نظم
اردو نظم کی روایت سرسید تحریک سے پہلے بھی موجود تھی مگر سرسید احمد خان کی تحریک کے بعد مغربی خیالات سے استفادے کے نتیجے میں نظم نگاری میں ایک بڑا انقلاب آیا۔ اس تحریک کے دوران محمد حسین آزاد اور خواجہ الطاف حسین حالی نے نظم گوئی کو فروغ دیا اور نظم نگاروں کی ایک جماعت تشکیل دی جس سے اردو ادب کے جدید دور کا آغاز ہوا۔ اسماعیل میرٹھی، شبلی نعمانی، اکبر الہ آبادی اور دیگر شعرا نے نظم نگاری کی روایت کو مستحکم کیا۔
بیسویں صدی میں اقبال نے اردو نظم میں ایسی تبدیلیاں کیں جنہوں نے اسے فکری اور فلسفیانہ موضوعات کے لیے موزوں بنا دیا۔ اقبال کی شاعری نے اردو نظم میں ساخت اور مواد دونوں سطحوں پر انقلاب برپا کیا اور انہیں بیسویں صدی کا عظیم ترین شاعر قرار دیا گیا۔ اقبال کے بعد اردو میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا جس نے خارجی اور داخلی مسائل کو نظم کا موضوع بنایا۔
اس دور میں جوش، اختر شیرانی اور فراق جیسے شعرا نے اہم کام کیا۔ انقلابی، رومانی اور فلسفیانہ موضوعات پر نظمیں کہی گئیں۔ آزاد اور معری نظمیں بھی اس دور میں مقبول ہوئیں جن کے باعث پابند نظم کی روایت کمزور پڑنے لگی۔ فیض احمد فیض، مجاز، مخدوم محی الدین اور جاں نثار اختر جیسے شعرا نے ترقی پسند نظم کو عروج دیا۔
جدید اردو نظم میں راشد، میرا جی اور اختر الایمان نے علامتی اور داخلی پہلوؤں کو شامل کر کے نظم کو نئے انداز میں پیش کیا۔ وزیر آغا، شہریار، افتخار عارف اور ندا فاضلی جیسے شعرا جدید نظم کے اہم نمائندے ہیں۔ اس دور میں شاعرات کا بھی نمایاں کردار رہا جن میں شفیق فاطمہ شعری، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر شامل ہیں۔
موجودہ دور میں اردو نظم فکری اور فلسفیانہ خیالات کے اظہار کا مؤثر ذریعہ بن چکی ہے اور اس نے ادبی دنیا میں اپنی مضبوط جگہ بنا لی ہے۔
چکبست
پنڈت برج نارائن چکبست کا اصل نام تھا اور “چکبست” ان کا تخلص تھا۔ وہ 1882ء میں فیض آباد (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ چونکہ ان کے آبا و اجداد کا تعلق لکھنو سے تھا اس لیے وہ بچپن میں ہی لکھنو چلے آئے اور وہیں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ لکھنو کے اویکنگ کالج میں داخلہ لیا اور 1905ء میں بی اے کیا پھر 1908ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے وکالت شروع کی اور آہستہ آہستہ لکھنو کے مشہور وکیلوں میں شمار ہونے لگے۔
چکبست نے 1926ء میں رائے بریلی میں ایک مقدمہ کے سلسلے میں عدالت گئے جہاں کامیابی سے بحث کی۔ اسی دن دوپہر کو وہ واپس لکھنو جانے کے لیے اسٹیشن پر آئے لیکن ٹرین میں بیٹھتے ہی انہیں دماغ پر فالج کا حملہ ہوا اور ان کی زبان بند ہو گئی۔ علاج کیا گیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اسی شام 7 بجے چکبست کا اسٹیشن پر ہی انتقال ہو گیا۔ ان کی لاش کو لکھنو لایا گیا اور آخری رسومات ادا کی گئیں۔
