muflisi sab bahar khoti hai ghazal ki tashreeh مفلسی سب بہار کھوتی ہے غزل کی تشریح wali dakni ki shayari ki khususiyat ولی دکنی کی شاعری کی خصوصیات

اس شعر میں شاعر نے مفلسی (غربت) کے اثرات کو بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب انسان غربت میں مبتلا ہوتا ہے تو اُس کی زندگی کی تمام خوشیاں اور بہاریں ختم ہو جاتی ہیں۔ غربت نہ صرف انسان کی ظاہری رونق اور سُکھ چین کو چھین لیتی ہے بلکہ اس کی سماجی عزت اور وقار کو بھی مجروح کر دیتی ہے۔ معاشرے میں غریب آدمی کی بات کا وزن نہیں رہتا اور لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے۔ اس شعر کے ذریعے ولیؔ نے یہ حقیقت واضح کی کہ انسان کی خوشحالی اور عزت میں دولت کی بڑی اہمیت ہے۔

یہاں شاعر محبوب کی زلفوں کے ذکر کے ذریعے اپنی داخلی کیفیت بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب کبھی مجھے دل کا سکون اور ذہنی یکسوئی ملنے لگتی ہے تو تیرے حسن کی زلفیں میرا یہ سکون چھین لیتی ہیں۔ محبوب کی زلفیں اتنی دلکش اور پرکشش ہیں کہ وہ عاشق کو مضطرب اور بے چین کر دیتی ہیں۔ “جمعیت” سے مراد دل کا سکون اور یکسوئی ہے جبکہ “قرار کھونا” عاشق کی اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جس میں محبوب کے حسن نے اُس کی روحانی اور نفسیاتی سکونت کو تہ و بالا کر دیا ہے۔

اس شعر میں شاعر نے محبوب کی آنکھوں کو شراب سے تشبیہ دی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہر صبح جب میرے شوخ محبوب کی نشیلی اور جادو بھری آنکھیں مجھ پر پڑتی ہیں تو وہ میری آنکھوں کے تمام خمار کو ختم کر دیتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محبوب کی نگاہیں اتنی پُراثر اور دلربا ہیں کہ اُن کے سامنے دنیا کی ہر مستی اور ہر نشہ بے معنی لگتا ہے۔ یہاں ولیؔ نے “نگہ کی شراب” اور “خمار” جیسے الفاظ سے تشبیہ اور استعارے کے ذریعے شعر کو معنوی گہرائی دی ہے۔

یہاں شاعر کہتا ہے کہ میں کیوں اپنے محبوب (صنم) سے ملنے کو ترک کروں؟ اگر میں اس سے ملنا چھوڑ دوں تو میری محبت اور دلبری کی ساری کیفیت ہی ختم ہو جائے گی۔ اس شعر میں عاشق کی شدتِ محبت اور محبوب سے جڑے رہنے کی خواہش ظاہر ہوئی ہے۔ شاعر کے نزدیک ملاقات عشق کی روح ہے۔ اگر محبوب سے ملاقات نہ ہو تو عشق اپنی مٹھاس اور دلکشی کھو دیتا ہے۔ اس طرح شاعر نے عشق کے لازمی جذبے کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

غزل کے اس مقطع میں شاعر اپنی بات کو نتیجے کی شکل میں بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اے ولیؔ! جب بھی وہ پری چہرہ (یعنی حسین محبوب) سامنے آتا ہے تو میری ساری غمگینی اور دل کی گرد و غبار دھل جاتی ہے۔ محبوب کا دیدار دل کو سکون، خوشی اور تازگی بخشتا ہے۔ یہاں “غبار کھونا” دل کی کدورت اور اداسی کے ختم ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کے نزدیک حسنِ محبوب نہ صرف دل کو مسرور کرتا ہے بلکہ اس کے دکھ اور غم بھی دور کر دیتا ہے۔

اس غزل میں ولیؔ دکنی نے زندگی اور محبت کے مختلف پہلوؤں کو نہایت سادہ اور دلنشین انداز میں بیان کیا ہے۔ پہلے شعر میں وہ مفلسی (غربت) کے اثرات کا ذکر کرتے ہیں کہ غربت نہ صرف انسان کی زندگی کی خوشیاں چھین لیتی ہے بلکہ اس کی عزت و وقار کو بھی مجروح کر دیتی ہے۔ اس کے بعد کے اشعار میں شاعر نے حسنِ محبوب کو موضوع بنایا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ محبوب کی زلفیں عاشق کے دل کا سکون چھین لیتی ہیں اس کی آنکھوں کی جادو بھری نظر دنیا کے ہر خمار کو بے اثر کر دیتی ہے اور محبوب سے ملاقات ترک کرنا عشق کی اصل لذت کو ختم کر دیتا ہے۔ مقطع میں شاعر بیان کرتا ہے کہ محبوب کا دیدار اس کے دل کی ساری کدورت اور غم دور کر دیتا ہے اور اسے تازگی و سکون عطا کرتا ہے۔ یوں یہ غزل ایک طرف زندگی کی تلخیوں (غربت) کو ظاہر کرتی ہے اور دوسری طرف حسن و عشق کی کشش اور محبوب کی مسکراہٹ سے حاصل ہونے والے سکون کو اجاگر کرتی ہے۔ ولیؔ نے اس غزل میں اپنی مخصوص سادہ بیانی اور دلکش تشبیہوں کے ولی دکنی کی شاعری کی خصوصیاتذریعے عشق کے پرکیف جذبات کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

