علامہ اقبالؔ
جب اقبال نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا، اُس وقت ہر طرف غزل کا چرچا تھا اور داغؔ و میرؔ کا اندازِ سخن عوام و خواص میں مقبول تھا۔ اقبالؔ نے بھی غزل کی طرف توجہ دی اور عام طرزِ سخن کو اپنایا۔ اس وقت اقبالؔ کم عمر تھے اور ابھی میٹرک کا امتحان بھی پاس نہیں کیا تھا، مگر دوستوں اور بزرگوں کے اصرار پر مشاعروں میں غزلیں پڑھنے لگے تھے۔ لاہور کے ایک مشاعرے میں اس شعر پر بہت داد ملی۔
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
داد اور تعریف نے اقبال کا حوصلہ بڑھایا، اور وہ باقاعدگی سے شاعری پر غور کرنے لگے۔ اس زمانے میں کسی مشہور استاد کی شاگردی اختیار کرنا عام رواج تھا۔ استاد داغؔ دہلوی نے حیدر آباد میں شاعری کی اصلاح کے لیے ایک دفتر قائم کیا ہوا تھا، جہاں شاعروں کا کلام ڈاک کے ذریعے پہنچتا تھا اور اصلاح کے بعد واپس کر دیا جاتا تھا۔ اقبالؔ داغؔ کے نادیدہ پرستار تھے اور ان کے شاگردوں میں شامل ہو گئے۔ اسی زمانے کے ایک مصرعے میں انہوں نے اس تعلق پر فخر کا اظہار کیا ہے۔
“مجھے بھی فخر ہے شاگردی دارغؔ سخنداں کا”
اس زمانے کے کلام سے داغؔ کی مکمل پیروی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بعد میں جب بانگِ درا کی ترتیب کا وقت آیا تو اقبالؔ نے اپنے کلام پر نظر ثانی کی اور بہت سی غزلوں کو اس مجموعے میں شامل نہیں کیا۔ شاید نمونے کے طور پر دو ایک غزلیں منتخب کی گئیں۔ ان میں سے ایک غزل کے چند اشعار یہ ہیں۔
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمھارے پیامی نے سب راہ کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرزِ انکار کیا تھی
کہیں ذکر رہتا ہے اقبالؔ تیرا
فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی
اگر اس غزل کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شاعر نے اپنے استاد کی پیروی میں جھوٹے عشق کی غیر حقیقی باتیں بیان کی ہیں، جو بالکل بے اثر ہیں۔ تمام توجہ صرف الفاظ کی خوبصورتی پر ہے، لیکن یہ اقبالؔ کا اصل رنگ نہیں ہے۔ اقبالؔ کی شاعری کے اس دور کو صرف مشق کا دور کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
اس کے بعد اقبال کی زندگی میں ایک بڑا انقلاب آیا۔ والد کی نصیحت اور حالات زمانہ کی ضرورت نے ان کے دل میں یہ خیال پیدا کر دیا کہ قوم کی بہتری کے لیے کوئی اہم کام کرنا چاہیے اور اسے تباہی سے بچانا چاہیے۔ اس وقت اردو کی روایتی عشقیہ شاعری انہیں وقت کا ضیاع لگنے لگی، اور انہوں نے شعر گوئی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ آخر کار، سر عبد القادر اور پروفیسر آرنلڈ کے سمجھانے پر انہوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا، لیکن یہ ٹھان لیا کہ اب ان کی شاعری کا مقصد قوم کو جگانا اور مردہ دلوں میں جان ڈالنا ہوگا۔ چنانچہ داغؔ کا اندازِ شاعری اب ان کے لیے بے کار ہو چکا تھا، اور انہوں نے اس سے کنارہ کر لیا۔ پھر غالبؔ کی طرف متوجہ ہوئے، کیونکہ وہ شاعری سے جو کام لینا چاہتے تھے، اس میں غالبؔ کا انداز ہی ان کی مدد کر سکتا تھا۔ غالبؔ کا فلسفیانہ انداز بیان اور فارسی تراکیب اقبالؔ کے کلام میں نمایاں ہونے لگیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے، اور بالکل صحیح کہا جاتا ہے، کہ اگر غالبؔ نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے۔
