Bihar Board Class 10 Urdu Chapter 18 Nazm India Gate نظم انڈیا گیٹ Solutions

جگن ناتھ آزاد شاعر اور محقق دونوں تھے اور ان دونوں حیثیتوں میں ان کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ شاعری میں وہ غزل اور نظم دونوں میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کے والد تلوک چند محروم بھی شاعر تھے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ شاعری انہیں وراثت میں ملی تھی۔
جگن ناتھ آزاد 5 دسمبر 1918ء کو عیسی خیل میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان کے ضلع میانوالی کی تحصیل ہے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے والد سے حاصل کی جو ایک اسکول ٹیچر بھی تھے۔ ان کا داخلہ پہلے کلور کوٹ کے ایک اسکول میں تیسرے درجے میں ہوا اور 12 سال کی عمر میں انہوں نے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے موہن رائے ہندو ہائی اسکول میانوالی سے میٹرک کیا۔ جب ان کے والد کا تبادلہ راولپنڈی ہوا تو وہاں کے ڈی اے وی کالج میں داخلہ لیا اور 1933ء میں ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں انہوں نے گارڈن کالج راولپنڈی سے بی اے کیا اور 1942ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فارسی زبان و ادب میں آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ 1944ء میں انہوں نے ایم اے بھی کیا۔
ملک کی تقسیم کے وقت وہ ستمبر 1947ء میں دہلی آگئے لیکن پاکستان سے ان کا تعلق ہمیشہ برقرار رہا۔ جگن ناتھ آزاد نے مختلف ملازمتیں کیں اور آخرکار جموں یونیورسٹی میں اردو کے صدر شعبہ بنے جہاں وہ 1983ء تک رہے۔ انہیں پروفیسر امریٹس کا اعزاز بھی ملا جو انہیں زندگی بھر کے لیے دیا گیا۔ محقق کے طور پر ان کی خدمات بہت اہم ہیں اور ان کا شمار اقبالیات کے ماہرین میں ہوتا ہے۔
شاعری میں انہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی اپنی منفرد پہچان بنائی۔ وہ ترقی پسند دور کے شاعر تھے جنہوں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں کلاسیکی اور روایتی رنگ کو برقرار رکھا۔ ان کا انتقال 25 جولائی 2004ء کو دہلی میں ہوا۔

نظم “انڈیا گیٹ” میں شاعر جگن ناتھ آزاد نے دہلی میں واقع عظیم یادگار “انڈیا گیٹ” کے تاریخی پس منظر اور اس کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔ انڈیا گیٹ کو شاعر نے تاریخ کا ایک اہم حصہ اور برطانوی استعمار کی یادگار کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ عمارت نہ صرف ایک شاندار تعمیر ہے بلکہ ہندوستانیوں کی غلامی اور برطانوی حکومت کے ظلم و ستم کی علامت بھی ہے۔

شاعر نے اس یادگار کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس کے ذریعے قوم کی عظیم قربانیوں کو اجاگر کیا ہے۔ شاعر بیان کرتا ہے کہ ہندوستانی جانبازوں نے اس وطن کے چمن کو اپنے خون سے سینچا اور آزادی کے لیے جانفشانی سے لڑے۔ انڈیا گیٹ ان بہادروں کی قربانیوں اور وطن کی محبت کی ایک خاموش گواہی ہے۔ شاعر مزید کہتا ہے کہ قوم کی مشکلات اور افلاس نے بھی ہندوستانیوں کے جذبہ حب الوطنی کو بڑھایا اور وہ زیادہ سے زیادہ جوش و خروش سے آزادی کی جنگ میں شامل ہوئے۔

شاعر نے انڈیا گیٹ کو عظمت اور بلندی کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے جو قوم کے وقار اور قومی خودداری کی نشانی ہے۔ یہ نظم ہندوستانی قوم کے جذبہ قربانی اور ان کی جدوجہد آزادی کی یادگار کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔

جواب ۔ جگن ناتھ آزاد 5 دسمبر 1918ء کو پیدا ہوئے۔

جواب ۔ ان کے والد کا نام تلوک چند محروم تھا۔

جواب ۔ انڈیا گیٹ دہلی بھارت میں واقع ہے۔

جواب ۔ انڈیا گیٹ کی تعمیر برطانوی حکمرانوں نے کی تھی۔

شاعر نے انڈیا گیٹ کو تاریخ کا ایک عظیم اور بلند نشان کہا ہے۔

انڈیا گیٹ کوافرنگ(برطانوی)کی خوبصورت تعمیر اور غلامی کی علام قرار دیا ہے۔

شاعر نے ہندوستانی جانبازوں کی بہادری کو بیان کیا ہے جو وطن کی محبت میں اپنا خون بہا رہے ہیں۔

نظم میں شاعرنے بھوک اورافلاس کوجذبہ حب الوطنی کا محرک کہا ہے۔

انڈیا گیٹ کو بلندی اور عظمت کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

نظم ایک ایسی شاعری کی صنف ہے جس میں شاعر کسی خاص موضوع پر اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کرتا ہے۔ یہ موضوع قدرت، وطن، انسانی جذبات یا کسی اور چیز سے متعلق ہو سکتا ہے۔

جگن ناتھ آزاد کے تین  مشہور شعری مجموعے ہیں

جگن ناتھ آزاد 5 دسمبر 1918ء کو عیسی خیل میں پیدا ہوئے۔

ان کے والد تلوک چند محروم بھی شاعر تھے۔

انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے فارسی ادب میں ایم اے کیا۔

