اس حصے میں قصوں کا پلاٹ اس ترتیب سے درج کیا گیا ہے، جیسے وہ باغ و بہار میں نظر آتے ہیں۔
پلاٹ ۔ سیر پہلے درویش کی
یہ درویش ملک یمن کے ایک بڑے تاجر خواجہ احمد کا بیٹا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد اسے بے شمار دولت ملی۔ دولت ہاتھ آنے پر وہ کاروبار بھول کر شراب و شباب کی دنیا میں کھو گیا۔ کچھ عرصے تک یہی حال رہا، یہاں تک کہ دولت ختم ہو گئی اور صرف ٹوپی اور لنگوٹی باقی رہ گئی۔ دوست آشنا بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ بھوک پیاس کی نوبت آئی تو اسے اپنی بہن یاد آئی جس کے ساتھ اس نے کبھی اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔ لیکن اب وہی سہارا نظر آیا۔ بہن نے بھائی کو اس حال میں دیکھا تو خوشی کے بجائے دکھ ہوا۔ اس نے دن رات اس کی خدمت کی اور سمجھایا کہ
مرد کو محنت کر کے کمانا چاہیے۔ نکمّا بن کر گھر بیٹھنے والے کو لوگ برا بھلا کہتے ہیں۔ خاص طور پر اس شہرکے لوگ کہیں گے کہ یہ اپنے باپ کی دولت اڑا کراب بہنوئی کے سہارے جی رہا ہے۔ یہ بڑی شرم کی بات ہے۔
یہ کہہ کر اس نے بھائی کو پچاس تولے اشرفیاں دیں اور کہا کہ دمشق جا کر کاروبار کرے تاکہ پریشانی دور ہو۔
درویش نے بہن کی بات مان لی اور سامان ایک سوداگر کے حوالے کر کے وہ خشکی کے راستے سے دمشق جا پہنچا۔ رات ہونے کی وجہ سے شہر کا دروازہ بند تھا، اس لیے وہ باہر ہی ٹھہر گیا۔ آدھی رات کو اس نے دیکھا کہ قلعے کی دیوار سے ایک صندوق نیچے گرایا گیا ہے۔ اس نے سمجھا شاید خزانہ ہے۔ صندوق کھولا تو اندر ایک زخمی دوشیزہ کراہ رہی تھی۔ وہ بار بار بے وفائی اور ظلم کی شکایت کر رہی تھی۔ درویش نے سوچا کہ اگر یہ صبح تک زندہ رہی تو حکیم کے پاس لے جاؤں گا۔ صبح ہوتے ہی وہ ایک جرّاح عیسیٰ کو لے آیا۔ عیسیٰ نے کہا کہ چالیس دنوں میں زخم بھر جائیں گے۔ درویش نے اس کی خدمت دل و جان سے کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے دل میں دوشیزہ کے لیے محبت بڑھنے لگی۔ جب وہ صحت یاب ہو گئی تو غرور سے بولی کہ
اگر دلجوئی چاہتے ہو تو میری کسی بات میں دخل نہ دینا، ورنہ پچھتاؤ گے۔
کچھ دن بعد اس نے ایک پرزہ درویش کو دیا اور کہا کہ اسے سیدی بہار کے پاس لے جاؤ۔ درویش نے خط دیا تو سیدی بہار نے بغیر کچھ پوچھے گیارہ سربہ مہر کشتیاں دے دیں۔ دوشیزہ نے وہ کشتیاں درویش کو دے کر کہا کہ انہیں خرچ میں لاؤ تاکہ تنگ دستی دور ہو۔
ایک دن اس نے درویش کو حکم دیا کہ یوسف سوداگر کی دکان سے جواہر اور قیمتی کپڑے لائے۔ یوسف نے درویش کو دیکھ کر پہچانا کہ یہ مقامی نہیں، اس لیے دوستی جتائی اور اپنے گھر دعوت پر بلا لیا۔ درویش نے یہ بات دوشیزہ کو بتائی تو اس نے بھی اجازت دے دی۔ درویش تین دن یوسف کی ضیافت میں شریک رہا، جہاں شراب اور رقص کی محفلیں ہوتی رہیں۔ تیسرے دن یوسف کی بدصورت معشوقہ بھی آئی۔ درویش حیران ہوا کہ اتنے خوبصورت شخص کی معشوقہ اتنی بدصورت کیوں ہے۔ دوشیزہ نے کہا کہ اب یوسف کو اپنے گھر دعوت دو۔ درویش نے ایسا ہی کیا۔ جب یوسف آیا تو دیکھا کہ درویش کے گھر میں شاہانہ ضیافت کا انتظام ہے۔ وہ تین دن وہیں رہا۔ تیسرے دن اس کی معشوقہ بھی آئی۔ لیکن صبح کو جب درویش جاگا تو سب غائب تھے، صرف یوسف اور اس کی معشوقہ کی کٹی ہوئی لاشیں ایک کونے میں پڑی تھیں۔
