آتشِ گُل، جگر مراد آبادی
دوسری غزل
یادش بخیر جب وہ تصور میں آ گیا
شعر و شباب و حسن کا دریا بہا گیا
جب عشق اپنے مرکز اصلی پہ آ گیا
خود بن گیا حسین دو عالم پہ چھا گیا
جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا
وہ کر سکے بیاں نہ ہمیں سے کہا گیا
ناصح فسانہ اپنا ہنسی میں اڑا گیا
خوش فکر تھا کہ صاف یہ پہلو بچا گیا
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
دل بن گیا نگاہ نگہ بن گئی زباں
آج اک سکوت شوق قیامت ہی ڈھا گیا
میرا کمال شعر بس اتنا ہے اے جگرؔ
وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا
تشریحِ غزل
یادش بخیر جب وہ تصور میں آ گیا
شعر و شباب و حسن کا دریا بہا گیا
تشریح
اس مصرعے میں شاعر وہ لمحہ یاد کرتا ہے جب محبوب کا تصور دل و ذہن پر روشن ہوا۔ “یادش بخیر” میں ماضی کی میٹھی یاد کا اشارہ ہے اور وہ تصور جب دل میں آیا تو اس کے ساتھ ساتھ “شعر و شباب و حسن کا دریا” بہہ نکلا۔ یہاں دریائے حسن اور شباب محض بیرونی کلمات یا مناظر نہیں یہ وہ جذباتی سیلاب ہیں جو یاد کے آتے ہی دل میں جھاگ کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے۔ شاعر کا اقرار ہے کہ تصورِ محبوب نے پوری وجود کو بہا لیا یعنی کلام، جوانی اور جمالیت سب ایک موج میں گھل مل گئے۔ فکری طور پر یہ آنے والا لمحہ معرفت اور وجد کا آغاز ہے جب ذاتی احساسات ایک وسیع سی بحرانی کیفیت اختیار کرتے ہیں۔ ادبی طور پر “دریا بہا گیا” کی تشبیہ احساسِ طغیانی اور سرور کو بخوبی منتقل کرتی ہے سادہ لفظوں میں محبوب کا خیال محض یاد نہ رہا بلکہ ایک طوفانی کیفیت میں بدل گیا۔
جب عشق اپنے مرکز اصلی پہ آ گیا
خود بن گیا حسین دو عالم پہ چھا گیا
تشریح
یہاں شاعر بتاتا ہے کہ عشق نے جب اپنے اصل مرکز یعنی حقیقت یا مصدرِ حقیقت تک رسائی پائی تو نتیجہ یہ ہوا کہ عشق خود ایک حسین وجود بن گیا اور دونوں جہانوں پر چھا گیا۔ “مرکز اصلی” سے مراد وہ سرِ راز یا وہ حقیقت ہے جس کی طرف عشق کا سفر جاتا ہے بعض اوقات اس کا مطلب محبوبِ حقیقی یا ذاتِ حق بھی لیا جاتا ہے۔ جب عشق نے اس مرکز کو پا لیا تو عشق کی صورت بدل گئی وہ محض خواہش یا تمنّا نہ رہ گئی بلکہ خوشبو سا پھیل گئی اور کائناتی شان اختیار کر گئی۔ ادبی لحاظ سے یہ مصرع عرفانی شعور کے عروج کو بیان کرتا ہے اور “دو عالم” کا ذکر انسانی اور الٰہی، یا ظاہری اور باطنی دنیا کی جامع اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس میں فخرِ وجد بھی پوشیدہ ہے کہ عشق نے نہ صرف شاعر کو متاثر کیا بلکہ اس نے وسیع عروج پاتے ہوئے عالمِ وجود پر اثر کیا۔
جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا
وہ کر سکے بیاں نہ ہمیں سے کہا گیا
تشریح
