ناول
اردو نثر میں ناول ایک اہم صنف ہے۔ ناول کے ذریعے ہم اپنی زندگی ماحول اور روزمرہ کے معاملات کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ صنف بنیادی طور پر مغربی ادب کی دین ہے۔ برطانیہ کی ادیبہ کلا رادیوز نے ناول کو اس طرح بیان کیا ہے “ناول اس دور کی زندگی اور معاشرت کی کچی تصویر ہوتی ہے جس میں وہ لکھا جاتا ہے۔” یعنی ناول کا مقصد حقیقی زندگی اور اس کے ماحول کی واضح ترجمانی کرنا ہے۔ فنی لحاظ سے پلاٹ، کردار، ماحول، مکالمہ، جذبات نگاری، فلسفہ حیات اور زبان ناول کے اہم عناصر ہیں۔
مغربی ممالک میں صنعتی انقلاب کے بعد ناول نگاری کی ابتدا ہوئی اور جلد ہی ناول نگاروں کا ایک گروہ سامنے آیا جس کی کوششوں سے ناول کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ اردو میں ناول کے فروغ میں ڈپٹی نذیر احمد کا نام اہم ہے۔ انہوں نے “مراۃ العروس” کے نام سے ایک کہانی لکھی جسے بعد میں اردو کا پہلا ناول کہا گیا۔ نذیر احمد نے چھ ناول لکھے اور ان کے ناولوں کا مقصد قوم کی اصلاح اور معاشرتی بہتری تھا۔ شاد عظیم آبادی کے ناول “صورت الخیال” اور حالی کے “مجالس النساء” “رشیدۃ النساء” اور “اصلاح النساء” بھی نذیر احمد کی تقلید میں لکھے گئے۔
اسی دور میں عبدالحلیم شرر اور پنڈت رتن ناتھ سرشار نے ناول نگاری میں ایک نیا انداز اپنایا۔ شرر نے تاریخ کے پردے میں اپنی باتیں کہی جبکہ سرشار نے تہذیب و ثقافت اور اقدار کو اپنے ناولوں کی بنیاد بنایا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ناول کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ مرزا ہادی رسوا کا ناول “امراؤ جان ادا” اس دور کی اہم مثال ہے۔ ناول کی فنکاری اور تکنیک کے لحاظ سے مرزا ہادی رسوا نے جو بنیاد رکھی اس کا عروج پریم چند کے ناولوں میں نظر آتا ہے۔ پریم چند نے “گودان” جیسے عظیم ناول لکھے اور ان کے پندرہ ناول اس کی عمدہ مثال ہیں۔
پریم چند کے بعد ترقی پسند ناول نگاروں میں سجاد ظہیر کا ناول “لندن کی ایک رات” ہے۔ کرشن چندر اور عصمت چغتائی بھی ترقی پسند ناول نگاروں میں مقبول ہیں۔ اردو ناول کا سفر مسلسل جاری ہے اور اس میں نئے نئے رنگ شامل ہوتے رہے ہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد
ڈپٹی نذیر احمد کا پیدائش 8 دسمبر 1836ء کو ضلع بجنور کے ایک گاؤں کو ریٹر میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام سعادت علی تھا۔ ان کا خاندان ایک بزرگ عبد الغفور اعظم پوری سے جڑا ہوا تھا جو شاہ عبد القدوس گنگوہی کے مشہور خلفاء میں سے تھے۔ نذیر احمد کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں ہوئی جہاں انہوں نے عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے والد اور مولوی نصر اللہ سے حاصل کی۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے نذیر احمد دہلی گئے اور 1845ء میں دہلی کالج میں داخل ہوئے۔ یہاں انہوں نے 1853ء تک تعلیم حاصل کی۔ اس دوران ان کی شادی مولوی عبد الخالق کی پوتی سے ہو گئی۔ نذیر احمد کے والد کا انتقال ان کی 13 سال کی عمر میں ہوا جس کے بعد انہیں فکرِ معاش ستانے لگی۔ انہوں نے پنجاب میں ایک اسکول میں معلمی شروع کی مگر مطمئن نہ ہونے پر استعفیٰ دے دیا۔ پھر کانپور میں مدارس کے ڈپٹی انسپکٹر بنے لیکن یہاں بھی مشکلات کی وجہ سے نوکری چھوڑنی پڑی۔
