حیاتِ اقبال
خاندانی پس منظر
اقبال کے آبا و اجداد سپرو برہمن تھے اور ان کا تعلق کشمیر سے تھا۔ ان کے خاندان نے اٹھارہویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے شروع میں اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے کشمیر چھوڑ دیا اور سیالکوٹ میں آ کر بس گئے۔ اگرچہ اقبال کو اس بات پر افسوس تھا کہ ان کے بزرگ پہلے بتوں کو پوجتے تھے، لیکن وہ اس پر فخر بھی کرتے تھے کہ وہ برہمنخاندان سے تعلق رکھتے تھے، کیونکہ برہمن لوگ علموفلسفے میں مہارت رکھتے تھے۔ اقبال نے خود ایک جگہ کہا ہے
میں اصل کا خاص سومناتی
آبا مرے لاتی و مناتی
اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کو اپنے فلسفیانہورثے پر فخر تھا، نہ کہ بت پرستی پر۔ وہ کہتے ہیں
ہے فلسفہ میرے آب و گل میں
پوشیدہ ہے ریشہ ہاے دل میں
ولادت
اقبال کے دادا کا نام شیخ محمد رفیق تھا، جو سیالکوٹ کے ایک محلے میں رہتے تھے۔ یہی محلہ بعد میں اقبال بازار کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کے دو بیٹے تھے نور محمد اقبال کے والداورغلام قادر۔ نور محمد کی شادی امام بی بی سے ہوئی۔ ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ بڑے بیٹے کا نام عطا محمد تھا، بیچ والا بیٹا پیدائش کے فوراً بعد فوت ہو گیا، جبکہ سب سے چھوٹے بیٹے کا نام محمد اقبال رکھا گیا، جو بعد میں علامہ اقبال کے نام سے مشہور ہوئے۔ اقبال کی پیدائش ۹ نومبر 1877ء کو ہوئی ۔
تربیت
اقبال کے والد شیخ نور محمد جن کو میاں جی بھی کہتے تھے زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، لیکن انہیں تعلیم کا شوق تھا۔ انہوں نے اپنی محنت سے اتنا علم حاصل کر لیا تھا کہ اردو اور فارسی کی کتابیں پڑھ سکتے تھے۔ وہ نیک دل اور دین دار انسان تھے اور تصوف کی طرف ان کا خاص جھکاؤ تھا۔ اقبال نے اپنی تربیت میں والد کی صحبت کو بہت اہم بتایا ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں
ہزار کتب خانے ایک طرف اور باپ کی نگاہِ شفقت ایک طرف۔ اسی لیے جب بھی موقع ملتا ہے، ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور پہاڑ پر جانے کے بجائے ان کی محبت بھری باتوں سے فائدہ اٹھاتا ہوں۔
شیخ نور محمد اکثر صوفیوں کی محفلوں میں بیٹھتے تھے۔ وہ قادریہ سلسلے میں بیعت تھے اور آواں شریف کے مشہور بزرگ قاضی سلطان محمود کے مرید تھے۔ اقبال بھی بچپن میں قادریہ سلسلے میں بیعت ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنی نظم جاوید سے میں اپنے گھر کے روحانی ماحول کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے
جس گھر کا مگر چراغ ہے تو
ہے اس کا مذاق عارفانہ
یعنی اے جاوید! اگر تُو ہمارے گھر کا چراغ (روشن چراغ، امید) ہے، تو تجھ میں روحانیت اور سچائی کا رنگ ہونا چاہیے۔
تلاوتِ قرآن سے لگاؤ
اقبال کو بچپن سے ہی قرآن پاک کی تلاوت کا شوق تھا اور ان کی آواز بھی بہت اچھی تھی۔ وہ فجر کی نماز کے لیے اپنے والد کے ساتھ مسجد جایا کرتے تھے۔ ان کے والد شیخ نور محمد نماز کے بعد مسجد میں کچھ دیر وظائف میں مصروف رہتے، جبکہ اقبال گھر آ کر قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ ایک دن جب شیخ صاحب مسجد سے واپس آئے تو بیٹے کی خوبصورت تلاوت سن کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے اقبال کو نصیحت کی
بیٹا! قرآن ایسے پڑھا کرو جیسے اللہ تعالیٰ تم سے براہِ راست بات کر رہا ہو، جیسے یہ تم ہی پر نازل ہوا ہو۔
اس نصیحت نے اقبال پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ قرآن کے معنی اور باتوں پر مسلسل غور کرتے رہے، یہاں تک کہ قرآن کی تعلیم ان کے دل و دماغ میں رچ بس گئی۔ ان کی شاعری قرآن کی تفسیر بن گئی۔ اقبال نے اپنی کتاب مثنوی رموزِ بے خودی میں دعویٰ کیا
میری شاعری کا کوئی حرف قرآن حکیم سے باہر نہیں، اگر باہر ہو تو روزِ محشر مجھے ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے اور میری شاعری وجود میں آنے سے پہلے ہی فنا ہو جائے۔
یہ بلند مقام اقبال نے اپنی محنت اور لگن سے حاصل کیا، لیکن یہ راستہ انہیں سب سے پہلے ان کے والد نے دکھایا تھا۔ شیخ نور محمد 17 اگست 1930ء کو وفات پا گئے۔ وہ اقبال کی شہرت اپنے جیتے جی دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ ان کا بیٹا انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں نظم پڑھ رہا ہے اور ہزاروں لوگ اسے سن کر رو رہے ہیں۔ شیخ صاحب اقبال کا کلام اردو اور فارسی دونوں بڑے شوق سے پڑھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ اقبال کی تربیت میں ان کی والدہ امام بی بی جنہیں گھر میں بی جی کہا جاتا تھا کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں، مگر بہترین ماں تھیں۔ انہیں بچوں کی پرورش کا سلیقہ خوب آتا تھا۔ بی جی نے اقبال کی ایسی تربیت کی کہ ان کے دل میں ملک اور قوم کی خدمت کا جذبہ پیدا ہو گیا، جو زندگی بھر قائم رہا۔ اقبال نے اپنی ماں کی محبت اور تربیت کو ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا
اقبال نے ایک نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں لکھی، جس میں اپنی ماں کی جدائی کا غم بیان کیا۔ ان کی بیقراری ان اشعار سے ظاہر ہوتی ہے
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بیقرار
خاکِ مرقد پہ تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دعا نے نیم شب میں کسی کو میں یاد آؤں گا
ماں کی موت نے اقبال کو زندگی اور موت کی حقیقت پر سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اور اس نتیجے پر پہنچے کہ موت صرف وقتی جدائی ہے، فنا نہیں۔ انسان مرنے کے بعد بھی یادوں اور اثرات میں زندہ رہتا ہے۔
یہ نظم ایک خوبصورت دعا پر ختم ہوتی ہے
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سینۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
تعلیم کا آغاز