یہ مصرع ذات کے اندر چھپے راز کی بات کرتا ہے۔ “دل کا راز” یعنی وہ پوشیدہ احساس یا حقیقت جو شاعر کے اندر محفوظ تھی کسی دل نے محسوس کر لیا۔ اس کا معنی یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ شاعر کے دل کے قریب بیٹھا کوئی ہمراز اس راز تک پہنچ گیا یا پھر شاعر خود کی اندرونی تبدیلی ایسی ہوگئی کہ دل ہی نے دل کی حالت سمجھ لی۔ “وہ کر سکے بیاں نہ ہمیں سے کہا گیا” میں ایک رومانوی تناؤ ہے وہ کیفیت ایسی تھی کہ اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہ تھا اور یوں جو بیاں کر سکے وہ خود محسوس کر گیا یا شاعر کے اندر وہ راز بیان نہ ہو سکا بلکہ خود محسوس کر رہا تھا۔ یہ مصرع جزوی انکسار اور خوشگوار خاموشی کی علامت ہے جہاں زبان کمزور پڑ جاتی ہے اور دل کا حال خاموشی میں بہتر سمجھا جاتا ہے۔
ناصح فسانہ اپنا ہنسی میں اڑا گیا
خوش فکر تھا کہ صاف یہ پہلو بچا گیا
تشریح
یہاں شاعر معاشرتی یا اخلاقی نصیحتوں کا تذکرہ کر رہا ہے۔ “ناصح فسانہ اپنا ہنسی میں اڑا گیا” کا مطلب یہ کہ جو نصیحت یا داستانی بصیرت کسی نے دی تھی وہ ہنسی، بے پروائی یا مستی کے شور میں بکھر گئی۔ وہ فسانہ یعنی وہ سبق یا مشورہ محض قصّہ بن کر رہ گیا اور عملی اثر نہ دکھا سکا۔ “خوش فکر تھا کہ صاف یہ پہلو بچا گیا” میں ایک طنزیہ یا نادمانہ لحن ہے جس نے سوچا تھا کہ کم از کم ایک پہلو صاف رہ گیا مگر شاعر کی نکتہ چینی یہ کہتا ہے کہ خوش فکری جب خود اعتبار میں بود و نہ بود کا شکار ہوتی ہے تو شاید وہ پہلو بھی ٹھیک طرح نہ بچ سکے۔ مجموعی طور پر مصرع سماجی منظرنامے پر لطیف تاثر ہے مستی اور تغزل میں جو کچھ اہم تھا وہ گم ہو جاتا ہے اور نصیحت کا اثر مدھم پڑ جاتا ہے۔ اس میں ایک حسِ طنز اور مایوسی کا امتزاج ملتا ہے۔
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
تشریح
اس مصرع میں شاعر خود اور اہلِ دل کے پس منظر کے درمیان فرق بیان کرتا ہے۔ “اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل” یعنی جو دل کے حقیقی صاحبان ہوتے ہیں وہ اپنا زمانہ، اپنا ماحول اور اپنے معیار خود تخلیق کرتے ہیں وہ دعوتِ زندگی کے رجحانات کے تابع نہیں ہوتے۔ اس کے مقابلے میں شاعر کہتا ہے “ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا” یعنی وہ لوگ نہیں جو زمانے کے بناؤ ایجاد یا فیصلوں کے غلام بن جائیں وہ زمانے کے شکل دینے والے نہیں بلکہ زمانہ انہیں اپنی جگہ ڈال دے۔ اس میں ایک خودمختاری اور ثقافتی خود اعتمادی کی کیفیت ہے۔ اہلِ دل خود معیار بناتے ہیں جبکہ شاعر خود کو ان میں سے قرار دے رہا ہے نہ کہ ان میں جو زمانہ خود بخود بناتا ہے۔ ادبی طور پر یہ مصرع فردی توقیر اور از خود قیام کے خیال کو اجاگر کرتا ہے اور اس میں خودی اور آزادی پسندی کے جذبات چھپے ہیں۔
دل بن گیا نگاہ نگہ بن گئی زباں
آج اک سکوت شوق قیامت ہی ڈھا گیا
تشریح
