آتشِ گل ، جگر مراد آبادی
پہلی غزل
ہر حقیقت کو بانداز تماشا دیکھا
خوب دیکھا ترے جلووں کو مگر کیا دیکھا
جستجو میں تری یہ حاصل سودا دیکھا
ایک اک ذرہ کا آغوش طلب وا دیکھا
آئینہ خانۂ عالم میں کہیں کیا دیکھا
تیرے دھوکے میں خود اپنا ہی تماشا دیکھا
ہم نے ایسا نہ کوئی دیکھنے والا دیکھا
جو یہ کہہ دے کہ ترا حسن سراپا دیکھا
دل آگاہ میں کیا کہیے جگرؔ کیا دیکھا
لہریں لیتا ہوا اک قطرے میں دریا دیکھا
کوئی شائستہ و شایان غم دل نہ ملا
ہم نے جس بزم میں دیکھا اسے تنہا دیکھا
تشریحِ غزل
ہر حقیقت کو باندازِ تماشا دیکھا
خوب دیکھا ترے جلووں کو مگر کیا دیکھا
تشریح
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ زندگی کی ہر حقیقت میرے سامنے رہی لیکن میں نے انہیں صرف تماشے کی نظر سے دیکھا، محض ظاہری سطح تک دیکھا ۔ میں نے دنیا کے مناظر، انسانوں کے جذبات اور عشق کے جلووں کو تو دیکھا مگر اصل حقیقت کیا ہے اس کو سمجھنے میں ناکام رہا۔ محبوب کے حسن کے جلوے بھی دیکھے مگر ان کی گہرائی میں چھپا ہوا راز میں نہ جان سکا۔ حقیقت کو صرف دیکھ لینا اور اس کی روح تک رسائی پانا دو الگ چیزیں ہیں اور شاعر اعتراف کرتا ہے کہ وہ حقیقت کی روح تک نہیں پہنچ پایا۔
جستجو میں تری یہ حاصلِ سودا دیکھا
ایک اک ذرہ کا آغوش طلب وا دیکھا
تشریح
یہاں جگر عشق کی تلاش کے نتیجے کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ جب میں نے محبوب کی تلاش کی تو مجھے یہ احساس ہوا کہ کائنات کی ہر شے محبوب کے حسن اور عشق کیلئے بے قرار ہے۔ ہر ذرہ اپنی باہیں پھیلائے ہوئے ہے جیسے کہ وہ محبت اور وصل کی تمنا کر رہا ہو۔ کائنات کا ہر وجود محبوب کے حسن کا عاشق اور اس کا منتظر ہے۔ اس شعر میں عاشقانہ اور صوفیانہ احساس مل کر یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ محبوب کسی ایک وجود تک محدود نہیں ہے بلکہ ساری کائنات اس کے جلووں سے منور ہے۔
آئینہ خانۂ عالم میں کہیں کیا دیکھا
تیرے دھوکے میں خود اپنا ہی تماشا دیکھا
تشریح
دنیا شاعر کی نظر میں آئینوں کا ایک بڑا گھر ہے جہاں ہر شے کسی نہ کسی کا عکس دکھاتی ہے۔ محبوب کے حسن کی چمک میں شاعر کو بارہا دھوکہ ہوا اور اسے یوں محسوس ہوا جیسے محبوب کے جلووں میں اس نے اپنا ہی عکس دیکھا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عشق کے دوران انسان اصل محبوب کو دیکھنے کے بجائے اپنے جذبات، اپنے خواب اور اپنی خواہشات دیکھنے لگتا ہے۔ اس شعر میں دنیا کے فریب، حسن کے دھوکے اور خود فریبی کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔
ہم نے ایسا نہ کوئی دیکھنے والا دیکھا
جو یہ کہہ دے کہ ترا حسن سراپا دیکھا
تشریح
جگر کہتا ہے کہ محبوب کا حسن اتنا بے کنار اور بے مثال ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا صاحب نظر نہیں جس نے دعویٰ کیا ہو کہ اس نے حسن کی تمام جہتیں یکجا دیکھ لی ہیں۔ حسن لامحدود ہے اس کا ہر دیدار ایک نئی کیفیت اور نیا کمال سامنے لاتا ہے۔ اس لئے جس قدر لوگ دیکھتے ہیں اتنا ہی حیران رہ جاتے ہیں۔ محبوب کے حسن کا مکمل دیدار کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہ شعر حسن کی لا محدودیت اور انسان کی محدود بصیرت کو واضح کرتا ہے۔
دلِ آگاہ میں کیا کہیے جگرؔ کیا دیکھا
لہریں لیتا ہوا اک قطرے میں دریا دیکھا
تشریح
یہ شعر عشقِ حقیقی کی انتہائی بلند سوچ کا حامل ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جب میرے دل کو حقیقت کا شعور ہوا تو میں نے ایک حیرت انگیز بات محسوس کی ایک قطرے میں پورے دریا کی کیفیت دیکھی۔ یعنی چھوٹے وجود میں بڑی حقیقت پوشیدہ ہے۔ انسان ایک قطرہ ہے مگر اس میں کائنات کا راز چھپا ہے۔ یہ عشقِ حقیقی کا خوبصورت اظہار ہے کہ کل اور جز ایک دوسرے میں سمائے ہوئے ہیں۔ خدا کی جھلک ہر انسان اور ہر وجود میں پائی جاتی ہے۔
کوئی شائستہ و شایانِ غمِ دل نہ ملا
ہم نے جس بزم میں دیکھا اسے تنہا دیکھا
تشریح
جگر آخر میں عشق کی تنہائی اور درد کی گہرائی بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ محبت کے دکھ کو سمجھنے والا کوئی نہ ملا۔ ہر محفل میں لوگ تو بہت تھے مگر کوئی بھی دل کے درد کا ساتھی نہ تھا۔ ہر شخص اپنی ذات میں گم، اپنے غم میں مصروف نظر آیا۔ عاشق کا غم بہت انوکھا ہوتا ہے اسے ہر شخص محسوس نہیں کر سکتا۔ اسی لئے عاشق بھیڑ میں رہ کر بھی اکیلا رہ جاتا ہے۔
مجموعی مفہوم
یہ غزل عشق کے روحانی سفر کی مکمل تصویر ہے۔ ابتدا میں شاعر حقیقت کو صرف ظاہری انداز میں دیکھتا ہے لیکن جستجو کے راستے پر آگے بڑھتے بڑھتے اسے معلوم ہوتا ہے کہ حسن اور عشق ہر ذرّے میں موجود ہے۔ دنیا میں دکھائی دینے والی اشیاء اصل حقیقت نہیں بلکہ حقیقت کا انعکاس ہیں۔ محبوب کا حسن اتنا وسیع ہے کہ اس کا مکمل ادراک ممکن نہیں۔ پھر شاعر خودی اور حقیقت کے انکشاف کو محسوس کرتا ہے کہ ایک قطرے میں دریا چھپا ہے یعنی انسان کے اندر کائنات کا راز پوشیدہ ہے۔ مگر اس سارے سفر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عشق کا راستہ تنہائی اور درد کا راستہ ہے جس میں ہمراز کم ہی ملتا ہے۔