آتشِ گُل، جگر مراد آبادی
ساتویں غزل
وہ بروئے دوست ہنگام سلام آہی گیا
رخصت اے دیر و حرم، دل کا مقام آہی گیا
منتظر کچھ رند تھے کے وہ جام آہی گیا
باش اے گردوں کہ وقتِ انتقام آہی گیا
ہر نفس خود بن کے میخانہ بہ جام آ ہی گیا
توبہ جس سے کانپتی تھی وہ مقام آہی گیا
اللہ اللہ، یہ میری ترک و طلب کی وسعتیں
رفتہ رفتہ سامنے حسن تمام آ ہی گیا
اوّل اوّل ہر قدم پر تھیں ہزاروں منزلیں
آخر آخر اک مقامِ بے مقام آ ہی گیا
التفاتِ چشم ساقی کی سبک تابی نہ پوچھ
میں یہ سمجھا جیسے مجھ تک دور جام آہی گیا
عشق کو تھا کب سے اپنی خشک دامانی کا رنج
ناگہاں آنکھوں کو اشکوں کا سلام آ ہی گیا
ہر نگہ پر بندشیں، ایک ایک نفس کی پرسشیں
ہوشیار اے عشق، وہ نازک مقام آ ہی گیا
اہل دنیا اور کفرانِ زمانہ تابکے
خود زمانہ بن کے تیغ بے نیام آہی گیا
شوق نے ہر چند صدہا تفرقے ڈالے مگر
زندگی کوراسِ دردِ ناتمام آہی گیا
صحبت رنداں سے واعظ کچھ نہ حاصل کر سکا
بہکا بہکا سا مگر طرزِ کلام آ ہی گیا
بے جگرؔ سونا پڑا تھا مدتوں سے میکدہ
پھر وہ دریا نوش،رند تشنہ کام آ ہی گیا
تشریحِ غزل
وہ بروئے دوست ہنگام سلام آہی گیا
رخصت اے دیر و حرم، دل کا مقام آہی گیا
تشریح
یہ شعر شاعر کے اندرونی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ جگر مراد آبادی کہہ رہا ہے کہ دوست کی آمد نے دل کے اندر خوشی، امن اور سکون پیدا کر دیا۔ “ہنگام سلام” سے مراد وہ جشن اور تجدید ہے جو کسی عزیز یا محبوب کی موجودگی سے پیدا ہوتی ہے۔ شاعر یہاں یہ بتا رہا ہے کہ اب اسے دیر یا حرم کی رسم یا جگہ کی ضرورت نہیں کیونکہ دل کا اصل مقام یعنی سکون اور محبت دوست کی موجودگی سے مکمل ہو گیا ہے۔
منتظر کچھ رند تھے کے وہ جام آہی گیا
باش اے گردوں کہ وقتِ انتقام آہی گیا
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ کچھ شوقین اور آزاد مزاج لوگ جو زندگی کی خوشیوں کے پیالے کے منتظر تھے آخرکار وہ خوشی کا لمحہ آ گیا۔ جام یعنی زندگی کی محبت، لذت اور خوشی کی علامت ہے۔ وقتِ انتقام یہاں سختی یا سزا کے لیے نہیں بلکہ زندگی کے صبر اور کوشش کے بعد نتیجہ حاصل ہونے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ شاعر بتا رہا ہے کہ اب وہ لمحہ آ گیا ہے جب زندگی نے اپنے حساب کتاب کے مطابق خوشی کا صلہ دیا اور ہر انتظار، ہر صبر کے بعد ایک خوشی بھرا لمحہ حاصل ہوا ہے۔
ہر نفس خود بن کے میخانہ بہ جام آہی گیا
توبہ جس سے کانپتی تھی وہ مقام آہی گیا
تشریح
یہاں شاعر بتا رہا ہے کہ ہر سانس اور ہر لمحہ اب اپنے اندر خوشی، لطف اور سکون کا پیالہ لے کر آیا ہے۔ میخانہ یعنی لذت اور لطف کی علامت ہے اور توبہ جس سے کانپتی تھی سے مراد وہ مقام ہے جسے شاعر پہلے خوف یا اضطراب کی وجہ سے قریب سے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اب وہ مقام حقیقت میں سامنے آ گیا ہے۔ شاعر یہاں زندگی کی مشکلات اور خوف کے بعد اندرونی سکون، لطف اور روحانی کامیابی کی تصویر کھینچ رہا ہے جو ہر لمحے محسوس کی جا سکتی ہے۔