اقبال کی عمر چار سال اور چار مہینے کی ہوئی تو انھیں ایک مکتب میں داخل کروا دیا گیا۔ ان کے والد شیخ نور محمد دیندار انسان تھے اور چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا پہلے دینی تعلیم حاصل کرے۔ شیخ صاحب کے ایک دوست مولانا غلام حسن تھے، جو ایک عالمِ دین تھے۔ شیخ صاحب نے اقبال کو مولانا غلام حسن کے سپرد کر دیا۔ اقبال نے اپنی ابتدائی تعلیم محلہ شوالہ کی مسجد میں قرآن پاک کی تعلیم سے شروع کی۔ تقریباً ایک سال تک اقبال اسی مکتب میں قرآن کی تعلیم حاصل کرتے رہے ہے۔ پھر شیخ صاحب کے ایک اور قریبی دوست سید میر حسن شاہ صاحب کے مشورے سے طے پایا کہ اقبال کی تعلیم صرف قرآن تک محدود نہ رکھی جائے۔ لہٰذا اقبال کی تعلیم کی ذمہ داری اب سید میر حسن کو سونپ دی گئی۔ سید میر حسن کا مکتب کوچہ میر حسام الدین میں واقع تھا، جو شیخ صاحب کے گھر کے قریب تھا۔ وہاں اقبال نے وہاں اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا۔ اسی دوران شاہ صاحب اسکاچ مشن اسکول سے بھی منسلک ہو گئے۔ ان کے اصرار پر اقبال کوبھی اسی اسکول میں داخل کروا دیا گیا تاکہ وہ انگریزی تعلیم بھی حاصل کر سکیں۔ اس وقت اقبال کی عمر تقریباً آٹھ یا نو سال تھی۔ شاہ صاحب کا زیادہ تر وقت پڑھانے میں گزرتا تھا۔ بازار جانا ہوتا تو بھی شاگرد ساتھ ہوتے اور تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا۔ اسکول سے پہلے اور بعد بھی وہ طلبا کو اپنے گھر پر پڑھاتے۔
شاہ صاحب کو ریاضی اور زبانوں میں بھی مہارت حاصل تھی، مگر انھیں ادب سے خاص محبت تھی۔ انھیں عربی، فارسی، اردو اور پنجابی کے ہزاروں اشعار زبانی یاد تھے۔ جب کوئی شعر سمجھاتے تو کئی متعلقہ اشعار بھی سناتے، جس سے شاگردوں کو شعر سمجھنے میں آسانی ہوتی اور شاعری کا ذوق بھی بڑھتا۔ اقبال کے دل میں شاعری کا شوق اور علم کی پیاس اسی استاد کی بدولت پیدا ہوئی۔ شاہ صاحب انگریزی تعلیم کے بڑے حامی تھے اور سرسید احمد خان کے نظریات سے متفق تھے۔ وہ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے۔ شاہ صاحب شاگردوں سے بھی سرسید اور ان کے تعلیمی مشن کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ اقبال کے دل میں سرسید کا احترام شاہ صاحب ہی کی باتوں سے پیدا ہوا۔ جب سرسید کا انتقال ہوا تو شاہ صاحب نے ان کی تاریخ وفات کے الفاظ غفرلہ سے نکالی۔ اسی موقع پر اقبال نے شاہ صاحب کی فرمائش پر قرآن کی آیت انی متوفیک و رافعک سے مادہ تاریخ نکالا۔
استاد سے محبت
اقبال کی زندگی پر ان کے استاد سید میر حسن کا بہت گہرا اثر رہا۔ وہ ان سے بہت متاثر تھے۔ اقبال کے انگلستان جانے سے پہلے دہلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے مزار پر حاضر ہوئے تو انھوں نے وہاں ایک نظم التجائے مسافر کہی۔ اس میں اپنے استاد کے بارے میں لکھا
وہ شمع بارگاہ خاندانِ مرتضوی
رہے گا مثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کو
بعد میں جب اقبال کو سر کا خطاب دینے کی بات آئی، تو انہوں نے شرط رکھی کہ پہلے میرے استاد کو شمس العلماء کا خطاب دیا جائے۔ گورنر نے پوچھا کہ ان کی کون سی تصانیف (کتابیں) ہیں؟ تو اقبال نے جواب دیا
ان کی زندہ تصنیف میں خود ہوں۔ آخرکار حکومت کو یہ شرط ماننا پڑی۔
تعلیم کا سفر
اقبال نے 1891ء میں مڈل اور1893ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انھیں اس شاندار کارکردگی پر تمغہ اور وظیفہ بھی ملا۔ اس وقت اسکاچ مشن اسکول ہی کالج بھی بن چکا تھا، اس لیے انہوں نے وہیں سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کی۔1895ء میں انٹر کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے اقبال کو لاہور جانا پڑا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لیا اور انگریزی، فلسفہ اور عربی ادب کو منتخب کیا۔ عربی کے بعض مضامین کے لیے انہیں اورینٹل کالج بھی جانا پڑتا تھا۔ انہوں نے یہ ڈگری 1897ء میں مکمل کی اور1899ء میں ایم اے فلسفہ کیا۔ ایم اے کے دوران اقبال کو فلسفے کے مشہور استاد مسٹر آرنلڈ سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ان کی رہنمائی سے اقبال کے دل میں علم کا سچا شوق اور تحقیق کی لگن پیدا ہوئی۔ اقبال ان کے بہت شکر گزار رہے اور ان سے ایک گہری محبت ہو گئی۔ 1904ء میں آرنلڈ ملازمت سے سبکدوش ہو کر واپس انگلستان چلے گئے، تو اقبال نے ان کے فراق میں نالۂ فراق کے عنوان سے ایک نظم لکھی۔ اس میں لکھا
اپنے استاد کے فیض سے میری زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا ہونے کو تھا مگر افسوس یہ ابر رحمت میرے گلزار پر زیادہ دیر نہ برس سکا ۔
ایم اے کے ساتھ ساتھ اقبال نے وکالت کا امتحان بھی دینے کی کوشش کی، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ خواب بعد میں لندن جا کر پورا ہوا۔
شعر گوئی کا آغاز
اقبال کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ ان کے استاد سید میر حسن نے ان میں یہ شوق مزید بڑھایا کیونکہ ان کے ساتھ بیٹھنے سے اقبال کو ادبی ماحول ملا۔ اسی لیے میٹرک کا امتحان دینے سے پہلے ہی اقبال چھوٹی چھوٹی غزلیں کہنے لگے تھے۔ مگر وہ انھیں شائع کرانے کے بجائے پھاڑ دیتے تھے۔ اقبال نے میٹرک پاس کر لیا تو وہ اپنی غزلیں رسالوں کو بھیجنے لگے۔ 1894ء میں ان کی ایک غزل شائع ہوئی جس کا مقطع تھا
گرم ہم پر کبھی ہوتا ہے وہ بُت گرا اقبال
حضرتِ داغ کے اشعار سنا دیتے ہیں
اقبال داغ دہلوی کے شاگرد بن چکے تھے۔ داغ نے حیدرآباد میں شاعری کی اصلاح کے لیے باقاعدہ ایک نظام بنایا ہوا تھا، جہاں سے غزلیں ڈاک کے ذریعے آتیں اور اصلاح کے بعد واپس بھیجی جاتیں۔ اقبال نے دور ہونے کے باوجود داغ سے علم حاصل کیا۔ اقبال نے داغ سے اپنے رشتے کا فخر کے ساتھ ذکر بھی کیا ہے۔
مجھے بھی فخر ہے شاگردیِ داغِ سخنداں کا
اقبال داغ سے ملاقات کے خواہشمند تھے، مگر یہ ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ اس کا اظہار انھوں نے ایک شعر میں یوں کیا
یہی ہے جو شوقِ ملاقاتِ حضرت
تو دیکھیں گے اک بار ملکِ دکن بھی
لاہور کا ادبی ماحول
جب اقبال لاہور پہنچے تو یہاں شاعری کا بڑا چرچا تھا۔ حکیم امام الدین کے گھر شعری محفلیں ہوتی تھیں جن میں مشہور شاعر اور کالج کے نوجوان طالب علم شریک ہوتے تھے۔ نومبر1895ء کی ایک ایسی محفل میں اقبال نے اپنی ایک غزل سنائی، جس کا یہ شعر سن کر سامعین بہت متاثر ہوئے
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
نظرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
لاہور میں کشمیری مسلمانوں کی ایک انجمن بھی قائم ہوئی جس کے زیرِ اہتمام شعری محفلیں ہونے لگیں۔ اقبال بھی ان میں شریک ہوتے اور اپنا کلام سناتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اقبال کی شہرت بڑھنے لگی۔
