ندا فاضلی
ندا فاضلی جدید دور کے مشہور شاعر ہیں۔ ان کی پیدائش گوالیار میں ہوئی۔ 65-1964 کے دوران ان کے والد، والدہ اور بہنیں کراچی (پاکستان) چلے گئے لیکن ندا فاضلی نے اس وقت طالب علم ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اردو اور ہندی میں ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ بمبئی آگئے اور یہیں مستقل رہائش اختیار کر لی۔
شروع میں انہوں نے صحافت کا پیشہ اپنایا اور اردو ہندی کے مختلف رسالوں کے ساتھ کام کیا۔ بعد میں وہ فلم انڈسٹری سے بطور نغمہ نگار اور مکالمہ نگار وابستہ ہو گئے لیکن ادب سے ان کا تعلق ہمیشہ قائم رہا۔
ندا فاضلی نے غزلیں، نظمیں اور دوہے بھی لکھے یعنی ہر صنف میں اپنی شناخت بنائی۔ ان کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کمزور اور پس ماندہ طبقے کے مسائل کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ انہوں نے مختلف مذاہب اور عقیدوں کے اشارے اپنی تخلیقات میں استعمال کیے جس سے ان کی تخلیقی صلاحیت اور ذہانت کا اظہار ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو انسانی زندگی کے عام تجربات کے ساتھ جوڑنے کی کامیاب کوشش کی۔
ندا فاضلی کے چند مشہور شعری مجموعے یہ ہیں “لفظوں کا پل”، “مور ناچ”، “آنکھ اور خواب کے درمیاں”، “کھویا ہوا سا کچھ”، “شہر میرے ساتھ چل”، اور”زندگی کی تڑپ”۔
شاعری کے ساتھ ساتھ انہوں نے نثر میں بھی اہم کام کیے ہیں جن میں تنقید اور خودنوشت شامل ہیں۔ ان کی کچھ اہم نثری کتابیں ہیں “ملاقاتیں” (تنقید)، “دیواروں کے باہر” (سوانحی ناول)، “دیواروں کے بیچ” (سوانحی ناول)، “چہرے” (خاکے)، اور”دنیا مرے آگے” (خاکے)۔
ندا فاضلی نے کئی مغربی اور مشرقی ممالک جیسے امریکہ، یو اے ای، جرمنی، بنگلہ دیش، پاکستان، انگلینڈ اور ماریشش میں ہندوستانی ادب کی نمائندگی کی۔ انہیں کئی اہم ایوارڈز سے نوازا گیا ہے جن میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، شکھر سمان، غالب ایوارڈ اورخسرو ایوارڈ شامل ہیں۔
نظم “بجلی کا کھمبا” کا خلاصہ
ندا فاضلی کی نظم بجلی کا کھمبا ماضی کے سادہ اور پُرسکون وقت اور حال کی ترقی یافتہ لیکن بےحسی سے بھری زندگی کا موازنہ ہے۔
شاعر اپنے ماضی کے ایک لمحے کو یاد کرتا ہے جب وہ کسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھا تھا۔ اس وقت ہر چیز میں سکون اور قدرتی خوبصورتی تھی۔ لوگ اجنبی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے اور شاعر کو اس کے نام سے بلاتے تھے۔ ماحول پرسکون اور دل کو سکون دینے والا تھا۔ آج وہی جگہ بدل چکی ہے۔ درخت کی جگہ بجلی کے کھمبے نے لے لی ہے۔ یہ کھمبا ترقی کی علامت تو ہے لیکن انسانی تعلقات اور ماحول کی خوبصورتی ختم ہو گئی ہے۔ پہلے چاندنی راتیں میٹھی اور روشن ہوا کرتی تھیں لیکن اب ہر چیز مشینی اور بےروح ہو چکی ہے۔ شاعر کو افسوس ہے کہ ترقی نے انسانی احساسات اور قدرتی خوبصورتی کو ماند کر دیا ہے۔
نظم بہت آسان تھی پہلے” کا خلاصہ”
