواجہ فرید الدین کا بھی ان کی شخصیت پر گہرا اثر رہا۔ بعد میں انہوں نے مولانا حمید الدین اور دیگر اساتذہ سے عربی، فارسی، طب اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔1836 ء میں انیس سال کی عمر میں سرسید کی شادی پارسا بیگم سے ہوئی۔ والد کی وفات کے بعد 1838ء میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم ہوئے۔ 1841ء میں منصفی کا امتحان پاس کرکے مین پوری میں منصف مقرر ہوئے۔ بعد میں ان کا تبادلہ فتح پور سیکری اور دہلی ہوا۔ 1842ء میں بہادر شاہ نے انہیں جوا الدولہ عارف جنگ کا خطاب دیا۔ 1855ء میں وہ صدر امین کی حیثیت سے بجنور گئے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے وقت وہ وہیں موجود تھے۔

غازی پور میں انہوں نے سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔ 1864ء میں علی گڑھ تبادلہ ہوا۔ اپریل 1869ء میں وہ لندن گئے اور اکتوبر 1870ء میں واپس آ کر رسالہ تہذیب الاخلاق نکالا۔ 1875ء میں انہوں نے مدرسۃ العلوم قائم کیا جو بعد میں ترقی کرکے 1920ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا۔ انگریزی حکومت نے انہیں سر کا خطاب دیا۔ 27 مارچ 1898ء کو ان کا انتقال ہوا۔ سرسید نے تعلیمی اور اصلاحی کوششوں کے ساتھ ساتھ لکھنے میں بھی دلچسپی لی۔ ان کی مشہور کتابوں میں آثار الصنادید، خطبات احمدیہ، اسبابِ بغاوتِ ہند، تفسیر القرآن اور تبین القرآن خاص طور پر اہم ہیں۔ انہوں نے کئی تاریخی کتابیں مرتب کیں اور اصلاحی مضامین بھی بڑی تعداد میں لکھے۔ سرسید اور ان کے ساتھیوں نے اردو نثر کو آسان اور مختصر بنا کر ایک نئی سمت دی۔ اسی وجہ سے انہیں اردو نثر کا “بابا آدم” بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو غدر کے غم سے نکال کر جدید تعلیم کی طرف راغب کیا۔ وہ ایک بڑے مصلح، رہنما اور ادیب کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

27 جنوری 1883ء کو پٹنہ میں دیے گئے ایک تاریخی لیکچر میں یہ بات بڑے زور سے کہی گئی کہ ہندو اور مسلمان ہندستان میں ایک ہی قوم ہیں۔ مقرر نے کہا کہ ملک میں یہ دونوں بڑی قومیں ایسے ہیں جیسے انسانی جسم کے اہم اعضا۔ ان میں سے کوئی ایک کمزور ہو جائے تو پورا جسم کمزور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہندو اور مسلمان دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ہندو ہونا یا مسلمان ہونا دل اور عقیدے کا معاملہ ہے مگر عملی زندگی، برتاؤ اور میل جول میں دونوں ایک ہیں۔ خدا کے حصے کو خدا پر چھوڑ دینا چاہیے اور دنیاوی معاملات میں باہمی محبت اور تعاون کو اپنانا چاہیے۔

مقرر نے بتایا کہ جس طرح ہندو صدیوں پہلے اس ملک کو اپنا وطن بنا چکے ہیں اسی طرح مسلمان بھی یہاں آ کر بس گئے اور ہندستان ہی کو اپنا وطن مان لیا۔ اب دونوں کی زندگی، کھانا پینا، ہوا پانی اور زمین ایک ہے۔ یہاں تک کہ رہتے رہتے دونوں کی شکل و صورت، عادات اور زبان تک میں فرق باقی نہ رہا۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کی کچھ عادات اپنائیں اور مسلمانوں نے ہندوؤں کی کچھ رسمیں۔ دونوں نے مل کر ایک نئی زبان اردو پیدا کی جو مشترکہ تہذیب کی علامت ہے۔ اس تعلق سے انہوں نے کہا کہ اگر مذہب کو الگ رکھ کر دیکھا جائے تو دونوں قومیں دراصل ایک ہی قوم ہیں اور ان کا اتحاد ملک کی ترقی اور بہبودی کے لیے ضروری ہے۔ اگر دونوں میں نفرت اور دشمنی بڑھے گی تو اس کا نقصان پورے ملک کو ہوگا اور سب کی بربادی ہوگی۔ انہوں نے ایک خوبصورت مثال دی کہ ہندستان ایک دلہن کی مانند ہے جس کی دو خوبصورت آنکھیں ہندو اور مسلمان ہیں۔ اگر یہ دونوں آپس میں جھگڑیں گے تو وہ دلہن بھینگی یا کانڑی ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر ہندو اور مسلمان آپس میں محبت اور اتحاد رکھیں تو ملک کی خوبصورتی اور طاقت برقرار رہے گی۔