نظم گوئی کی طرف رجحان
اقبال کے کلام میں اب خوشگوار تبدیلی آنے لگی۔ وہ صرف روایتی غزل نہیں کہتے تھے بلکہ اب وہ نظموں کی طرف بھی مائل ہو گئے۔ چونکہ وہ تعلیم یافتہ تھے اور انگریزی شاعری سے واقف تھے، خاص طور پر ورڈزورتھ سے متاثر تھے، اس لیے ان کی شاعری میں نیا رنگ اور نیا انداز نظر آنے لگا۔ جب اقبال نے ایک مشاعرے میں اپنی نظم ہمالہ پڑھی تو وہ بہت پسند کی گئی۔ پھر وہ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں نظمیں پڑھنے لگے اور ان کی شہرت مزید پھیل گئی۔
شروع میں اقبال سیدھے لہجے میں اپنی نظمیں سناتے تھے، لیکن چونکہ ان کی آواز اچھی تھی، اس لیے بعد میں وہ ترنم سے پڑھنے لگے، جس سے ان کی مقبولیت اور زیادہ ہو گئی۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں ملک کے بڑے بڑے ادیب، شاعر اور رہنما شرکت کرتے تھے اور لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی تھی۔ ان جلسوں میں اقبال کی نظمیں لوگوں کو بہت متاثر کرتی تھیں۔ 1900ء کے جلسے میں اقبال نے اپنی مشہور نظم “نالۂ یتیم” سنائی۔ یہ نظم اتنی پسند کی گئی کہ انجمن نے اسے کتاب کی شکل میں شائع کیا تاکہ اس کی فروخت سے تعلیم کے لیے رقم جمع کی جا سکے۔ اقبال یہ نظم پڑھ رہے تھے تو درمیان میں انھیں روک کر کتابیں فروخت کی گئیں، اور تھوڑی ہی دیر میں ساری کتابیں بک گئیں۔ کچھ لوگوں نے تو پچاس روپے فی جلد کے حساب سے دوبارہ جلدیں خریدیں اور وہ بھی فوراً فروخت ہو گئیں۔ جب اقبال نے نظم مکمل کی تو لوگوں پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے اپنی جیبیں خالی کر دیں تاکہ انجمن کی مدد کی جا سکے۔ مجمع کے کہنے پر اقبال نے نظم دوبارہ بھی سنائی۔
اقبال نے 1904ء کے جلسے میں نظم تصویر درد سنائی۔ مشہور شاعر حالی اس نظم سے اتنے متاثر ہوئے کہ دس روپے انعام دیا، جو انجمن کے فنڈ میں جمع کرا دیے گئے۔ نظم ختم ہونے پر خواجہ حسن نظامی اتنے جذباتی ہو گئے کہ انہوں نے اپنا عمامہ پگڑی اتار کر اقبال کے سر پر رکھ دیا۔
یورپ میں قیام
اقبال ستمبر1905ء میں یورپ کے لیے روانہ ہوئے۔ روانگی سے پہلے وہ دہلی میں حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر گئے اور وہاں تنہا بیٹھ کر اپنی نظم التجا مسافر پڑھی جو انہوں نے اس موقع کے لیے لکھی تھی۔ مزار سے نکل کر وہ غالب کے مزار پر بھی حاضری دی۔ دہلی سے اقبال بمبئی پہنچے، پھر پانی کے جہاز سے نہرسویز کے راستے 24 ستمبر 1905ء کو لندن پہنچے۔ وہاں سے وہ ایک رات شیخ عبد القادر کے ساتھ گزارے اور پھر25 ستمبر کو کیمبرج پہنچے۔ یہاں انہوں نے ٹرینٹی کالج میں داخلہ لیا۔ انہوں نے تحقیق کے لیے موضوع منتخب کیا ایران میں فلسفہ ما بعد الطبیعات کا ارتقا۔ یہ مقالہ انہوں نے انگریزی میں لکھ کر میونخ یونیورسٹی میں پیش کیا۔ زبانی امتحان جرمن زبان میں ہوا جو انہوں نے تھوڑی بہت سیکھ لی تھی۔ 1907ء میں انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔ اس کے بعد وہ لندن واپس آئے اور بیرسٹری کا امتحان دینے لگے۔ بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ جولائی 1908ء میں ہندوستان لوٹ آئے۔
یورپ میں قیام کے دوران اقبال کو کئی بڑے علماء اور دانشوروں سے ملنے کا موقع ملا جیسے میک ٹیگرٹ، وائٹ ہیڈ، براؤن اور نیلسن۔ وہ شاعرہ سروجنی نائیڈو سے بھی ملے۔ یہاں ان کا تعارف عطیہ فیضی سے بھی ہوا اور ان کی کئی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ لندن میں اقبال نے لیکچر دینا بھی شروع کیا۔ انہوں نے اسلامی تصوف، یورپ پر اسلامی تہذیب کے اثرات اور اسلام میں جمہوریت جیسے موضوعات پر بات کی۔ کچھ وقت کے لیے وہ لندن یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر بھی رہے۔ انگلینڈ میں رہتے ہوئے اقبال نے شاعری چھوڑنے کا سوچا تاکہ اپنا وقت اور صلاحیتیں مسلمانوں کی بھلائی کے لیے بہتر کاموں میں لگا سکیں۔ لیکن سر عبد القادر نے اس کی مخالفت کی۔ آخر میں یہ فیصلہ پروفیسر آرنلڈ پر چھوڑا گیا جنہوں نے سر عبد القادر کی بات کی تائید کی، اس لیے اقبال کو شاعری ترک کرنے کا خیال چھوڑنا پڑا۔ لیکن اب ان کی شاعری کا انداز بدل گیا۔ انہوں نے یورپ کو قریب سے دیکھا اور مغربی اقوام کے غلط چہرے کو سمجھا۔ مغرب کی مادہ پرستی اور صرف اپنے ملک کی فکر سے وہ نفرت کرنے لگے۔ یورپ کی بڑی طاقتیں اس وقت آپس میں لڑ رہی تھیں اور اس وجہ سے دنیا میں امن تباہی کے قریب تھا۔
شاعری میں حب الوطنی
حب وطن اقبال کی زندگی کا سب سے پہلا پیار تھا اور قدرت کے خوبصورت مناظر انہیں بہت عزیز تھے۔ جب انہوں نے شاعری شروع کی تو سب سے پہلے انہی دونوں موضوعات کو اپنے شعر کا مرکز بنایا۔ ان کی وہ نظمیں جن میں وطن اور فطرت خوبصورت انداز میں ملے ہوئے ہیں، بہت پسند کی جاتی ہیں۔ ان کے پہلے مجموعہ کلام بانگ درا کی پہلی نظم ہمالہ اس کی بہترین مثال ہے۔ ہمالہ کے علاوہ اقبال نے وطن سے محبت کی جذبے سے لکھی ہوئی دوسری اہم نظمیں نیا شوالہ، ترانہ ہندی، صدائے درد، تصویر درد اور ہندوستانی بچوں کا قومی گیت ہیں۔
نیا شوالہ اقبال کی شاعری کی ایک لازوال نظم ہے، جس میں انہوں نے ہندو اور مسلمان کے اتحاد کی خوبصورت تصویر کشی کی ہے۔ اس نظم میں اردو اور ہندی الفاظ ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں۔ شاعر شکایت کرتے ہیں کہ برہمن اور واعظ نے دوستی کی جگہ دشمنی کا درس دیا ہے۔ وہ برہمن سے کہتے ہیں کہ تم سمجھتے ہو کہ خدا پتھر کی مورتوں میں رہتے ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ وطن کی مٹی کا ہر ذرہ میرے لیے خدا ہے۔ آخر میں شاعر یہ سمجھاتے ہیں کہ میل جول کے ساتھ رہنا ہی سکون اور خوشی کی وجہ ہے۔
ترانہ ہندی کے اشعار جیسے سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا آج بھی ہمارے خون میں جذبہ بڑھا دیتے ہیں۔ اس دور میں وطن کے لیے اقبال کے دل میں جو درد تھا، وہ تصویر درد پڑھ کر بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ جب وطن پر فرقہ بندی کے بادل چھانے لگتے ہیں تو اقبال کا دل بہت دکھتا ہے اور وہ اپنے درد کو شاعری میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں
وطن کی فکر کرنا داں، مصیبت آنے والی ہے
تری بر بادلوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
