bale jibreel, allama iqbal, mita diya mere saqi ne aalam e man o tu ghazal ki tashreeh بالِ جبریل ، علامہ اقبال، مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو غزل کی تشریح

اس شعر میں اقبال نے روحانی فیض اور معرفت کی ابتدائی حالت کو بیان کیا ہے۔ “عالم من و تو” سے مراد انسان کے ذہن میں موجود محدود تصورات، دنیاوی سوچ اور خودی کی تقسیم ہے، یعنی میں اور تم، یہ اور وہ، جو انسان کے دل اور شعور کو محدود کرتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ ساقی یعنی اللہ یہ سب تضادات اور فکری بندھن مٹا دیے۔

“پلا کے مجھ کو مے لالٰہ الاہو” کا مطلب ہے کہ مجھے وہ روحانی نشہ اور معرفتی فیض دیا گیا جو دل و دماغ کو اللہ کی معرفت اور محبت سے بھر دیتا ہے۔ “لالہ الاہو” کا مطلب یہ ہے کہ یہ فیض، نورانی اور سرور بخش ہے۔ فلسفہ یہ ہے کہ معرفت اور روحانی بیداری کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر موجود محدود فکری دنیا، خودی کی کمزوریوں اور تضادات کو مٹا دے، تاکہ معرفت اور عشق حقیقی میں مستغرق ہو سکے۔

یہ شعر سکوت اور خاموشی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ روحانی فیض حاصل کرنے کے لیے بیرونی عناصر جیسے مے، شاعری، ساقی، یا موسیقی کی غیر ضروری صدا کی ضرورت نہیں۔ روحانی بیداری سکوت اور اندرونی توجہ سے حاصل ہوتی ہے۔سکوت کوہ و لب جو و لالۂ خود رو” کا مطلب ہے کہ جب دل اور لب خاموش ہوں تو اندرونی شعور اور معرفت کا سرچشمہ کھلتا ہے۔ کوہ کی مضبوطی اور لب کی خاموشی انسان کے اندرونی استحکام اور خودی کی علامت ہیں۔ یہ کہ روحانی فیض سکوت اور خاموشی میں دریافت ہوتا ہے اور بیرونی شور و غل روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔

یہ شعر فقر اور بے نیازی کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ “گدائے مے کدہ” یعنی وہ شخص جو دنیاوی خواہشات اور مادہ پرستی سے آزاد ہو کر معرفت کی تلاش میں ہے اپنی بے نیازی سے عظمت حاصل کرتا ہے۔ ”چشمۂ حیواں” معرفت اور روحانی کا سرچشمہ ہے اور “سبو” روحانی دولت یا فیض ہے جو اس سرچشمے سے ٹوٹ کر ظاہر ہوتا ہے۔ اقبال یہاں بتاتے ہیں کہ حقیقت میں روحانی دولت اور معرفت صرف ان کے لیے قیمتی ہے جو دنیاوی خواہشات سے آزاد ہیں۔ یہ کہ بے نیازی اور فقر انسان کو روحانی بلندی، معرفت اور فیض کی روشنی تک پہنچاتے ہیں۔

یہ شعر روحانی کی خالی پن اور عصر حاضر کی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ “مرا سبوچہ غنیمت ہے” یعنی میرے پاس جو روحانی فیض موجود ہے وہ آج کے زمانے میں بہت قیمتی ہے۔ ” خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو” طنزیہ انداز میں اقبال بتاتے ہیں کہ بعض صوفی اور خانقاہیں دنیاوی یا رسمی رویے اختیار کر چکی ہیں اور اصل روحانی فیض کمزور پڑ گیا ہے۔ فلسفہ یہ ہے کہ حقیقی روحانی دولت اور معرفت صرف ان لوگوں کے لیے اہم ہے جو حقیقی تلاش میں ہیں نہ کہ دکھاوے یا رسمی عبادت کے لیے۔

اس شعر میں اقبال نے خودی اور معرفت کی وسعت بیان کی ہے۔ “نونیاز ہوں” یعنی میں دنیاوی خواہشات سے آزاد ہوں اور روحانی فیض میں مبتلا ہوں۔ ”حجاب ہی اولیٰ” کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلا پردہ یا رکاوٹ میری محدود نگاہ ہے جو دل کی گہرائی سے بڑھ کر حقیقت کو دیکھنے کی طاقت رکھتی ہے۔ “دل سے بڑھ کے ہے میری نگاہ بے قابو” یعنی اقبال کی بصیرت دل کی حدود سے آگے بڑھ گئی ہے اور حقیقت کی دریافت کے لیے آزاد اور غیر محدود ہے۔ فلسفہ یہ ہے کہ حقیقی معرفت اور روحانی ترقی کے لیے دل کی صفائی، بصیرت کی آزادی اور خودی کی بیداری ضروری ہے۔

یہ شعر قدرت اور روحانی صفا کے تعلق کو بیان کرتا ہے۔ “بحر کی موجوں میں ہے مقام اس کا” یعنی کائنات اور قدرت کے مظاہر میں قدر موجود ہے لیکن حقیقی اہمیت “صفائے پاکی طینت سے ہے گہر کا وضو” میں ہے۔ یہ وضو جسمانی غسل نہیں بلکہ روحانی صفائی اور معرفت کی علامت ہے۔ فلسفہ یہ ہے کہ علم، حسن اور قدرت کی قدر صرف اس وقت محسوس ہوتی ہے جب انسان اپنی روح کو پاکیزہ کرے اور معرفت کے لیے دل صاف رکھے۔

یہ شعر تخلیقی بصیرت کی عظمت کو بیان کرتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ قدرت اور حسن بھی اس کے فیض کے سامنے کمزور ہیں۔ “نگاہ شاعر رنگیں نوا میں ہے جادو” یعنی شاعر کی بصیرت اور فن، فیض کی روشنی سے جادوئی اثر پیدا کرتا ہے اور انسانی دل و دماغ میں اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ کہ حقیقی تخلیق اور شاعری صرف اسی وقت اثرانداز ہوتے ہیں جب وہ روحانی فیض، معرفت اور خودی کی روشنی سے مستحکم ہوں۔

Scroll to Top