آخر میں انہوں نے یہ پیغام دیا کہ دنیا میں رنجشیں اور اختلافات قدرتی ہیں لیکن ان کو قائم رکھنا اور بڑھانا بڑی بدبختی ہے۔ اصل خوش بخت وہ ہیں جو معافی مانگنے اور صلح کرنے میں پہل کرتے ہیں اور محبت کے رشتے کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔ انہوں نے دعا کی کہ خدا ہندستان کے لوگوں کے دلوں کو اتحاد اور بھائی چارے کی طرف پھیر دے۔

الف) تخلیقی ادب
ب) مذہبی تاریخ
ج) علمی تاریخ
د) سماجی زندگی

جواب ۔ الف) تخلیقی ادب

الف) مغل دور
ب) جدید تعلیم کے فروغ کے دور میں
ج) انگریزوں کے دور میں
د) تقسیم ہند کے بعد

جواب ۔ ب) جدید تعلیم کے فروغ کے دور میں

الف) 17 اکتوبر 1817ء
ب) 27 مارچ 1898ء
ج) 10 مئی 1857ء
د) 27 جنوری 1883ء

الف) خطبات احمدیہ
ب) آثار الصنادید
ج) تہذیب الاخلاق
د) تبین القرآن

الف) 1864ء
ب) 1870ء
ج) 1875ء
د) 1920ء

الف) 1857ء، دہلی
ب) 1869ء، لندن
ج) 1883ء، پٹنہ
د) 1898ء، علی گڑھ

الف) 17 اکتوبر 1817ء
ب) 27 مارچ 1898ء
ج) 27 جنوری 1883ء
د) 10 مئی 1857ء

الف) شبلی نعمانی
ب) سرسید احمد خان
ج) ابوالکلام آزاد
د) ذاکر حسین

الف) نواب
ب) خان بہادر
ج) سر
د) شمس العلماء

الف) ڈپٹی نذیر احمد
ب) علامہ اقبال
ج) سرسید احمد خان اور ان کے رفقا
د) سید سلیمان ندوی

سوال 1۔ سرسید احمد خاں کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟
جواب۔ سرسید احمد خاں 17 اکتوبر 1817ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔

سوال 2۔ ان کے اردو رسالے کا نام کیا تھا؟ یہ کب سے شائع ہونا شروع ہوا؟
جواب۔ ان کے اردو رسالے کا نام تہذیب الاخلاق تھا اور یہ اکتوبر 1870ء سے شائع ہونا شروع ہوا۔

سوال 3۔ علی گڑھ میں قائم ہونے والے ان کے مدرسے کا کیا نام تھا؟ یہ مدرسہ کب قائم ہوا؟
جواب۔ علی گڑھ میں ان کے مدرسے کا نام “مدرسۃ العلوم” تھا اور یہ 1875ء میں قائم ہوا۔

سوال 4۔ 1857ء کے غدر کے متعلق لکھی ہوئی ان کی کتاب کا کیا نام ہے؟
جواب۔ 1857ء کے غدر کے متعلق ان کی کتاب کا نام “اسباب بغاوت ہند” ہے۔

سوال 5۔ کیا سرسید ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرتے تھے؟
جواب۔ ہاں، سرسید ہندو مسلم اتحاد کے سخت حامی تھے اور وہ چاہتے تھے کہ دونوں قومیں آپس میں محبت اور اتحاد رکھیں تاکہ ملک کی ترقی اور بہبودی ممکن ہو۔

سوال 6۔ “ہندستان ایک دلھن کے مانند ہے”۔ انھوں نے یہ بات کیوں کہی؟
جواب۔ سرسید نے یہ بات اس لیے کہی تاکہ ہندو اور مسلمان کو سمجھایا جا سکے کہ اگر دونوں آپس میں نفرت اور جھگڑا رکھیں گے تو ہندستان برباد ہو جائے گا اور اگر محبت اور اتحاد رکھیں گے تو ملک خوشحال اور مضبوط رہے گا۔

سوال 1۔ ملک کی ترقی کے لیے سرسید ہندو مسلم اتحاد کو کیوں ضروری خیال کرتے تھے؟
جواب۔ سرسید کے مطابق ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ ہندو اور مسلمان آپس میں محبت اور اتحاد رکھیں۔ اگر دونوں قومیں ایک دوسرے کے خلاف نفرت یا دشمنی رکھیں گی تو ملک برباد ہو جائے گا۔ اتحاد اور باہمی ہمدردی سے ہی ملک میں امن، ترقی اور معاشرتی بہتری ممکن ہے۔