یہ منظر دیکھ کر درویش ڈر گیا۔ ایک خواجہ سرا نے بتایا کہ دوشیزہ اب دوسرے مکان میں ہے۔ وہاں جا کر درویش نے شکایت کی مگر وہ اس کی خدمتیں یاد دلاتا رہا۔ آخرکار وہ مایوس ہو کر بولا
اب میں اس طرح جینا نہیں چاہتا۔ علاج شہزادی کے پاس ہے، کرے یا نہ کرے۔
شہزادی نے حکیم بلائے۔ حکیموں نے کہا کہ یہ عاشق ہے، محبوب مل جائے تو تندرست ہو جائے گا۔ یہ سن کر شہزادی نے درویش سے کہا کہ دل کی بات صاف صاف کہو۔ درویش نے اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی، شہزادی نے قبول کر لیا۔ شادی کے بعد درویش نے اس سے حال جاننے کی ضد کی۔ شہزادی نے کہا کہ اگر میرا راز کھلا تو قیامت آ جائے گی، مگر آخرکار اس نے سب کچھ بتا دیا۔ وہ دمشق کے سلطان کی بیٹی تھی۔ بچپن سے یوسف سوداگر کو چاہتی تھی۔ اسی محبت میں شراب پینا شروع کر دی اور یوسف کو اپنے قریب رکھا۔ مگر یوسف نے اپنی بدصورت معشوقہ کے لیے اسے دھوکا دیا اور قتل کی سازش کی۔ مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ درویش نے اسے بچایا اور خدمت کی۔
شہزادی نے بتایا کہ سیدی بہار اس کا خزانچی ہے۔ ضیافت کے لوازمات بھی اس کی ماں نے بھیجے تھے اور یوسف و اس کی معشوقہ کو اسی نے مروا دیا۔ اس کی ناراضی کی وجہ یہ تھی کہ درویش ان کے ساتھ شراب پی کر ہوش کھو بیٹھا تھا۔ پھر دونوں نے فیصلہ کیا کہ یہاں سے نکل جائیں۔ ایک رات لباس بدل کر نکلے۔ بھوک پیاس کے مارے ایک دریا کے کنارے پہنچے۔ درویش نے شہزادی کو درخت کے نیچے بٹھایا اور دریا کے پار کا راستہ دیکھنے گیا۔ واپس آیا تو شہزادی غائب تھی۔ اس نے پاگلوں کی طرح ڈھونڈا مگر نہ ملی۔ آخرکار اس نے پہاڑ سے کود کر جان دینے کا ارادہ کیا۔
اتنے میں ایک سبز پوش نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا
مایوس نہ ہو۔ روم جا، وہاں تین اور درویش اور بادشاہ آزاد بخت ملیں گے۔ ان سب سے مل کر تیری مراد پوری ہو گی۔
درویش روم پہنچا اور باقی درویشوں سے ملا۔ وہ آزاد بخت کے ملنے کا بھی انتظار کرنے لگا تاکہ دل کی مراد پوری ہو۔
پلاٹ ۔ دوسرے درویش کی سیر
باغ و بہار کا دوسرا درویش ملک فارس کا ایک شہزادہ تھا۔ وہ ناز و نعمت میں پلا بڑھا تھا اور اسے ایسے علما کی صحبت اچھی لگتی تھی جو بڑے بادشاہوں اور مشہور لوگوں کی نیکیاں اور خوبیاں سنائیں۔
