bale jibreel, allama iqbal, mata e be baha hai dard o soz e arzumandi ghazal ki tashreeh بالِ جبریل، علامہ اقبال، متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی غزل کی تشریح

اس شعر میں اقبال انسان کی روحانی دولت اور اس کی قدر و قیمت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیاوی دولت، عزت یا مقام وقتی ہیں لیکن انسان کی اصل دولت اس کا دل، اس کا جذبۂ آرزو اور عشقِ حقیقی ہے۔ “درد و سوز آرزو مندی” وہ شوق اور جذبہ ہے جو انسان کو بلند مقامات تک لے جاتا ہے۔ اقبال یہاں یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ خدا کی بندگی اور قربت سب سے بلند مقام ہے اور انسان کو یہ مقام دنیاوی عزت یا شان کے بدلے میں نہیں لینا چاہیے۔ حقیقی عظمت، معرفت اور انسان کی اعلیٰ تر تربیت اسی میں مضمر ہے۔

اس شعر میں اقبال خودی کے فلسفے پر غور کرتے ہیں۔ آزاد انسان وہ ہے جو دنیاوی یا سماجی حدود کے پابند نہیں ہوتا اور نہ ہی آخرت کے مقررہ قوانین اسے قید کرتے ہیں۔ “یہاں مرنے کی پابندی” یعنی دنیا میں طے شدہ ضوابط اور “وہاں جینے کی پابندی” یعنی آخرت کے قوانین آزاد انسان کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ اقبال کی نظر میں حقیقی آزادی روحانی اور اخلاقی سطح پر حاصل ہوتی ہے اور وہ انسان کو اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ اپنی زندگی کے فیصلے اپنی خودی اور معرفت کی بنیاد پر کرنا چاہیے۔

یہ شعر عشق حقیقی اور معرفت کی راہ میں رکاوٹ کی اہمیت بیان کرتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ دل جو عشق کے شوق میں ہے اسے حجاب یا پردہ دراصل مضبوطی اور شدت دیتا ہے۔ “دیر پیوندی” یعنی صوفیانہ یا روحانی مرکز انسان کے دل کی آگ کو بھڑکانے کا ذریعہ ہے۔ معرفت اور عشق حقیقی آسانی سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ صبر، تربیت اور رہنمائی کے ذریعے پختگی اختیار کرتے ہیں۔ یہ شعر یہ بھی سکھاتا ہے کہ روحانی ترقی کے لیے مشکلات اور آزمائشیں لازم ہیں اور یہی آگ انسان کو اعلیٰ مقام تک لے جاتی ہے۔

اس شعر میں اقبال انسان کی جدوجہد، محنت اور بلند پروازی کو بیان کرتے ہیں۔ “گزر اوقات” یعنی زندگی کی آزمائشیں اور “کوہ و بیاباں” یعنی مشکلات انسان کو مضبوط اور نکھارتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ آزاد اور بلند پرواز انسان (شاہین) کبھی محدود جگہ یا چھوٹی زندگی کے لیے خود کو قید نہیں کرتا۔ یعنی عظمت اور خودی حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوشش، صبر اور مشکلات کا سامنا کرنا ضروری ہے۔ یہ شعر انسان کو مستقل مزاجی، بلند نظری اور ہمت اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

یہ شعر تعلیم اور تربیت کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ انسان کی معرفت اور اخلاقی تربیت کسی فیضان نظر، بصیرت یا روحانی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں۔ “مکتب کی کرامت” یعنی صحیح تربیت انسان کو نکھارتی ہے۔ اقبال یہاں سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ سب کس ذریعہ سے حاصل ہوا؟ جیسے اسماعیل کو والد نے آداب فرزندی سکھائے۔ یعنی یہ کہ شخصیت، معرفت اور روحانی ترقی تربیت اور رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں اور علم، تربیت اور فیض انسان کو بلند مقام تک لے جاتے ہیں۔

اس شعر میں اقبال قربانی اور علم کے اثر کو بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا قبر کا مقام ایسے لوگوں کے لیے احترام کی جگہ ہے جو ہمت اور عزم رکھتے ہیں۔ “خاک راہ” یعنی میری زندگی اور اعمال کے ذریعے، میں نے لوگوں کو معرفت اور روحانی راز سکھائے۔ یہ کہ حقیقی اثر اور میراث وہی انسان چھوڑتا ہے جو علم، ہمت اور قربانی کے ساتھ دوسروں کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہ شعر اقبال کی عملی فلسفیانہ سوچ، علم اور انسانی ترقی کے لیے کوشش کی علامت ہے۔

یہ شعر قدرت، حسن اور جمال کی تخلیق کو بیان کرتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ انسانی محنت کے بغیر بھی فطرت حسن پیدا کرتی ہے۔ “لالے کی حنا بندی” یعنی فطرت کا حسن خود بخود مکمل ہوتا ہے اور انسان کا کام صرف اسے دیکھنا اور اس سے فیض حاصل کرنا ہے۔ فلسفہ یہ ہے کہ حقیقی جمال اور خوبصورتی فطرت کی طرف سے دی گئی ہے اور بعض اوقات انسان کی کوشش سے زیادہ فطرت کی قدرتی تخلیق اثر رکھتی ہے۔

Scroll to Top