ڈپٹی نذیر احمد کو اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کا پہلا ناول “مراۃ العروس” 1869ء میں شائع ہوا جس کے دو کردار اکبری اور اصغری آج بھی مشہور ہیں۔ اس کے بعد 1872ء میں ان کا ناول “نبات النعش” شائع ہوا جس میں تعلیم پر زور دیا گیا ہے۔ ان کے اہم ناولوں میں “توبۃ النصوح” (1877ء)، “فسانہ مبتلا” (1885ء)، اور “ابن الوقت” شامل ہیں۔ نذیر احمد نے اپنے ناولوں کے ذریعے معاشرتی اصلاحات کو فروغ دیا۔
ان کا آخری ناول “رویاۓ صادقہ” 1884ء میں شائع ہوا۔ نذیر احمد کا انتقال 28 دسمبر 1910ء کو ہوا جب وہ 74 سال کے تھے۔
“فہمیدہ اور منجھلی بیٹی حمیدہ کی گفتگو” کا خلاصہ
یہ مکالمہ فہمیدہ اور اس کی بیٹی حمیدہ کے درمیان ہے جو ایک روز اپنے والد کو نماز پڑھتے دیکھتی ہے اور اس کے بعد اپنی ماں سے مختلف سوالات پوچھنے لگتی ہے۔ حمیدہ نے کبھی پہلے نماز کو اتنی غور سے نہیں دیکھا تھا اس لیے اسے یہ عمل عجیب لگتا ہے۔ وہ اپنی ماں سے پوچھتی ہے کہ نماز کیا ہوتی ہے اور پھر وہ یہ سوال کرتی ہے کہ “خدا” کیا چیز ہے۔ فہمیدہ، حمیدہ کے معصوم سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتاتی ہے کہ نماز خدا کی عبادت ہے اور خدا وہ ذات ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے ہمیں روزی دیتا ہے اور ہماری دیکھ بھال کرتا ہے۔
حمیدہ حیرانی سے پوچھتی ہے کہ اگر خدا ہی سب کچھ کرتا ہے تو پھر ہم خود کھانا کیسے بناتے ہیں اور اگر خدا ہم سب کا مالک ہے تو ہم اس کے کیا کام کرتے ہیں؟ اس پر فہمیدہ اسے بتاتی ہے کہ نماز پڑھنا اور خدا کی تعریف کرنا ہی اس کا کام ہے۔ حمیدہ مزید پوچھتی ہے کہ اگر سب کو نماز پڑھنی چاہیے تو کیا وہ بھی پڑھ سکتی ہے؟ وہ معصومیت سے یہ بھی کہتی ہے کہ اگر ہم خدا کے بندے ہیں تو ہمیں اس کا کام اور بہتر طریقے سے کرنا چاہیے کیونکہ جو لوگ کام نہیں کرتے ان کو تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے اور اگر خدا ہم سے ناراض ہو جائے تو وہ ہمیں کھانا دینا بند کر سکتا ہے۔
فہمیدہ، حمیدہ کے معصوم اور سیدھے سوالات سے اندرونی طور پر بے حد شرمندہ ہو جاتی ہے کیونکہ وہ خود نماز نہیں پڑھتی تھی اور اسے اپنی کوتاہیوں کا احساس ہوتا ہے۔ حمیدہ مزید کہتی ہے کہ اگر خدا ہم سب کی دیکھ بھال کرتا ہے تو ہم اس کے شکر گزار کیوں نہیں ہوتے؟ فہمیدہ اسے یقین دلاتی ہے کہ خدا اس پر ناراض نہیں ہے کیونکہ وہ ابھی چھوٹی ہے اور اس کے لیے نماز معاف ہے۔
مکالمے کے دوران نصوح فہمیدہ کے شوہر بھی یہ گفتگو سنتے ہیں اور اپنی بیٹی کے معصوم سوالات سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے دلوں میں معصومیت اور پاکیزگی ہوتی ہے اور وہ بہت جلد صحیح راستے پر آ سکتے ہیں اگر انہیں درست تعلیم دی جائے۔ نصوح اور فہمیدہ آپس میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ بچوں کی تربیت اور انہیں مذہب کی صحیح تعلیم دینے کا کام باقاعدگی سے کریں گے تاکہ وہ زندگی میں درست راستے پر چل سکیں۔