ایک دن کسی نے اسے حاتم طائی کا قصہ سنایا جو اپنی سخاوت کے لیے مشہور تھا۔ لیکن اسی سخاوت نے عرب کے بادشاہ نوفل کو حاتم کا دشمن بنا دیا۔ نوفل نے اس کے ملک پر حملہ کر دیا۔ حاتم نے سوچا اگر جنگ ہوئی تو بے گناہ لوگ مارے جائیں گے، اس لیے اس نے ملک اور مال چھوڑ دیا اور ایک غار میں جا چھپا۔ نوفل نے اعلان کیا کہ جو حاتم کو پکڑ لائے گا اسے پانچ سو اشرفی ملیں گی۔ یہ خبر ایک بوڑھے لکڑہارے تک بھی پہنچی۔ لکڑہارا سوچنے لگا کہ اگر حاتم مل جائے تو بڑی دولت ہاتھ آئے گی۔ حاتم، جو قریب ہی ایک غار میں چھپا تھا، اس بات کو سن کر خود باہر آگیا اور کہا میں ہی حاتم ہوں، مجھے نوفل کے پاس لے چلو۔ لیکن لکڑہارے نے انکار کر دیا۔ اس دوران تماش بین اکٹھا ہو گئے اور سب دعویٰ کرنے لگے کہ انہوں نے حاتم کو پکڑا ہے۔ نوفل مشکل میں پڑ گیا۔ یہ دیکھ کر حاتم نے کہا کہ اصل میں مجھے پکڑنے والا یہی بوڑھا لکڑہارا ہے۔ حاتم کی یہ بات سن کر نوفل بہت متاثر ہوا اور دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کیوں نہ ہو، جب ایسے ہو، تب ایسے ہو۔
یہ قصہ سن کر شہزادے کے دل میں آیا کہ وہ بھی ایسا نیک کام کرے جس کی تعریف دنیا اس کے جیتے جی کرے۔ اس خواب کو سچ کرنے کے لیے اس نے ایک بڑی عمارت بنوائی جس میں چالیس دروازے تھے۔ غریب اور ضرورت مند ایک دروازے سے داخل ہوتے اور دوسرے سے اشرفی لے کر نکل جاتے۔ ایک فقیر بار بار دروازوں سے داخل ہو کر زیادہ اشرفیاں لینے لگا۔ آخر جب وہ دوبارہ پہلے دروازے پر آیا تو شہزادہ ناراض ہوا اور کہا یہ فقیری نہیں۔ فقیر نے جواب دیا اور تجھے بھی تو سخاوت کا اصل مطلب نہیں معلوم۔ میرے خیال میں اصل سخی بصرہ کی شہزادی ہے۔
یہ بات شہزادے کے دل میں بیٹھ گئی۔ باپ کی موت کے بعد جب وہ بادشاہ بنا تو سلطنت وزیر کے سپرد کر کے بصرہ کی شہزادی سے ملنے اور اس کی سخاوت کا راز جاننے نکل پڑا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا تو شہزادی واقعی مشہور سے بڑھ کر مہمان نواز تھی۔ جب شہزادے نے شادی کی خواہش ظاہر کی تو شہزادی نے شرط رکھی کہ پہلے وہ شہر نیم روز کے بیل سوار شہزادے کا راز معلوم کرے جو ہر مہینے کی چاند رات کو ایک غلام قتل کرتا ہے۔ شہزادے نے شرط مان لی لیکن پہلے شہزادی کی سخاوت کا راز پوچھا۔ جواب شہزادی نے نہیں بلکہ اس کی دائی نے دیا۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ بادشاہ کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ جب بادشاہ نے اپنی بیٹیوں سے کہا کہ تم سب میرے دم سے بادشاہ زادی ہو تو سب نے ہاں میں ہاں ملائی، مگر چھوٹی بیٹی نے کہا اصل میں سب نصیب کا کھیل ہے، آپ بادشاہ بنے، تو میں بادشاہ زادی بنی۔ یہ سن کر بادشاہ نے اسے جنگل میں چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ لیکن خدا نے وہاں ہی اسے خزانہ عطا کیا جس سے اس نے ایک محل بنایا۔ بعد میں وہی شہزادی سلطنت کی وارث بنی اور ساری دولت غریبوں اور مسافروں پر خرچ کرنے لگی۔
