آتشِ گُل، جگر مراد آبادی
چھٹویں غزل
شعر و نغمہ، رنگ و نکہت، جام و صہبا ہو گیا
زندگی سے حسن نکلا اور رسوا ہو گیا
اور بھی، آج اور بھی ہر زخم گہرا ہو گیا
بس کر اے چشمِ پشیماں، کام اپنا ہو گیا
اس کو کیا کیجے، زبانِ شوق کو چپ لگ گئی
جب یہ دل شائستہِ عرضِ تمنا ہو گیا
اپنی اپنی وسعتِ فکر و یقیں کی بات ہے
جس نے جو عالم بنا ڈالا وہ اس کا ہو گیا
ہم نے سینے سے لگایا، دل نہ اپنا بن سکا
مسکرا کر تم نے دیکھا، دل تمہارا ہو گیا
میں نے جس بت پر نظر ڈالی جنونِ شوق میں
دیکھتا کیا ہوں وہ تیرا ہی سراپا ہو گیا
اٹھ سکا ہم سے نہ بارِ التفاتِ ناز بھی
مرحبا، وہ جس کو تیرا غم گوارا ہو گیا
وہ چمن میں جس روش سے ہو کے گزرے بے نقاب
دفعتاً ہر ایک گل کا رنگ گہرا ہو گیا
شش جہت آئینہِ حسنِ حقیقت سے جگرؔ
قیس دیوانہ تھا، محوِ روئے لیلیٰ ہو گیا
تشریحِ غزل
شعر و نغمہ، رنگ و نکہت، جام و صہبا ہو گیا
زندگی سے حسن نکلا اور رسوا ہو گیا
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ کبھی زندگی خوشیوں، محفلوں، رنگ و آواز، موسیقی اور سرور سے بھری ہوئی تھی۔ ہر طرف بہار اور دلکشی کا دور دورہ تھا۔ لیکن عشق یا محبوب کی وجہ سے یہ حسن چھن گیا تو زندگی کا یہ سارا جوبن اور خوبصورتی ختم ہو گئی۔ اب زندگی بےذوق، بےلاگ اور رسوائی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یعنی زندگی کی اصل رونق محبوب کے ساتھ ہی تھی جب وہ چلا گیا تو زندگی تماشہ بن کر رہ گئی۔ یہ شعر حقیقی عشق کے بعد پیدا ہونے والے خلا اور غم کا گہرا احساس رکھتا ہے۔
اور بھی، آج اور بھی ہر زخم گہرا ہو گیا
بس کر اے چشمِ پشیماں، کام اپنا ہو گیا
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ دل تو پہلے ہی زخمی تھا مگر آج ہر زخم اور تکلیف پہلے سے زیادہ شدید ہو گئی ہے۔ آنسوؤں نے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے انہیں اور سخت کر دیا۔ شاعر پشیمان آنکھوں سے کہہ رہا ہے کہ بس کر، تو نے رونا اپنا فرض سمجھ کر پورا کر دیا۔ اس کے بہتے آنسو دل کے دکھ کو کم کرنے کے بجائے بڑھاتے ہی گئے۔ یہ شعر عاشق کے بےبس احساسات اور آنسوؤں کی ناکامی کا اظہار ہے۔
اس کو کیا کیجے، زبانِ شوق کو چپ لگ گئی
جب یہ دل شائستہِ عرضِ تمنا ہو گیا
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ دل میں محبت اور آرزو انتہائی بڑھ چکی ہے۔ لیکن جب اظہارِ عشق کا وقت آیا تو زبان خاموش ہو گئی۔ دل پوری طرح محبت کے قابل ہو گیا تھا مگر زبان اپنے جذبات بیان کرنے سے قاصر ہے۔ یہ عاشق کی اس کیفیت کی ترجمانی ہے جب محبت انتہائی شدت کو پہنچ کر بےآواز ہو جاتی ہے۔ طلب، تمنّا اور جذبات دل میں ہیں مگر بیان کرنے کی ہمت نہیں رہی۔
اپنی اپنی وسعتِ فکر و یقیں کی بات ہے
جس نے جو عالم بنا ڈالا وہ اس کا ہو گیا
تشریح
شاعر انسانی سوچ کی طاقت بیان کر رہا ہے۔ ہر انسان کی دنیا اس کے یقین اور سوچ کے مطابق ہوتی ہے۔ جس نے جتنے بڑے خواب دیکھے اور یقین کیا کہ زندگی نے بھی اسے وہی بنا دیا۔ اگر یقین مضبوط ہو تو دنیا خود اس کے تابع ہو جاتی ہے۔ عشق اور زندگی دونوں میں کامیابی اسی کی ہے جو اپنے نظریے کو حقیقت بنانے کی ہمت رکھے
ہم نے سینے سے لگایا، دل نہ اپنا بن سکا
مسکرا کر تم نے دیکھا، دل تمہارا ہو گیا
تشریح
