آتشِ گُل، جگر مراد آبادی
تیسری غزل
کوئی جیتا ، کوئی مرتا ہی رہا
عِشق اپنا کام کرتا ہی رہا
جمع خاطر کوئی کرتا ہی رہا
دل کا شیرازہ بِکھرتا ہی رہا
غم وہ میخانہ، کمی جس میں نہیں
دل وہ پیمانہ، کہ بھرتا ہی رہا
حُسن تو تھک بھی گیا ، لیکن یہ عِشق
کارِ معشوقانہ کرتا ہی رہا
وہ مِٹاتے ہی رہے، لیکن یہ دِل
نقش بن بن کر اُبھرتا ہی رہا
دھڑکنیں دِل کی، سبھی کُچھ کہہ گئیں
دِل کو مَیں خاموش کرتا ہی رہا
تُم نے نظریں پھیر لیں تو کیا ہُوا
دِل میں اِک نشتر اُترتا ہی رہا
تشریحِ غزل
کوئی جیتا، کوئی مرتا ہی رہا
عشق اپنا کام کرتا ہی رہا
تشریح
یہ مصرع انسانی زندگی کے بدلتے ہوئے مناظر کو ایک سادگی کے ساتھ سامنے لاتا ہے اور اسی کے بیچ عشق کی مستقل روانی کو نمایاں کرتا ہے۔ لفظِ “کوئی” کی دوہری تکرار سے زندگی کی عام گردش، لوگوں کے آنے جانا اور کامیابی و ناکامی کی روزمرہ روداد کے مناظر واضح ہوتے ہیں اس معمولی مگر تلخ حقیقت کے باوجود عشق کا “کام کرنا” ایک مستقل فعل کی طرح پیش کیا گیا ہے جس کے رکنے کا تصور بھی کمزور محسوس ہوتا ہے۔ اس میں ایک طرح کی تقدیر شناسی اور قدرت کے حکم کی جھلک ہے کہ انسان کے ذاتی واقعات چاہے کسی نوعیت کے ہوں عشق ایک علیحدہ قوت کی صورت میں مسلسل عمل کرتا رہتا ہے اور وجود کی حرارت کو برقرار رکھتا ہے۔ اس شعر میں خفیف ضبطِ بیان کے ساتھ ایک بلند فلسفہ ہے دنیا کے عارضی اتار چڑھاؤ کے درمیان عشق کا قیامِ دوام اور اسی دوام کا عاشق پر لازمی اثر۔
جمعِ خاطر کوئی کرتا ہی رہا
دل کا شیرازہ بکھرتا ہی رہا
تشریح
یہاں شاعر نے عقل و ضبط کی کوشش اور دل کی بے قابو کیفیت کے مابین ٹکراؤ کو بہت نکھر کر دکھایا ہے۔ “جمعِ خاطر” سے مراد وہ کوشش ہے جو انسان اپنے جذبات کو ٹھیک ٹھاک رکھنے انہیں قابو میں کرنے یا زندگی کو سنبھالنے کے لیے کرتا ہے مگر اس کوشش کی متواتر مزاحمت دل کی بے قراری اور عشق کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہے اس تضاد سے شاعر نے انسانی حالتِ فکری اور جذباتی دونوں کی ایک تصویر کھینچی ہے۔ “دل کا شیرازہ بکھرتا” میں شیرازہ کا تصور نظم و ترتیب کی علامت ہے اور اس کے بکھرنے سے عشق کی تباہ کن یا بکھیر دینے والی قوت کا احساس آتا ہے۔ یہ قوت پوشیدہ انداز میں دل کی تہہ تہہ چیختی رہتی ہے اور عقل کی چھوٹی چھوٹی تعمیرات کو چٹخ کر دیتی ہے۔ زبان کی سادگی کے باوجود یہ مصرع وہ بے بسی بیان کرتا ہے جو ہر عاشق کے اندر ہوتی ہے جتنا سنبھالنے کی کوشش ہوتی ہے اتنا ہی دل منتشر ہو کر عشق کی آہنگ میں بخہ جاتا ہے۔
غم وہ میخانہ، کمی جس میں نہیں
دل وہ پیمانہ، کہ بھرتا ہی رہا
تشریح
اس شعر میں غم کو میخانے سے تشبیہ دے کر شاعر نے دکھ اور رنج کو ایک مسلسل و غیر منقطع مادہ کی صورت میں پیش کیا ہے جو پیتے رہنے سے ختم نہیں ہوتا۔ میخانہ کا لفظ خود ہی شبِ وجد اور شراب خانے کی وہ فضا یاد دلاتا ہے جہاں پل بھر کا نشہ مستقل طلب بن جاتا ہے اسی طرح غم عاشق کے لیے ایک مستقل مرکزی مادّہ بن جاتا ہے جس کی کمی نہیں آتی اور جو دائمی طور پر دل کو پر کرتا رہتا ہے۔ “دل وہ پیمانہ” کا استعمال ایک انتہائی خوبصورت کنایہ ہے ۔ پیمانہ بھرتا ہے مگر خالی نہ ہوتا یعنی انسان کی ظرفیت بڑھتی ہے، جذبات کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے مگر تسکین یا خاتمہ نہیں آتا یہ تصویر عشق کی کھپت اور اس کی برداشت دونوں کو ایک ساتھ پیش کرتی ہے۔ اس شعر میں ادبی لحاظ سے تضاد اور استعارے کا حسین امتزاج ہے غم کی افزائش کو جس قدر حقیقی محسوس کروایا گیا ہے۔
حسن تو تھک بھی گیا، لیکن یہ عشق
کارِ معشوقانہ کرتا ہی رہا
تشریح
