Bihar Board Class 10 Urdu Chapter 22 Aarif ki maut par عارف کی موت پر Solutions

مرثیہ عربی لفظ “رثاء” سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے رونا یا ماتم کرنا۔ مرثیہ اردو شاعری کی ایک مقبول صنف ہے جس میں کسی مرنے والے کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں اور اس کی موت پر افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ شاعری کی زبان میں مرثیہ ایسی نظم کو کہا جاتا ہے جس میں مرنے والے کا ذکر ہو اور اس کی موت پر غم کا اظہار کیا جائے۔

اردو شاعری میں مرثیہ زیادہ تر حضرت امام حسین اور کربلا کے شہیدوں کے واقعات اور غم کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی اور شخص کی موت پر غم کا اظہار کیا جائے تو اسے “شخصی مرثیہ” کہا جاتا ہے۔

مرثیہ کا اہم مقصد مرنے والے کی خوبیوں کا ذکر کر کے اس پر افسوس کا اظہار کرنا ہے۔ مرثیہ کے بنیادی اجزاء میں چہرہ، رخصت،آمد،سراپہ،رجز،جنگ،شہادت،بین ہیں۔

یہ مرثیہ غالب نے اپنے بھتیجے عارف کی وفات پر لکھا ہے جس میں ان کے دکھ، افسوس اور بے بسی کے جذبات واضح طور پر جھلکتے ہیں۔ غالب نے اپنے دل کی کیفیت اور عارف کے اچانک چلے جانے پر پیدا ہونے والے خلا کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ 

شاعر اپنے دل کی خواہش ظاہر کرتا ہے کہ عارف کچھ دن اور رک جاتے تاکہ وہ ان کے جانے کی اذیت کو سہنے کے لیے تیار ہو جاتا۔ وہ تنہائی کے خوف کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عارف کے بغیر زندگی بہت مشکل ہو جائے گی۔ 

غالب فلک (آسمان) کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عارف ابھی جواں تھے اور ان کے جلدی چلے جانے سے فلک کو کیا نقصان ہوتا اگر وہ کچھ دن اور زندہ رہتے؟ وہ عارف کو اپنے گھر کا چاند کہتے ہیں اور ان کے جانے کے بعد گھر کے نقشے کو بدل جانے کا دکھ بیان کرتے ہیں۔ 

شاعر موت کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اگر عارف کے ساتھ لین دین کا کوئی حساب نہیں تھا تو ملک الموت کو کچھ دن کے لیے رک جانا چاہیے تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ عارف نے نہ صرف ان کو بلکہ بچوں کو بھی تنہا چھوڑ دیا جنہیں ان کا سہارا تھا۔ 

آخر میں غالب اس دردناک حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ عارف کی موت سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنا ممکن نہیں لیکن وہ اس جواں مرگ کو برداشت کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ ان کا یہ مرثیہ ایک گہرے رنج و غم، جذباتی لگاؤ اور انسان کی بے بسی کا عکاس ہے۔ت، آمد، سراپا، رجز، جنگ، شہادت اور بین شامل ہیں۔

جواب ۔ (ب) اسد اللہ خاں

جواب ۔ (د) اسد

جواب ۔ (ج) 1797

جواب ۔ (ج) ایران سے

جواب ۔ (د) 1869

جواب ۔ اس نظم کو شخصی مرثیہ کہیں گے کیونکہ یہ غالب نے اپنے قریبی عزیز کی موت پر لکھی ہے۔

جواب ۔ غالب کی پرورش ان کے چچا نصر اللہ خاں کے زیر سایہ ہوئی۔

جواب ۔ غالب کا پورا نام اسد اللہ خاں تھا۔

جواب ۔ غالب کے والد کا نام عبداللہ بیگ خاں تھا۔


شاعری میں جذبات، خیالات اور احساسات کو ایک مخصوص انداز میں الفاظ کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے۔ اس میں وزن، قافیہ اور ردھم کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

غالب کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا۔

وہ 1797ء میں پیدا ہوئے۔

ان کے والد کا نام عبداللہ بیگ خاں تھا۔

پانچ سال کی عمر میں غالب کے والد کا انتقال ہو گیا۔

ان کی پرورش ان کے چچا نصر اللہ خاں کے زیر سایہ ہوئی۔

مرثیہ اردو شاعری کی ایک اہم صنف ہے جو مرنے والے کے اوصاف اور اس کی موت پر رنج و غم کا اظہار کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔ “مرثیہ” عربی لفظ “رثاء” سے ماخوذ ہے جس کے معنی ماتم یا افسوس کرنے کے ہیں۔ اردو ادب میں مرثیہ لکھنے کا بنیادی مقصد شہدائے کربلا کی عظیم قربانیوں کو یاد کرنا اور ان کے اوصاف و کردار کی تعریف کرنا ہوتا ہے۔

چہرہ: مرنے والے کا ذکر اور اس کی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں۔

رخصت: مرنے والے کے آخری لمحات اور اس کے ساتھ ہونے والی جدائی کو بیان کیا جاتا ہے۔

آمد: مرنے والے کے میدان میں آنے یا کسی اہم موقع پر اس کی موجودگی کو بیان کیا جاتا ہے۔