بعد میں وہ اپنے وطن کے لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ
فرقہ بندی ایک ایسا درخت ہے جس کا پھل تعصب ہے
یہ پھل انسان کو جنت سے بھی باہر نکال دیتا ہے
اقبال کا حل وہی ہے جو انہوں نے نیا شوالہ میں پیش کیا ہے، کہ دھرتی کے لوگوں کی آزادی اور محبت ہی اصل بات ہے
لیکن اقبال کی سوچ میں وطن پرستی صرف ایک حد تک تھی کیونکہ ان کے نزدیک یہ تعصب اور تنگ نظری کا باعث بن سکتی ہے۔ محدود وطن پرستی کے خطرناک نتائج اقبال کے زمانے میں ہی ظاہر ہونے لگے تھے۔ بعد میں وطن پرستی نے عجیب صورتیں اختیار کیں، جہاں اپنا وطن اچھا لگنا ٹھیک تھا لیکن دوسرے ملک یا قوم کو برا سمجھنا غلط تھا۔ ایسی وطن پرستی جو انسان کو دوسرے انسان کا دشمن بنا دے، اقبال کے نزدیک نقصان دہ ہے۔ وہ کہتے ہیں
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یعنی ایسی وطن پرستی جو مذہب کی طرح تنگ نظر اور بندھے ہوئے دل کی علامت بن جائے، وہ درست نہیں۔
فکر معاش
اقبال کے معاشی حالات کبھی اچھے نہیں رہے۔ ان کے والد سلائی کا کام کرتے تھے مگر آمدنی بہت کم تھی۔ ان کے بڑے بھائی عطا محمد سرکاری ملازم تھے اور ان کی تنخواہ مناسب تھی۔ انہوں نے اقبال کی تعلیم کے سارے خرچے اٹھائے۔ اقبال چاہتے تھے کہ جلد سے جلد خود مختار ہو جائیں۔ ان کی پہلی شادی میٹرک کے فوراً بعد ہو گئی تھی۔ ایم اے کرنے کے بعد معاشی فکر ان کے ساتھ رہی۔
اقبال نے اپنی پہلی نوکری میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے اورینٹل کالج میں حاصل کی، جو تقریباً چار سال یعنی 1899ء سے 1903ء تک رہی۔ اس دوران انہوں نے چھ ماہ کی بلا تنخواہ چھٹی لے کر یکم جنوری 1901ء سے گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ اسی سال انہوں نے اسسٹنٹ کمشنری کے امتحان میں حصہ لیا اور کامیاب بھی ہوئے، مگر نظر کمزور ہونے کی وجہ سے منتخب نہیں ہو سکے۔ مئی 1903ء میں میکلوڈ عربک ریڈر کی نوکری ختم ہوئی اور3 جون 1903ء کو وہ دوبارہ گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر بن گئے۔ یہ نوکری عارضی تھی مگر کئی بار اس میں توسیع ہوتی رہی۔ جب انہوں نے تعلیم کے لیے انگلینڈ جانے کا فیصلہ کیا تو یکم اکتوبر 1905ء سے تین سال کے لیے بلا تنخواہ رخصت لے لی۔
انگلینڈ میں اقبال نے چھ ماہ کے لیے عربی کے پروفیسر کے طور پر کام کیا، جس سے ان کی مالی حالت کچھ بہتر ہوئی۔ واپس ہندوستان آنے کے بعد پھر سے مالی مسائل شروع ہو گئے کیونکہ انہوں نے گورنمنٹ کالج کی نوکری چھوڑ دی تھی۔ کالج کی تنخواہ ان کے خرچ پورے کرنے کے لیے کافی نہیں تھی، اس لیے انہوں نے وکالت شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
اقبال سیالکوٹ سے لاہور آ گئے اور وکالت کا کام شروع کر دیا۔ اسی سال انہیں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ سے فلسفے کی اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ کی لکچر شپ کی پیشکش ہوئی، مگر انہوں نے قبول نہیں کی۔ بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد کی ضرورت پڑی تو طلبا کے فائدے کے لیے انہوں نے یہ ذمہ داری قبول کر لی۔ مگر ساتھ ساتھ وکالت بھی جاری رکھی۔
دو پیشے سنبھالنے کی وجہ سے اقبال کی مصروفیت بہت زیادہ ہوگئی۔ بعض اوقات کچھ شوقین طلبا گھرپر بھی آ کر پڑھتے تھے، اور رات کو مقدمات کی تیاری کرتے تھے۔ یہ وقت اقبال کے لیے بہت مشکل تھا کیونکہ تعلیم اور وکالت دونوں کا کام کرنے کے باوجود ان کی آمدنی ضروریات پوری نہیں کر پاتی تھی۔ اب تک بڑے بھائی ہی ان کی مدد کرتے رہے تھے، لیکن اب وہ خود اپنی مدد کرنا چاہتے تھے۔
اسی لیے وہ بہتر روزگار کی تلاش میں تھے۔ انہوں نے نظام حیدرآباد کی سخاوت اور بلند حوصلے کے قصے سن رکھے تھے، اس لیے مارچ 1910ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج سے دس دن کی رخصت لے کر حیدرآباد کا سفر کیا۔ اس وقت میر محبوب علی خان حیدرآباد کے حکمران تھے، جو داغ کے شاگرد اور اقبال کے استاد بھائی بھی تھے۔ ممکن ہے اقبال ان سے مدد کی امید رکھتے تھے، مگر ان تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ نواب بہت سخت مزاج تھے، جن سے خوش ہو جاؤ تو ساری زندگی کے لیے فکر معاش سے آزاد کر دیتے، اور ناراض ہو جائیں تو ملک بدر بھی کر دیتے۔ کئی صاحبِ حیثیت لوگ سالوں امید لگائے ناکام لوٹ گئے۔
حیدرآباد میں اقبال کی کئی اہم لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ وہ سراکبر حیدری کے مہمان تھے، جن کی مہمان نوازی کا اقبال ہمیشہ ذکر کرتے تھے۔ یہاں نظم طبا طبائی، جلیل مانک پوری اور ظہیر دہلوی سے ملاقات ہوئی اور ان کے شعر سننے کا موقع ملا۔ مہاراجا سرکشن پرشاد ریاست کے وزیر اعظم تھے، جو راجا ٹوڈرمل کی نسل سے تھے۔ وہ بڑے جاگیر دار اور صوفی مزاج تھے، اور ان کا قول تھا “میں ہوں ہندو، میں ہوں مسلمان”۔ مسجد میں نماز پڑھتے اور مندر میں قشقہ لگاتے تھے۔ ان کی چار بیویاں مسلمان اور تین ہندو تھیں، مسلمان بیویوں کی اولاد مسلمان اور ہندو بیویوں کی اولاد ہندو تھی۔ مہاراجا نے اقبال کے ساتھ شفقت سے پیش آ کر انہیں اپنا گرویدہ بنا لیا۔
حیدرآباد میں اقبال کا مستقل قیام ممکن نہ ہو سکا کیونکہ وہ معمولی نوکری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور پڑھانے کے کام سے بھی وہ بیزار ہو چکے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ والی ریاست ان کے تصنیفی کاموں سے واقف ہو اور ان کی سرپرستی کرے، مگر یہ نہ ہو سکا۔ اس لیے وہ واپس لاہور آ گئے اور گورنمنٹ کالج سے استعفی دے دیا۔وکالت کی آمدنی انکی ضروریات پوری نہیں کرتی تھی مگرانہوں نے فیصلہ کیا کہ اب اپنی پوری توجہ وکالت پردیں گے۔
وہ مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے امتحان میں ممتحن کے طور پر کام کرتے رہے۔ ان کی مالی مشکلات جاری رہیں اور وہ انہیں حل کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ 1913ء میں مہاراجا الور کو ایک پرائیویٹ سیکرٹری کی ضرورت ہوئی، اقبال الور گئے مگر کام نہ بنا۔ تنخواہ کم تھی اور مہاراجا کو مشورہ دیا گیا تھا کہ اس عہدے کے لیے ہندو کا تقرر مناسب ہوگا۔
