hamare aage tera jab kaso ne naam liya ghazal ki tashreeh ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا غزل کی تشریح

شاعر کہتا ہے کہ جب بھی کسی نے میرے سامنے میرے محبوب کا نام لیا تو میرا دل جو پہلے ہی محبت کے دکھوں سے زخمی تھا تڑپ اٹھا۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے دل کو سنبھالا تاکہ میری کیفیت ظاہر نہ ہو جائے۔
یہ شعر عاشق کے درد، محبت کی شدت اور دل کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ میرؔ نے یہ بتانا چاہا کہ عاشق کے لیے محبوب کا نام بھی ایک زخم کو تازہ کرنے کے مترادف ہے۔ دل “ستم زدہ” ہے یعنی پہلے ہی زخم کھا چکا ہے اس لیے اس کا سہارا دینا ضروری ہو گیا۔

شاعر کہتا ہے کہ اگر کسی کے نصیب کی مثال دینی ہو تو زلیخا کی قسم کھاؤ کیونکہ وہ عزیزِ مصر کی بیوی تھی لیکن قسمت نے ایسا موڑ لیا کہ وہ اپنے ہی شوہر کے غلام حضرت یوسفؑ پر فریفتہ ہو گئی۔ یعنی یہ کہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو عقل و اختیار کے دائرے سے باہر ہے۔ زلیخا جیسے بلند مرتبے والے لوگ بھی عشق کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔

شاعر کہتا ہے کہ مسجد کے سامنے مے خانے ویران رہتے تھے مگر جب ساقی (شراب پلانے والی حسین لڑکی) نے اپنی مست آنکھوں سے نظر ڈالی تو مے خانے میں پھر سے رونق آ گئی گویا مے خانے نے مسجد سے انتقام لے لیا۔ یہ شعر بظاہر طنزیہ ہے مگر اس میں حسن کی کشش اور انسانی کمزوری کی گہری بات پوشیدہ ہے۔ میرؔ کہنا چاہتے ہیں کہ عبادت گاہیں چاہے کتنی مقدس ہوں مگر انسان حسن کے جادو سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ ساقی کی ایک نگاہ نے لوگوں کے دل بدل دیے۔

شاعر کہتا ہے کہ محبوب ہمیشہ ٹیڑھے مزاج کا نکلا۔ کبھی سیدھے راستے پر نہیں ملا اور اگر کبھی سامنے آیا بھی تو سلام کا جواب بھی سیدھے طریقے سے نہیں دیا۔ یہ شعر محبوب کے غرور اور ناز و ادا کی عکاسی کرتا ہے۔ میرؔ اپنے مخصوص انداز میں محبوب کی بے نیازی اور تکبر پر طنز کرتے ہیں۔ یہاں کج روش یعنی ٹیڑھے چلن والا  اور سیدھی طرح سے طنزاً کہا گیا ہے کہ محبوب ہمیشہ نخرے دکھاتا ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ اے صیاد! اگر قید میں آنے کے باوجود میری بے قراری ظاہر ہوئی اور تم نے مجھے اپنے دام یعنی جال میں پھانس لیا تو تمہیں اپنی بے رحمی کا مزا خود دیکھنا پڑے گا۔
یہاں شاعر ایک بہادر عاشق کی طرح بات کر رہا ہے گویا وہ محبوب کو چیلنج دے رہا ہے کہ اگرچہ تم ظالم ہومگر میری تڑپ اور عشق کی سچائی تمہیں بھی متاثر کر دے گی۔ صیاد محبوب کے استعارے کے طور پر آیا ہے اور دام قیدِ عشق کو ظاہر کرتا ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ میں نے اپنی محبت کو بڑے صبر، وقار اور سلیقے سے نبھایا۔ پوری زندگی میں مجھے کامیابی نہیں ملی لیکن میں نے کبھی شکایت نہیں کی بلکہ ناکامیوں کو ہی اپنا ساتھی بنا لیا۔ میر کے نزدیک عشق میں کامیابی نہیں بلکہ خلوص، صبر اور قربانی اہم ہیں۔ یہاں عاشق اپنی عظمت اور وفاداری پر فخر کر رہا ہے کہ اس نے شکایت کے بجائے صبر کو اختیار کیا۔