اردو شاعری کی ابتدا اگرچہ امیر خسرو کے زمانے سے ہی ہو گئی تھی لیکن اُس وقت ہندی، ہندوی یا ریختہ کو وہ مقام حاصل نہیں تھا جو فارسی کو حاصل تھا۔ اُس زمانے کے شاعر ہندوستان میں رہتے تھے لیکن شعر فارسی میں کہتے تھے اور ایران کے شاعروں کی نقل کرتے تھے۔ کبھی کبھار تفریح کے طور پر ریختہ میں بھی شعر کہہ لیتے مگر اصل اہمیت فارسی کو ہی حاصل تھی۔ اس طرح احساس اور زبان کے بیچ ایک خلا موجود تھا۔ 1720ء میں جب ولیؔ کا دیوان دہلی پہنچا تو لوگوں کے لیے یہ ایک نئی خوشی کی لہر تھی۔ ان کا کلام عام لوگوں سے لے کر اہلِ علم تک سب کو پسند آیا۔ ان کے دیوان کی کئی نقلیں بنائی گئیں ان کی غزلوں پر غزلیں کہی گئیں اور انہیں ریختہ کا بادشاہ مان لیا گیا۔ بعد کے نقادوں نے ولیؔ کو اردو کا “چاسر” کہا۔ میر تقی میر سے پہلے اردو غزل میں وہی مقام ولیؔ کو حاصل تھا جو بعد میں میر کو ملا۔

ولیؔ نے نہ صرف اردو زبان کو ایک نئی شاعری دی بلکہ اظہار کے ایسے نئے راستے دکھائے جو تصنع سے آزاد تھے۔ وہ فارسی شعراء کے برعکس خیالی حسن کے بجائے جیتے جاگتے حسن کے شاعر تھے۔ انہوں نے زبان میں نئے تجربے کیے اور ہندی، پنجابی اور عام بول چال کے الفاظ کو اردو اور فارسی الفاظ کے ساتھ جوڑ کر نئے پُراثر اور خوبصورت محاورے اور ترکیبیں بنائیں جیسے “برہ کا غنیم” (یعنی فراق کا دشمن)، “نور نین” (یعنی نور چشم) یا “شیریں بچن” (یعنی شیریں زبان) وغیرہ۔ ان ترکیبوں میں دوسری زبانوں کے الفاظ بالکل اجنبی نہیں لگتے بلکہ فنکاری کا ایک حسین نمونہ بن جاتے ہیں۔ ولیؔ نے زبان کو ایک دم الٹ پلٹ کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ آہستہ آہستہ نئے انداز رائج کیے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری آج کی اردو جیسی رواں اور آسان زبان کا نمونہ لگتی ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ سادہ بیانی کے بادشاہ ہیں۔ تشبیہات میں بھی ولیؔ کا کوئی ثانی نہیں۔ مثلاً زلف کے مضمون پر بے شمار فارسی اور اردو شاعروں نے شعر کہے ہیں لیکن کوئی نیا پن نظر نہیں آتا۔ ولیؔ نے زلف کو “جمنا کی موج” اور اُس کے قریب تل کو “سنیاسی” کہا۔ ایک اور شعر میں زلف کو “پیاسی ناگن” سے تشبیہ دی جس سے پرانا مضمون بھی نیا اور دلکش بن گیا۔ اسی طرح وہ ابرو کو محرابِ دعا اور کاکل کو دریا کی موج کہہ کر جدت پیدا کرتے ہیں۔

ولیؔ حسن کے دلدادہ تھے چاہے وہ فطرت کا ہو یا انسان کا۔ ان کا محبوب چلتا پھرتا جیتا جاگتا انسان ہے جس کی تعریف وہ بار بار کرتے ہیں۔ وہ ہجر و فراق کے بجائے زیادہ تر محبوب سے مخاطب رہ کر اُس کے حسن کو بیان کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی شاعری میں “اُس” کے بجائے “تجھ” زیادہ ملتا ہے۔ ان کا لہجہ محبت بھرا، شائستہ اور کبھی کبھی ہلکی پھلکی شوخی لیے ہوتا ہے، لیکن پھکڑ پن نہیں۔ ولیؔ کے یہاں معشوق شوخ، چنچل، مان بھری اور شیریں زبان ہے۔ سراپا نگاری میں وہ نت نئی ترکیبیں اور تشبیہیں تلاش کرتے ہیں۔ فطرت کے حسن کو محبوب کے حسن کے ساتھ ملا کر پیش کرتے ہیں۔ مثلاً دریا، موج، سورج، چاند اور شفق سب میں انہیں محبوب کی جھلک نظر آتی ہے۔

ولیؔ کے کلام میں تصوف کی گہرائی یا سنجیدہ اداسی کم ملتی ہے۔ ان کی سب سے بڑی پہچان تازگی اور فرحت ہے۔ ان کے اشعار خوشبو دار پھولوں کی طرح ہیں، جن کے بیچ کبھی کبھار بلبل کی آواز آ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو غزل کو جو نئی راہ ملی اُس کا سہرا سب سے پہلے ولیؔ کے سر جاتا ہے۔ میر نے اس روایت کو مزید آگے بڑھایا اور نظیر اکبرآبادی کے ہاں یہ کچھ بگڑی ہوئی شکل میں نظر آئی۔

Scroll to Top