یہ نظم شاعری اور زندگی کی تبدیلیوں کو بیان کرتی ہے۔ شاعر پرانے وقتوں کی سادگی اور آج کے پیچیدہ اور بےحس ماحول کے فرق پر بات کرتا ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ پہلے نظم لکھنا آسان تھا کیونکہ زندگی سادہ تھی۔ گھر کے قریب پیپل کے درخت کی شاخوں پر چہچہاتی چڑیاں، اسکول جاتے بچوں کی معصوم خوشیاں اور سادہ منظر سب کچھ شاعری کو خودبخود مکمل کر دیتا تھا۔
لیکن اب زندگی بدل چکی ہے۔ چھوٹے گلی محلوں کی جگہ چوڑے اور مصروف راستے بن گئے ہیں اور بڑے بڑے بازاروں نے وہ معصومیت نگل لی ہے۔ آج نظم اور شاعر کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ ان بدلے ہوئے حالات میں شاعر کا قلم خالی کاغذ پر کچھ بھی لکھنے سے قاصر ہے۔
آج کی دنیا میں جنگ، بم دھماکے اور معصوم جانوں کا نقصان روز کا معمول بن چکا ہے۔ مذہب اور سیاست نے نعرے بازی اور نفرت کو بڑھاوا دیا ہے۔ ان تمام بدلے ہوئے حالات کا اثر نظم پر بھی پڑا ہے۔ نظم تھک کر شاعر کی میز پر آتی ہے لیکن کچھ بھی لکھنے کے قابل نہیں رہتی اور کسی فٹ پاتھ پر جا کر شہر کے سب سے بوڑھے شخص کی پلکوں پر آنسو بن کر سو جاتی ہے۔
مختصر ترین سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ ندا فاضلی کہاں پیدا ہوئے؟
جواب ۔ ندا فاضلی گوالیار میں پیدا ہوئے۔
سوال 2 ۔ ندا فاضلی کو کون کون سے ایوارڈس ملے؟
جواب ۔ ندا فاضلی کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، شکھر سمان، غالب ایوارڈ اور خسرو ایوارڈ ملے ہیں۔
سوال 3 ۔ ندا فاضلی نے مشرق و مغرب کے کن ملکوں میں ہندوستانی ادیبوں کی نمائندگی کی؟
جواب ۔ انہوں نے امریکہ، یو اے ای، جرمنی، بنگلہ دیش، پاکستان، انگلینڈ اور ماریشش میں ہندوستانی ادیبوں کی نمائندگی کی۔
سوال 4 ۔ ندا فاضلی کے تین شعری مجموعوں کے نام لکھئے۔
جواب ۔ ندا فاضلی کے تین شعری مجموعے ہیں: “لفظوں کا پل“، “مور ناچ“، اور “آنکھ اور خواب کے درمیاں“۔
سوال 5 ۔ ندا فاضلی نے سماج کے کس طبقے کے مسائل کو اپنی نظموں میں ابھارا ہے؟
جواب ۔ انہوں نے کمزور اور پس ماندہ طبقے کے مسائل کو اپنی نظموں میں نمایاں کیا ہے۔
مختصر سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ ندا فاضلی کی شاعری کے بارے میں پانچ جملے لکھئے۔
جواب ۔
ندا فاضلی کی شاعری سادگی اور گہرائی کا حسین امتزاج ہے جس میں زندگی کے عام پہلوؤں کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
ان کی شاعری میں غم، خوشی، تنہائی اور انسانی تعلقات کے جذبات کو پُراثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
ندا فاضلی نے غزل، نظم اور دوہے جیسی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں اپنی پہچان بنائی۔
ان کی شاعری میں مختلف مذہبی اور فلسفیانہ اشارے اور تلمیحات بھی شامل ہوتی ہیں جو ان کی تخلیقی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔
ان کی شاعری میں سادگی اور حقیقت پسندی کا رنگ نمایاں ہے جس کی وجہ سے عام آدمی ان کے کلام سے باآسانی جڑ جاتا ہے۔
سوال 2 ۔ نظم “بجلی کا کھمبا” کا خلاصہ اپنی زبان میں لکھئے۔
جواب ۔
