Bihar Board Class 10 Urdu Chapter 26 Ghazal Mubarak Azimabadi غزل مبارک عظیم آبادی Solutions

غزل عربی قصیدے کے ابتدائی حصے “تشبیب” سے لی گئی ہے۔ تشبیب کا تعلق جوانی یا جوانی کے جذبات سے ہے، اور ظاہر ہے کہ جوانی کے جذبات میں حسن اور عشق کی کیفیتیں شامل ہوتی ہیں۔ اسی لیے فارسی اور اردو کی غزلوں میں عموماً حسن و عشق کے جذبات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن آج کے دور میں غزل ایک ایسی صنف بن چکی ہے جس میں زندگی اور دنیا کے مختلف مسائل پر بھی بات کی جا سکتی ہے۔ یعنی اب غزل کے موضوعات پر کوئی پابندی نہیں رہی۔

غزل کی شکل یا اسلوب میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ غزل کا پہلا شعر، جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں، مطلع کہلاتا ہے۔ بعض غزلوں میں ایک سے زیادہ مطلع ہوتے ہیں۔ اگر دوسرا مطلع ہو تو اسے حسن مطلع یا مطلع ثانی کہتے ہیں، اور اگر تیسرا ہو تو اسے مطلع ثالث کہا جاتا ہے۔ غزل کا آخری شعر، جس میں شاعر اپنا تخلص (نام) استعمال کرتا ہے، مقطع کہلاتا ہے۔ لیکن کچھ غزلیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں مطلع یا مقطع نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی انہیں غزل ہی کہا جاتا ہے، البتہ ایسی غزلوں میں کمی کا احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ غزلیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں ردیف نہیں ہوتی۔ ایسی غزلوں کو غیر مردف غزل کہا جاتا ہے۔

آج کے دور میں مختلف ادبی اصناف میں کئی تجربے کیے گئے ہیں۔ غزل جیسی نازک صنف میں بھی تجربات ہوئے، اور آزاد غزل لکھی گئی، لیکن جس طرح ہر تجربہ کامیاب نہیں ہوتا، اسی طرح آزاد غزل کا تجربہ بھی ناکام ہو چکا ہے۔ یہ تجربہ غزل کی شکل کو بدلنے کی کوشش تھی، لیکن اس کی ناکامی نے ثابت کر دیا کہ غزل کی شکل کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، البتہ اس کے موضوعات اب وسیع ہو گئے ہیں۔ پہلے غزل میں زیادہ تر عاشقانہ، رندانہ، صوفیانہ، اور عارفانہ خیالات کا اظہار کیا جاتا تھا، لیکن اب سائنسی، نفسیاتی، اور دیگر موضوعات پر بھی غزلیں کہی جا رہی ہیں۔

اردو غزل ولی دکنی سے پہلے بھی کہی جاتی تھی، لیکن ولی نے اسے ایک خاص معیار دیا۔ جب ولی کے ذریعے غزل شمالی ہندوستان میں پہنچی تو میر، مومن، اور غالب جیسے عظیم شاعر پیدا ہوئے۔ اس کے بعد اقبال، فیض، اور فراق نے بھی غزل گوئی کی روایت کو مضبوط کیا۔ غزل کے اشعار کی تعداد کا تعین بھی مشکل ہے۔ عام طور پر کم از کم پانچ اور زیادہ سے زیادہ سترہ یا انیس اشعار کی غزل ہونی چاہیے۔

مبارک عظیم آبادی، ڈاکٹر فدا حسین واحق کے بیٹے تھے، جن کا تعلق بابا فرید گنج شکر کی نسل سے تھا۔ ان کی پیدائش 21 اپریل 1889ء کو تاج پور، ضلع دربھنگہ میں ہوئی۔ مبارک عظیم آبادی نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور قادر یہ سلسلے میں حضرت مولانا سید شاه بدرالدین قدس سرہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان کا رویہ “صلح کل” یعنی ہر مذہب سے دوستی اور محبت پر مبنی تھا۔