اسی سال مہاراجا سرکشن پرشاد لاہور آئے، اقبال نے ان کا استقبال کیا اور ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارا۔ حیدرآباد واپس جا کر مہاراجا نے اقبال کو اچھی تنخواہ کی پیشکش کی، لیکن اقبال نے انکار کر دیا، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ دیانت داری سے کام کریں اور بغیر محنت کے کوئی تنخواہ نہ لیں۔
چار سال بعد یعنی 1914ء میں ایسا موقع آیا کہ اقبال ریاست حیدرآباد سے وابستہ ہو سکتے تھے۔ وہاں ہائی کورٹ کے جج کی جگہ خالی تھی اور خبریں آئیں کہ یہ جگہ شاید اقبال کو دی جائے۔ اقبال بھی اس کے خواہش مند تھے اور مہاراجا سرکشن پرشاد کو خط بھی لکھا، مگر بات آگے نہ بڑھی۔ اس وقت سراکبر حیدری کے پاس اقتدار تھا، جنہوں نے اقبال کو قانون کے پروفیسر کی نوکری پیش کی۔ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ تھا اور اکبر حیدری اقبال کی موجودگی کو فائدہ مند سمجھتے تھے، مگر اقبال نے معذرت کر لی اور وکالت کی محدود آمدنی میں ہی گزارہ کرتے رہے۔
اعزازات
اقبال نے طالب علمی کے زمانے میں ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور اسی وقت سے ان کی شہرت بڑھنے لگی تھی۔ ان کا کلام اُس دور کے مشہور رسالوں میں شائع ہوتا تھا۔ جب اقبال نے روایتی غزل کے بجائے نئے انداز میں نظمیں لکھنا شروع کیں تو ان کے پڑھنے اور سننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ بعد میں انہوں نے وطن پرستی کے بجائے مسلمانوں کی حالت اور ملی شعور پر نظمیں لکھیں تو ان کا پیغام اور زیادہ لوگوں تک پہنچا، لیکن ان کی شہرت صرف ہندوستان تک محدود رہی۔ 1915ء میں جب ان کی مشہور مثنوی اسرارِ خودی شائع ہوئی تو ان کا نام بیرونِ ملک بھی جانا جانے لگا۔ اب نہ صرف ان کی شاعری بلکہ ان کے فلسفیانہ خیالات کو بھی اہمیت دی جانے لگی۔ اقبال نے وحدت الوجود کے خلاف بات کی تو اس نظریے کے حامی، خاص طور پر صوفی لوگ، ان سے ناراض ہو گئے۔ اقبال نے حافظ شیرازی پر بھی تنقید کی، جس پر ان پر سخت اعتراضات کیے گئے، لیکن ملک سے باہر ان کی مثنوی کو خوب سراہا گیا۔ پروفیسر نکلسن نے اسے انگریزی میں ترجمہ کیا، جس سے مغربی دنیا اقبال کے خیالات سے واقف ہوئی۔ کئی مشہور مغربی اہلِ علم نے اس پر تبصرے بھی کیے۔
اقبال کی شہرت کو دیکھتے ہوئے برطانوی حکومت نے جنوری 1923ء میں انہیں سرکا خطاب دیا۔ اقبال کے چاہنے والوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور جہانگیر کے مقبرے میں ان کے اعزاز میں ایک جلسہ منعقد کیا، جس میں کئی معزز افراد، انگریز افسران اور پنجاب کا گورنر بھی شریک ہوئے۔ اقبال نے اس جلسے میں انگریزی زبان میں مختصر تقریر کی۔
اس وقت ملک میں سیاسی بیداری بڑھ رہی تھی اور لوگ انگریز حکومت سے ناراض تھے۔ ترکِ موالات کی تحریک کی وجہ سے بہت سے حریت پسندوں نے حکومت کے دیے ہوئے خطابات واپس کر دیے تھے۔ ایسے وقت میں اقبال کا خطاب قبول کرنا کچھ لوگوں کو اچھا نہیں لگا، یہاں تک کہ اقبال کے کچھ دوستوں کو بھی فکر ہوئی کہ کہیں اقبال اب کھری بات کہنا بند نہ کر دیں۔
مگر اقبال نے واضح کیا کہ
قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو رہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود کی جس کی وجہ سے مجھے خدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی ۔ انشاءاللہ
ملک کی بڑی یونیورسٹیوں نے بھی اقبال کی علمی، ادبی، اور تعلیمی خدمات کو سراہا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے 1929ء میں
پنجاب یونیورسٹی نے 1933ء میں
الہ آباد یونیورسٹی اور عثمانیہ یونیورسٹی نے 1937ء میں انہیں ڈی ـ لٹ کی اعزازی ڈگریاں دی تھیں۔
ازدواجی زندگی
اقبال کی ذاتی زندگی میں 4 مئی 1893ء ایک اہم دن تھا۔ اسی دن ان کا میٹرک کا نتیجہ آیا اور اسی دن ان کی شادی بھی ہوئی۔ ان کی شادی گجرات کے ایک کشمیری رئیس گھرانے کی لڑکی کریم بی سے ہوئی، جو ان سے تین سال بڑی تھیں۔ اُس وقت اقبال کی عمر سولہ برس تھی۔ کریم بی کے والد ڈاکٹر عطا محمد ایک مشہور سرجن تھے۔
اقبال کی کچھ تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس شادی سے خوش نہیں تھے، لیکن ماں باپ کے حکم کو ٹال نہ سکے۔ شادی کے بعد بھی وہ خوش نہ رہ سکے۔ 1896ء میں ان کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام معراج بیگم رکھا گیا، مگر وہ انیس سال کی عمر میں فوت ہو گئی۔ 1898ء میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام آفتاب رکھا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ اقبال اور کریم بی کے تعلقات خراب ہوتے گئے۔ جب اقبال یورپ سے واپس آئے تو حالات مزید بگڑ گئے۔ وہ کریم بی کے خرچے تو اٹھاتے رہے، مگر انہیں ساتھ رکھنے کے لیے تیار نہ تھے۔
اقبال نے دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دوست کے ذریعے ان کا رشتہ سردار بیگم سے طے ہوا، جو لاہور کے وکٹوریہ گرلز اسکول میں پڑھ رہی تھیں۔ 1910ء میں نکاح ہو گیا، مگر رخصتی مؤخر کر دی گئی۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اقبال کو کچھ گمنام خطوط ملے جن میں سردار بیگم پر جھوٹے الزامات لگائے گئے تھے۔ ان خطوں کی وجہ سے اقبال کا دل بدگمان ہو گیا۔
تین سال بعد، 1913ء میں اقبال نے تیسری شادی مختار بیگم سے کی، جو لدھیانہ کے ایک کشمیری گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ اسی سال یہ بات ثابت ہو گئی کہ سردار بیگم پر لگائے گئے الزامات جھوٹے تھے۔ اقبال نے یہ بات مختار بیگم کو بتائی اور طے ہوا کہ سردار بیگم کو بھی بلا لیا جائے۔ چونکہ طلاق نہیں دی گئی تھی، اس لیے احتیاطاً دوبارہ نکاح کیا گیا۔ پھر سردار بیگم بھی لاہورآ کر مختار بیگم کے ساتھ رہنے لگیں۔
کئی سال تک دونوں بیویاں اولاد سے محروم رہیں، لیکن 1924ء میں دونوں امید سے ہوئیں5 اکتوبر 1924ء کو سردار بیگم کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام جاوید رکھا گیا۔ دوسری طرف، مختار بیگم کو زچگی کے دوران نمونیہ ہو گیا اور بچے کی پیدائش سے پہلے ہی وہ 21 اکتوبر 1924ء کو فوت ہو گئیں۔
چھ سال بعد، دسمبر 1929ء میں سردار بیگم کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام منیرہ بیگم رکھا گیا۔ اس کے بعد سردار بیگم مسلسل بیمار رہیں اور بچوں کی حالت پر افسوس کرتی رہیں۔ 1935ء میں جب منیرہ بیگم صرف پانچ سال کی تھیں، سردار بیگم کا بھی انتقال ہو گیا۔
سیاسی زندگی