یہ سن کر درویش مطمئن ہوا اور شہر نیم روز گیا۔ وہاں سب لوگ سیاہ کپڑوں میں نظر آئے۔ چاند رات کو اس نے بیل سوار شہزادے کو دیکھا مگر وہ سمجھ نہ پایا کہ وہ غلام کیوں مارتا ہے۔ آخرکار درویش نے شہزادے کا پیچھا کیا۔ شہزادے نے راز بتایا کہ وہ ایک بادشاہ زادہ ہے۔ اس کی پیدائش پر نجومیوں نے کہا تھا کہ اگر چودہ سال تک وہ سورج اور چاند کی روشنی نہ دیکھے تو زندگی خوشی سے گزرے گی۔ لیکن ایک دن اچانک اس کی ملاقات کوہ قاف کی پری سے ہوئی اور وہ اس پر عاشق ہو گیا۔ بعد میں ایک سادھو کے پاس رہنے سے اسے جنوں کو قابو کرنے کی کتاب ملی۔ اسی کتاب کے زور پر اس نے پری کو بلا لیا اور ساتھ رہنے لگا، لیکن پھر ایک غلطی کی وجہ سے وہ پری ہمیشہ کے لیے چلی گئی۔ اسی غم میں وہ ہر مہینے ایک غلام کو قتل کرتا ہے تاکہ لوگ اس پر ترس کھا کر دعا کریں اور شاید وہ پری واپس آ جائے۔
یہ سن کر درویش کو اس پر ترس آیا اور وعدہ کیا کہ جب تک پری کا پتا نہ ملے، وہ واپس بصرہ نہیں جائے گا۔ پانچ سال تک تلاش کے باوجود پری نہ ملی تو مایوسی میں وہ پہاڑ پر جا کر خودکشی کرنے لگا۔ تبھی ایک سبز پوش نمودار ہوئے اور اسے روکا اور مشورہ دیا کہ وہ ملک روم کا سفر کرے۔
پلاٹ ۔ آزاد بخت کی سرگذشت
باپ کے انتقال کے بعد جب آزاد بخت روم کا بادشاہ بنا، تو ایک دن بدخشاں کا ایک سوداگر اس کے دربار میں آیا۔ وہ قیمتی تحفے لایا تھا اور بادشاہ کو پانچ مشقال کا ایک نایاب لعل پیش کیا۔ آزاد بخت نے ایسا لعل پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ خوش ہو کر اس نے سوداگر کو انعام دیا اور ایک سند لکھوا دی کہ جہاں بھی وہ اس کے ملک میں جائے، اس سے کوئی محصول نہ لیا جائے۔ بادشاہ روز اس لعل کو دیکھتا اور درباریوں کو دکھاتا۔ ایک دن وزیر نے دربار میں کہا کہ یہ لعل کوئی خاص چیز نہیں، دنیا میں اس سے بھی بڑے لعل ہیں۔ اس نے بتایا کہ نیشاپور کے ایک سوداگر کے پاس بارہ لعل ہیں، جن میں ہر ایک سات مشقال کا ہے اور وہ سب ایک کتے کے گلے میں بندھے ہیں۔ بادشاہ نے یہ سنا تو غصے میں آ گیا اور وزیر کو جھوٹا سمجھ کر قتل کا حکم دے دیا۔ مگر ملک فرنگ کے ایک سفیر کی سفارش پر اسے ایک سال کی مہلت دی گئی تاکہ وہ اپنی بات کا ثبوت لا سکے۔
وزیر کی ایک ذہین بیٹی تھی۔ اس نے اپنے باپ کو بچانے کے لیے مردانہ لباس پہنا، نام بدل کر خود کو سوداگر بچہ کہا اور نیشاپور پہنچ گئی۔ ایک دن بازار میں اسے ایک کتا نظر آیا جس کے گلے میں لعل کا پٹا تھا اور قریب ہی دو آدمی پنجرے میں قید تھے۔ اسے یقین ہو گیا کہ باپ نے سچ کہا تھا۔ وہ اس سوداگر تک پہنچی جو خواجہ سگ پرست کے نام سے مشہور تھا۔ خواجہ نے اسے بیٹا سمجھ کر اپنے ساتھ رکھ لیا۔ جب سوداگر بچہ نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو خواجہ سگ پرست بھی اس کے ساتھ چل پڑا۔ ان کے ساتھ وہی کتا اور پنجرہ بھی تھا۔ یہ خبر بادشاہ روم تک پہنچی۔ خواجہ کو دربار میں بلایا گیا۔ لعل دیکھ کر بادشاہ کو وزیر کی سچائی کا یقین آ گیا، لیکن ضد اور شرم کے باعث اس نے پھر بھی خواجہ کو قتل کا حکم دے دیا۔ اس وقت وہی فرنگی سفیر موجود تھا۔ اس نے بادشاہ کو سمجھایا کہ وزیر کی بات سچ نکلی، وزیر بھی بچ گیا اور خواجہ کا کوئی قصور نہیں۔ بادشاہ نے سفیر کی بات مان لی اور پھر خواجہ سے پوچھا کہ ان لعلوں اور قید آدمیوں کا کیا راز ہے۔
