Bihar Board Class 10 Urdu Chapter 24 Gulzar e Nasim گلزار نسیم Solutions

دیا شنکر نسیم کا اصل نام دیا شنکر کول تھا اور ان کے والد کا نام گنگا پرشاد کول تھا۔ یہ کشمیری پنڈت تھے۔ نسیم 1811ء میں لکھنو میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم اردو اور فارسی میں ہوئی، جو اس زمانے کے رواج کے مطابق تھی اور ان کے خاندان میں بھی یہی تعلیم عام تھی۔ اس وقت امجد علی شاہ کا دور حکومت تھا۔ بدقسمتی سے نسیم کی زندگی زیادہ طویل نہ ہو سکی اور وہ 1845ء میں انتقال کر گئے۔

شروع سے ہی نسیم کو شعرو شاعری کا شوق تھا۔ انہوں نے آتش لکھنوی سے شاعری کی تربیت لی اور اپنے استاد کا انداز اپنایا۔ ان کی شہرت کا باعث ان کی مثنو”گلزار نسیم” ہے، جو اردو ادب کی سب سے اہم مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے۔ ان کی شاعرانہ مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً دو صدیاں گزرنے کے باوجود “گلزار نسیم” آج بھی اتنی ہی مقبول ہے۔

مثنوی “دار الخلافت زین الملوک میں بکاؤلی کا پہنچنا اور وزیر ہو کر تاج الملوک کی تلاش میں رہنا” ایک دلچسپ اور رومانوی داستان پر مبنی ہے جس میں جادوئی عناصر بھی شامل ہیں۔

کہانی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب بکاؤلی پری، جو جادو کی وجہ سے انسان کی شکل اختیار کر چکی ہے، ایک بڑے شہر میں پہنچتی ہے۔ اس کا مقصد تاج الملوک کی تلاش ہے، جو کہ ایک اہم کردار ہے۔ جب بکاؤلی شہر میں داخل ہوتی ہے، تو اسے وہاں خوشی اور بہار کے مناظر ملتے ہیں۔ شہر میں گلچیں (پھول چننے والوں) کی مصروفیت اور خوشیوں کا عالم اسے خوش کرتا ہے، اور وہ اپنے سارے غم بھول جاتی ہے۔

بکاؤلی جادوئی طور پر بنی ہوئی ہے، یعنی وہ ایک پری تھی جو جادو کے ذریعے انسان بن گئی تھی۔ شہر میں داخل ہونے کے بعد، سلطان کی سواری آتی ہے، جو بادشاہ کی شان و شوکت کا مظہر ہے۔ سلطان بکاؤلی کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کیونکہ اس کی خوبصورتی ایسی ہے جو کسی انسان کی نہیں لگتی۔ سلطان حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ آیا وہ انسان ہے یا کوئی پری۔ ساتھ ہی وہ اس کا نام، وطن اور پس منظر بھی جاننا چاہتا ہے۔

بکاؤلی نہایت عاجزی کے ساتھ جواب دیتی ہے کہ اس کا نام “ابن فیروز” ہے اور وہ غریب ہے۔ وہ مزید کہتی ہے کہ چونکہ وہ غربت زدہ ہے، اس لیے اس کا کوئی مستقل وطن نہیں ہے اور نہ ہی اسے دنیاوی چیزوں سے کوئی واسطہ ہے۔ سلطان بکاؤلی کی سادگی اور باتوں سے متاثر ہوتا ہے اور اس کے کردار اور رویے کو پسند کرتا ہے۔ وہ بضد ہوتا ہے کہ بکاؤلی کو اپنے ساتھ لے جائے اور اسے خاص امتیاز سے نوازے۔

سلطان بکاؤلی کو وزیر مقررکرتا ہے کیونکہ اس کے چہرے سے وہ کسی بڑے خاندان کے فرد لگتی ہے۔ بکاؤلی اپنی وزیر کی حیثیت سے تاج الملوک کی تلاش میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اس دوران دربار میں لوگ اسے دل و جان سے نذریں پیش کرتے ہیں اور اس کے اعلیٰ مقام کا احترام کرتے ہیں۔