یہ شعر عشق میں دل کی بےاختیاری کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم نے چاہا کہ اپنا دل خود اختیار میں رہے اسے قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔ مگر جب محبوب نے ایک بار مسکرا کر دیکھا تو دل مکمل طور پر اسی کا ہو گیا۔ دل نہ تو ہمارا رہا اوردل نے نہ ہی ہماری بات مانی۔ یہ عاشق کے دل کی بے خودی، تسلیم و رضا اور محبوب کے ایک اشارے کی قوت کا بیان ہے۔
میں نے جس بت پر نظر ڈالی جنونِ شوق میں
دیکھتا کیا ہوں وہ تیرا ہی سراپا ہو گیا
تشریح
جنونِ عشق میں عاشق کی نگاہ ہر حسین چیز میں محبوب کا عکس دیکھنے لگتی ہے۔ جہاں نظر ڈالی محبوب ہی کی جھلک دکھائی دی۔ اس کا مطلب ہے کہ محبوب کی صورت عاشق کی نظر پر اس طرح چھا گئی کہ ہر حسن اسی کے وجود کی یاد دلاتا رہا۔ یہ عشق کی اس کیفیت کا بیان ہے جہاں محبوب کائنات کا مرکز بن جاتا ہے۔
اٹھ سکا ہم سے نہ بارِ التفاتِ ناز بھی
مرحبا، وہ جس کو تیرا غم گوارا ہو گیا
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ محبوب کا معمولی سا التفات، ناز اور توجہ بھی ہم سے برداشت نہیں ہو سکی۔ عشق اتنا نازک تھا کہ محبوب کی ذرہ برابر قربت بھی دل پر بھاری محسوس ہونے لگی۔ پھر شاعر تعریف کرتا ہے اس عاشق کی جو محبوب کی جدائی، غم اور تکلیف بھی برداشت کر کے خوش رہتا ہے۔ یہ شعر عشق میں کمزوری اور شدتِ احساس کا گہرا نقش رکھتا ہے۔
وہ چمن میں جس روش سے ہو کے گزرے بے نقاب
دفعتاً ہر ایک گل کا رنگ گہرا ہو گیا
تشریح
محبوب چمن کی ایک راہ سے بے پردہ ہو کر گزرتا ہے۔ اس کی موجودگی سے پورا باغ زندگی سے بھر جاتا ہے، پھولوں کی رنگت تک نکھر جاتی ہے۔ اس کا حسن فطرت کو بھی حسن عطا کرتا ہے۔ یہ محبوب کے حسن کا مبالغہ نہیں بلکہ عاشق کی شدید محبت کا احساس ہے کہ محبوب جہاں جائے وہاں بہار آ جاتی ہے۔
شش جہت آئینہِ حسنِ حقیقت سے جگرؔ
قیس دیوانہ تھا، محوِ روئے لیلیٰ ہو گیا
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ دنیا کی ہر سمت میں حسنِ حقیقی کی جھلک موجود ہے۔ مگر عاشقِ صادق قیس نے عالم کے اس وسیع حسن کو چھوڑ کر صرف لیلیٰ کے ایک چہرے میں اپنے آپ کو فنا کر دیا۔ یہاں شاعر اشارہ کرتا ہے کہ عشق نظر کو محدود نہیں کرتا بلکہ محبوب ہی اس کے لئے جہانِ حسن بن جاتا ہے۔ یہ عشق کی انتہا اور محبوب کے حسن کی مرکزیت کی بھرپور تصویر کشی ہے۔
مجموعی مفہوم
یہ غزل عشق کی گہری کیفیات اور محبوب کے اثرات کا حسین بیان ہے۔ شاعر بتاتا ہے کہ عشق نے زندگی کی خوشیوں، رنگینیوں اور سرشاری کو پہلے تو بڑھا دیا تھا لیکن جب محبوب دور ہو گیا تو یہی زندگی بےحلاوت اور رسوا ہو گئی۔ عاشق کے دل میں جذبات اُبل رہے ہیں مگر وہ انہیں زبان پر لانے کی ہمت نہیں پاتا۔ شاعر اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ ہر انسان کی دنیا اس کے یقین اور سوچ کے مطابق تشکیل پاتی ہے۔ یہ غزل عاشق کے اس احساس کو نمایاں کرتی ہے کہ دل اس کے قابو میں نہیں رہتا محبوب کی ایک مسکراہٹ دل کو مکمل طور پر اس کا بنا دیتی ہے۔ عشق کے جنون میں عاشق کو ہر جگہ محبوب کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ محبوب کی موجودگی سے فطرت بھی حسین لگنے لگتی ہے اور اس کے حسن کا اثر پورے ماحول پر پڑتا ہے۔ آخر میں شاعر قیس کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ حقیقت میں کائنات ہر طرف حسن سے بھری ہے مگر سچا عاشق صرف اپنے محبوب میں ہی تمام حسن دیکھ لیتا ہے۔