سراپا: مرنے والے کے جسمانی خدوخال اور اس کی ظاہری شخصیت کا ذکر ہوتا ہے۔

رجز: مرنے والے کی بہادری، شجاعت اور عظمت کا بیان ہوتا ہے۔

جنگ: شہید ہونے والے کی جنگ اور مقابلے کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔

شہادت: اس کا کلائمیکس یا وہ لمحہ جب مرنے والا اپنی جان قربان کرتا ہے۔

بین: مرنے والے پر رونے اور ماتم کرنے کا بیان ہوتا ہے۔

شخصی مرثیہ وہ مرثیہ ہوتا ہے جس میں کسی مخصوص شخص کی موت پر دکھ اور غم کا اظہار کیا جاتا ہے۔ شخصی مرثیے میں شہید کے علاوہ کسی اور کی موت کا ذکر ہوتا ہے جیسے مرزا غالب نے اپنے عزیز عارف کی موت پر مرثیہ لکھا۔

مرثیہ کی شاعری کی بنیاد ہمدردی، غم اور المیے پر رکھی جاتی ہے اور اس میں مرنے والے کی عظمت اور کردار کو ابھارا جاتا ہے۔ اردو ادب میں میر انیس اور مرزا دبیر جیسے عظیم شعراء نے مرثیہ نگاری کو بلندیوں تک پہنچایا۔ ان کا انداز بیان، واقعات کی منظر کشی اور مرنے والے کی خوبیوں کو بیان کرنے کا فن انہیں ادب میں بلند مقام دیتا ہے۔ مرثیہ کا ادب میں مقصد صرف رنج و غم کا اظہار ہی نہیں بلکہ مرنے والے کی عظمت اور اس کے کردار کی بلندی کو سامنے لانا بھی ہے۔

مرزا غالب کا اصل نام اسد اللہ خاں تھا اور ان کا تخلص “غالب” تھا۔ وہ 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد ایران سے ہندوستان آئے تھے اور ان کا خاندان مغل دربار سے وابستہ تھا۔ غالب کے والد کا نام عبداللہ بیگ خاں تھا جو حیدرآباد کی ایک جنگ میں مارے گئے جب غالب صرف پانچ سال کے تھے۔ اس کے بعد غالب کی پرورش ان کے چچا نصر اللہ خاں کے زیر سایہ ہوئی۔

غالب نے اپنے دور میں فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی اور دونوں زبانوں میں ان کا کلام بے پناہ مقبول ہوا۔ انہوں نے ابتدائی طور پر “اسد” تخلص اختیار کیا لیکن بعد میں “غالب” تخلص اپنایا جو ان کی شاعری میں عظمت، بلندی اور فکری گہرائی کا نشان بن گیا۔

غالب کی زندگی مشکلات اور مسائل سے بھرپور تھی۔ مالی پریشانیوں اور ذاتی مسائل نے ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کے کوئی اولاد زندہ نہ رہ سکی جس کی وجہ سے وہ بہت غمگین رہتے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے شاعری کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ غالب کو مغلیہ دربار سے بھی وابستگی حاصل تھی اور انہیں کئی شاہی القابات سے نوازا گیا۔

غالب کی شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ وہ زندگی کے فلسفے، غم، محبت اور انسانی تجربات کو نہایت ہی گہرائی اور نفاست سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں فلسفیانہ خیالات اور جذباتی گہرائی پائی جاتی ہے جو انہیں دیگر شاعروں سے منفرد بناتی ہے۔ غالب کا انتقال 15 فروری 1869ء کو دہلی میں ہوا۔

غالب کی شاعری میں فلسفہ، عشق اور انسانی تجربات کو نہایت گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔

انہوں نے اردو غزل کو نئی جہتیں دیں اور شاعری میں جدت کا عنصر متعارف کروایا۔

غالب کے اشعار میں پیچیدہ خیالات اور جذبات کو سادہ لیکن بلیغ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

ان کی شاعری میں موجود فکری بلندی اور معنویت عام شاعری سے کہیں بلند ہے۔

غالب نے اپنی شاعری میں انسان کی محدودیت اور قدرت کی وسعت کو نہایت فلسفیانہ انداز میں بیان کیا۔

ان کی شاعری میں عشق و محبت کے ساتھ ساتھ زندگی کے تلخ حقائق اور انسانی دکھوں کی عکاسی کی گئی ہے۔

غالب کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی ان کا انداز بیان ہے جو سادہ ہونے کے باوجود بہت گہرا اور پرمعنی ہوتا ہے۔

غالب نے غم کو ایک تخلیقی قوت کے طور پر استعمال کیا اور اسے اپنی شاعری میں نمایاں کیا۔

غالب کی شاعری میں زبان کی شیرینی اور اسلوب کی ندرت اسے دیگر شاعروں سے منفرد بناتی ہے۔

غالب کی غزلوں میں روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ جدید فلسفہ بھی نظر آتا ہے جو ان کی شاعری کو عالمی حیثیت دیتا ہے۔

دن           دن 

فلک         فلک 

بارش        بارشیں 

شہید         شہداء 

رات         راتیں

Scroll to Top