خواجہ سگ پرست نے کہا کہ یہ داستان بڑی دردناک ہے، مگر پھر بھی بتاتا ہوں۔ اس نے کہا کہ وہ فارس کے ایک سوداگر کا بیٹا ہے اور یہ دونوں قید میں پڑے ہوئے اس کے سگے بھائی ہیں۔ والد کی وفات کے بعد بھائیوں نے اسے گھر سے نکال دیا اور سارا مال ہڑپ کر لیا۔ یہ کتا بچپن سے اس کے ساتھ تھا۔ اس نے چھوٹا سا کپڑے کا کاروبار شروع کیا اور اللہ نے برکت دی۔ ایک بار بھائی قرض نہ چکانے پر مار کھا رہے تھے تو اس نے قرض ادا کیا اور بیس ہزار روپے دے کر کہا کہ بخارا جا کر تجارت کرو۔ لیکن بھائیوں نے سب روپیہ جوئے، شراب اور عیاشی میں اڑا دیا۔ خواجہ نے دوبارہ ان کی مدد کی اور ایک جہاز میں سفر شروع کیا۔ رات کو بھائیوں نے اسے دھوکے سے سمندر میں پھینک دیا۔ کتا بھی کود گیا اور دونوں مشکل سے ایک ہفتے بعد کنارے پہنچے۔ بعد میں پھر بھائیوں سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اسے پہچانا مگر انجان بن گئے۔ اس پر قتل کا جھوٹا الزام لگایا گیا اور قید کر دیا گیا۔ جب اس کی سزائے موت کا دن آیا تو اتفاق سے بادشاہ قولنج کے مرض میں مبتلا ہوا اور قیدیوں کو آزاد کرنے کا حکم دیا، یوں وہ بچ گیا۔ لیکن بھائیوں نے پھر سازش کی اور رشوت دے کر اسے زندانِ سلیمان کے ایک کنویں میں ڈلوا دیا۔ وہاں صرف کتا ہی اسے بچانے کے لیے کھانا لاتا۔ ایک دن اچانک کسی نے رسّی ڈال کر کہا کہ نیا قیدی اوپر آجائے۔ وہ نکل آیا لیکن اسے پتا نہ چلا کہ وہ کون تھا۔ بھائیوں نے بعد میں اس کی قبیلے پر بری نظر ڈالی جس کے دکھ میں اس کا قبیلہ خودکشی پر مجبور ہو گیا۔ تب اس نے دونوں بھائیوں کو پنجرے میں قید کر دیا اور ان کے کھانے کے لیے صرف کتے کے بچے ہوئے ٹکڑے دینے لگا۔ لوگ اسے خواجہ سگ پرست کہنے لگے۔
بادشاہ کے پوچھنے پر اس نے بارہ لعلوں کے حاصل کرنے کا واقعہ اور ملک زیر باد کی ایک ہندو لڑکی کا قصہ بھی سنایا۔ جب اس کی سرگزشت ختم ہوئی تو سوداگر بچہ نے اپنی اصل حقیقت ظاہر کی اور بتایا کہ وہ وزیر کی بیٹی ہے جو باپ کی جان بچانے آئی تھی۔ یہ سن کر خواجہ سگ پرست حیران رہ گیا۔ بادشاہ نے دونوں کی شادی کروا دی اور خوشی خوشی رخصت کیا۔
پلا ٹ ۔ سیر تیسرے درویش کی
تیسرا درویش ملک عجم کا شہزادہ تھا۔ ایک دن وہ شکار کے لیے نکلا۔ وہاں اسے ایک کالا ہرن نظر آیا۔ اس نے چاہا کہ ہرن کو زندہ پکڑ لے، لیکن ہرن اس کی گرفت میں نہ آیا اور بھاگ نکلا۔مجبور ہو کر شہزادے نے تیر چلایا اور ہرن زخمی ہو کر پہاڑ کے پیچھےغائب ہوگیا۔شہزادہ تھک کرایک خوشگوار جگہ پرجا بیٹھا۔