سر عبد القادر نے تو یہاں تک کہ دیا کہ “اقبالؔ کے روپ میں غالبؔ نے دوبارہ جنم لیا ہے”۔ لیکن غالب ؔو اقبال ؔ میں ایک نمایاں فرق ہے ۔ غالبؔ فلسفی نہیں البتہ حکیمانہ نظر رکھتے ہیں۔ جب کہ اقبالؔ فلسفی ہیں اور ایک مربوط فلسفہ رکھتے ہیں۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے دونوں کے فرق کو ان الفاظ میں واضح کیا ہے۔
غالبؔ نے اپنے آپ کو کسی مخصوص مقصد یا نقطہ نظر کا پابند نہیں رکھا تھا۔ وہ جو چاہتے تھے کہہ سکتے تھے۔ اقبال ؔ اپنے سامنے ایک مقصد رکھتے تھے جس سے وہ ہم کو آشنا کراناچاہتے تھے”۔”
بانگِ درا، اقبال کی شاعری کا پہلا مجموعہ ہے۔ اس میں دونوں طرح کی غزلیں شامل ہیں: وہ جو انہوں نے روایتی انداز میں کہی تھیں اور وہ بھی جو ان کی شاعری کی نئی سمت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اب ان کی غزل کا انداز یہ تھا۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
تمھاری تہذیب اپنے ہاتھوں سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پا ئیدار ہو گا
یہ بانگِ درا کی ان غزلوں کا نمونہ ہے جو اقبالؔ کی نئی راہ کی نشاندہی کرتی ہیں۔ بال جبریل، اقبالؔ کے اردو کلام کا دوسرا مجموعہ ہے۔ اس میں شامل غزلوں کو اقبالؔ کے فکر و فن کی بلندی کہنا چاہیے۔ بلکہ یہ غزلیں اردو شاعری میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بال جبریل کی غزلوں نے اردو غزل کی طاقت اور قوت کا بھرپور ثبوت پیش کیا۔کلیم الدین احمد نے غزل کے شعر پہ یہ کہ کے وار کیا ہے کہ” غزل کا شعر !دو مصرعے! ، دو مصرعوں کی بساط ہی کیا ؟” مطلب یہ کہ دو مصرعوں میں کیا ہی کہا جا سکتا ہے؟ اقبالؔ نے تو بہت پہلے ہی ثابت کر دیا تھا کہ ایسی کون سی بات ہے جو دو مصرعوں میں نہیں کہی جا سکتی۔ کبھی کبھی سمندر ایک بوند پانی میں سما جاتا ہے۔ اقبالؔ نے پیچیدہ فلسفے اور مشکل پیغام کو پورے شعری آداب کے ساتھ غزل کے شعر میں بیان کر دیا۔
غزل اقبال ؔ کی خصوصیات کا جائزہ لیں۔
اقبالؔ کی غزل کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا فکری عنصر ہے۔ اکثر نقادوں کا کہنا ہے کہ شاعری کو فلسفہ اور پیغام سے دور رہنا چاہیے، اور غزل کا فن تو خاص طور پر نازک ہوتا ہے۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ غزل فکر کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ غالبؔ نے اس سمت میں پہلا قدم اٹھایا، اور اقبالؔ نے تو ایک مکمل فلسفے کو غزل میں سمو کر کمال فن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے قوم کو مشکلات سے نکالنے کے لیے خودی کا فلسفہ بنایا، جسے انہوں نے نظموں کے علاوہ اشاروں اور کنایوں میں غزل میں بھی پیش کیا۔
اقبال نے خودی کو خود شناسی اور خود آگہی کے معنی میں استعمال کیا ہے اور اس کے مضبوط ہونے کے لیے عشق، محنت، عمل، فقر، اور کامل مرد کی پیروی کو ضروری قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جس کی خودی مضبوط ہو جائے، وہ کامل مرد بن جاتا ہے۔ اس فلسفے کی وضاحت تو نظموں، خاص طور پر فارسی نظموں، اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی میں کی گئی ہے، لیکن غزل کے اشعار میں بھی اس کی طرف اشارے کیے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ہے ور نہ