اقبال نے شاعر اور مفکر کے طور پر قوم میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیا تو ان کے دوستوں کو خواہش ہوئی کہ وہ سیاسی میدان میں بھی قوم کی رہنمائی کریں۔ اقبال اپنی شاعری اور خیالات کے ذریعے پہلے ہی مسلمانوں کی رہنمائی کر رہے تھے، اس لیے اگر وہ سیاسی مسائل میں بھی آگے آتے تو یہ حیرت کی بات نہ ہوتی۔ مگر اقبال عملی سیاست سے دور رہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ایک خط کے جواب میں لکھا
یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں
کہ فیضِ عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش
یعنی سیاسی الجھنیں دوسروں کو مبارک ہوں، میرے دل میں عشق کا اثر اتنا گہرا ہے کہ میرے ناخن دل کو زخمی کر دیتے ہیں۔
اسی بات کو انہوں نے حافظ کے ایک شعر کے ذریعے بھی سمجھایا، جس کا مطلب تھا
اگر تم خضر کی صحبت چاہتے ہو، آبِ حیواں کی طرح سکندر کی نظروں سے دور ہی رہو ۔
لیکن یہ دوری زیادہ دیر تک نہ رہی، اور آخرکار اقبال کو سیاست میں آنا پڑا۔
کونسل کے انتخابات ہوئے 1926ء میں تب اقبال نے لاہور سے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ لاہور کے عوام کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی۔ شہر کے مختلف علاقوں میں اقبال کی حمایت میں جلسے ہوئے۔ ایک جلسے میں اقبال نے بھی تقریر کی جس میں انہوں نے سیاست پر بات کی۔ الیکشن میں انہیں واضح کامیابی ملی۔
کونسل کے رکن کے طور پر اقبال نے کئی اہم کام کیے۔
انہوں نے تعلیم کے مسائل پر خاص طور پر مسلمانوں کی تعلیم پر توجہ دی۔
اس وقت زمین کو سرکار کی ملکیت سمجھا جاتا تھا، جس کے خلاف اقبال نے آواز اٹھائی۔
بعض انگریزوں نے بھی مضامین لکھ کر ثابت کیا کہ زمین حکومت کی نہیں بلکہ عوام کی ملکیت ہے۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ زمین پر ٹیکس یعنی لگان ختم یا کم کیا جا سکے۔
اقبال کی کوشش سے ایک اہم قانون منظور ہوا کہ مذہبی رہنماؤں کے خلاف کچھ لکھنا یا کہنا جرم ہے۔ اس قانون کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ شر پسند لوگ مذہبی پیشواؤں کے خلاف برا بھلا کہتے تھے، جس سے فساد کا خطرہ پیدا ہو جاتا تھا۔
اقبال نے شراب نوشی کے خلاف بھی قانون بنانے کی کوشش کی۔
خلاصہ یہ ہے کہ اقبال نے بطور رکنِ کونسل ایمانداری اور فرض شناسی کے ساتھ کام کیا اور عوام کی بھلائی کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
جنوبی ہند کا دورہ
اقبال جب کونسل کے ممبر بنے، تو تقریباً دو سال بعد انھیں جنوبی ہند جانے کا موقع ملا۔ یہ سفر مذہبی اورعلمی مقصد کے لیے تھا، لیکن اس کا سیاسی پہلو بھی تھا کیونکہ اب لوگ اقبال کو مسلمانوں کے سیاسی رہنما کے طور پر دیکھنے لگے تھے۔1928ء کے آخر میں مدراس کی ایک تنظیم مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن آف سدرن انڈیا نے اقبال کو اسلام پر لیکچر دینے کے لیے دعوت دی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کالجوں کے مسلمان طلبا اور نوجوان اسلام کی اہمیت اور اس کی تعلیمات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔
اقبال نے وہاں انگریزی زبان میں چھ لیکچر دیے۔ بعد میں یہی لیکچر ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام کے نام سے شائع ہوئے۔
مسلم لیگ
جب اقبال نے عملی سیاست میں قدم رکھا تو انہوں نے عام سیاست دانوں کی طرح جوڑ توڑ نہیں کی، کیونکہ یہ نہ ان کی طبیعت کا حصہ تھا اور نہ ہی انہیں اس کی ضرورت تھی۔ وہ مسلمانوں کے مخلص اور باعزت رہنما مانے جاتے تھے، اور انہیں بڑے اعزاز بغیر کسی کوشش کے ملتے تھے۔ دسمبر 1930ء میں مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس الہ آباد میں ہوا، جس کی صدارت اقبال کو دی گئی۔ اس اجلاس میں اقبال نے جو خطبہ صدارت پیش کیا، وہ ملکی سیاست میں بہت اہم مانا جاتا ہے۔
اقبال ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے، لیکن ان کا خیال تھا کہ دونوں قوموں کو اپنی الگ پہچان برقرار رکھنی چاہیے۔ اس لیے انہوں نے یہ تجویز دی کہ مسلمانوں کی اکثریت والے صوبوں کو ملا کر ایک مسلم ریاست بنائی جائے۔ انہوں نے یہ بات خطبہ صدارت میں واضح طور پر بیان کی۔ اقبال کی اس تجویز کے دور رس اثرات ہوئے، اور 1930ء میں مسلم لیگ نے پاکستان کا مطالبہ واضح طور پر پیش کیا۔ آخرکار 1947ء میں ملک تقسیم ہوا اور پاکستان قائم ہوا۔
گول میز کانفرنس
مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کے اگلے سال یعنی 1931ء میں، اقبال کو دوسری گول میز کانفرنس میں، اور 1932ء میں تیسری گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر شامل ہونے کے لیے منتخب کیا گیا۔ ان کانفرنسوں میں انہیں ملک کے بڑے دانشوروں کے ساتھ کام کرنے اور انگلینڈ کے سیاست دانوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ لیکن یہ کانفرنسیں بے نتیجہ رہیں اور اقبال ان میں کوئی خاص کردار ادا نہ کر سکے۔ انگلینڈ سے واپسی پر، اقبال نے کئی ممالک کا سفر کیا اور بہت سے مشہور لوگوں سے ملاقات کی۔ وہ برگساں کے تصور زماں سے بہت متاثر تھے اور ان کی سوچ کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے، لیکن فرانس میں انہیں برگساں سے براہِ راست بات کرنے کا موقع ملا۔ کہا جاتا ہے کہ اقبال نے برگساں کو ایک حدیث سنائی جس میں کہا گیا تھا کہ زمانے کو برا نہ کہو کیونکہ زمانہ خود خدا ہے۔ برگساں اس پر حیران ہو گئے، کیونکہ اقبال نے وقت کی نوعیت پر اتنا غور کیا تھا کہ وہ اس حدیث میں صدیوں پہلے کیے گئے ایک اہم اشارے کو سمجھ گئے تھے۔
روم
اقبال روم پہنچے تو ان کی ملاقات مسولینی سے ہوئی۔ مسولینی نہ صرف طاقتور اور بااثر تھا بلکہ بہت خوش اخلاق بھی تھا۔ اقبال اس سے بہت متاثر ہوئے۔ مثنوی اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ مسولینی نے پہلے ہی پڑھ رکھا تھا اور خودی کی اہمیت اس کے دل میں گہرائی سے بس چکی تھی۔ اس لیے اس نے اقبال سے درخواست کی کہ وہ اٹلی کے نوجوانوں کو کچھ نصیحت کریں۔
اٹلی کے نوجوان جوش اور عمل سے بھرپور تھے، اسی لیے اقبال ان کے بڑے چاہنے والے تھے۔ روم اور روم کے لوگوں کے بارے میں اقبال کے جذبات ان کی نظم مسولینی سے معلوم ہوتے ہیں۔ یہاں اس نظم کے تین اشعار پیش کیے جاتے ہیں
چشمِ پیرانِ کہن میں زندگانی کا فروغ
نوجواں تیرے ہیں سوزِ آرزو سے سینہ تاب!