چکبست ایک فطری شاعر تھے اور انہیں بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا۔ 9-10 سال کی عمر میں انہوں نے پہلی غزل کہی اور پھر زندگی بھر شاعری کرتے رہے۔ چکبست، آتش، غالب اور انیس کے شیدائی تھے اور ان کی شاعری پر ان اساتذہ کا اثر نمایاں تھا۔ ان کی غزلوں میں آتش کا رنگ اور مسدس میں انیس کی تقلید کا اثر نظر آتا ہے۔ اگرچہ خیالات میں انہوں نے اپنے اساتذہ سے مختلف موضوعات کو اپنایا، لیکن زبان کی خوبصورتی، الفاظ کا چناؤ اور ترکیبوں کی خوبصورتی میں ان کی تقلید واضح تھی۔
چکبست نے اپنی شاعری میں نئے خیالات کو شامل کیا لیکن زبان کی مٹھاس، انداز بیان کی لطافت اور پاکیزگی کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ان کے نزدیک الفاظ کی خوبصورت ترتیب ہی اصل شاعری ہے جیسا کہ آتش نے کہا تھا۔
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں”
“شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
نظم “مناظر قدرت” کا خلاصہ
اس نظم میں شاعر نے قدرت کے خوبصورت مناظر کی تعریف کی ہے اور ان سے حاصل ہونے والی سکون و طمانیت کا اظہار کیا ہے۔ شاعر بیان کرتا ہے کہ پہاڑوں کی فضا میں ایسی ہوا ہے جو انسان کی روح کو آرام اور سکون فراہم کرتی ہے۔ چاروں طرف ایک خاموشی اور سکون کا عالم ہے جہاں شور شرابہ اور دنیا کی مشکلات نہیں ہیں۔
قدرت کے نغمے دل میں سرور اور تاثیر پیدا کرتے ہیں اور یہ وہ راگ ہے جسے سننے کے لیے کانوں کی نہیں بلکہ دل کی ضرورت ہے۔ شاعر کے مطابق جس کے دل میں محبت اور درد ہو وہی اس موسیقی کو محسوس کر سکتا ہے۔
نظم میں شاعر نے تمام مخلوقات کو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے دکھایا ہے۔ درخت، پہاڑ، چشمے، انسان، پرندے، ہوا اور بارش سب ایک ہی قدرت کے مظاہر ہیں اور سب ایک ہی سفر کا حصہ ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ ان سب میں ایک ایسی ہم آہنگی ہے جسے دیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ سب قدرت کی بانسری کے مختلف سر ہیں۔
شاعر مزید کہتا ہے کہ ہم انسانوں میں اور آبشاروں میں کوئی فرق نہیں سوائے اس کے کہ ہمارا جسم خاکی ہے اور آبشار پانی سے بنی ہیں۔ لیکن روح اور حرکت دونوں میں یکساں ہیں یعنی قدرت کی یہ تخلیقات ایک ہی حقیقت کا حصہ ہیں اور ایک دوسرے سے الگ نہیں۔
مختصر ترین سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ چکبست کا انتقال کب اور کہاں ہوا؟
جواب ۔ چکبست کا انتقال 1926ء میں رائے بریلی کے اسٹیشن پر ہوا۔
سوال 2 ۔ چکبست نے کون کون سی ڈگریاں حاصل کیں؟
جواب ۔ چکبست نے 1905ء میں بی اے کیا اور 1908ء میں وکالت کی ڈگری حاصل کی۔
سوال 3 ۔ چکبست کا انتقال کس بیماری میں ہوا؟
جواب ۔ چکبست کا انتقال دماغ پر فالج کا حملہ ہونے کی وجہ سے ہوا۔
سوال 4 ۔ چکبست کی کون سی نظم ہمارے نصاب میں شامل ہے؟
جواب ۔ چکبست کی نظم “مناظر قدرت” ہمارے نصاب میں شامل ہے۔
سوال 5 ۔ چکبست کا پورا نام کیا تھا؟
جواب ۔ چکبست کا پورا نام پنڈت برج نارائن چکبست تھا۔