گھر میں آب گہر کے سوا کچھ اور نہیں
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تما شاے لب بام ابھی
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
کہا گیا ہے کہ فکر سے فن کو آب و تاب ملتی ہے ۔ اقبال کی غزل اس کا زندہ ثبوت ہے۔ اقبال کی غزل کو جس خصوصیت نے لازوال اور بے مثال بنا دیا وہ یہی فکری عنصر ہے ۔
کامیاب شاعر ایک کامیاب مصور بھی ہوتا ہے۔ مصور رنگ اور برش سے تصویر بناتا ہے، جبکہ شاعر لفظوں سے ایسی تصویر تخلیق کرتا ہے جو رنگوں سے بنی تصویر کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ اس فن میں اقبال کو جو مہارت حاصل ہے، اس کی مثال اردو تو کیا، شاید بہت سی ترقی یافتہ زبانوں میں بھی نہیں ملتی۔ ان کے کلیات کو ایک دلکش آرٹ گیلری کہا جا سکتا ہے، اور یہ بات درست ہے۔
تصویر کشی کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں: ایک ساکت یعنی رکھی ہوئی تصویر، اور دوسری متحرک تصویر جو اس سے آگے ہوتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر تمثیل ہے، جہاں فن کار ایک سے زیادہ بے جان چیزوں کو جاندار فرض کر لیتا ہے اور ان کے عمل یا بات چیت کو کہانی کی شکل دے دیتا ہے۔ تصویر کشی کی سب سے اعلیٰ شکل وہ ہے جس میں ڈرامائی شان ہو۔ اقبالؔ کی نظموں میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، اور غزل کے اشعار میں بھی یہ تصویر کشی دیکھی جا سکتی ہے۔ چونکہ غزل رمز و ایمان کا فن ہے، اس لیے یہ تصویریں کچھ مبہم اور دھندلی ہوتی ہیں، اور یہی پیکر تراشی کا کمال ہے۔
مثلا۔
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے او دے انیلے نیلے پہلے پہلے پیر بہن
برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح اور
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
موسیقی بھی شاعری کی خوبصورتی بڑھانے والی ایک خصوصیت ہے۔ دراصل، شاعری کا تصور بغیر موسیقی کے نہیں کیا جا سکتا۔ غزل تو پوری طرح ترنم کی ہوتی ہے۔ وزن، بحر، قافیہ، اور ردیف کی مدد سے غزل میں ترنم پیدا ہوتا ہے۔ اقبال کی غزل میں یہ خاصیت بہت نمایاں ہے۔ اقبال کو موسیقی سے گہرا تعلق تھا اور انہوں نے اس کے راز و رموز کو اچھی طرح سمجھا تھا۔ انہوں نے جان بوجھ کر اپنی شاعری میں بلند آہنگ موسیقی کو اپنایا اور نرم اور مدھم رنگوں سے بچنے کی کوشش کی۔ ان کی شاعری کا لہجہ اتنا بلند آہنگ ہے کہ اس میں آسمانی آواز کا رنگ محسوس ہوتا ہے، اور یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے بہت توجہ کے ساتھ کلام ربانی کا مطالعہ کیا تھا۔
غزل اقبال کا ایک بہت بڑا وصف اس کا **تسلسل خیال** ہے۔ ان کی شاعری میں بکھرا ہوا خیال نظر نہیں آتا۔ اقبال کا ایک خاص فلسفہ اور پیغام ہے جو وہ اپنے قارئین تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس پیغام کے سوا ان کی غزل میں غیر ضروری باتیں شامل نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کی غزل کبھی بھی بے سمت نہیں ہوتی؛ یہ ہمیشہ اپنے مرکزی خیال پر قائم رہتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اقبال کی غزل میں معنوی تسلسل اور ایک مخصوص تاثر کے جھلکیاں نظر آتی ہیں، اور ہر غزل میں ایک خاص مزاجی کیفیت نظر آتی ہے۔ “ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ” اور ” اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا ” کو مثال کے طور پر۔