وہاں اس نے ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا جو زخمی ہرن کے شکاری کو بد دعا دے رہا تھا۔ شہزادے نے اس کے پاس جا کر اپنی غلطی مان لی اور معافی چاہی۔ پھر کچھ کھا پی کر سو گیا۔ نیند میں اسے رونے کی آواز آئی۔ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ وہی بوڑھا ایک بُت کے قدموں پر سر رکھ کر رو رہا ہے۔ شہزادے نے وجہ پوچھی تو اس نے اپنا حال سنانا شروع کیا۔ اس نے بتایا میرا نام نعمان سیاح ہے۔ میں سوداگر ہوں اور تجارت کے لیے مختلف ملکوں کی سیر کرتا رہا ہوں۔ ایک بار میں جزیرہ فرنگ گیا۔ وہاں کی شہزادی مہر نگار نے مجھے بلایا۔ اس کے حسن نے مجھے دیوانہ بنا دیا۔ ایک دن اس نے مجھے ایک رقعہ اور انگوٹھی دے کر داروغہ کیخسرو کے پاس بھیجا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان پنجرے میں قید ہے۔ میں نے سمجھا یہی کیخسرو ہے، اس لیے اسے رقعہ اور انگوٹھی دے دی۔ وہ نوجوان مجھ سے شہزادی کے بارے میں پوچھنے لگا۔ اسی وقت سپاہی آئے اور مجھ پر حملہ کر دیا۔ نعمان نے مزید کہا پھر مجھے پتا چلا کہ وہ نوجوان موجودہ بادشاہ کا بھتیجا ہے۔ اس کے باپ نے مرتے وقت سلطنت اپنے بھائی کے حوالے کی تھی اور کہا تھا کہ جب میرا بیٹا بڑا ہو تو اسے اپنی بیٹی مہر نگار سے بیاہ کر سلطنت واپس دے دینا۔ لیکن بادشاہ نے وعدہ توڑ دیا اور بھتیجے کو دیوانہ قرار دے کر قید کر دیا۔ شہزادی اور نوجوان ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ جب بادشاہ نے اسے مار ڈالنے کا حکم دیا تو شہزادی تلوار پھینک کر اس کے گلے سے لپٹ گئی۔ بادشاہ ناراض ہوا اور اسے دوبارہ قید کر دیا۔
نعمان نے کہا کہ بعد میں شہزادی نے اس کی مرہم پٹی کی، قیمتی خلعت اور روپیہ دیا اور رخصت کر دیا۔ وہ دربدر بھٹکتا رہا اور پھر شہزادی کا بُت بنا کر اس کی پوجا کرنے لگا۔ پھر اسے خبر ملی کہ وزیر نے دھوکے سے قیدی نوجوان کو مار ڈالا ہے۔ ہر نو چندی جمعرات کو اس کا خادم تابوت لے کر شہر میں نکلتا ہے۔ نعمان اس سے ملا اور شہزادی سے ملوانے کی درخواست کی۔ دونوں ایک خوبصورت مقام پر گئے۔ وہاں شہزادی آئی، تابوت کے پاس فاتحہ پڑھی اور واپس جانے لگی۔ خادم نے شہزادی سے کہا کہ ملک عجم کا شہزادہ آپ کی خوبیوں کا سن کر اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں آیا ہے، اگر اس پر نظر کرم کریں تو یہ نیکی ہوگی۔ شہزادی خاموش رہی اور چلی گئی، لیکن بعد میں وہ ملنے لگی۔
نعمان اور شہزادی روز ملاقات کرنے لگے۔ ایک دن شہزادی نے کہا اب میرا دل یہاں نہیں لگتا، مجھے کسی اور ملک لے چلو۔ نعمان نے حامی بھر لی۔ وہ دونوں نکلے مگر راستہ بھٹک گئے۔ تھکن سے چور ہو کر وہ ایک بند مکان میں جا گھسے۔ وہاں ایک بوڑھی کٹنی آئی اور اپنی بیٹی کا حال سنایا۔ شہزادی نے اسے انگوٹھی اور کھانا دے کر رخصت کیا۔ اسی وقت مکان کا مالک بہزاد خان آ گیا۔ اس نے کٹنی کو چور سمجھ کر سزا دی، پھر نعمان اور شہزادی کا حال سن کر ان کی حفاظت کا وعدہ کیا۔ چھ مہینے وہ دونوں بہزاد خان کے ساتھ رہے۔ پھر نعمان کو اپنے والدین کی یاد ستانے لگی۔ بہزاد خان نے ان کے وطن لے جانے کا انتظام کیا۔ راستے میں پہرے داروں سے جھگڑ کر وہ انہیں لے گیا۔ وطن کے قریب پہنچ کر بادشاہ کو خبر دی۔ بادشاہ استقبال کے لیے آیا۔ شہزادہ گھوڑے سمیت دریا میں کود گیا، شہزادی بھی اس کے پیچھے آئی لیکن ڈوبنے لگی۔ بہزاد خان نے بچانے کی کوشش کی مگر دونوں بھنور میں پھنس کر ڈوب گئے۔
