آتشِ گُل، جگر مراد آبادی
چوتھی غزل
گداز عشق نہیں کم ، جو میں جواں نہ رہا
وہی ہے آگ ، مگر آگ میں دھواں نہ رہا
نہیں ، کہ دل مرا وقفِ غمِ نہاں نہ رہا
مگر وہ شیوہ فرمودہ بیاں نہ رہا
زہے وہ شوق جو پابند ایں و آں نہ رہا
خوشا وہ سجدہ جو محدود آستاں نہ رہا
حجاب عشق کو اے دل بہت غنیمت جان
رہے گا کیا جو یہ پردہ بھی درمیاں نہ رہا
چمن تو برق حوادث سے ہوگیا محفوظ
مری بلا سے اگر میرا آشیاں نہ رہا
جنون سجدہ کی معراج ہے یہی شائد
کہ تیرے درد کے سوا کوئی آستاں نہ رہا
کمال قرب بھی شائد ہے عین بُعد جگر
جہاں جہاں وہ ملے ، میں وہاں وہاں نہ رہا
تشریحِ غزل
گداز عشق نہیں کم ، جو میں جواں نہ رہا
وہی ہے آگ ، مگر آگ میں دھواں نہ رہا
تشریح
جگر مراد آبادی نے یہاں جوانی کے عشق کے جوش و خروش کو بیان کیا ہے۔ “گداز عشق” سے مراد وہ شدت اور حرارت ہے جو دل و جان کو جھنجھوڑ دیتی ہے اور ہر لمحے عشق کی حالت میں رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ عشق کی آگ اب بھی موجود ہے لیکن پہلے جیسا تیز اور پرجوش نہیں رہا بلکہ دھواں رہ گیا ہے۔ یہ دھواں عشق کی باقی رہ جانے والی یاد، اثر اور جذبہ کی علامت ہے۔ اس سے مراد یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ جگر نے عشق کے ابتدائی جوش و ولولے کے بعد اس کی سنجیدہ اور گہری کیفیت کو اپنایا۔
نہیں ، کہ دل مرا وقفِ غمِ نہاں نہ رہا
مگر وہ شیوہ فرمودہ بیاں نہ رہا
تشریح
یہ شعر دل کی کیفیت اور اظہار کا بیان ہے۔ جگر کہتے ہیں کہ دل اب پہلے جیسا پوشیدہ غم نہیں رکھتا یعنی یہ کہ پہلے کے راز اور تکالیف اب اتنی شدت سے محسوس نہیں ہوتیں۔ تاہم، وہ اندازِ بیان جو عشق اور غم کی نرمی اور لطافت کو بیان کرتا تھا اب نہیں رہا۔ یعنی جذبات میں تبدیلی آنے کے ساتھ ساتھ اظہار کی فنی مہارت اور لطافت بھی بدل گئی ہے۔ شاعر یہاں انسانی جذبات کی نفیس اور باریک تفہیم کو بیان کر رہے ہیں۔
زہے وہ شوق جو پابند ایں و آں نہ رہا
خوشا وہ سجدہ جو محدود آستاں نہ رہا
تشریح
جگر عشق کی وسعت اور آزادی پر بات کر رہے ہیں۔ پہلے شوق اور عشق محدود اور پابندیوں میں بند تھا لیکن اب عشق آزاد اور غیر محدود ہو گیا ہے۔ “محدود آستاں” میں سجدہ کرنے کی مثال سے وہ عشق کی حدود اور رسمی رواج کو ظاہر کر رہے ہیں جو اب ختم ہو گئے۔ یہ عشق کی روحانی اور آزادانہ پہچان کو واضح کرتا ہے کہ اب عشق اپنی مکمل وسعت اور گہرائی میں موجود ہے۔
حجاب عشق کو اے دل بہت غنیمت جان
رہے گا کیا جو یہ پردہ بھی درمیاں نہ رہا
تشریح
یہاں جگر عشق کے پردے یا اسرار کی اہمیت بیان کر رہے ہیں۔ عشق کا حجاب وہ پردہ ہے جو عشق کی اصل گہرائی اور حسن کو چھپاتا ہے۔ اگر یہ پردہ نہ رہے تو عشق کی روحانی اور جمالیاتی اہمیت بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ شعر دل کی نصیحت ہے کہ عشق کے اسرار اور پوشیدگی کی قدر کرو کیونکہ یہی عشق کا حقیقی حسن ہے۔
چمن تو برق حوادث سے ہوگیا محفوظ
مری بلا سے اگر میرا آشیاں نہ رہا
تشریح
یہ شعر دنیا اور عشق کے خطرات کا فلسفیانہ بیان ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ دنیا یا چمن حادثات اور آفات سے محفوظ ہو گیا لیکن اگر میرا ذاتی آشیانہ یعنی دل یا عشق کی جگہ محفوظ نہ رہے تو باقی سب کچھ بے معنی ہے۔ جگر یہاں انسان کی زندگی میں محبت اور عشق کے مقام کو سب سے زیادہ اہم قرار دیتے ہیں۔ آشیانہ دل کی حفاظت اور عشق کی جگہ کو ظاہر کرتا ہے۔
جنون سجدہ کی معراج ہے یہی شائد
کہ تیرے درد کے سوا کوئی آستاں نہ رہا
تشریح
جگر یہاں عشق کے جنونی اور روحانی پہلو کو بیان کر رہے ہیں۔ جنونِ عشق کی انتہا یا سجدہ عشق کی بلند ترین کیفیت یہ ہے کہ صرف محبوب اور اس کے درد کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتا۔ دنیاوی اور ذاتی چیزیں اہمیت کھو دیتی ہیں۔ شاعر عشق کی انتہا کو روحانی قربت اور مکمل محو ہونے کی حالت سے تعبیر کر رہے ہیں۔
کمال قرب بھی شائد ہے عین بُعد جگر
جہاں جہاں وہ ملے ، میں وہاں وہاں نہ رہا۔
تشریح
یہ شعر عشق کے قربت اور فاصلہ کے فلسفے پر مبنی ہے۔ حقیقی قربت اس وقت محسوس ہوتی ہے جب محبوب سے فاصلہ ہو۔ جہاں محبوب موجود ہے وہاں شاعر اپنی خودی اور وجود کو بھول کر صرف عشق اور محبوب میں محو ہو جاتا ہے۔ یہ عشق کی گہرائی اور روحانی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ جگر یہاں بتاتے ہیں کہ عشق میں مکمل قربت وہی ہے جو اپنے آپ کو فراموش کر کے محبوب کے لیے پوری طرح وقف ہو جائے۔
مجموعی مفہوم
یہ غزل عشق کے مختلف پہلوؤں کی جامع عکاسی کرتی ہے۔ جگر مراد آبادی نے عشق کے ابتدائی جوش و ولولے، شدت، جذباتی اور روحانی پہلو، عشق کے اسرار، پردے، قربت اور فاصلہ سب کو نہایت نفاست سے بیان کیا ہے۔ شاعر عشق کے ہر مرحلے اور اس کی روحانی گہرائی کو بڑی خوبصورتی اور فنی مہارت کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔ غزل کے ہر شعر میں نہ صرف عشق کی شدت اور وسعت نظر آتی ہے بلکہ انسانی دل کی نفیس اور پیچیدہ کیفیت بھی واضح ہوتی ہے۔