مبارک عظیم آبادی نے معاش کے لیے طب کی طرف توجہ دی اور دو کتابیں “میزان الطب” اور “طب الکبیر” فارسی میں لکھیں، لیکن جلد ہی اس سے دل اچاٹ ہو گیا اور وہ ہومیوپیتھی کی طرف متوجہ ہو گئے۔ وہ شمس العلماء امداد امام اثر کے بھانجے داماد بھی تھے۔

شاعری انہیں وراثت میں ملی تھی، اور اردو میں وہ داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ فارسی شاعری میں انہیں حکیم عبد الحمید پریشاں سے اصلاح ملی۔ ان کی شاعری پر داغ دہلوی کا رنگ نمایاں ہے، اور ان کے کلام میں صوفیانہ خیالات کے ساتھ رندانہ غزلیں بھی ملتی ہیں۔

مبارک عظیم آبادی کا منتخب کلام “جلوہ دان” کے نام سے 1951ء میں شائع ہوا۔ 1954ء میں حکومت ہند نے ان کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے ماہانہ 100 روپے وظیفہ مقرر کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام پٹنہ سیٹی میں گزارے اور 12 دسمبر 1958ء کو انتقال کیا۔

مبارک عظیم آبادی کی یہ غزل محبت کے درد اور جذباتی اذیت کا بھرپور اظہار ہے۔ شاعر نے اپنی داخلی کیفیت اور عشق میں ناکامی کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ غزل ایک ایسے عاشق کی داستان ہے جو محبوب کی بے اعتنائی اور غفلت کا شکار ہے، اور اپنی جذباتی حالت کو بیان کرتے ہوئے غم، حسرت اور بے بسی کی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔

غزل میں سب سے نمایاں پہلو وقت کے ضائع ہونے کا افسوس ہے۔ شاعر غفلت میں گزرے ہوئے لمحات پر پچھتاوے کا اظہار کرتا ہے، جو کبھی واپس نہیں آ سکتے۔ یہ احساس زندگی کی ناپائیداری اور وقت کی بے قدری کو ظاہر کرتا ہے، جو اکثر محبت میں غرق انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

محبوب کی نظر، جس نے دل کو زخمی کیا، شاعر کے لئے ایک علامت بن جاتی ہے، جو نہ صرف دل کو زخمی کرتی ہے بلکہ محبت کی ایک تلخ حقیقت کو بھی سامنے لاتی ہے۔ محبوب کی بے رخی اور دل آزاری شاعر کے لئے ناقابل برداشت ہے اور وہ اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے اپنے دل میں چھپے ہوئے درد کو نمایاں کرتا ہے۔

غزل کا ایک اور اہم پہلو انتظار کا دکھ ہے۔ شاعر محبوب کے انتظار میں رہتا ہے، لیکن وہ نہیں آتا، جس سے شاعر کے دل میں ایک بے چینی اور مایوسی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ کیفیت ایک عاشق کے دل میں اٹھنے والی حسرتوں اور ناکامیوں کو ظاہر کرتی ہے۔

اس غزل میں ناصح کی باتوں کو بھی نظرانداز کیا گیا ہے، جو محبت کی حقیقت سے بے خبر ہے۔ ناصح کی نصیحتیں شاعر کے درد کو کم کرنے کے بجائے اسے اور بڑھا دیتی ہیں، کیونکہ وہ محبت کی گہرائی اور اس کے درد کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

غزل کے آخری اشعار میں شاعر محبت میں اپنی شکست کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ ہر قدم پر خوبصورت چہروں کے درمیان محبت کی تلاش میں لٹا، لیکن اس کی محبت بار بار ناکام رہی۔ اس میں شاعر کی ناکامیوں اور بے بسی کا اظہار ہوتا ہے، جس میں محبت کی تلاش نے اسے مزید زخم دیے۔

