Bihar Board Class 10 Urdu Chapter 16 Bedi se Interview بیدی سے انٹرویو Solutions

انٹرویو دو لوگوں کے درمیان کسی خاص موضوع پر بات چیت یا ملاقات کو کہتے ہیں۔ آج کے دور میں اس کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے انسان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ انٹرویو ایک خاص مقصد کے ساتھ کیا جانے والا مکالمہ ہوتا ہے جس میں انٹرویو لینے والا شخص سامنے بیٹھے ہوئے فرد کی شخصیت، سوچ، عادات اور نفسیات کو گفتگو کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اردو ادب میں انٹرویو کو ابھی تک زیادہ جگہ نہیں ملی ہے لیکن جلد ہی اسے اردو نثر کی اصناف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

عہدِ حاضر کے چند مشہور افسانہ نگاروں میں راجندر سنگھ بیدی کا نام شامل ہے۔ وہ انسانی نفسیات کو خوب سمجھتے ہیں اور زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتیں ان کے افسانوں کا موضوع بنتی ہیں۔ بیدی کی پیدائش یکم ستمبر 1915ء کو لاہور میں ہوئی۔ ان کے فن کی سب سے بڑی خوبی ان کا کردار نگاری کا ہنر ہے۔ وہ اپنے افسانوں کے کرداروں کو ایسے تراشتے ہیں جیسے ایک سنگ تراش پتھر کو خوبصورت شکل میں ڈھالتا ہے۔ ان کے افسانوں کی رونق ان کے کرداروں سے آتی ہے جو رنگین تخیل اور مضبوط خیالات کے حامل ہوتے ہیں۔

بیدی نے اپنے افسانوں میں نئی تشبیہیں اور منفرد اشارے تخلیق کیے ہیں۔ ان کے افسانوں میں جذباتیت کرداروں کی گہری سوچ، نفسیاتی تجزیہ اور پس منظر میں عام زندگی کے مسائل دکھائے گئے ہیں۔ بیدی کی افسانوی سوچ ان کے کرداروں کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے اور ایک منفرد کیفیت پیدا کرتی ہے۔ بیدی نے اپنے افسانوں کا مواد درمیانے طبقے کی زندگی سے لیا اور زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بڑے سلیقے سے پیش کیا۔

بیدی کی خوش قسمتی یہ تھی کہ ان کے پہلے افسانوی مجموعے “دانہ و دوام” نے ہی اردو ادب میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ خواجہ غلام السیدین جیسے بڑے نقاد بھی بیدی کی عظمت کے معترف تھے اور ان کے ہم عصر خواجہ احمد عباس نے تو بیدی کو اردو افسانہ کا رہنما قرار دیا تھا۔ سچ یہ ہے کہ اردو کے بڑے افسانہ نگاروں میں بیدی کا نام نمایاں ہے۔ ان کے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور مختلف تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل ہیں۔ افسانوی ادب کے اس عظیم فنکار کا انتقال 11 نومبر 1984ء کو ہوا۔

جواب ۔ عصمت چغتائی اور فیاض رفعت۔

جواب ۔ راجندر سنگھ بیدی۔

جواب ۔ لاہور میں۔

جواب ۔ “مہارانی کا تحفہ”۔

جواب ۔ 11 نومبر 1984ء کو۔

یکم ستمبر 1915ء۔

پوسٹ آفس اور آل انڈیا ریڈیو۔

پوسٹ آفس۔

عصمت چغتائی اردو ادب کی مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار تھیں۔

وہ مزاح نگار عظیم بیگ چغتائی کی بہن تھیں۔

ان کی کہانیوں اور ناولوں نے اردو ادب میں اہم اضافہ کیا۔

ان کی تحریروں میں سماجی حقیقت نگاری کی عکاسی ہوتی ہے۔

عصمت چغتائی نے خواتین کے مسائل اور جذبات کو بہترین انداز میں پیش کیا۔

پنجاب پبلک لائبریری میں۔

عصمت چغتائی اردو ادب کی اہم افسانہ نگار اور ناول نگار تھیں۔

ان کی تحریریں معاشرتی مسائل خاص طور پر خواتین کے مسائل پر روشنی ڈالتی ہیں۔

عصمت چغتائی نے نڈر اور بے باک انداز میں موضوعات کو پیش کیا۔

ان کی شاہکار کہانی “لحاف” نے ادب میں ایک نیا باب کھولا۔

وہ اردو میں جدید افسانے کی ایک نمایاں شخصیت تھیں۔

عصمت نے زندگی کے تلخ حقائق کو تخلیقی انداز میں بیان کیا۔

انہوں نے اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کی مانند مزاح بھی لکھا۔

عصمت نے اپنی تحریروں میں نسوانی جذبات کو بخوبی پیش کیا۔

ان کی تحریروں نے اردو ادب کے سرمایہ کو مالا مال کیا۔

عصمت چغتائی ادب میں ترقی پسند تحریک کی نمایاں رکن تھیں۔

دانہ و دوام

گرم کوٹ

ایک چادر میلی سی

راجندر سنگھ بیدی نے عام زندگی کے مسائل اور انسانی نفسیات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔

ان کے کردار حقیقت کے قریب اور جذباتی گہرائی سے بھرپور ہوتے ہیں۔

بیدی نے معاشرتی حقیقت نگاری کو تخلیقی اور نفسیاتی انداز میں پیش کیا۔

ان کے افسانے سادہ اور چھوٹے جملوں میں بڑی باتیں بیان کرتے ہیں۔

بیدی کے افسانوں میں جذبات کی شدت اور زندگی کی تلخیاں نمایاں ہوتی ہیں۔

بہار کے عہد حاضر کے چند ممتاز افسانہ نگاروں کے نام

مشرف عالم ذوقی

شموئل احمد

محمد حسن

شخص:  اشخاص

ادب:  آداب

صنف:  اصناف

حقیقت:  حقائق

عصر:  عصور

حصہ:  حصے

کیفیت:  کیفیات

خیل:  اخیلہ

بلند:  پست

حقیقت: افسانہ

وجود: عدم

تلخ: شیریں

لائق: نالائق

زندگی: موت

خوش بختی:  بدبختی

قریب: دور

ممکن: ناممکن

شروع: اختتام

عصمت آپا شروع کریں گی اور میں جواب دوں گا۔

میں سمجھتا ہوں لاہور میں جب پوسٹ آفس میں کام کرتے تھے۔

اس انٹرویو کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس میں زیادہ تر سوالات عصمت چغتائی نے کئے ہیں۔

ء1948 میں آپ اسٹیشن ڈائرکٹر بھی رہے ہیں۔

Scroll to Top