اس مصرع میں شاعر نے محبوب کی عبوری حیثیت اور عشق کی ابدیت کے مابین فرق کو کھل کر کہا ہے “حسن تو تھک بھی گیا” کہہ کر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جمالِ ظاہری بھی آخر کار ماند پڑ جاتا ہے جلوے اپنی تازگی کھو دیتے ہیں اور محبوب بھی کسی حد تک وقت اور حالات کی گرفت میں آتا ہے۔ مگر “یہ عشق کارِ معشوقانہ کرتا ہی رہا” کہنا دراصل عشق کی ایسی حیثیت کو بتاتا ہے جو محبوب کی فانی خصوصیات کے باوجود برقرار رہتی ہے عشق ایک فعل ہے، ایک رسم ہے، ایک طریقِ کار ہے جو وقت کی مار سے مستثنیٰ محسوس ہوتا ہے۔ یہ مصرع بیانی طور پر استقامت کی مثال ہے عشق چاہے کتنا ہی زخمی ہو، چاہے محبوب کی حرارت کم پڑ جائے، مگر عشق اپنا فریضہ نبھاتا رہتا ہے۔
وہ مٹاتے ہی رہے، لیکن یہ دل
نقش بن بن کر اُبھرتا ہی رہا
تشریح
یہاں محبوب کی طرف سے مٹانے کی کوشش اور عاشق کے اندر نقشوں کے پھر سے اُبھرتے رہنے کا منظر بہت پیراست انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ محبوب چاہے یادوں کو مٹانے، تعلق کو توڑنے یا جذبے کو دبانے کی کتنی ہی سعی کرلے مگر وہ کامیاب نہیں ہوتا کیوں کہ دل ایک تختی کی مانند ہے جس پر نقش بار بار کندہ ہوتے جاتے ہیں اور پھر نئے سرے سے ابھرتے رہتے ہیں یہ نقش صرف یادیں نہیں بلکہ عشق کے نقوشِ باطن ہیں جو بھٹکتے نہیں۔ “نقش بن بن کر” میں تکرار نما وزن سے نقشوں کا بار بار ظہور اور شدت دونوں کا اشارہ ملتا ہے، گویا دل ہر کوشش کے بعد مزید گہرا ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ یہ شعر محبت کی مزاحمت، یاد کی ناگزیری اور قلبی تاب آوری کو وہم و گمان سے بڑھ کر ثابت کرتا ہے۔
دھڑکنیں دل کی، سبھی کُچھ کہہ گئیں
دل کو میں خاموش کرتا ہی رہا
تشریح
یہ مصرع اظہار و تکلم کے اس عجیب مرحلے کو بتاتا ہے جہاں شاعر کی مراد سکوت میں بھی غیر اختیاری اظہار ہوجاتی ہے۔ شاعر چاہتا ہے دل کو قابو میں رکھے، خاموشی اختیار کرے، راز کو چھپائے مگر دل کی دھڑکنیں خود ایک زبان بن کر وہ سب کچھ کہہ دیتی ہیں جو شاعرا چھپانا چاہتا ہے۔ “دھڑکنیں سبھی کچھ کہہ گئیں” کہنا یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ فطرتِ انسانی میں جذباتی صدائیں اندر سے خود باہر نکل آتی ہیں اور عاشق کا ارادہ خاموشی کا بھی اس بے اختیار قوت کے آگے ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ شعر احساس اور کنٹرول کے درمیان وہ کشمکش دکھاتا ہے جو رومانیات کا بنیادی موضوع ہے۔
تم نے نظریں پھیر لیں تو کیا ہوا
دل میں اک نشتر اُترتا ہی رہا
تشریح
اس شعر میں محبوب کی بے رخی اور اس کی ادائی سے عاشق کے اندر مسلسل چبھتا ہوا درد پیش کیا گیا ہے۔ نظریں پھیر لینے کا فعل بظاہر معمولی ہے مگر عاشق کے دل پر اس کا اثر گہرا ہوتا ہے اور وہ “نشتر” جو اترتا رہا ہے۔ وہ چبھتی ہوئی یاد جو وقت کے ساتھ گہری ہوتی گئی۔ شاعر اس واقعے کو محض جسمانی تکلیف کے بجائے دل کی داخلی جراحی کے مترادف قرار دیتا ہے۔ نشتر اترنے کا تاثر دکھاتا ہے کہ یہ درد ایک مخصوص، باریک، مگر مستقل زیان دہ کیفیت ہے جو اندر کی گہرائیوں تک اُترتی ہے۔
مجموعی مفہوم
اس غزل کا مرکزی محور عشق کی مستقل قوت، دل کی برداشت اور محبت کے زخمی ہونے کے باوجود اس کی بے انتہا تاب آوری ہے۔ جگر نے ہر مصرع میں چھوٹے چھوٹے اظہاروں کے ذریعے بتدریج وہ منظر کھینچا ہے جہاں دنیا کی روزمرہ حرکتوں کے باوجود عشق اپنا مخصوص کردار ادا کرتا رہتا ہے چاہے لوگ جیتیں یا مرتی رہیں، چاہے عقل جمعِ خاطر کی کوشش کرے یا محفلیں نصیحتوں کی گونج سناتی رہیں، عشق اپنی نسبت اور اپنی کوشش جاری رکھتا ہے۔ ۔ اس طرح یہ کلام جگر کے تغزّل میں وہی صداقت، شدت اور سادگی لاتا ہے جو اس کے عہد کی بہترین غزلوں میں پائی جاتی ہے۔