میرؔ کہتے ہیں کہ اگرچہ میں گوشہ نشین یعنی تنہائی پسند شاعر ہوں مگر میری شاعری کا چرچا پوری زمین پر پھیل گیا۔ میں نے اپنی ذات کو نمایاں نہیں کیا لیکن میرا کلام خود بول اٹھا۔ یہ شعر میرؔ کے فن، شہرت اور عاجزی کا خوبصورت امتزاج ہے۔ وہ فخر سے کہتے ہیں کہ میری تنہائی پسند طبیعت کے باوجود میری شاعری کی گونج ہر جگہ سنی جاتی ہے۔

میر تقی میرؔ اردو شاعری کے سب سے بڑے اور درد آشنا شاعر مانے جاتے ہیں۔ ان کے کلام میں عشق کی پاکیزگی جذبے کی گہرائی اور احساس کی نرمی نمایاں نظر آتی ہے۔ میرؔ نے اپنے دور کے انسانی، روحانی اور جذباتی تجربات کو اس انداز میں پیش کیا کہ ان کی غزلیں اردو ادب کی بنیاد بن گئیں۔ ان کی زیرِ نظر غزل ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا بھی عشق کے انہی رنگوں اور انسانی احساسات کی ترجمان ہے۔

اس غزل میں شاعر نے عاشق کے دل کی اس کیفیت کو بیان کیا ہے جو محبت کے دکھوں سے بھرپور ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب بھی کسی نے اس کے سامنے محبوب کا نام لیا تو اس کا زخمی دل تڑپ اٹھا اور اسے بڑی مشکل سے سنبھالنا پڑا۔ یہ شعر عشق کی شدت اور عاشق کے دل کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ آگے چل کر شاعر زلیخا اور یوسفؑ کا حوالہ دے کر عشق کی بے اختیاری کو بیان کرتا ہے۔ میرؔ کہتے ہیں کہ محبت عقل و شعور کے تابع نہیں بلکہ یہ قسمت اور فطرت کا ایک جذبہ ہے جو سب پر یکساں اثر کرتا ہے۔ زلیخا جیسی باعزت عورت بھی عشق کی گرفت سے نہ بچ سکی۔ اس طرح میرؔ نے عشق کو ایک آفاقی اور لازوال قوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ غزل کے درمیانی اشعار میں میرؔ نے حسن کی کشش اور محبوب کے ناز و ادا کو بڑی لطافت سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے مے خانے ویران تھے لیکن جب ساقی نے اپنی مست آنکھوں سے نظر ڈالی تو مے خانے آباد ہو گئے۔ یہاں حسن کی نگاہ کو اس قدر طاقتور دکھایا گیا ہے کہ وہ مذہبی پابندیوں اور عقل کی دیواریں توڑ دیتی ہے۔ محبوب کی بے نیازی اور غرور کا ذکر کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ محبوب کبھی سیدھے راستے پر نہیں ملا اور اگر ملا بھی تو سلام کا جواب دینے کی زحمت بھی نہ کی۔ یہ شعر میرؔ نے محبوب کے حسن، ناز و ادا اور بے نیازی کو پیش کیا ہے۔ ساقی کی مست آنکھوں نے مے خانے کو آباد کر دیا اور محبوب کی کج روی نے عاشق کے صبر کا امتحان لیا۔ شاعر اپنی محبت میں سلیقہ، صبر اور خلوص کو برقرار رکھتا ہے چاہے ناکامی ہی کیوں نہ ملے۔ آخر میں میرؔ کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ گوشہ نشین ہیں مگر ان کی شاعری کا چرچا پوری دنیا میں ہے۔

یہ غزل عشق، صبر، احساس اور فن کی حسین تصویر ہے۔ میرؔ نے اس میں انسانی جذبات کو نہایت سادگی اور گہرائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں درد اور سچائی کا ایسا امتزاج ہے جو قاری کے دل کو چھو لیتا ہے۔

Scroll to Top