لطف الرحمن
لطف الرحمن کا اصل اور ادبی دونوں نام لطف الرحمن ہی ہے۔ ان کی پیدائش 1941 میں چھپرہ ضلع کے بنیار پور قصبے میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام مولوی عبدالغفور مرحوم اور والدہ کا نام بی بی آمنہ خاتون تھا۔ ان کا آبائی وطن موضع ریونڈھا ضلع دربھنگہ تھا جبکہ نانیہال بنیار پور تھا جہاں ان کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے بنیار پور میں حاصل کی اور جب وہ بڑے ہوئے تو کچھ سال ریونڈھا میں بھی گزارے۔ لطف الرحمن بچپن سے ہی بہت ذہین تھے اس لیے انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ڈبل ایم اے کیا اور پی ایچ ڈی بھی کی۔ ایم اے میں انہیں گولڈ میڈل بھی ملا۔
لطف الرحمن نے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز بھاگلپور یونیورسٹی سے کیا اور بعد میں وہ اردو کے شعبے کے صدر بنے۔ وہ بھاگلپور اسمبلی حلقہ سے ایک بار قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے اور راشٹریہ جنتا دل کی حکومت میں کابینہ وزیر کے درجے تک پہنچے۔
طالب علمی کے زمانے سے ہی انہیں مضامین لکھنے اور شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ان کے خاص موضوعات تنقید، افسانہ نگاری اور شاعری رہے ہیں۔ ان کی شاعری کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں “تازگی برگ نوا” (غزلوں کا مجموعہ)، “بوسۂ نم” (غزلوں کا مجموعہ) اور “صنم آشنا” (نظموں کا مجموعہ)۔ تنقید پر ان کی کئی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں، جن میں “جدیدیت کی جمالیات”، “نقد نگاہ”، “نشر کی شعریات”، “راسخ عظیم آبادی”، “تعبیر و تنقید” اور “شہر وفا” خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
لطف الرحمن کی شاعری اور تخلیقی کام آج بھی جاری ہیں۔
“اردو ڈراما نگاری اور آغا حشر” کا خلاصہ
آغا حشر اردو ڈراما نگاری کے ایک اہم ستون سمجھے جاتے ہیں اور ان کے بغیر اردو ڈرامے کی تاریخ ادھوری ہے۔ ان کی شخصیت اور فن پر مختلف نقادوں کی آرا مختلف ہیں کچھ انہیں “اردو کا شیکسپیئر” قرار دیتے ہیں جبکہ دیگر انہیں عامیانہ اور سطحی مذاق کا تخلیق کار مانتے ہیں۔ یہ تضاد اس لیے پیدا ہوا کیونکہ ان کے نقادوں نے ان کے فن کی مکمل اور منصفانہ تشخیص نہیں کی۔
آغا حشر نے ڈراما نگاری کا آغاز 1901ء میں کیا، اور ان سے پہلے اردو ڈرامے میں سنسکرت ڈراما نگاری کے باوجود کوئی مضبوط روایت قائم نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت کے ڈراموں میں پریوں شہزادوں اور غیر حقیقی کہانیوں کا غلبہ تھا۔ ڈراما کا مقصد زیادہ تر عوام کی تفریح اور مالی فائدہ حاصل کرنا تھا جیسے آج کل فلموں کا مقصد ہوتا ہے۔ مکالمات میں تکلف اور فصاحت کی بھرمار ہوتی تھی اور گیتوں کا حد سے زیادہ استعمال کیا جاتا تھا۔
آغا حشر نے ابتدا میں اپنے پیش روؤں کی روایت کی پیروی کی لیکن جلد ہی انہوں نے اپنے منفرد تخلیقی شعور کی بنیاد پر نئی راہیں تلاش کیں۔ انہوں نے ڈراموں میں عوامی گفتگو اور روزمرہ زبان کو متعارف کرایا اور ڈراما کی زبان کو جدید نثری اسلوب سے ہم آہنگ کیا۔ ان کے ڈرامے جیسے “یہودی کی لڑکی”، “رستم و سہراب” اور “سلور کنگ” اسلوب میں جدت اور سماجی مسائل کی عکاسی کے حوالے سے ان کی خصوصیات کو اجاگر کرتے ہیں۔