ندا فاضلی کی نظم “بجلی کا کھمبا” میں شاعر ماضی کی یادوں کا ذکر کرتا ہے جب زندگی سادہ اور قدرتی تھی۔ شاعر کہتا ہے کہ اُس وقت اس مقام پر کوئی بجلی کا کھمبا نہیں تھا لیکن چاندنی رات کی روشنی زیادہ پاکیزہ اور صاف تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ زندگی میں تبدیلی آئی اور مصنوعی روشنیوں نے جگہ لے لی لیکن اس تبدیلی کے ساتھ سادگی اور قدرتی خوبصورتی کا احساس بھی کھو گیا۔ نظم میں شاعر جدید زندگی کی مصروفیات اور مادی ترقی کے ساتھ جڑی تنہائی اور بیزاری کا ذکر کرتا ہے۔
سوال 3 ۔ “کوئی بجلی کا کھمبا نہیں تھا، مگر چاند کا نور میلا نہیں تھا” ان مصرعوں کی تشریح کیجیے۔
جواب ۔
ان مصرعوں میں شاعر پرانے وقتوں کی بات کرتا ہے جب بجلی کی سہولتیں نہیں تھیں لیکن قدرتی روشنی خاص طور پر چاند کی روشنی زیادہ صاف اور خوبصورت لگتی تھی۔ شاعر یہاں جدید دور کی مصنوعی روشنیوں کے مقابلے میں فطری روشنی کی پاکیزگی کو بیان کرتا ہے۔ وہ ماضی کی سادگی اور خوبصورتی کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اُس وقت چاندنی راتوں کا حسن برقرار تھا اور زندگی میں سکون اور آرام تھا۔
طویل سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ ندا فاضلی کن کن حیثیتوں سے فلمی صنعت سے وابستہ رہے؟
جواب ۔
ندا فاضلی نے فلمی صنعت میں متعدد حیثیتوں سے کام کیا اور اپنے تخلیقی فن کے ذریعے ایک منفرد مقام حاصل کیا۔ سب سے پہلے وہ بطور نغمہ نگار فلمی دنیا سے جڑے۔ ان کے لکھے گئے گیت اور نغمے انسانی جذبات کی گہرائی کو چھوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ عام عوام میں بے حد مقبول ہوئے۔ ان کے نغمات میں رومانوی، جذباتی اور سماجی موضوعات کا احاطہ ہوتا تھا۔ ندا فاضلی کی نغمہ نگاری کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ انہوں نے شاعری کو عام فہم اور سادہ زبان میں بیان کیا تاکہ ہر طبقے کے لوگ اس سے جڑ سکیں۔
ندا فاضلی نے بطور “مکالمہ نگار” بھی فلمی صنعت میں خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے کئی فلموں کے مکالمے لکھے جن میں انسانی جذبات اور احساسات کی بھرپور عکاسی کی گئی۔ ان کے لکھے ہوئے مکالمے سادہ لیکن گہرے مفاہیم کے حامل ہوتے تھے جو فلموں کی کہانی کو زیادہ پُرتاثیر بناتے تھے۔
ندا فاضلی کی فلمی دنیا سے وابستگی کا تیسرا پہلو ان کی “فنی مشاورت” تھا۔ انہوں نے فلمی ہدایتکاروں اور پروڈیوسروں کے ساتھ مل کر فلموں کے موضوعات، کہانیوں اور مکالمات پر کام کیا تاکہ فلم کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کردار میں انہوں نے کہانی کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور اس میں شاعرانہ اور ادبی رنگ بھرنے میں مدد دی۔
ندا فاضلی کی فلمی صنعت میں شمولیت محض نغمہ نگاری تک محدود نہیں تھی بلکہ ان کی فنی صلاحیتوں کا دائرہ کار وسیع تھا۔ ان کی فلمی خدمات نے انہیں فلمی دنیا میں بھی ایک معتبر اور معروف شخصیت بنا دیا جو نہ صرف عام فلم بینوں بلکہ ناقدین میں بھی پسند کیے جاتے تھے۔