مجموعی طور پر، یہ غزل محبت، حسرت، وقت کی ناقدری، اور محبوب کی بے وفائی جیسے جذباتی پہلوؤں کا گہرا تجزیہ پیش کرتی ہے۔ شاعر کی داخلی جدوجہد اور محبت کی تلخ حقیقتوں کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

جواب ۔ مبارک عظیم آبادی تاج پور، ضلع دربھنگہ میں پیدا ہوئے۔

جواب ۔ ان کی پیدائش 21 اپریل 1889ء کو ہوئی تھی۔

جواب ۔ ان کا انتقال 12 دسمبر 1958ء کو ہوا۔

جواب ۔ ان کے والد کا نام فدا حسین وامق تھا۔

جواب ۔ اردو شاعری میں ان کے استاد داغ دہلوی تھے۔

جواب ۔ فارسی شاعری میں ان کے استاد حکیم عبد الحمید پریشاں تھے۔

جواب ۔ ان کے شعری مجموعہ کا نام “جلوہ دان” ہے۔

جواب ۔ یہ مجموعہ 1951ء میں شائع ہوا۔

جواب ۔ حکومت ہند نے 1954ء میں ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا۔

جواب ۔ حکومت ہند نے انہیں 100 روپے ماہوار وظیفہ دیا۔

جواب ۔ انہوں نے حیدر آباد میں وحشت سے ملاقات کی اور سر عبد العزیز کے یہاں قیام کیا۔

جواب ۔ انہوں نے حضرت مولانا سید شاه بدرالدین کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔

جواب ۔ انہوں نے “میزان الطب” اور “طب الکبیر” کے نام سے کتابیں لکھیں۔

جواب ۔ پہلی غزل میں قافیے: “گئیں”، “ہو گئیں”، “رو گئیں”، “جھڑیاں ہو گئیں” ہیں۔
دوسری غزل میں قافیے: “کہیں”، “کیا کہیں”، “کہہ رہا ہے”، “نظر سے” ہیں۔
دونوں غزلوں میں تقریباً چار چار قافیے ہیں۔

مبارک عظیم آبادی کی شاعری پر داغ دہلوی کا گہرا اثر ہے۔ داغ دہلوی، اردو زبان کے عظیم شاعروں میں سے ایک تھے جنہوں نے سادہ زبان اور عام فہم انداز میں اشعار کہے۔ ان کے شاگردوں میں مبارک عظیم آبادی بھی شامل تھے۔ داغ کی شاعری میں حسن و عشق کا تذکرہ، جذبات کی لطافت اور الفاظ کی سادگی نمایاں تھی، یہی خصوصیات مبارک عظیم آبادی کی شاعری میں بھی ملتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں داغ دہلوی کے رنگ کی جھلکیاں ملتی ہیں، جو سادہ مگر گہرے اور دلکش اشعار کے ذریعے اپنی بات کو پہنچاتے ہیں۔

مبارک عظیم آبادی کے کلام میں داغ دہلوی کے اثر کے علاوہ کئی اور رنگ بھی نمایاں ہیں۔ ان میں تصوف کا رنگ اور رندانہ رنگ خاص طور پر قابل ذکر ہیں

مبارک عظیم آبادی کے اشعار میں صوفیانہ خیالات بھی جگہ پاتے ہیں۔ تصوف میں روحانیت، خود شناسی، اور دنیاوی محبت سے آگے کی بات ہوتی ہے، اور یہ چیز ان کے اشعار میں جھلکتی ہے۔ وہ اشعار میں دنیاوی تعلقات اور انسانی جذبات کے علاوہ اعلیٰ روحانی مدارج کی بات بھی کرتے ہیں۔

مبارک عظیم آبادی کی شاعری میں رندانہ رنگ بھی نمایاں ہے، جس میں وہ آزاد خیالات اور زندگی کے لطف کو بیان کرتے ہیں۔ رندانہ غزلیں عام طور پر دنیاوی معاملات، محبت، شراب اور مستی کے ماحول کو بیان کرتی ہیں، اور مبارک عظیم آبادی نے بھی ان موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔

مبارک عظیم آبادی کے کلام کی متعدد خصوصیات ہیں جو ان کو ایک منفرد شاعر بناتی ہیں:

ان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے اشعار سادہ اور سلیس زبان میں ہوتے ہیں، جو عام قاری کے لیے سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ انہوں نے عام روزمرہ کے الفاظ اور انداز بیان کا استعمال کیا، جس سے ان کی شاعری عام لوگوں میں بھی مقبول ہوئی۔

اگرچہ ان کی شاعری سادہ الفاظ میں ہوتی ہے، لیکن اس کے معنی اور مفہوم میں گہرائی اور فلسفیانہ پہلو پایا جاتا ہے۔ وہ عشق، درد، زندگی اور موت جیسے موضوعات پر بڑی گہرائی سے روشنی ڈالتے ہیں۔

ان کی شاعری میں صوفیانہ فکر کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ وہ دنیا کی فانی حیثیت اور روحانی محبت کو بڑے دلکش انداز میں بیان کرتے ہیں۔

مبارک عظیم آبادی کی شاعری میں رندانہ رنگ بھی نمایاں ہے، جس میں وہ دنیاوی محبت، زندگی کے لطف اور آزادی کو بڑے شوخ اور خوشگوار انداز میں بیان کرتے ہیں۔

مبارک عظیم آبادی داغ دہلوی کے شاگرد تھے، اس لیے ان کی شاعری میں داغ کا اثر نمایاں ہے۔ ان کے اشعار میں داغ دہلوی کی سادگی، دلکشی اور حسن و عشق کا رنگ صاف دکھائی دیتا ہے۔

مبارک عظیم آبادی قافیہ اور ردیف کے استعمال میں بھی ماہر تھے۔ ان کے اشعار میں فنی لحاظ سے خوبصورتی اور موزونیت پائی جاتی ہے، اور وہ کلاسیکی اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے جدید موضوعات پر بھی بات کرتے تھے۔

نصاب میں شامل مبارک عظیم آبادی کی غزل کے ادبی محاسن کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کی غزل کے چند اہم پہلوؤں پر غور کرنا ہوگا

ان کی غزل میں موضوعات کی وسعت پائی جاتی ہے۔ وہ محبت اور عشق کے جذبات کو بڑی باریکی سے بیان کرتے ہیں، مگر ساتھ ہی زندگی کے درد، مایوسی اور انسانی تعلقات کی پیچیدگیوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔

مبارک عظیم آبادی نے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جو نہایت عام فہم ہونے کے باوجود بڑی گہرائی اور معنویت رکھتے ہیں۔ ان کے اشعار میں ہر لفظ ایک خاص مقام اور اہمیت رکھتا ہے۔

ان کی غزل میں ایک فطری روانی اور سلاست ہے جو قاری کو متاثر کرتی ہے۔ قافیے اور ردیف کا استعمال بھی بڑی مہارت سے کیا گیا ہے، جس سے غزل میں موسیقیت اور تاثر پیدا ہوتا ہے۔

ان کے اشعار میں انسانی جذبات کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے، جیسے غم، خوشی، مایوسی، محبت اور بے بسی۔ ان کی شاعری دل کو چھونے والی ہوتی ہے، اور قاری کے دل میں احساسات کو جگا دیتی ہے۔

 بعض غزلوں میں تصوف اور اخلاقیات کا پہلو بھی ملتا ہے، جہاں شاعر عشق مجازی سے عشق حقیقی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

دانش مند

عزت مند

خوش مند

نیک مند

فنکار

خدمتکار

عملکار

دستکار

غمزار

دلزار

سرزار

جاں زار

کوتاہ

خوش خواہ

ہمت خواہ

مدعا خواہ

اہل علم

اہل قلم

اہل دل

اہل دانش

Scroll to Top