آغا حشر نے اردو ڈرامے کو نہ صرف موضوعات میں وسعت دی بلکہ عوام کے شعور اور آزادی کی تحریکوں کو بھی متحرک کیا۔ ان کے بعد اسٹیج ڈرامے کا فن پیچھے چلا گیا اور فلموں نے ڈرامے کی روایت کو متاثر کیا۔ لیکن آغا حشر کی ڈراما نگاری نے اردو ادب میں انقلاب برپا کیا اور انہیں اس فن میں پریم چند اور اقبال کے برابر کا تخلیقی مرتبہ دیا گیا۔انکی بدولت اردو ڈراما نگاری میں ایک نیا دور شروع ہوا جس میں سماجی اور معاشرتی مسائل کو اہمیت دی جانے لگی۔
مختصر ترین سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ لطف الرحمن کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟
جواب ۔ لطف الرحمن کی پیدائش 1941ء میں چھپرہ ضلع کے بنیار پور قصبہ میں ہوئی۔
سوال 2 ۔ لطف الرحمن کسی پارٹی کے وزیر اور ایم ایل اے رہے؟
جواب ۔ لطف الرحمن بھاگلپور اسمبلی حلقہ سے منتخب ہوئے اور راشٹریہ جنتا دل سرکار میں کابینہ درجہ کے وزیر رہے۔
سوال 3 ۔ لطف الرحمن کی کسی دو کتابوں کا نام لکھئے۔
جواب ۔ لطف الرحمن کی دو کتابیں یہ ہیں: (1) جدیدیت کی جمالیات (2) نقد نگاہ
سوال 4 ۔ آغا حشر کے کسی ایک ڈراما کا نام لکھئے۔
“جواب ۔ آغا حشر کا مشہور ڈراما ہے: “یہودی کی لڑکی
سوال 5 ۔ ڈراما کی تکمیل کا لازمی عنصر کیا ہے؟
جواب ۔ ڈراما کی تکمیل کے لئے زبان کی خوبصورتی، مکالمات کی فصاحت اور عوامی زندگی کے حقائق کی عکاسی ضروری عناصر ہیں۔
مختصر سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ لطف الرحمن کی زندگی کے بارے میں پانچ جملے لکھئے۔
جواب ۔
لطف الرحمن 1941ء میں چھپرہ ضلع کے بنیار پور میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے ڈبل ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔
وہ بھاگلپور یونیورسٹی میں اردو کے صدر شعبہ رہے۔
لطف الرحمن نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور کابینہ درجہ کے وزیر بنے۔
انہوں نے تنقید، افسانہ نگاری اور شاعری میں اہم کام کیا۔
سوال 2 ۔ مضمون نگاری کی مختصر تعریف لکھئے۔
جواب ۔
مضمون نگاری ایک ایسا ادبی فن ہے جس میں لکھاری کسی خاص موضوع پر اپنے خیالات اور نظریات کو ترتیب وار انداز میں پیش کرتا ہے۔
سوال 3 ۔ تنقید کے بارے میں پانچ جملے لکھئے۔
جواب ۔
تنقید ایک ادبی صنف ہے جس میں کسی تحریر، فن پارے یا کتاب کی خوبیاں اور خامیاں بیان کی جاتی ہیں۔
اس کا مقصد فن کو بہتر بنانا اور قاری کو صحیح انداز میں سمجھانا ہوتا ہے۔
تنقید میں معروضی انداز سے جائزہ لیا جاتا ہے۔
تنقید نگار کو فن، ادب اور زبان کا وسیع علم ہونا چاہئے۔
اچھی تنقید فن پارے کی بہتر تفہیم میں مدد دیتی ہے۔
سوال 4 ۔ ڈراما کی مختصر تعریف لکھئے۔
جواب۔
ڈراما ایک ادبی صنف ہے جس میں کرداروں کے ذریعے کہانی کو مکالمات کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ناظرین کو تفریح کے ساتھ ساتھ زندگی کے مسائل پرغوروفکر کی دعوت دینا ہوتا ہے۔
سوال 5 ۔ آغا حشر کشمیری کی ڈراما نگاری پر پانچ جملے لکھئے۔
جواب ۔
آغا حشر کشمیری کو اردو ڈرامے کا شیکسپیئر کہا جاتا ہے۔
انہوں نے اپنے ڈراموں میں عصری مسائل اور سماجی حقیقتوں کو اجاگر کیا۔
ان کے مکالمات فصیح اور جاندار ہوتے تھے جو ناظرین پر گہرا اثر ڈالتے تھے۔
ان کے مشہور ڈراموں میں “یہودی کی لڑکی” اور “رستم و سہراب” شامل ہیں۔
آغا حشر نے اردو ڈراما کو ایک نئی جہت دی اور اسے فنی اعتبار سے مضبوط بنایا۔