یہ مکالمہ نہایت سادہ لیکن گہرائی رکھنے والی گفتگو کو ظاہر کرتا ہے جہاں ایک بچی اپنی معصومیت اور تجسس سے اپنے والدین کو دین اور عبادت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس میں مذہبی تعلیم والدین کی ذمہ داری اور بچوں کی معصومیت کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔
مختصر ترین سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ نذیر احمد کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
جواب ۔ نذیر احمد 8 دسمبر 1836ء کو ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔
سوال 2 ۔ نذیر احمد کے کسی دو ناول کا نام لکھیے ۔
جواب ۔ نذیر احمد کے دو ناولوں کے نام: “مراۃ العروس” اور “توبۃ النصوح”۔
سوال 3 ۔ فہمیدہ اور حمیدہ نصوح کی کون تھیں؟
جواب ۔ فہمیدہ اور حمیدہ نصوح کی بیوی اور بیٹی تھیں۔
سوال 4 ۔ نذیر احمد نے کس کی تعلیم و تربیت کے لئے ناول لکھے۔
جواب ۔ نذیر احمد نے اپنی قوم کی تعلیم و تربیت اور معاشرتی اصلاح کے لئے ناول لکھے۔
سوال 5 ۔ زیر نصاب ناول کے اقتباس سے دو کرداروں کے نام لکھئے۔
جواب ۔ زیر نصاب ناول کے اقتباس سے دو کرداروں کے نام: فہمیدہ اور حمیدہ۔
مختصر سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ نذیر احمد کے بارے میں پانچ جملے لکھئے۔
جواب ۔
نذیر احمد اردو ادب کے مشہور ناول نگار ہیں۔
ان کا پہلا ناول “مراۃ العروس“ ہے۔
ان کے ناولوں میں اصلاحی موضوعات پر زور دیا گیا ہے۔
ان کے ناولوں کے مقبول کردار اکبری اور اصغری آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔
وہ اردو کے اولین ناول نگار تسلیم کیے جاتے ہیں۔
ان کا انتقال 1910ء میں ہوا۔
سوال 2 ۔ فہمیدہ کے کردار پر مختصر روشنی ڈالئے۔
جواب ۔
فہمیدہ ایک فکری حساس اور تربیت یافتہ عورت ہیں جو اپنے بچوں کی تعلیم اور اخلاقی تربیت پر خاص دھیان دیتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان کے سوالات کا دھیان سے جواب دیتی ہیں۔
سوال 3 ۔ اردو کے کسی پانچ ناول کا نام لکھئے۔
جواب ۔
اردو کے پانچ مشہور ناول
گودان (پریم چند)
امراؤ جان ادا (مرزا ہادی رسوا)
آگ کا دریا (قرۃ العین حیدر)
اداس نسلیں (عبداللہ حسین)
امر بیل (بانو قدسیہ)
سوال 4 ۔ سرسید کے عناصر خمسہ کی حیثیت سے نذیر احمد کی خدمات پر روشنی ڈالئے۔
جواب ۔
نذیر احمد کی خدمات کو سرسید احمد خان کے عناصر خمسہ میں اہم حیثیت حاصل ہے۔ نذیر احمد نے اردو ادب میں اصلاحی ناول لکھ کر تعلیم، معاشرت اور مذہب کے حوالے سے عوام کو بہتر زندگی گزارنے کے اصول سکھائے جس کی وجہ سے وہ سرسید تحریک کا اہم ستون تصور کیے جاتے ہیں۔
سوال 5 ۔ اصلاحی جذبے پر پانچ جملے لکھئے۔
جواب ۔
اصلاحی جذبے پر پانچ جملے
نذیر احمد کے ناول اصلاح معاشرت کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔
اصلاحی ادب کا مقصد معاشرے کی فکری اور عملی اصلاح ہوتا ہے۔
اصلاحی ادب لوگوں کو بہتر اخلاق اور زندگی کے اصول سکھاتا ہے۔
اصلاحی جذبہ قوم کو علم اور عمل کی طرف راغب کرتا ہے۔
اردو ادب میں اصلاحی ناول نگاری نے جدید خیالات کو فروغ دیا۔