وہ جموں یونیورسٹی میں اردو کے صدر شعبہ رہے۔

ان کا انتقال 25 جولائی 2004ء کو دہلی میں ہوا۔

نظم “انڈیا گیٹ” کے پہلے بند میں شاعر نے دہلی کے مشہور یادگار “انڈیا گیٹ” کی بلندی اور اہمیت کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ انڈیا گیٹ کی عظمت نگاہوں کے سامنے ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ اسے تاریخ کا ایک اہم اور بڑا نشان کہا گیا ہے جو برطانوی حکمرانوں کی تعمیر کردہ ایک خوبصورت یادگار ہے لیکن اس کے پیچھے ہندوستانیوں کی غلامی کی داستان چھپی ہوئی ہے۔ شاعر نے اس میں غلامی اور برطانوی استعماریت کی تلخی کو پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمارت ظاہری طور پر خوبصورت تو ہے لیکن یہ غلامی کی نشانی بھی ہے جو برطانوی حکمرانی کے دوران تعمیر ہوئی تھی۔

انڈیا گیٹ کو شاعر نے استعمار کی نصرت (کامیابی) اور ہندوستانی قوم کی محکومی کا نشان قرار دیا ہے۔ یہاں شاعر تاریخ کے ان پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے جو برطانوی حکمرانوں نے ہندوستان پر اپنے قبضے کے دوران چھوڑے تھے۔ شاعر کی یہ تشریح ہمیں بتاتی ہے کہ انڈیا گیٹ نہ صرف ایک تعمیراتی شاہکار ہے بلکہ اس کے پیچھے چھپے ہوئے قومی جذبات اور آزادی کی خواہشات بھی ہیں۔

شاعر نے اس بند میں تاریخی حقیقت کو خوبصورت الفاظ میں ڈھالا ہے اور ہندوستانی قوم کی غلامی اور قربانیوں کو یاد دلایا ہے۔

نظم “انڈیا گیٹ” میں شاعر جگن ناتھ آزاد نے دہلی میں واقع عظیم یادگار “انڈیا گیٹ” کے تاریخی پس منظر اور اس کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔ انڈیا گیٹ کو شاعر نے تاریخ کا ایک اہم حصہ اور برطانوی استعمار کی یادگار کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ عمارت نہ صرف ایک شاندار تعمیر ہے بلکہ ہندوستانیوں کی غلامی اور برطانوی حکومت کے ظلم و ستم کی علامت بھی ہے۔

شاعر نے اس یادگار کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس کے ذریعے قوم کی عظیم قربانیوں کو اجاگر کیا ہے۔ شاعر بیان کرتا ہے کہ ہندوستانی جانبازوں نے اس وطن کے چمن کو اپنے خون سے سینچا اور آزادی کے لیے جانفشانی سے لڑے۔ انڈیا گیٹ ان بہادروں کی قربانیوں اور وطن کی محبت کی ایک خاموش گواہی ہے۔ شاعر مزید کہتا ہے کہ قوم کی مشکلات اور افلاس نے بھی ہندوستانیوں کے جذبہ حب الوطنی کو بڑھایا اور وہ زیادہ سے زیادہ جوش و خروش سے آزادی کی جنگ میں شامل ہوئے۔

شاعر نے انڈیا گیٹ کو عظمت اور بلندی کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے جو قوم کے وقار اور قومی خودداری کی نشانی ہے۔ یہ نظم ہندوستانی قوم کے جذبہ قربانی اور ان کی جدوجہد آزادی کی یادگار کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔

جگن ناتھ آزاد اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھنے والے شاعر اور محقق تھے۔ ان کی نظم نگاری میں موضوعات کی وسعت اور گہرائی پائی جاتی ہے۔ آزاد نے غزل اور نظم دونوں میں اپنی مہارت کا لوہا منوایا لیکن ان کی نظموں میں خاص طور پر قومی، تاریخی اور فلسفیانہ موضوعات کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک کے اہم شعرا میں شمار ہوتے ہیں اور ان کی نظموں میں سماجی مسائل اور قوم کے حالات کو بیان کرنے کا منفرد انداز نظر آتا ہے۔

آزاد کی نظم نگاری میں ایک خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے کلاسیکی اور روایتی شاعری کے عناصر کو برقرار رکھتے ہوئے جدید موضوعات پر بھی قلم اٹھایا۔ وہ روایت اور جدیدیت کے سنگم پر کھڑے ایک شاعر تھے جنہوں نے اپنی نظموں میں نہ صرف قدیم ادبی روایات کا احترام کیا بلکہ نئے دور کی فکری اور جذباتی ضروریات کو بھی پورا کیا۔ ان کی نظموں میں وطن سے محبت، انسانیت اور معاشرتی انصاف کے موضوعات نمایاں ہیں۔

جگن ناتھ آزاد کی نظموں میں زبان کی سادگی اور روانی پائی جاتی ہے جو قارئین کو متاثر کرتی ہے۔ ان کے ہاں حب الوطنی کا ایک خاص رنگ نظر آتا ہے جیسا کہ “انڈیا گیٹ” نظم میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں انہوں نے ہندوستان کی تاریخ اور قوم کی قربانیوں کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔

مجموعی طور پر آزاد کی نظم نگاری نہ صرف ادبی اعتبار سے اہم ہے بلکہ اس میں قومی اور سماجی موضوعات پر گہرے فکری اثرات بھی موجود ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک طرف روایت کی پاسداری ہے تو دوسری طرف نئے خیالات کی جستجو بھی دکھائی دیتی ہے۔

غیر:            اغیار 

باب:            ابواب 

دلیل:            دلائل 

شخص:        اشخاص 

مقصد:         مقاصد

Scroll to Top