Bihar Board Class 10 Urdu Chapter 10 Urdu Drama Nigari aur Agha Hashr اردو ڈراما نگاری اور آغا حشر Solutions

لطف الرحمن کا اصل اور ادبی دونوں نام لطف الرحمن ہی ہے۔ ان کی پیدائش 1941 میں چھپرہ ضلع کے بنیار پور قصبے میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام مولوی عبدالغفور مرحوم اور والدہ کا نام بی بی آمنہ خاتون تھا۔ ان کا آبائی وطن موضع ریونڈھا ضلع دربھنگہ تھا جبکہ نانیہال بنیار پور تھا جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے بنیار پور میں حاصل کی اور جب وہ بڑے ہوئے تو کچھ سال ریونڈھا میں بھی گزارے۔ لطف الرحمن بچپن سے ہی بہت ذہین تھے اس لیے انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ڈبل ایم اے کیا اور پی ایچ ڈی بھی کی۔ ایم اے میں انہیں گولڈ میڈل بھی ملا۔

لطف الرحمن نے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز بھاگلپور یونیورسٹی سے کیا اور بعد میں وہ اردو کے شعبے کے صدر بنے۔ وہ بھاگلپور اسمبلی حلقہ سے ایک بار قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے اور راشٹریہ جنتا دل کی حکومت میں کابینہ وزیر کے درجے تک پہنچے۔

طالب علمی کے زمانے سے ہی انہیں مضامین لکھنے اور شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ان کے خاص موضوعات تنقید، افسانہ نگاری اور شاعری رہے ہیں۔ ان کی شاعری کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں “تازگی برگ نوا” (غزلوں کا مجموعہ)، “بوسۂ نم” (غزلوں کا مجموعہ) اور “صنم آشنا” (نظموں کا مجموعہ)۔ تنقید پر ان کی کئی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں، جن میں “جدیدیت کی جمالیات”، “نقد نگاہ”، “نشر کی شعریات”، “راسخ عظیم آبادی”، “تعبیر و تنقید” اور “شہر وفا” خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

لطف الرحمن کی شاعری اور تخلیقی کام آج بھی جاری ہیں۔

آغا حشر اردو ڈراما نگاری کے ایک اہم ستون سمجھے جاتے ہیں اور ان کے بغیر اردو ڈرامے کی تاریخ ادھوری ہے۔ ان کی شخصیت اور فن پر مختلف نقادوں کی آرا مختلف ہیں کچھ انہیں “اردو کا شیکسپیئر” قرار دیتے ہیں جبکہ دیگر انہیں عامیانہ اور سطحی مذاق کا تخلیق کار مانتے ہیں۔ یہ تضاد اس لیے پیدا ہوا کیونکہ ان کے نقادوں نے ان کے فن کی مکمل اور منصفانہ تشخیص نہیں کی۔

آغا حشر نے ڈراما نگاری کا آغاز 1901ء میں کیا، اور ان سے پہلے اردو ڈرامے میں سنسکرت ڈراما نگاری کے باوجود کوئی مضبوط روایت قائم نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت کے ڈراموں میں پریوں شہزادوں اور غیر حقیقی کہانیوں کا غلبہ تھا۔ ڈراما کا مقصد زیادہ تر عوام کی تفریح اور مالی فائدہ حاصل کرنا تھا جیسے آج کل فلموں کا مقصد ہوتا ہے۔ مکالمات میں تکلف اور فصاحت کی بھرمار ہوتی تھی اور گیتوں کا حد سے زیادہ استعمال کیا جاتا تھا۔

آغا حشر نے ابتدا میں اپنے پیش روؤں کی روایت کی پیروی کی لیکن جلد ہی انہوں نے اپنے منفرد تخلیقی شعور کی بنیاد پر نئی راہیں تلاش کیں۔ انہوں نے ڈراموں میں عوامی گفتگو اور روزمرہ زبان کو متعارف کرایا اور ڈراما کی زبان کو جدید نثری اسلوب سے ہم آہنگ کیا۔ ان کے ڈرامے جیسے “یہودی کی لڑکی”، “رستم و سہراب” اور “سلور کنگ” اسلوب میں جدت اور سماجی مسائل کی عکاسی کے حوالے سے ان کی خصوصیات کو اجاگر کرتے ہیں۔

آغا حشر نے اردو ڈرامے کو نہ صرف موضوعات میں وسعت دی بلکہ عوام کے شعور اور آزادی کی تحریکوں کو بھی متحرک کیا۔ ان کے بعد اسٹیج ڈرامے کا فن پیچھے چلا گیا اور فلموں نے ڈرامے کی روایت کو متاثر کیا۔ لیکن آغا حشر کی ڈراما نگاری نے اردو ادب میں انقلاب برپا کیا اور انہیں اس فن میں پریم چند اور اقبال کے برابر کا تخلیقی مرتبہ دیا گیا۔انکی بدولت اردو ڈراما نگاری میں ایک نیا دور شروع ہوا جس میں سماجی اور معاشرتی مسائل کو اہمیت دی جانے لگی۔

Scroll to Top