سوال 2۔ ہندستانی قومیت کے فروغ میں سرسید کی خدمات واضح کیجیے۔
جواب۔ سرسید نے ہندستانی قومیت کو فروغ دینے کے لیے تعلیم کے میدان میں اہم اقدامات کیے، جیسے مدرسۃ العلوم قائم کرنا اردو رسالے تہذیب الاخلاق کے ذریعے عوامی آگاہی پھیلانا اور ہندو مسلم اتحاد پر زور دینا۔ ان کے خطبات اور تصنیفات نے لوگوں کو وطن سے محبت اور باہمی تعاون کی طرف راغب کیا۔

سوال 3۔ سرسید کی حیات کے تعلق سے آپ کیا جانتے ہیں؟ بتائیے۔
جواب۔ سرسید احمد خاں 17 اکتوبر 1817ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ماں سے حاصل کی، بعد میں عربی، فارسی، طب اور ریاضی سیکھی۔ سرسید نے جدید تعلیم، اصلاحی کام، اردو نثر میں سادہ بیانی اور علمی و تاریخی کتابوں کی تالیف میں خدمات انجام دیں۔ 1875ء میں علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم قائم کی اور 27 مارچ 1898ء کو ان کا انتقال ہوا۔

سوال 4۔ ہندو اور مسلمانوں کے مابین محبت پیدا کرنے کے لیے کس طرح کی پیش قدمی پر سرسید نے زور دیا ہے؟
جواب۔ سرسید نے زور دیا کہ اختلافات اور رنجشوں کو طول نہ دیا جائے بلکہ معافی اور پیش قدمی کے ذریعے محبت اور بھائی چارہ قائم کیا جائے۔ اگر کوئی غلطی ہو بھی جائے تو فوراً معافی مانگ کر دلوں کو جوڑا جائے تاکہ ہندو اور مسلمان کے مابین اتحاد اور ہمدردی قائم رہ سکے۔

جواب . سرسید احمد خاں کے خطبات میں کئی اہم نکات شامل تھے جو معاشرتی، قومی اور اخلاقی سطح پر رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ دونوں قومیں ملک کی بنیادی اکائیاں ہیں۔ سرسید کے نزدیک مذہبی یا فرقہ وارانہ اختلافات انسانوں کے اخلاق اور آپس کے تعلقات کو خراب نہیں کر سکتے۔ ان کے خطبات میں یہ واضح کیا گیا کہ انسان کے دل اور عقل کا حصہ خدا کی ملکیت ہے اور انسان کو اس حصے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے لیکن اخلاق، محبت، بھائی چارہ اور دوسروں کے لیے ہمدردی انسان کی فطرت کا حصہ ہے اور اس کا اثر براہ راست معاشرت پر پڑتا ہے۔

سرسید نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر ہندو اور مسلمان آپس میں دشمنی یا نفرت رکھیں تو ملک کی ترقی رک جائے گی اور معاشرتی انتشار بڑھ جائے گا، لیکن اگر دونوں قومیں اتحاد، محبت اور تعاون کے اصول پر عمل کریں تو ملک میں امن، خوشحالی اور ترقی ممکن ہے۔ انہوں نے عملی رہنمائی بھی فراہم کی کہ اختلافات کو طول نہ دیا جائے بلکہ معافی، پیش قدمی اور محبت کے ذریعے انہیں دور کیا جائے۔ اس طرح کے خطبات عوامی شعور کو بیدار کرنے اصلاح معاشرہ کرنے اور ملک کی ترقی کی بنیاد ڈالنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

جواب . سرسید احمد خاں کی تعلیمی خدمات نہایت شاندار اور دور رس اثرات رکھنے والی ہیں۔ انہوں نے جدید تعلیم کو فروغ دینے کے لیے علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید علوم سائنس اور معاشرتی تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ یہ ادارہ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے روپ میں ترقی پایا اور آج بھی ملک میں تعلیم و تربیت کے لیے ایک معتبر مرکز ہے۔ سرسید نے اردو زبان میں عوامی رسائل اور کتابیں شائع کیں جیسے کہ تہذیب الاخلاق جس میں معاشرتی اصلاحات، اخلاقیات اور تعلیمی موضوعات پر روشنی ڈالی گئی۔ ان رسائل کا مقصد نوجوانوں اور عوام کو علمی، اخلاقی اور سماجی ترقی کی طرف راغب کرنا تھا۔ انہوں نے تعلیم کے ذریعے لوگوں میں شعور، انصاف پسندی، ہمدردی اور وطن سے محبت کے جذبات پیدا کیے۔