سوال 2 ۔ ندا فاضلی نے شاعری کی کن کن صنفوں میں طبع آزمائی کی ہے؟
جواب ۔
ندا فاضلی نے اپنی ادبی زندگی میں شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں اپنی انفرادیت اور فن کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ان کا کام صرف غزل یا نظم تک محدود نہیں رہا بلکہ انہوں نے اردو ادب کی کئی اصناف میں اہم خدمات سر انجام دیں۔
غزل: ندا فاضلی کی غزلیں بے حد مقبول ہوئیں اور انہوں نے جدید اردو غزل کو ایک نیا انداز دیا۔ ان کی غزلوں میں رومانوی جذبہ، انسانی دکھ درد اور زندگی کے پیچیدہ موضوعات کو سادہ زبان میں بیان کیا گیا۔ ان کی غزلیں روزمرہ زندگی کی حقیقتوں کو عکاسی کرتی ہیں اور عام قاری کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔
نظم: ندا فاضلی نے نظموں میں بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ ان کی نظموں میں زندگی کے فلسفیانہ اور سماجی پہلوؤں پر غور کیا جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں انسانی تعلقات، معاشرتی مسائل اور زندگی کی تلخیوں کو بڑی خوبصورتی اور گہرائی سے پیش کیا گیا ہے۔
دوہے: ندا فاضلی نے ہندی اور اردو میں دوہے بھی لکھے جو مختصر مگر معنی خیز ہوتے ہیں۔ ان کے دوہوں میں گہرے فلسفیانہ خیالات کو نہایت سادہ اور پُراثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ دوہے لکھنے کا فن بہت کم شاعروں کے پاس ہوتا ہے اور ندا فاضلی نے اس صنف میں بھی مہارت حاصل کی۔
گیت: ندا فاضلی نے گیت نگاری میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کے لکھے گیت کئی مشہور فلموں میں شامل کیے گئے جن میں جذباتی اور دل کو چھو لینے والے موضوعات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
قطعے اور رباعیاں: ندا فاضلی نے قطعے اور رباعیوں میں بھی طبع آزمائی کی جو ان کے شعری سفر کا ایک اور دلچسپ پہلو ہے۔ ان مختصر اشعار میں وہ بڑے موضوعات کو چند سطروں میں سمو دیتے تھے۔
ندا فاضلی کی شاعری کی ہر صنف میں ان کا ایک منفرد انداز تھا جس کی وجہ سے انہیں ہر طبقے کے لوگ پسند کرتے تھے۔انکی شاعری میں سادگی اور گہرائی کا حسین امتزاج ملتا ہے جو انہیں اردو ادب کے بڑے شاعروں میں شمار کرتا ہے۔
سوال 3 ۔ ندا فاضلی کی شہرت و مقبولیت کی اصل وجہ پر روشنی ڈالئے۔
جواب ۔
ندا فاضلی کی شہرت اور مقبولیت کی کئی اہم وجوہات ہیں جنہوں نے انہیں اردو ادب اور فلمی دنیا میں ایک بلند مقام دلایا
سادہ اور دلکش انداز بیان: ندا فاضلی کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا سادہ اور دلکش انداز بیان ہے۔ انہوں نے عام زندگی کے مسائل اور تجربات کو ایسی زبان میں پیش کیا جو عام آدمی بھی باآسانی سمجھ سکتا ہے۔ ان کی شاعری میں کوئی پیچیدگی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود اس میں گہرائی اور فکر انگیزی موجود ہوتی ہے۔
عام آدمی کے مسائل: ندا فاضلی کی تخلیقات میں عام آدمی کے مسائل، جذبات اور احساسات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں سماجی ناہمواری، غربت، طبقاتی کشمکش اور انسانی جذبات کو موضوع بنایا۔ ان کی شاعری کمزور اور پس ماندہ طبقے کے مسائل کو اجاگر کرتی ہے جسکی وجہ سے انکی شاعری ہرطبقے میں مقبول ہوئی۔