غزل کی اصل جگہ شاعر کے ذاتی جذبات اور تجربات ہیں، لیکن اقبال نے غزل میں ملّی اور قومی مسائل کو بھی پیش کیا۔ چونکہ ان کے سامنے ایک خاص مقصد تھا، اس لیے ان کی غزل اجتماعی مقاصد کی نمائندہ بن گئی اور اس میں ذاتی تجربات کے ساتھ ساتھ بیرونی مسائل کا بھی رنگ آ گیا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ غزل اقبال کی ایک خصوصیت خارجیت بھی ہے۔
غزل کی زبان کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ اس میں صرف نرم اور میٹھے الفاظ کی جگہ ہوتی ہے، اور کھردرے یا بھاری الفاظ اس میں نہیں سما سکتے۔ یہ رائے غلط ہے، اور اقبال نے اپنی غزل سے اس کو ثابت کر دیا۔ ان کی غزل میں بھاری الفاظ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ ان کے مشکل الفاظ بھی قاری کو چونکا دیتے ہیں، جیسے کہ ۔ پازند، خورسند، دقیق ، عتیق، اعراف، اکتشاف و غیره. اس طرح کے الفاظ کا استعمال قدیم وضع کے اکثر لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ لکھنو میں اقبالؔ کی زبان سےغزل کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر الباسِ مجاز میں سن کر پیارے صاحب رشید نے فرمائیش کی تھی کہ “اب اردو کی بھی کوئی غزل سنا دیجیے”۔
اقبال نے استعارہ اور تشبیہ کا بھی خوب استعمال کیا، لیکن ان کی نوعیت زیادہ وضاحتی ہے اور کم آرائشی۔ مطلب یہ کہ اقبال نے شعری وسائل کو زیادہ تر بات کو صاف اور واضح کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اقبال کی غزل میں صنائع بدائع بھی بڑی تعداد میں ملتی ہیں، لیکن انہوں نے خاص طور پر صنعت تلمیع کا زیادہ استعمال کیا ہے۔ اس کی مثالیں
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تا را مئہ کامل نہ بن جائے
تلمیح کے پہلو بہ پہلو اقبال نے اختصار، ایجاز اور استعارے سے بھی کام لیا ہے اور یہ غزل کی ممتازخصوصیات ہیں۔
مختصر یہ کہ اقبال کی غزل اردو شاعری میں ایک نئی آواز ہے۔ اقبال نے غزل کو فکر انگیز اور مؤثر بنا کر قوم کی مسیحائی کے لیے استعمال کیا اور اسے پیغام پہنچانے کا ذریعہ بنایا، لیکن اس کی خوبصورتی اور دلکشی کو برقرار رکھا۔ سیاسی خیالات، فلسفیانہ نظریات، سماجی رجحانات، اور ملی و قومی مسائل کو ان کی غزل میں جگہ ملی، لیکن غزل کے اہم اوصاف جیسے رمزیت، اشاریت، ابہام، تخیل کی بلندی، احساس کی شدت، اور بیان کی دلکشی برقرار رہی، بلکہ کچھ اور نکھر گئی۔
اقبال نے غزل کی مٹھاس میں تندی اور تیزی کی آمیزش کی، یعنی نغمہ جبریل اور بانگ اسرافیل کو ایک ساتھ ملا دیا، کیونکہ سوتے ہوئے لوگوں کو جگانے اور مردہ دلوں کو زندہ کرنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ اردو غزل جو پہلے ناامیدیوں اور مایوسیوں کا مرکز تھی، اقبال نے اسے امیدوں اور امنگوں کا میدان بنا دیا۔ اس طرح، انہوں نے اردو غزل کی دنیا کو بدل دیا اور ان کی اس کامیابی نے انہیں وہ مقام دیا جو میرؔ اور غالبؔ کے ساتھ، بلکہ بعض کے نزدیک ان سے بھی بلند ہے۔