مختصر سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ چکبست کے بارے میں پانچ جملے لکھیں۔
جواب ۔
چکبست کا اصل نام پنڈت برج نارائن تھا۔
ان کی پیدائش 1882ء میں فیض آباد میں ہوئی۔
انہوں نے 1905ء میں بی اے اور 1908ء میں وکالت کی ڈگری حاصل کی۔
چکبست نے لکھنو میں وکالت شروع کی اور مشہور وکیل بنے۔
فالج کے حملے سے 1926ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔
سوال 2 ۔ جدید اردو نظم کی مختصر تعریف کریں۔
جواب ۔
جدید اردو نظم میں موضوعات کو نئے انداز میں پیش کیا جاتا ہے جو عموماً فلسفیانہ اور علمی خیالات پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ نظمیں پابند یا آزاد دونوں شکلوں میں ہو سکتی ہیں۔
سوال 3 ۔ زیر نصاب نظم میں شاعر نے کہاں کی منظر نگاری کی ہے؟
جواب ۔
شاعر نے “مناظر قدرت” نظم میں قدرتی مناظر جیسے پہاڑ، آبشار، درخت اور فضا کی منظر نگاری کی ہے۔
سوال 4 ۔ نظم کے اجزائے ترکیبی پر روشنی ڈالیں۔
جواب ۔
نظم کے اجزائے ترکیبی میں شاعر نے قدرتی مناظر، روحانی احساسات، انسانی وجود اور فطرت کے درمیان تعلق کو بیان کیا ہے۔ اس میں شاعر نے فلسفیانہ خیالات کو خوبصورت الفاظ میں سمویا ہے۔
طویل سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ چکبست کی نظم نگاری کا فنی جائزہ پیش کریں۔
جواب ۔
چکبست کی شاعری فنی لحاظ سے کلاسیکی روایت کی حامل ہے لیکن ان کے خیالات اور انداز بیان جدید تھا۔ ان کی شاعری میں نظم کی بُنت الفاظ کی ترتیب اور جذبات کی ادائیگی میں ایک خاص فنی مہارت نظر آتی ہے۔ چکبست نے مرثیہ نگاری میں بھی اپنی منفرد پہچان بنائی جہاں انہوں نے غالب اور میر انیس کی تقلید کی۔ چکبست کی نظموں میں زبان کی سادگی کے باوجود خیالات کی گہرائی پائی جاتی ہے جو انہیں اپنے ہم عصر شاعروں سے ممتاز کرتی ہے۔
چکبست نے انسانی جذبات، اخلاقی اقدار اور سماجی مسائل کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ ان کی شاعری میں مقصدیت اور اخلاقیات کو اہمیت حاصل ہے لیکن وہ انہیں خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کی نظموں میں فطری مناظر کے ذریعے انسانی زندگی اور اس کے فلسفے کو بیان کیا گیا ہے۔ چکبست نے نہ صرف کلاسیکی شاعری کی روایات کو زندہ رکھا بلکہ جدید طرزِ فکر کو بھی اپنے اشعار میں سمویا۔ ان کی نظمیں پیچیدگی سے دور ہیں لیکن فنی لحاظ سے مضبوط اور پُراثر ہیں۔
سوال 2 ۔ جدید نظم کی تعریف کرتے ہوئے اس کا ارتقائی جائزہ پیش کریں۔
جواب ۔
جدید نظم کی بنیاد انیسویں صدی کے آخر میں اس وقت پڑی جب اردو ادب میں سرسید تحریک کے زیر اثر فکری بیداری کا آغاز ہوا۔ سرسید اور ان کے ساتھیوں نے مغربی ادب اور خیالات سے استفادہ کرتے ہوئے اردو نظم کو نئے سانچے میں ڈھالا۔ محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی نے اردو نظم کو نئی جہت دی جس میں انہوں نے پابند نظم کو بھی فروغ دیا اور نظم میں مقصدیت، اصلاحی پہلو اور جدید خیالات کو پیش کیا۔ یہ دور جدید نظم کا نقطۂ آغاز تھا جس نے اردو ادب میں انقلاب برپا کیا۔