طویل سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ نذیر احمد کی ناول نگاری کا جائزہ لیجئے۔
جواب۔
نذیر احمد اردو ناول نگاری کے اولین اور ممتاز ادیب ہیں۔ انہیں اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کی تصانیف نے اردو نثر میں اصلاحی ناول کی بنیاد رکھی۔ نذیر احمد کی ناول نگاری کا مقصد معاشرتی اصلاح اور تعلیم کا فروغ تھا۔ ان کے ناول زیادہ تر خواتین اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے لکھے گئے ہیں جس میں خاص طور پر مسلم معاشرے کی خواتین کی تعلیم اور ان کی اخلاقی اصلاح پر زور دیا گیا۔
الف۔ اصلاحی ادب کی روایت: نذیر احمد کے ناول اصلاحی نوعیت کے ہوتے تھے جن میں معاشرتی مسائل کی عکاسی اور ان کا حل پیش کیا جاتا تھا۔ ان کے ناولوں کا مقصد خواتین میں تعلیم کا فروغ بچوں کی تربیت، اور مذہبی و اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ ان کے ناول جیسے “مراۃ العروس” اور “توبۃ النصوح” میں اصلاحی پیغام موجود ہے۔
ب۔ معاشرتی مسائل کی عکاسی: نذیر احمد کے ناولوں میں معاشرتی برائیوں اور روایات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مثلاً “مراۃ العروس” میں خواتین کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور خواتین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس ناول کے کردار اصغری اور اکبری نے سماج میں خواتین کی حیثیت اور ان کی ذمہ داریوں کی عکاسی کی ہے۔
ج۔ کردار نگاری: نذیر احمد کے کردار جاندار اور حقیقت پسندانہ ہیں۔ ان کے کردار عام معاشرتی زندگی سے لیے گئے ہیں اور ان کے اعمال اور جذبات معاشرتی تقاضوں کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ جیسے کہ “توبۃ النصوح” کا کردار نصوح ایک عام مسلمان مرد ہے جو اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتا ہے۔ نذیر احمد نے اپنے کرداروں کے ذریعے معاشرتی اصلاح کے پیغام کو عوام تک پہنچایا۔
د۔ زبان و اسلوب: نذیر احمد کی زبان سادہ اور عام فہم تھی جس میں روایتی اصلاحی نثر کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا بھی عکس موجود تھا۔ ان کا اسلوب براہ راست اور اصلاحی ہے جس میں مذہبی تعلیمات اور اخلاقیات کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ انہوں نے عام لوگوں کو مخاطب کیا اور ان کی روزمرہ زبان میں لکھا تاکہ ان کے پیغام کو آسانی سے سمجھا جا سکے۔
ہ۔ ناولوں کی اہمیت: نذیر احمد کے ناول اردو ادب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے ناولوں نے معاشرتی بیداری اور اصلاح کے عمل کو فروغ دیا اور مسلم معاشرت میں ایک نئی سوچ پیدا کی۔ ان کے ناول آج بھی اردو ادب کے طالب علموں اور محققین کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔
سوال 2 ۔ اردو میں ناول نگاری پر ایک مضمون لکھئے۔
جواب ۔
اردو ادب میں ناول نگاری کی ابتدا انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہوئی۔ یہ صنف بنیادی طور پر مغربی ادب کی دین ہے جو اردو زبان میں اصلاحی، سماجی اور تہذیبی پہلوؤں کے اظہار کا ایک اہم ذریعہ بنی۔ اردو ناول نے آہستہ آہستہ اپنی پہچان بنائی اور اس نے معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