یہ محبت کی حرارت، یہ تمنّا یہ نمود!
فصلِ گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیرِ حجاب
نغمہ ہاے شوق سے تیری فضا معمور ہے
زخمہ در کا منتظر تھا تیری فطرت کار باب
اقبال نے روم کے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ ترقی اور بلندی کے لیے مغرب کی مادہ پرستی کی بجائے مشرق کی روحانیت کی ضرورت ہے۔
اسپین
اقبال کے سفرِ یورپ کی سب سے اہم اور یادگار بات ان کا اسپین میں چند دنوں کا قیام تھا۔ مسلمانوں کی ترقی اور زوال کی کہانی اسپین کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، اس لیے اقبال کو وہاں فاتحین عرب کے آثار دیکھنے کا بہت شوق تھا، جو بالکل فطری بات تھی۔ اسپین پہنچ کر اقبال کو معلوم ہوا کہ یہاں قدیم مراکشی نسل کے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان سے ملاقات کا اقبال کے دل پر گہرا اثر ہوا اور انہوں نے کہا
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تیرآج بھی ہیں دل نشیں
بوے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی فضاؤں میں ہے
اقبال نے مسجد قرطبہ کا بھی دورہ کیا۔ اس کی وسعت اور شان عرب شہسواروں کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے اپنے جذبہ عشق کی وجہ سے سمندر پار سرزمین اندلس تک پہنچ کر دشمن کو کم تعداد اور کم ہتھیاروں کے باوجود شکست دی۔ انہوں نے بہت سالوں کی محنت اور کروڑوں پیسوں سے قرطبہ میں دریاِ کبیر کے کنارے ایک خوبصورت اور شاندار مسجد بنائی۔ یہ مسجد اتنی وسیع، حسین اور عظیم تھی کہ اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی ہے۔ لیکن جب مسلمان عیش و عشرت میں مبتلا ہو گئے، تو عیسائیوں نے انہیں نکال باہر کیا اور اس مسجد کو گرجا گھر میں بدل دیا۔ اقبال نے وہاں دو رکعت نماز پڑھی اور ایک خاص نظم لکھی، جس میں مسلمانوں کی فتحِ اسپین اور مسجد قرطبہ کو ہمیشہ کے لیے یادگار بنایا۔
سفرِ افغانستان
اقبال کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ان کا افغانستان کا سفر بھی تھا۔ اس وقت افغانستان کے حکمران نادر شاہ اپنے ملک کے تعلیمی اداروں کو نئے انداز میں بہتر بنانا چاہتے تھے۔ ساتھ ہی کچھ مذہبی معاملات پر بھی مشورہ چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے ہندوستان کے چند پڑھے لکھے علماء اور ماہرین تعلیم کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا۔
علامہ اقبال، مولانا سید سلیمان ندوی اور سرراس مسعود کو قونصل جنرل افغانستان کے ذریعے دعوت نامے بھیجے گئے۔ یہ تینوں بزرگ اکتوبر1933ء میں کابل پہنچے اور نوآباد شہر دارالامان کے شاہی مہمان خانے میں رہے۔ وہاں انہوں نے والی افغانستان اور سلطنت کے دوسرے اہم لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔
اقبال کی نادر شاہ سے تفصیلی بات چیت ہوئی، اور اس بادشاہ کی سادگی اور خوش اخلاقی نے اقبال کے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔ اقبال نے اپنے اس سفر اور ملاقات کا ذکر اپنی فارسی مثنوی مسافر میں بھی کیا ہے۔
افغانستان میں ان مہمانوں کا بہت شاندار استقبال ہوا۔ ان کے اعزاز میں جلسے اور پارٹیاں منعقد ہوئیں، جہاں انہیں تقریریں کرنے کا موقع بھی ملا۔
واپسی کے لیے پشاور کے بجائے غزنین اور قندھار کا راستہ منتخب کیا گیا تاکہ وہاں کی تاریخی عمارتیں اور مزارات دیکھی جا سکیں۔ اقبال خاص طور پر حکیم سنائی کے مزار پر جانے کے بہت خواہش مند تھے۔ وہاں انہوں نے فاتحہ پڑھی اور جذبات میں بہک کر دیر تک روتے رہے۔
انہوں نے سلطان محمود کے مزار پر بھی فاتحہ پڑھی۔ اقبال کو یہ بھی معلوم تھا کہ حضرت داتا گنج بخش لاہوری کے والد کا مزار بھی اسی علاقے میں ہے۔ اسے تلاش کرنے میں مشکل ہوئی اور وہاں پہنچنے کے لیے اقبال کو بہت دور پیدل چلنا پڑا، مگر آخر کار وہ بھی اپنی خواہش پوری ہوئی۔
علالت
اقبال کے والد نے طویل عمر پائی تھی اور اقبال کی موت سے صرف آٹھ سال پہلے انتقال کر گئے۔ شیخ عطا محمد، جو اقبال سے اٹھارہ سال بڑے تھے، اقبال کے دو سال بعد تک زندہ رہے۔ اقبال کی عمر صرف ۵۹ سال تھی۔ ان کی زندگی کے آخری چار سال سخت بیماری میں گزرے، جس میں وہ کسی کام پر پوری توجہ نہیں دے سکے۔ 10جنوری1934ء کو اقبال عید کی نماز پڑھنے کے لیے بادشاہی مسجد موٹر میں گئے۔ سردی بہت تھی اور مسجد کا فرش برف جیسا سرد تھا، جس پر چلنے سے سردی لگی۔ گھر واپس آ کر دہی کے ساتھ سوییاں کھائیں، جس سے نزلہ ہوا اور نزلے نے انفلوئنزا کی شکل اختیار کر لی۔ کھانسی تو ٹھیک ہوئی لیکن آواز جاتی رہی۔ کئی طرح کی دوائیں کھائیں، یونانی اور انگریزی دوا، اور ریڈیائی علاج بھی کرایا، مگر آواز واپس نہیں آئی۔ اس میں ان کی عادتوں کا بھی اثر تھا کیونکہ بیماری کے دوران بھی وہ اکثر لسّی اور فالودہ پیتے رہے۔ بیماری کے دوران دل بھی کمزور ہو گیا اور پورے جسم میں خون پہنچانے میں مشکل ہونے لگی، جس سے سانس پھول جاتی تھی۔ ایکسرے سے معلوم ہوا کہ دل پر رسولی بن گئی ہے۔ اب وہ کئی بیماریوں میں مبتلا تھے اور ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔
دہلی کے ایک مشہور حکیم نا بینا کے پاس دوبارہ علاج کے لیے گئے، جن کی دوا سے کچھ بہتری ہوئی اور جسمانی صحت کچھ بہتر ہوئی، لیکن آواز میں کوئی فرق نہ آیا۔ ڈاکٹروں کی رائے میں اختلاف ہو گیا۔ بعض کا خیال تھا کہ رسولی کی حالت میں صحت بہتر نہیں ہو سکتی۔ بعد میں پتہ چلا کہ شہ رگ بھی پھولنے لگی ہے، جس کا علاج شروع ہوا لیکن فائدہ نہیں ہوا۔ اس بیماری کے دوران اقبال بہت پریشان اور فکر مند تھے۔ وہ جلد صحت یاب ہو کر اپنے کاموں پر توجہ دینا چاہتے تھے۔ شاعری کا سلسلہ بیماری کے باوجود جاری رہا۔ سیاست میں بھی بیمار ہونے کے باوجود انہوں نے بہت کچھ کیا جو صحت مند شخص بھی مشکل سے کر پاتا۔ سردار بیگم بھی ہمیشہ بیمار رہتی تھیں اور بچوں کی دیکھ بھال کے قابل نہیں تھیں۔ منیرہ بیگم اس وقت بہت چھوٹی تھیں۔ پڑوس کی لڑکیاں انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرتی تھیں مگر وہ چپ نہیں ہوتیں۔ سردار بیگم کی حالت بہتر نہ ہوئی اور جب ان کا انتقال ہوا تو منیرہ بیگم کی عمر صرف پانچ سال تھی۔ یہ وہی وقت تھا جب اقبال ریڈیائی علاج کے لیے بھوپال جاتے تھے۔
1935اقبال نے 1935ء اور1936ء میں تین بار ریڈیائی علاج کروایا لیکن کوئی خاص فائدہ نہ ہوا۔ مارچ 1936ء میں جب وہ بھوپال سے لاہور واپس آئے تو سردار بیگم کی حالت بہت خراب تھی۔ سردار بیگم چاہتی تھیں کہ کرایے کے بجائے ان کا اپنا گھر ہو تاکہ آرام سے رہ سکیں۔ آخر کار ان کی خواہش پوری ہوئی اور جاوید منزل نامی مکان بنا، جہاں وہ 20 مئی 1935ء کو شفٹ ہو گئیں۔ لیکن وہ اتنی بیمار تھیں کہ انہیں گاڑی میں لایا گیا۔ وہ 23 مئی 1935ء کو انتقال کر گئیں۔
وفات
اقبال چار سال تک بیماری میں رہے مگر صحت بہتر نہ ہوئی بلکہ بیماری زیادہ بڑھتی گئی۔ جیسے کہ جاوید اقبال نے اپنی کتاب زندہ رود میں لکھا ہے،مارچ 1938ء میں ان کی حالت بہت خراب ہو گئی۔ انگریزی دوائیں اثر نہیں کر سکیں۔ انہیں دمے کے حملے ہوتے تھے، کمر اور شانوں میں شدید درد رہتا تھا، دل، جگر اور گردے صحیح کام نہیں کر رہے تھے۔ بے خوابی کی شکایت بھی بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ بچپن سے ایک آنکھ تقریباً خراب تھی اور دوسری میں موتیا بند تھا، اس لیے پڑھنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ وقت بہت مشکل تھا، مگر وہ دوستوں سے باتیں کرتے رہنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ دل خوش رہے۔ 20 اپریل 1938ء کی صبح تھوڑی بہت طبیعت بہتر ہوئی۔ انہوں نے معمول کے مطابق دلیے کے ساتھ چائے پی، اخبار پڑھا، شیو کیا، اور کچھ غیر ملکی مہمانوں سے ملاقات کی۔ چونکہ موسم خوشگوار تھا، اس لیے وہ پلنگ کو خواب گاہ سے نکال کر دالان میں لگوایا۔ جب سردی بڑھ گئی تو پلنگ دوبارہ گول کمرے میں لے آئے۔ سونے سے پہلے منیرہ بیگم تھوڑی دیر باپ کے پاس بیٹھی رہیں۔ وہ تھک گئی تو دیر تک نہ اٹھیں، مسز ڈورس بار بار کہتی رہیں کہ اٹھ جاؤ، مگر وہ کہتی رہیں ذرا دیراور۔ اس پر اقبال نے مسز ڈورس سے انگریزی میں کہا یہ بچے کی حس بتا رہی ہے کہ شاید یہ باپ سے آخری ملاقات ہے۔
ذرا دیر بعد اقبال کے کچھ دوست اور ڈاکٹر آئے۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور دیر تک مشورہ کرتے رہے۔ سب کو معلوم تھا کہ آج کی رات بہت مشکل ہے۔ دوستوں کو پریشان دیکھ کر اقبال سمجھ گئے کہ اب وقت رخصت کا آ گیا ہے۔ انہوں نے خاص ملازم علی بخش کو پاس بٹھایا۔ علی بخش حالت دیکھ کر رو پڑا۔ جب کسی نے روکنے کی کوشش کی تو اقبال نے کہا رولنے دو، یہ ہمارا چالیس سال کا ساتھی ہے۔ تقریباً گیارہ بجے اقبال کو نیند آ گئی۔ حکیم محمد من قرشی، چودھری محمد حسین وغیرہ چلے گئے۔ میاں محمد شفیع، ڈاکٹر عبدالقیوم اور راجا اختر حسن جاوید منزل میں ٹھہرے اور دالان میں سو گئے۔ گھنٹہ بھر بعد شانوں کا درد بڑھا اور وہ اٹھ بیٹھے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع نے نیند کی دوا دینا چاہی مگر اقبال راضی نہ ہوئے۔ درد کم نہ ہوا۔ تقریباً تین بجے رات کے وقت حالت بہت خراب ہوئی۔ حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے کی کوشش کی گئی مگر وہ دستیاب نہ تھے۔ راجا اختر حسن اندر آئے اور اقبال نے انہیں کہا کہ قرشی صاحب کو بلاؤ۔ راجا نے کہا کہ وہ بہت دیر سے جا چکے ہیں اور انہیں جگانا ٹھیک نہیں۔ اس پر اقبال نے یہ شعر پڑھا
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانای راز آید کہ ناید
اقبال نے اپنے پلنگ کو گول کمرے سے واپس خواب گاہ میں لے جانے کو کہا۔ انہوں نے فروٹ سالٹ کا ایک گلاس پی لیا۔ اب صبح ہونے کو تھی اور اذانیں ہو رہی تھیں۔ تیمارداروں نے تھوڑی راحت محسوس کی کہ مشکل رات گزر گئی۔ میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم نماز کے لیے چلے گئے۔ اب اقبال کے پاس صرف علی بخش تھا۔ اچانک اقبال بے چین ہو گئے، دل پر ہاتھ رکھا اور کہا، یہاں درد ہو رہا ہے۔ پھر اللہ کہہ کر علی بخش کے بازوؤں میں جھول گئے۔ 21 اپریل 1938ء کی صبح طلوع آفتاب کے ساتھ اردو شاعری کا ایک بڑا سورج غروب ہو چکا تھا اور قوم نے ایک مخلص رہنما کھو دیا تھا۔ پانچ بج کر چودہ منٹ پر اقبال نے دنیا کو خدا حافظ کہا۔
جنازہ
شام پانچ بجے جنازہ روانہ ہوا۔ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ جنازے میں لمبے لمبے بانس باندھے گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ میت کو کاندھا دے سکیں۔ جنازہ پہلے اسلامیہ کالج پہنچا۔ وہاں میدان میں نماز جنازہ ہوئی۔ پھر سوگواروں کا جلوس سات بجے شاہی مسجد لے کر گیا جہاں نماز ہوئی۔ شیخ عطا محمد اور دیگر عزیز سیالکوٹ سے یہاں پہنچے تھے یہ لوگ نو بجے پہنچے۔ شاہی مسجد کی مشرقی مینار کے قریب میت کو زمین میں دفن کیا گیا، تقریباً پونے دس بجے رات کے وقت۔