اللہ اللہ، یہ میری ترک و طلب کی وسعتیں
رفتہ رفتہ سامنے حسن تمام آہی گیا
تشریح
شاعر یہاں حیرت اور شکر کا اظہار کر رہا ہے کہ جو کچھ اس نے ترک دنیا، صبر اور عشق کی طلب میں گزارا اس کی وسعتیں اور قربانیاں آخرکار ایک خوبصورت اور مکمل لطف کی صورت میں سامنے آگئی۔ حسن تمام کا مطلب ہے مکمل خوبصورتی، جمال اور زندگی کی وہ خوشی جو ہر لحاظ سے کامل ہو۔ یہ شعر زندگی میں صبر، عشق اور محنت کے بعد حاصل ہونے والی روحانی اور جذباتی کامیابی کی تصویر پیش کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہر مشکل، انتظار اور قربانی اب رنگ لے آئی ہے اور اس کے سامنے زندگی کی مکمل خوبصورتی کھل کر آ گئی۔
اوّل اوّل ہر قدم پر تھیں ہزاروں منزلیں
آخر آخر اک مقامِ بے مقام آ ہی گیا
تشریح
شاعر بتا رہا ہے کہ زندگی کے آغاز میں ہر قدم پر کئی منزلیں، راستے اور امتحانات موجود تھے۔ ہر راستہ ایک نیا موقع یا چیلنج فراہم کر رہا تھا جس کی وجہ سے سفر پیچیدہ اور طویل محسوس ہوتا تھا۔ لیکن آخرکار وہ مقام حاصل ہوا جو عام، معمولی یا روزمرہ کی نہیں بلکہ ایک نایاب، نازک اور دل کے لیے خصوصی مقام ہے۔ یہ مقام دل کی تسکین، خوشی اور عشق کی بلند سطح کی علامت ہے۔ شاعر یہ بھی ظاہر کر رہا ہے کہ صبر اور کوشش کے بعد ہر مشکل منزل آسان اور خوشی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
التفاتِ چشم ساقی کی سبک تابی نہ پوچھ
میں یہ سمجھا جیسے مجھ تک دور جام آہی گیا
تشریح
شاعر یہاں ساقی کی نظریں اور توجہ کی نرمی اور محبت کو بیان کر رہا ہے۔ سبک تابی یعنی نرم رویہ اور محبت بھری نظر کی تاثیر اتنی گہری تھی کہ شاعر نے محسوس کیا کہ جیسے دور کا لطف اور خوشی کا جام اچانک اس کے پاس پہنچ گیا ہو۔ یہ شعر جذباتی لطف، خوشی اور محبت کی قوت کو بیان کرتا ہے جو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ شاعر یہ بھی بتا رہا ہے کہ محبت کی نرمی اور توجہ انسان کے دل میں خوشی، سکون اور لطف پیدا کر کرتی ہے۔
عشق کو تھا کب سے اپنی خشک دامانی کا رنج
ناگہاں آنکھوں کو اشکوں کا سلام آہی گیا
تشریح
یہاں شاعر بتا رہا ہے کہ عشق کو پہلے سے معلوم تھا کہ شاعر کی زندگی میں خشک پن، دکھ اور صبر سے بھرا ہوا ہے۔ خشک دامانی یعنی زندگی کی سختی اور تشنگی اچانک آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے یعنی وہ راحت، لطف اور جذباتی سکون حاصل ہوا جس کا انتظار تھا۔ یہ شعر یہ بتاتا ہے کہ عشق اور محبت کے راستے میں صبر کے بعد اچانک خوشی، سکون اور لطف آتا ہی ہے۔ جو زندگی کی تکمیل اور دل کی تکلیفوں کا انعام ہے۔
ہر نگہ پر بندشیں، ایک ایک نفس کی پرسشیں
ہوشیار اے عشق، وہ نازک مقام آہی گیا
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ ہر نظر پر رکاوٹیں اور ہر سانس پر امتحان موجود تھے۔ زندگی کے ہر لمحے میں مشکلات، رکاوٹیں اور چیلنجز موجود تھے لیکن صبر اور عشق کی لگن نے شاعر کو ایک نازک اور خصوصی مقام تک پہنچایا۔ نازک مقام دل کی روحانی اور جذباتی تکمیل کی علامت ہے۔ شاعر یہ بھی واضح کر رہا ہے کہ مشکلات کے باوجود عشق اور محبت کے سفر میں ثابت قدم رہنے سے انسان کو وہ مقام ملتا ہے جہاں سکون، خوشی اور لطف مکمل ہو جاتی ہے ۔