یہاں شاعر جذباتی اور شعوری تبدیلی کو بیان کرتا ہے “دل بن گیا نگاہ نگہ بن گئی زباں” کا مطلب یہ ہے کہ دل نے نگاہ کی شکل اختیار کر لی اور نگاہ نے زبان کا کام سنبھال لیا یعنی اندر کی کیفیت اور اظہار کا امتزاج ایسا ہو گیا کہ الفاظ کی ضرورت کم رہ گئی نگاہ نے سب کہہ دیا۔ اس کے بعد “آج اک سکوت شوق قیامت ہی ڈھا گیا” میں سکوت کی شدت کا اظہار ہے۔ یہ سکوت شوق سے معمور ہے یعنی ایسی چپ جو جذباتی طوفان وجد یا عشق کی شدت کے سامنے بول پڑتی ہے۔ “قیامت ہی ڈھا گیا” کا استعارہ ہے کہ سکوت نے محیط کیفیت کو اتنا بدل ڈالا کہ جیسا وقوع عظیم یا انقلاب آگیا ہو یہ سکوت تاثر مستقبل کی تبدیلی یا اندرونی ہلچل کا نشان ہے۔ مجموعی طور پر یہ مصرع شوق کی گہری خاموشی اور نگاہ کے ذریعہ اظہار کا اعلیٰ مرحلہ دکھاتا ہے جہاں کلام بھی اسے ادا نہ کر سکے۔
میرا کمال شعر بس اتنا ہے اے جگرؔ
وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا
تشریح
آخر میں شاعر نے اختتامی خود اقراری میں کہا کہ شاعر کا خدا داد کمال یہ ہے کہ جب وہ محبوب پر چھا گیا تو اس کا عکس اور اثر زمانے پر بھی پڑ گیا۔ “وہ مجھ پہ چھا گئے” میں یہ معنی ہے کہ محبوب یا وہ کیفیت شاعر پر غالب آ گئی اور “میں زمانے پہ چھا گیا” میں شاعر کی تاثیر کا زمانے پر پھیل جانا ہے یعنی جو اندر میں ہوا وہ باہر کے عالم میں تبادلۂ اثر کی صورت میں نمودار ہو گیا۔ یہ مصرع فخر اور سرفرازی کی ایک لطیف کیفیت سے لبریز ہے: شاعر بتاتا ہے کہ اس نے جو تجربہ ذاتی طور پر پایا اس کی وجہ سے اس کا کلام اور ذات ایک وقت میں زمانے کے روحانی یا جمالیاتی منظر پر چھا گیا۔ یہ ایک اعترافِ کامیابی بھی ہے کہ سچے وجد اور عشق کا تجربہ فرد کو ممتاز اور زمانے کا مرکز بنا دیتا ہے۔
مجموعی مفہوم
اس غزل میں ابتدا ایک یاد، ایک تصور کے آئینے سے ہوتی ہے جس نے شاعر کے اندر ایک سمندر نما کیفیت کو بھڑکا دیا۔ عشق جب اپنی اصلیت تک پہنچا تو وہ عالمگیر صورت اختیار کر گیا اور شاعر کا وجود وسعت پا گیا۔ اس اندرونی راز کا ایک دل نے ادراک کیا اور اس کیفیت کی زبان نہیں رہی کیونکہ بعض تجربات بیان سے ماورا ہوتے ہیں۔ معاشرتی نصائح اور افسانے مستی میں بکھر گئے اور عملی اثر چھوڑ نہیں پائے اس لئے شاعر ان نظریات کے مقابلے میں اہلِ دل کی خود مختاری کو اہم سمجھتا ہے جو اپنا زمانہ خود پیدا کرتے ہیں۔ اس کی باطنی کیفیت ایک ایسی خاموشی میں پہنچ گئی کہ نگاہ نے اظہار کا کام سنبھال لیا اور ایک سکوت نے پورے وجود کو بدل کر رکھ دیا۔ آخر میں شاعر یہ محسوس کرتا ہے کہ جس طرح محبوب کا اثر اس پر ہوا اسی طرح وہ اپنا عکس زمانے پر ثبت کر گیا یعنی ذاتی وجد نے عمومی مقام حاصل کر لیا۔ نتیجہ یہ کہ حقیقی عشق جب مرکزِ حقیقت تک پہنچ جائے تو وہ نہ صرف فرد بدل دیتا ہے بلکہ زمانے کی شکل پر بھی اپنا نشان چھوڑ دیتا ہے۔