bale jibreel, allam iqbal, la phir ek bar wahi baada o jam ai saqi ghazal ki tashreeh بالِ جبریل ، علامہ اقبال، لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی غزل کی تشریح

یہ شعر اقبال کی روحانی اور معرفتی آرزو کو ظاہر کرتا ہے۔ “بادہ و جام” سے مراد وہ روحانی نوش یا معرفت کا نشہ ہے جو انسان کو بلندی، خودی کی بیداری اور روحانی سرور عطا کرتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر اسی روحانی اور معرفتی فیض کو چاہتے ہیں تاکہ اسے اپنے مقام کی پہچان ہو۔ یہاں “میرا مقام” سے مراد انسان کی حقیقی خودی اور بلند مرتبہ ہے جو وہ عشق، معرفت اور علم کے ذریعے حاصل کر سکتا ہے۔ “ساقی” اللہ یا روحانی رہنما کی علامت ہے جو یہ فیض عطا کرتا ہے۔ فلسفہ یہ ہے کہ حقیقی ترقی اور خودی کی بیداری کے لیے روحانی فیض اور معرفت کا حصول ضروری ہے۔

یہ شعر ہند کی روحانی اور معرفتی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ “تین سو سال سے ہند کے مے خانے بند” ہیں یعنی ہند کی زمین پر روحانیت، عشق حقیقی اور معرفت کے مرکز بند پڑے ہیں۔ یہ دنیاوی طاقتوں اور مادہ پرستی کی وجہ سے روحانی اور علمی ترقی کی رکاوٹ کی علامت ہے۔ اقبال یہاں قیاس کرتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ روحانی رہنما یا اللہ کا فیض عام ہو جائے، تاکہ علم، عشق اور معرفت کی روشنی ہر دل اور ہر فرد تک پہنچے۔ فلسفہ یہ ہے کہ انسانی ترقی کے لیے روحانی اور علمی فیض کی تقسیم ضروری ہے اور یہ صرف ایک عالم یا شاعر کی کوشش سے ممکن ہے۔

یہ شعر اقبال کی تخلیقی آزادی اور اس پر لگنے والی پابندیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ “مینائے غزل” یعنی شاعر کی فنکاری جو عشق، معرفت اور فکر کی عکاسی کرتی ہے اقبال کہتے ہیں کہ اس میں تھوڑی سی باقی بچی ہوئی تھی۔ لیکن “شیخ کہتا ہے کہ یہ بھی حرام ہے” یعنی بعض روحانی یا مذہبی پابندیاں تخلیقی آزادی اور حقیقت کے اظہار کو محدود کرتی ہیں۔ فلسفہ یہ ہے کہ حقیقی علم اور روحانی فکر کے اظہار پر دنیاوی یا مذہبی پابندیاں انسان کی ترقی اور تخلیقی عمل کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور اقبال اس پر طنز اور تنقید کرتے ہیں۔

یہ شعر انسانی تحقیق اور علمی کوشش کی کمی کو بیان کرتا ہے۔ “شیر مردوں” سے مراد وہ انسان ہیں جو علم، تحقیق اور حق کے لیے دلیر ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد “بیشۂ تحقیق” خالی ہو گئی ہے یعنی معاشرہ اور دنیا تحقیق، علم اور فکری بیداری سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں صرف صوفی اور ملا کے غلام رہ گئے ہیں جو حقیقت کی تلاش میں غیر فعال ہیں یا محض روایتی اور رسمی رویوں پر عمل کر رہے ہیں۔ فلسفہ یہ ہے کہ معاشرتی اور روحانی ترقی کے لیے صرف رسمی مذہبی اصول کافی نہیں بلکہ دلیر تحقیق، علم اور بصیرت کی ضرورت ہے۔

یہ شعر عشق اور علم کے باہمی تعلق کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ عشق کی “تیغ جگردار”، یعنی روحانی اور محرک طاقت کو کسی نے کمزور کر دیا ہے یا وہ قوت جو انسان کو بلند مرتبہ عطا کرتی ہے غائب ہو گئی ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ علم کے ہاتھ میں اب “نیام” خالی ہے یعنی علم کے ذریعے عمل اور قوت پیدا کرنے کی طاقت کمزور ہو گئی ہے۔ فلسفہ یہ ہے کہ علم صرف محض معلومات یا نظریہ نہیں بلکہ عشق اور جذبے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ عشق کے بغیر علم کی طاقت کمزور اور بے اثر ہے۔

یہ شعر اقبال کی شاعری اور کلام کی روحانیت کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ “سینہ روشن” یعنی دل میں معرفت، خودی اور عشق کی روشنی موجود ہو تو “سوز سخن” یعنی کلام کا حرارت، اثر اور طاقت حقیقی حیات پیدا کرتی ہے۔ اگر دل روشن نہ ہو تو کلام محض لفظی اظہار بن کر رہ جاتا ہے جو روحانی اور فکری اثر پیدا نہیں کر سکتا اور “مرگ دوام” یعنی موت کی طرح بے اثر ہے۔ فلسفہ یہ ہے کہ حقیقی شعری اور علمی اثر دل کی روشنی اور خودی کی بیداری کے بغیر ممکن نہیں۔

یہ شعر اقبال کی روحانی تمناؤں اور فیض کے طلب کی عکاسی کرتا ہے۔ “رات” انسانی دل کی تاریکی یا انسان کی محدودیت کو ظاہر کرتی ہے اور “مہتاب” معرفت، علم اور روحانی روشنی کی علامت ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ ساقی یعنی اللہ یا روحانی رہنما، اپنی روشنی کو دل سے دور نہ رکھے۔ “ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام” یعنی ساقی کے پاس وہ مکمل فیض اور معرفت موجود ہے جو انسان کے دل کی روشنی اور ترقی کے لیے کافی ہے۔ فلسفہ یہ ہے کہ روحانی رہنما یا اللہ کی روشنی اور فیض انسان کی ترقی، علم اور خودی کی بیداری کے لیے مکمل اور کافی ہے بشرطیکہ انسان اسے قبول کرے اور اس کی طرف رجوع کرے۔

Scroll to Top