شہزادہ غم سے ٹوٹ گیا اور ایک رات اس نے بھی ڈوب کر مرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن ایک سبز پوش بزرگ نے اسے روکا اور کہا شہزادی اور بہزاد خان زندہ ہیں۔ تم ملک روم جاؤ جہاں دوسرے درویش ہیں۔ ان سب سے مل کر تمہاری مراد پوری ہوگی۔ شہزادہ بولا اے درویشو! میں ہزار مصیبتیں جھیلتا ہوا یہاں آپ کے پاس پہنچا ہوں۔
پلاٹ ۔ سیر چوتھے درویش کا
چوتھا درویش دراصل بادشاہ چین کا بیٹا تھا۔ بادشاہ نے مرنے سے پہلے اپنے چھوٹے بھائی کو وصیت کی تھی کہ جب تک میرا بیٹا بڑا نہ ہو جائے، تم سلطنت سنبھالو۔ پھر جب وہ جوان ہو جائے تو اپنی بیٹی روشن اختر سے اس کی شادی کر کے سلطنت اسی کے حوالے کر دینا تاکہ بادشاہت خاندان میں قائم رہے۔ مگر بادشاہ کے مرنے کے بعد چچا نے وصیت پر عمل نہ کیا۔ اس نے شہزادے کو زیادہ تر محل کے زنان خانے میں رکھا۔ شہزادہ خوش تھا کہ ایک دن سلطنت بھی ملے گی اور عزت بھی۔ اس کے پاس والد کے زمانے کا ایک حبشی غلام مبارک موجود تھا جو ہمیشہ اس کی خدمت کرتا تھا۔ جب شہزادہ چودہ برس کا ہوا تو مبارک اسے بادشاہ کے پاس لے گیا اور کہا کہ اب یہ شادی کے لائق ہے۔ بادشاہ نے وقت دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس سال کوئی مبارک دن نہیں، اگلے سال شادی ہوگی۔
کچھ دن بعد مبارک رنجیدہ ہو کر آیا اور بولا شہزادے! ارکانِ دولت خوش ہیں کہ تُو بادشاہ بنے گا لیکن تیرے چچا کو یہ بات پسند نہیں۔ اس نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں ہی تجھے مار ڈالوں۔ یہ سن کر شہزادہ بہت گھبرا گیا اور کہا کہ مجھے تخت نہیں چاہیے، بس جان بچ جائے۔ مبارک نے اسے تسلی دی اور ایک تہہ خانے میں لے گیا۔ وہاں بے شمار خزانے اور انتیس بندر رکھے تھے۔ اس نے بتایا کہ یہ بندر عام نہیں بلکہ ہر بندر کے ماتحت ایک ہزار دیو ہیں، جو جنوں کے بادشاہ ملک صادق نے تحفے میں دیے تھے۔ لیکن یہ اس وقت تک کسی کام کے نہیں جب تک ان کی گنتی چالیس نہ ہو۔ اگر کسی طرح چالیسواں بندر مل جائے تو ساری مشکل آسان ہو جائے گی۔ مبارک ایک تدبیر سوچ کر بادشاہ کے پاس گیا اور کہا جہاں پناہ! شہزادے کو اس طرح مارا جا سکتا ہے کہ نہ بدنامی ہو اور نہ کوئی شک۔ مجھے اسے کہیں باہر لے جانے کی اجازت دے دیجیے۔ بادشاہ خوش ہو گیا اور اجازت دے دی۔ مبارک شہزادے کو ساتھ لے کر ملک صادق کے پاس گیا۔ ملک صادق خوش ہوا مگر چالیسواں بندر دینے سے پہلے ایک شرط رکھی۔ اس نے ایک لڑکی کی تصویر دکھائی اور کہا کہ اگر یہ شہزادہ اس لڑکی کو تلاش کر کے لے آئے تو سب کچھ ملے گا۔ لیکن یاد رکھو یہ لڑکی امانت ہے اور اس میں خیانت گناہ ہے۔ شہزادے نے جب تصویر دیکھی تو بے ہوش ہو گیا۔ ہوش آنے پر وہ اس کی تلاش میں مبارک کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔
سات برس کی تلاش کے بعد وہ ایک ایسے شہر پہنچے جہاں ہر شخص اسمِ اعظم پڑھ رہا تھا۔ وہاں ایک ہندوستانی فقیر ملا۔ شہزادے نے اس پر نظر رکھی اور آخرکار اس کے پیچھے پیچھے ایک پرانے محل تک پہنچا۔ وہاں سے ایک حسین لڑکی نکلی جو بالکل تصویر جیسی تھی۔ فقیر نے بتایا کہ وہ اس کی بیٹی ہے۔ اس کی شادی ایک شہزادے سے طے ہوئی تھی مگر عین شادی کی رات جوں کے بادشاہ نے دولہا کو قتل کر دیا۔ وہ لڑکی پر فریفتہ تھا۔ اس واقعے کے بعد شہر کے لوگ ہمیشہ اسمِ اعظم کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ شہزادے نے فقیر سے اس لڑکی کا ہاتھ مانگا لیکن وہ نہ مانا۔ بعد میں جب فقیر کا انتقال ہو گیا تو شہزادے نے لڑکی کو راضی کیا اور اسے ساتھ لے کر ملک صادق کے پاس چل دیا۔ مبارک بار بار سمجھاتا رہا کہ یہ امانت ہے مگر شہزادہ عشق میں ڈوبا ہوا تھا۔ مبارک نے ایک ترکیب نکالی اور لڑکی کے بدن پر ایک ایسا روغن لگا دیا جس سے بدبو آنے لگی۔ جب ملک صادق نے اسے دیکھا تو بدبو سے پریشان ہوا اور سازش سمجھ کر شہزادے پر ناراض ہوا۔ شہزادے نے اس پر حملہ کر دیا مگر ملک صادق نے ایک لات ماری اور شہزادہ بے ہوش ہو کر جنگل میں جا گرا۔ ہوش آنے پر لڑکی غائب تھی۔ شہزادے نے بہت ڈھونڈا لیکن ناکام رہا۔
مایوس ہو کر وہ پہاڑ سے کود کر جان دینا چاہتا تھا کہ اچانک وہی برقع پوش سوار آ گیا اور اسے تسلی دی کہ روم جاؤ، وہاں تمہاری مراد پوری ہوگی۔ اس کے بعد وہ درویشوں کے پاس پہنچا اور اپنی داستان سنا کر کہنے لگا اب ہم سب ایک جگہ ہیں، خدا چاہے تو سب کی مرادیں پوری ہوں گی۔ چوتھے درویش کی کہانی ختم ہوئی تو اسی وقت بادشاہ آزاد بخت کے ہاں شہزادہ بختیار پیدا ہوا۔ خوشیاں منائی گئیں مگر اچانک وہ بچہ ایک بادل میں غائب ہو گیا۔ تین دن بعد دوبارہ بادل سے لوٹ آیا۔ سات برس تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ بادشاہ نے درویشوں کو بلا کر یہ حال بتایا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ جنوں کے بادشاہ ملک شہبال کو خط لکھا جائے۔ ملک شہبال نے خط پڑھ کر آزاد بخت کو پرستان میں بلایا۔ اس نے حکم دیا کہ جس جن کے پاس کوئی انسان ہو، فوراً لے کر آئے۔ سب حاضر ہو گئے سوائے ایک دیو کے۔ جب وہ پکڑ کر لایا گیا تو اس نے جھوٹ بولا مگر پکڑا گیا اور مارا گیا۔ آخر کار تمام انسان جنوں سے آزاد ہوئے اور سب شہزادے شہزادیوں کے ساتھ مل گئے۔
آخر میں بڑی دھوم دھام سے شادیاں ہوئیں روشن اختر کی شادی بختیار سے، باقی شہزادوں اور شہزادیوں کی آپس میں، اور سب خوش ہو گئے۔ قیمتی تحفے ملے اور سب کی مراد پوری ہوئی۔ یوں آزاد بخت اور چاروں درویشوں کا قصہ خوشی کے ساتھ مکمل ہوا۔