مثنوی کا یہ حصہ پریوں کی دنیا اور انسانی دنیا کے درمیان ایک دلچسپ ملاپ پیش کرتا ہے۔ اس میں جادو، رومانس اور ایک مخصوص مقصد کی تلاش کو بیان کیا گیا ہے۔ بکاؤلی کی شکل میں ایک پراسرار پری انسانی دنیا میں اپنی شناخت بناتی ہے اور ایک اہم منصب حاصل کرتی ہے۔ اس کا کردار وفاداری اور لگن کا مظہر ہے، جو تاج الملوک کی تلاش کے دوران سامنے آتا ہے۔

جواب ۔ (ج) دیا شنکر

جواب ۔ (ج) لکھنو

جواب ۔ (ب) گلزار نسیم

جواب ۔ (ب) آتش

جواب ۔ (ب) 1845

جواب ۔ اس مثنوی میں بکاؤلی کی تاج الملوک کی تلاش کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

جواب ۔ دیا شنکر کول

جواب ۔ 1811ء میں

جواب ۔ گلزار نسیم

جواب ۔ گنگا پرشاد کول

مثنوی ایک طویل نظم ہوتی ہے جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔

مثنوی عام طور پر کسی داستان یا واقعے پر مبنی ہوتی ہے۔

اس میں محبت، تصوف، اور رومانوی قصے بیان کیے جاتے ہیں۔

اردو مثنوی کی مشہور مثالوں میں “گلزار نسیم” شامل ہے۔

مثنوی کی صنف کو فارسی اور اردو ادب میں بہت زیادہ پسند کیا گیا ہے۔

بکاؤلی اپنے محبوب تاج الملوک کی تلاش میں شہر در شہر سفر کرتی ہے۔ وہ مختلف مقامات پر جا کر لوگوں سے پوچھ گچھ کرتی ہے۔

بکاؤلی نے جادوئی طریقے سے خود کو انسان کی شکل میں تبدیل کیا تاکہ تاج الملوک کی تلاش میں آسانی ہو۔

بکاؤلی اپنے مقصد کے حصول کے لیے وزیر کا عہدہ بھی قبول کر لیتی ہے۔

وہ انتہائی لگن اور مستقل مزاجی سے اپنے محبوب کی تلاش میں رہتی ہے۔

بکاؤلی کو زین الملوک کی مملکت میں خوشی محسوس ہوئی۔

شہر میں بہار کا منظر دیکھ کر اس کے دل کو خوشی ملی اور وہ اپنے غم بھول گئی۔

وہ لوگوں کی خوشیوں اور گلشن کے خوبصورت مناظر سے متاثر ہوئی۔

نسیم کا اصل نام دیا شنکر کول تھا اور ان کے والد کا نام گنگا پرشاد کول تھا۔

وہ 1811ء میں لکھنو میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق کشمیری پنڈت خاندان سے تھا۔

انہوں نے اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور آتش لکھنوی کے شاگرد بنے۔

ان کی مشہور مثنوی “گلزار نسیم”ہےجو اردو ادب کی اہم ترین مثنویوں میں شمار ہوتی ہے۔

نسیم کا انتقال 1845ء میں ہوا۔

بکاؤلی ایک پری ہے جو جادوئی قوتوں کے ذریعے انسان بن جاتی ہے۔

وہ اپنے محبوب تاج الملوک کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے۔

بکاؤلی انتہائی بہادر اور مستقل مزاج ہے۔

وہ ذہین ہے اور لوگوں کے درمیان رہ کر اپنے مقصد کو پانے کی کوشش کرتی ہے۔

بکاؤلی کا کردار داستان کی محبت اور وفاداری کی علامت ہے۔

مثنوی “دار الخلافت زین الملوک میں بکاؤلی کا پہنچنا” میں ایک جادوئی اور رومانوی داستان بیان کی گئی ہے جس میں پری بکاؤلی کا مرکزی کردار ہے۔ یہ مثنوی محبت، وفاداری، جادوئی عناصر اور انسانوں کے ساتھ میل جول پر مبنی ہے۔