سرسید نے خاص طور پر مسلمانوں کو غدر 1857ء کے صدمے کے بعد بھی تعلیم کی طرف راغب کیا تاکہ وہ معاشرتی اور علمی ترقی کی راہ پر گامزن ہوں۔ انہوں نے اردو نثر کو سادہ اور عوامی سطح پر قابل فہم بنایا تاکہ ہر شخص تعلیم اور شعور حاصل کر سکے۔ اس طرح سرسید نے تعلیم کو ملک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی کے لیے بنیادی ستون بنایا۔

جواب . سرسید احمد خاں کو جدید ہندستان کے معمار کہنا بالکل درست ہے، کیونکہ انہوں نے ملک میں تعلیم، اصلاح اور قومی شعور کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے تعلیم کے فروغ کے لیے ایسے اقدامات کیے جو ملک کی سماجی اور علمی ترقی میں مددگار ثابت ہوئے۔ ان کی کوششوں سے ہندو اور مسلمان کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی پیدا ہوئی، جس سے قومی شعور کو فروغ ملا۔ سرسید نے اردو نثر کو سادہ اور آسان بنا کر عوامی تعلیم کے لیے قابل رسائی بنایا اور اپنے خطبات و تحریروں کے ذریعے معاشرتی اصلاحات کی ترغیب دی۔ علی گڑھ میں قائم کیے گئے ادارے جیسے مدرسۃ العلوم بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہو کر ملک میں جدید تعلیم کا اہم ستون بن گئے۔ مزید یہ کہ سرسید نے مسلمانوں کو مغربی علوم اور سائنس سے روشناس کرایا اور اس بات پر زور دیا کہ تعلیمی ترقی کے بغیر معاشرتی اور قومی ترقی ممکن نہیں۔ ان کی یہ خدمات انہیں جدید ہندستان کے معمار بنانے کے لیے کافی ہیں کیونکہ انہوں نے نہ صرف تعلیمی بلکہ سماجی اور اخلاقی اصلاحات کے ذریعے ملک کے مستقبل کی بنیاد رکھی۔

جواب . سرسید احمد خاں کا یہ خیال تاریخی حقائق پر مبنی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہندو قدیم زمانے سے ہندستان کے باشندے ہیں اور مسلم آبادی مختلف ادوار میں یہاں منتقل ہوئی لیکن دونوں قومیں صدیوں سے اس ملک میں آباد ہیں اور اس کی ترقی میں برابر کی شریک ہیں۔ سرسید نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں قومیں اس ملک کی تہذیب، ثقافت اور معاشرتی ڈھانچے کا حصہ ہیں اور دونوں کی موجودگی ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ یہ تاریخی حقیقت اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ مذہبی یا نسلی اختلافات کے باوجود وطن کی محبت اور ایک دوسرے کے احترام کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں۔ سرسید کا یہ بیان ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں اصل میں ہندستان کے شہری اور باشندے ہیں اور انہیں اپنے اختلافات کو چھوڑ کر باہمی اتحاد اور تعاون کے لیے کام کرنا چاہیے۔

جواب . سرسید احمد خاں نے اس عبارت میں ایک نہایت اہم نصیحت دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ ہندو اور مسلمان کے درمیان دشمنی، اختلاف اور نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کے یہ اقدامات نہ صرف معاشرت اور ملک کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ وہ خود بھی اس نقصان میں شریک ہوتے ہیں۔ سرسید نے اس صورتحال کو اپنے پانو پر کلھاڑی مارنے کے مترادف بیان کیا ہے یعنی جو شخص تفرقہ پھیلاتا ہے وہ دراصل اپنی تباہی کا سبب بنتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ انسانوں میں اختلافات اور رنجشیں فطری ہیں، لیکن ان کو طول دینا، بڑھانا یا دشمنی میں بدلنا ملک، قوم اور معاشرت کے لیے نقصان دہ ہے۔ سرسید نے زور دیا کہ اختلافات کو معافی، پیش قدمی اور محبت کے ذریعے حل کرنا چاہیے تاکہ ہندو اور مسلمان آپس میں اتحاد اور ہمدردی کے ساتھ رہیں اور ملک کی ترقی اور خوشحالی ممکن ہو۔ اس طرح کے اصول آج بھی سماجی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کے لیے مشعل راہ ہیں۔

Scroll to Top