بیسویں صدی میں علامہ اقبال نے نظم کو عالمانہ اور فلسفیانہ موضوعات سے روشناس کرایا اور اردو نظم میں روحانی اور فکری موضوعات کو نئی جہت دی۔ اقبال نے نظم کی ہیئت اور موضوع دونوں میں تبدیلیاں کیں جس سے اردو نظم میں فکری وسعت اور گہرائی آئی۔ ان کے بعد جوش ملیح آبادی نے قومی اور انقلابی خیالات کو اپنی نظموں میں پیش کیا جبکہ اختر شیرانی نے رومانویت کو فروغ دیا۔
ترقی پسند تحریک نے اردو نظم کو عوامی اور سماجی مسائل کی عکاسی کا ذریعہ بنایا جس میں فیض احمد فیض، علی سردار جعفری اور مجاز نے اہم کردار ادا کیا۔ ترقی پسند شعرا نے اردو نظم میں معاشرتی اور سیاسی شعور کو جگہ دی اور نظم کو انسانی حقوق، انصاف اور مساوات جیسے موضوعات سے آراستہ کیا۔
بعد ازاں راشد، میرا جی اور اختر الایمان نے اردو نظم کو داخلیت اور علامتی انداز میں پیش کیا اور جدید نظم میں فلسفیانہ اور نفسیاتی موضوعات کو داخل کیا۔ اس دور میں اردو نظم میں تجربات کیے گئے اور آزاد نظم اور معریٰ نظم جیسے نئے اسالیب سامنے آئے۔
سوال 3 ۔ زیر نصاب نظم “مناظر قدرت” کا مرکزی خیال پیش کریں۔
جواب ۔
نظم “مناظر قدرت” کا مرکزی خیال فطرت کی خوبصورتی، اس کے گہرے اثرات اور انسان کے ساتھ اس کے تعلق پر مبنی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں فطرت کے مختلف مناظر جیسے پہاڑ، آبشار، درخت اور فضا کو بیان کیا ہے اور ان کے ذریعے انسان کی روح پر ان مناظر کے اثرات کو پیش کیا ہے۔ شاعر کے نزدیک فطرت صرف ظاہری خوبصورتی نہیں رکھتی بلکہ اس میں ایک روحانی سکون اور اطمینان بھی پوشیدہ ہے جو انسان کی روح کو راحت بخشتا ہے۔
شاعر نے اس نظم میں فطرت کو ایک زندہ اور متحرک قوت کے طور پر پیش کیا ہے جو انسان کے اندرونی جذبات اور احساسات سے ہم آہنگ ہے۔ فطرت کے یہ مناظر انسان کو اس کے روحانی پہلوؤں سے جوڑتے ہیں اور اسے ایک اعلیٰ مقصد کی جانب راغب کرتے ہیں۔ شاعر کے مطابق فطرت اور انسان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ دونوں ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں۔
اس نظم کا فلسفیانہ پہلو یہ ہے کہ قدرت کی عظمت اور اس کی ہر چیز چاہے وہ آبشار ہو یا انسان، ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں اور ان کے درمیان کوئی اختلاف یا بیر نہیں۔ شاعر نے انسانی وجود کو فطرت کے مختلف اجزاء سے مربوط کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسان اور فطرت دونوں ایک ہی خالق کی تخلیق ہیں اور دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔
سوال 4 ۔ صحیح مصرعوں کا جوڑ لگائیے۔
جواب ۔
الف) فضائے کوہ میں ایسی ہوا سماتی ہے
(3)بشر کی روح کو راحت کی نیند آتی ہے
ب) یہ راگ ہے وہ جو مضراب کا اسیر نہیں
(1) یہ حرف کان کے پردوں میں گوشہ گیر نہیں
ج) جدا کسی سے بھی ہستی کا اپنے راز نہیں
(4) کچھ آبشار میں اور ہم میں امتیاز نہیں
و) بس ایک عالم ہو چار سمت طاری ہے
(2) نہ شور و شر ہے نہ دنیا کی آہ وزاری ہے