فطری اور حقیقت پسندانہ موضوعات: ندا فاضلی کی شاعری فطری اور حقیقت پسندانہ موضوعات پر مبنی ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کی سچائیوں، تلخیوں اور حقیقتوں کا گہرا تجزیہ ملتا ہے۔ وہ رومانی موضوعات کے ساتھ ساتھ زندگی کی مشکلات اور تلخیوں کو بھی بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کرتے تھے۔
مختلف صنفوں میں کامیابی: ندا فاضلی نے غزل، نظم، دوہے اور گیت جیسی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں کامیابی حاصل کی۔ ان کی شاعری ہر طرح کے قارئین کے لیے تھی چاہے وہ سنجیدہ ادبی قارئین ہوں یا فلم بین۔
فلمی نغمہ نگاری کی مقبولیت: ندا فاضلی نے فلموں میں بھی نغمہ نگاری کی اور ان کے لکھے ہوئے گیت انتہائی مقبول ہوئے۔ ان کے نغمے فلموں میں بھی مقبولیت کی بلندیوں کو پہنچے اور عام لوگوں کے دلوں میں ان کی شاعری کے لیے محبت پیدا کی۔
ندا فاضلی کی شہرت و مقبولیت کی اصل وجہ یہ تھی کہ انہوں نے سادگی، حقیقت پسندی اور گہرائی کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ ان کی شاعری میں وہ چیزیں تھیں جو ہر انسان کی زندگی میں موجود ہوتی ہیں اور اسی لیے ان کی تخلیقات عام لوگوں کے دلوں کو چھوتی ہیں۔
سوال 4 ۔ زیر نصاب نظم “نظم بہت آسان تھی پہلے” کا مرکزی خیال تحریر کیجئے۔
جواب ۔
ندا فاضلی کی نظم “نظم بہت آسان تھی پہلے” ایک ایسی نظم ہے جو زندگی کی سادگی اور ماضی کی یادوں کو بیان کرتی ہے۔ اس نظم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ پہلے زندگی بہت سادہ اور فطری تھی اور اسی سادگی میں شاعر آسانی سے اپنی نظمیں تخلیق کر لیتا تھا۔ پہلے کے زمانے میں زندگی میں وہ پیچیدگیاں نہیں تھیں جو آج کے جدید دور میں موجود ہیں۔ شاعر یاد کرتا ہے کہ اُس وقت بچوں کی معصومیت اور فطرت کی سادگی نظموں کو جنم دیتی تھی۔
لیکن جیسے جیسے وقت بدلا زندگی کی سادگی ختم ہوتی گئی اور جدید دنیا کی پیچیدگیاں اور مصروفیات بڑھتی گئیں۔ شاعر کہتا ہے کہ آج کے دور میں زندگی اتنی مصروف اور پیچیدہ ہو چکی ہے کہ نظم لکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اب شہر بڑے ہو چکے ہیں گلیاں اور محلے ختم ہو چکے ہیں اوراس جدید دنیا کی مصروفیت نے نظم کے تخلیقی عمل کو بھی متاثرکردیا ہے۔
شاعر جدید دور کی مشکلات، جنگوں اور سماجی انتشار کا بھی ذکر کرتا ہے جنہوں نے انسانی جذبات کو متاثر کیا ہے۔ آج کی نظمیں اتنی تھک چکی ہیں کہ وہ شاعر کے پاس آ کرخالی کاغذ پرخود کو مکمل نہیں کر سکتیں اور واپس لوٹ جاتی ہیں۔
اس نظم کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ جدید زندگی کی تیز رفتاری اور پیچیدگیوں نے شاعری جیسے تخلیقی عمل کو بھی متاثر کر دیا ہے۔ ماضی کی سادگی اور فطرت کے ساتھ جڑاؤ نظم لکھنے کو آسان بناتا تھا لیکن آج کی دنیا میں یہ تخلیقی عمل مشکل ہو چکا ہے۔