الف۔ ابتدا: اردو ادب میں ناول کی ابتدا ڈپٹی نذیر احمد کے ذریعے ہوئی۔ ان کا پہلا ناول “مراۃ العروس” 1869ء میں شائع ہوا جسے اردو کا پہلا مکمل ناول مانا جاتا ہے۔ نذیر احمد نے اس ناول میں خواتین کی تعلیم اور تربیت کو موضوع بنایا اور اصلاحی ناولوں کی ایک روایت قائم کی۔
ب۔ ترقی پسند دور: پریم چند کو اردو ناول کا باپ کہا جاتا ہے۔ ان کے ناول “گودان” اور “کرشن چندر” نے اردو ناول کو ایک نیا موڑ دیا۔ پریم چند کے ناولوں میں معاشرتی ظلم و ستم، کسانوں کی مشکلات اور طبقاتی تقسیم کو موضوع بنایا گیا۔ انہوں نے ناول کو محض تفریح کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اسے سماجی بیداری اور احتجاج کا وسیلہ بنایا۔
ج۔ اہم ناول نگار: پریم چند کے بعد عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، بانو قدسیہ اور انتظار حسین جیسے ناول نگاروں نے اردو ادب کو بے مثال شاہکار دیے۔ ان کے ناولوں میں تہذیب، ثقافت، تاریخ اور انسانی نفسیات کی عکاسی کی گئی ہے۔
د۔ جدید اردو ناول: اردو ادب میں ناول کی صنف مسلسل ارتقاء پذیر رہی ہے۔ آج کل کے ناول نگار موجودہ دور کے مسائل جیسے معاشرتی بے چینی، سیاسی کشمکش، دہشت گردی اور عالمی تعلقات کو موضوع بناتے ہیں۔ موجودہ دور میں انور سن رائے مستنصر حسین تارڑ اور محمد حنیف جیسے ادیب جدید اردو ناول کے نمایاں چہرے ہیں۔
سوال 3 ۔ زیر نصاب اقتباس کا مرکزی خیال پیش کیجئے۔
جواب ۔
زیرِ نصاب اقتباس نذیر احمد کے مشہور اصلاحی ناول “توبۃ النصوح” سے لیا گیا ہے جس کا مرکزی خیال مذہبی تعلیمات اور اصلاح نفس کے گرد گھومتا ہے۔ اس اقتباس میں نصوح کی بیوی فہمیدہ اور ان کی بیٹی حمیدہ کے درمیان ایک مکالمہ پیش کیا گیا ہے جس میں حمیدہ معصومیت سے خدا، عبادت اور زندگی کے متعلق سوالات کرتی ہے۔ حمیدہ کی معصومانہ باتیں مذہب اور عبادت کی اصل حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں۔
مرکزی خیال یہ ہے کہ انسان کو اپنی زندگی میں مذہبی اصولوں اور اخلاقی ضابطوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اس اقتباس میں مذہبی تعلیمات کی سادگی اور فطری انسانی معصومیت کی عکاسی کی گئی ہے۔ حمیدہ کی معصومیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مذہب کی تعلیمات ہر عمر کے انسان کو سمجھ میں آسکتی ہیں، بشرطیکہ ان کی صحیح رہنمائی کی جائے۔ نذیر احمد نے اس مکالمے کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ بچوں کی ابتدائی عمر میں مذہبی تعلیم و تربیت انتہائی ضروری ہے اور اس کی غفلت کا نتیجہ مستقبل میں بہتری کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
سوال 4 ۔ درج ذیل الفاظ سے جملے بنائیے
جواب ۔
نوع قسم: یہ مختلف نوع قسم کے پھل ہیں جو بازار میں دستیاب ہیں۔
ضد: علی اپنی ضد پر قائم رہا اور اس نے کسی کی بات نہیں مانی۔
تربیت: والدین بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اثر: اس کی باتوں کا مجھ پر گہرا اثر ہوا۔
مستحق: وہ شخص اپنے محنت کے صلے میں انعام کا مستحق ہے۔