بکاؤلی ایک خوبصورت پری ہے جو تاج الملوک نامی نوجوان سے محبت کرتی ہے۔ لیکن حالات ایسے ہیں کہ دونوں کو جدا ہونا پڑتا ہے۔ تاج الملوک کو تلاش کرنے کی خاطر بکاؤلی جادوئی قوتوں کا استعمال کرتی ہے اور انسان کی شکل میں مختلف شہروں اور مقامات کا سفر کرتی ہے۔ آخر کار وہ زین الملوک نامی شہر پہنچتی ہے، جو ایک بڑی اور خوشحال مملکت ہے۔

بکاؤلی کا یہ سفر نہ صرف تاج الملوک کی تلاش پر مبنی ہے بلکہ خود اس کے کردار اور جذبات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ جب وہ زین الملوک پہنچتی ہے تو وہاں کے خوبصورت باغات، لوگوں کی خوشیوں اور گلشن کے مناظر دیکھ کر خوشی محسوس کرتی ہے اور اپنے غم بھول جاتی ہے۔

اسی دوران، زین الملوک کے سلطان کی سواری آتی ہے اور سلطان بکاؤلی کو دیکھ کر اس کی خوبصورتی اور شخصیت سے متاثر ہوتا ہے۔ وہ بکاؤلی سے اس کا تعارف پوچھتا ہے اور وہ اپنے آپ کو ابن فیروز کے بیٹے کے طور پر متعارف کراتی ہے۔ بکاؤلی اپنی شناخت پوشیدہ رکھ کر سلطان سے بات کرتی ہے، اور سلطان اس کی دانشمندی اور باتوں سے اتنا متاثر ہوتا ہے کہ اسے وزیر کے عہدے پر فائز کر دیتا ہے۔

بکاؤلی کو وزیر بن کر تاج الملوک کی تلاش جاری رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ جادوئی طریقے سے انسانی دنیا میں شامل ہو کر اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔

یہ مثنوی محبت اور تلاش کے موضوعات پر مبنی ہے، جس میں بکاؤلی کی وفاداری اور لگن کی داستان سنائی گئی ہے۔ اس میں جادوئی اور رومانوی عناصر کے ساتھ انسانی جذبات کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔

دیا شنکر نسیم کا شمار اردو کے اہم شعرا میں ہوتا ہے، جو اپنے دور کی ایک منفرد اور ممتاز شخصیت تھے۔ نسیم کا اصل نام دیا شنکر کول تھا اور وہ 1811ء میں لکھنو میں ایک کشمیری پنڈت خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام گنگا پرشاد کول تھا۔ لکھنو اس دور میں شعر و ادب کا مرکز تھا، اور نسیم کو بھی ابتدائی تعلیم اردو اور فارسی میں ملی، جو اس زمانے میں رائج زبانیں تھیں۔

نسیم کو کم عمری سے ہی شعر و شاعری کا شوق تھا، اور انہوں نے اپنی شاعری کی تربیت لکھنو کے مشہور شاعر آتش لکھنوی سے حاصل کی، جو ان کے استاد تھے۔ آتش کے زیر سایہ نسیم نے شاعری کی باریکیوں کو سیکھا اور اپنے استاد کا ہی انداز اپنایا۔

دیا شنکر نسیم کی شاعری میں قصہ گوئی اور مثنوی کی صنف کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان کی مشہور مثنوی “گلزار نسیم” اردو ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، اور اسی مثنوی کی وجہ سے نسیم کو اردو ادب میں ایک الگ مقام حاصل ہوا۔ “گلزار نسیم” نہ صرف اپنے وقت کی اہم ترین مثنویوں میں شامل تھی بلکہ آج بھی اسے ادب کے طالب علموں اور شاعری کے شوقین لوگوں کے درمیان بے حد پسند کیا جاتا ہے۔

نسیم کی شاعری کی خاص بات ان کی زبان کی سادگی اور بیان کی خوبصورتی ہے۔ انہوں نے اپنے اشعار میں جذبات اور خیالات کو اس انداز میں بیان کیا کہ وہ آج بھی دلوں کو چھو لیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں فارسی اور اردو کی حسین آمیزش ہے، اور ان کے اشعار میں جادوئی عناصر کے ساتھ ساتھ انسانی جذبات کی بھی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔

بدقسمتی سے نسیم کی زندگی زیادہ طویل نہیں تھی۔ وہ 1845ء میں وفات پا گئے، مگر اپنے پیچھے ایسی شاعری چھوڑ گئے جو آج بھی زندہ ہے اور اردو ادب کا اہم حصہ سمجھی جاتی ہے۔

دیا شنکر نسیم کی مثنوی “گلزار نسیم” اردو ادب کی ایک اہم اور نمایاں تصنیف ہے۔ یہ مثنوی اپنی ادبی قدر اور شعری خوبیوں کی بدولت اردو ادب کی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ نسیم نے اس مثنوی میں شاعری، قصہ گوئی، اور جادوئی عناصر کو بڑے خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔

مثنوی کی کہانی اور پلاٹ:“گلزار نسیم” کی کہانی ایک رومانوی اور جادوئی داستان پر مبنی ہے، جس میں محبت، تلاش، وفاداری، اور جادوئی دنیا کے عناصر شامل ہیں۔ یہ کہانی ایک پری بکاؤلی کی ہے جو تاج الملوک کی محبت میں مبتلا ہے اور اس کی تلاش میں سفر کرتی ہے۔ اس کہانی کا پلاٹ دلچسپ اور پیچیدہ ہے،جو قاری کو مسلسل اپنی طرف متوجہ رکھتا ہے۔ کہانی کے مختلف مراحل میں جذباتی تبدیلیاں اور کرداروں کی جدوجہد قاری کو کہانی میں مکمل طور پر شامل کر دیتی ہیں۔

زبان اور انداز: نسیم کی زبان نہایت سادہ، دلکش، اور رواں ہے، جو پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ مثنوی میں نسیم نے ایسے استعارے اور تشبیہات کا استعمال کیا ہے جو کہانی کو نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھاتے ہیں۔ نسیم نے فارسی اور اردو کی بہترین روایتوں کو اپنایا اور زبان میں ایسی مٹھاس پیدا کی کہ اس کی اثر انگیزی آج بھی برقرار ہے۔ نسیم کی زبان کی شائستگی اور بیان کی روانی نے “گلزار نسیم” کو اردو کی کلاسیک مثنویوں میں شامل کیا ہے۔

کرداروں کی گہرائی: مثنوی کے مرکزی کردار، جیسے بکاؤلی اور تاج الملوک، نہایت دلچسپ اور مضبوط ہیں۔ بکاؤلی کا کردار محبت اور وفاداری کی علامت ہے، جبکہ تاج الملوک کی جستجو اور اس کی محبت کی داستان بھی بہت گہری ہے۔ کرداروں کی جذباتی پیچیدگی اور ان کی باہمی تعاملات کہانی کو ایک نیا زاویہ فراہم کرتے ہیں۔

ادبی اہمیت: “گلزار نسیم” اردو مثنوی کی صنف کو بلندی پر پہنچانے میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس مثنوی نے نہ صرف اردو ادب کو غنی کیا بلکہ آنے والے شعرا کے لیے ایک معیار بھی قائم کیا۔ مثنوی کی صنف میں قصہ گوئی اور شاعری کا یہ امتزاج نسیم کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مثنوی کی مقبولیت: “گلزار نسیم” اردو ادب کی دنیا میں دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے مقبول ہے اور آج بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ ادب کے طالب علم اور شاعری کے شائقین اس مثنوی کو اردو کی بہترین روایات کا حصہ سمجھتے ہیں۔ نسیم کی شاعری اور “گلزار نسیم” کی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ نسیم نے اردو ادب میں ایک انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

گلزار نسیم کی سب سے بڑی خوبی نسیم کی زبان کی چاشنی اور اس کی کہانی کی جذباتی گہرائی ہے۔ یہ مثنوی اردو ادب میں ایک ایسا سنگ میل ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال قائم کرتی ہے۔

Scroll to Top