اہل دنیا اور کفرانِ زمانہ تابکے
خود زمانہ بن کے تیغ بے نیام آہی گیا
تشریح
یہ شعر زندگی کے امتحانات اور دنیا کے جھگڑوں کی تصویر کشی کرتا ہے۔ دنیا کے لوگ اور وقت کی کفر بھری حالتیں ایسے محسوس ہوتی ہیں جیسے تیز دھار کی تلوار بن کر سامنے آئیں لیکن شاعر کے لیے یہ سب حالات آخرکار قابو میں آ جاتے ہیں۔ یہ شعر انسان کی حوصلہ مندی، استقامت اور روحانی طاقت کو بیان کرتا ہے۔ شاعر بتا رہا ہے کہ مشکلات اور دنیا کی سختیاں وقتی ہوتی ہیں اور اگر انسان صبر اور عشق میں ثابت قدم رہے تو وہ سب پر قابو پا سکتا ہے۔
شوق نے ہر چند صدہا تفرقے ڈالے مگر
زندگی کوراسِ دردِ ناتمام آہی گیا
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ زندگی میں شوق، محبت اور خواہش نے کئی بار الجھنیں، رکاوٹیں اور مشکلات پیدا کیں۔ تفرقے یعنی اختلافات، پیچیدگیاں اور رکاوٹیں ہیں۔ لیکن آخرکار زندگی نے اسے مکمل تجربات، درد، محبت اور خوشی کے مجموعے سے نوازا۔ یہ شعر یہ ظاہر کرتا ہے کہ زندگی کا سفر کبھی آسان نہیں ہوتا لیکن ہر صبر اور لگن کے بعد انسان کو ناتمام درد کے باوجود تکمیل اور گہری خوشی ضرور ملتی ہے۔
صحبت رنداں سے واعظ کچھ نہ حاصل کر سکا
بہکا بہکا سا مگر طرزِ کلام آہی گیا
تشریح
شاعر بتا رہا ہے کہ رنداں یعنی آزاد لوگ بے پروہ لوگوں کی صحبت سے کوئی عملی نصیحت یا سبق حاصل نہیں ہوا لیکن ان کے اندازِ گفتگو، رویہ اور بات کرنے کا طرز دل میں نقش ہو گیا۔ بہکا بہکا سا یعنی انداز میں ایک خوش طبعی اور نرمی ہے جو دل کو متاثر کرتی ہے۔ یہ شعر انسانی مشاہدہ، تجربہ اور لوگوں کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ بعض اوقات عملی سبق سے زیادہ اندازِ گفتگو اور طرزِ زندگی کا اثر گہرا ہوتا ہے۔
بے جگرؔ سونا پڑا تھا مدتوں سے میکدہ
پھر وہ دریا نوش، رند تشنہ کام آہی گیا
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ کافی عرصے تک وہ میخانے، شراب یا خوشی کے لمحات سے دور رہا یعنی صبر، انتظار اور کوشش میں رہا۔ “دریا نوش” یعنی وہ لطف، محبت اور نشہ جو طویل عرصے سے محروم تھا اب واپس آ گیا۔ رندوں کے ساتھ شوق اور مزہ لوٹ آیا۔ یہ شعر زندگی میں صبر، انتظار اور عشق کے بعد حاصل ہونے والی مکمل خوشی، سکون اور لطف کی عکاسی کرتا ہے۔ شاعر بتا رہا ہے کہ صبر کے بعد زندگی کی نایاب خوشیاں اور محبت کے لمحات واپس آتے ہیں۔
مجموعی مفھوم
یہ غزل صبر، عشق، شوق اور تکمیل کی عکاسی کرتی ہے۔ شاعر دکھ، مشکلات اور زندگی کی رکاوٹوں کے باوجود عشق میں ثابت قدم رہتا ہے اور آخرکار دل کی حقیقی خوشی، جمال اور سکون حاصل کرتا ہے۔ ہر شعر جذبات، داخلی تکمیل اور زندگی کی پیچیدگیوں کو عام فہم انداز میں واضح کرتا ہے تاکہ کوئی بھی اس کی گہرائی کو محسوس کر سکے۔