Bihar Board Class 10 Urdu Chapter 27 Ghazal Ahmad Faraz غزل احمد فراز Solutions

احمد فراز کی پیدائش 1933 میں پشاور میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، اور ان کا گھرانہ ادبی ماحول رکھتا تھا۔ اسی ماحول میں انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کم عمری سے ہی شاعری کی طرف مائل ہو گئے۔ طالب علمی کے دور میں ہی انہوں نے شعر کہنا شروع کر دیا، اور یہ سلسلہ ان کی زندگی کے آخری دنوں تک جاری رہا۔ ان کی ادبی اور شعری خدمات کو بہت سراہا گیا، اور اسی وجہ سے کراچی یونیورسٹی نے انہیں “ڈاکٹر آف لٹریچر” کی اعزازی ڈگری دی۔

احمد فراز نے مختلف ادبی رسالوں کی ادارت بھی کی، جیسے ماہنامہ “اشتیاق”، “داستان”، اور ہفتہ وار “خادم”۔ وہ مختلف اہم عہدوں پر بھی فائز رہے، جیسے پشاور یونیورسٹی میں لیکچرار، اور نیشنل بک فاؤنڈیشن پاکستان کے مینجنگ ڈائریکٹر۔ احمد فراز کو پاکستان کا ایک مقبول ترین شاعر سمجھا جاتا تھا، اور ان کی شہرت پاکستان کے باہر بھی بہت دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ مختلف ممالک کے مشاعروں میں شرکت کے لیے مدعو کیے جاتے تھے، اور اپنی موت سے کچھ عرصہ پہلے 2009 میں انہوں نے دربھنگہ (بہار) کے مشاعرے میں بھی شرکت کی۔

احمد فراز کی شاعری کو عوام اور خاص طبقوں میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی، اور ان کی بہت سی غزلوں کو گلوکاروں نے گایا، جس سے ان کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔ ان کی شاعری کا سفر کبھی نہیں رکا، اور ان کے بارہ شعری مجموعے شائع ہوئے، جن میں “تنہا تنہا”، “درد آشوب”، “نایافت”، “شب خون”، “میرے خواب ریزہ ریزہ”، “جاناں جاناں”، “بے آواز گلی کوچوں میں”، “نابینا شہر میں آئینہ”، “سب آوازیں میری ہیں”، “پس انداز موسم”، “خواب گل پریشاں ہے”، اور “غزل بہانہ کروں” شامل ہیں۔

احمد فراز کی شاعری کا بنیادی موضوع حسن و عشق تھا، اور انہوں نے عام فہم زبان میں ایسی شاعری کی جسے عوام اور خاص دونوں نے پسند کیا۔ ان کی شاعری میں آسان الفاظ میں گہرے جذبات کا اظہار ملتا ہے، اور اسی وجہ سے ان کی شاعری ہر طبقے میں مقبول رہی۔

اس غزل میں احمد فراز نے محبت، درد، زندگی کی مشکلات اور انسان کی بے بسی کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔

اس غزل میں شاعر درد کو دل میں چھپانے اور دنیا کے سامنے ظاہر نہ کرنے کی بات کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دل میں سمندر کی طرح درد ہو لیکن آنکھوں میں آنسو نہ دکھائیں۔ ماضی کی یادیں آتی رہیں گی، لیکن آج کی راتوں کو اتنا روشن نہ کریں کہ آنے والے دنوں میں اس کی کمی محسوس ہو۔ شاعر اپنی حساسیت کا ذکر کرتا ہے کہ وہ سنگ دل دشمن سے مقابلہ کرتا ہے، لیکن خود کانچ کی مانند نازک ہے۔ دل میں امید ہمیشہ رہی کہ محبوب واپس آئے گا، لیکن اتنی زیادہ امید نہ رکھیں کہ قدم ہی باہر نہ نکال سکیں۔ اور آخر میں، وہ کہتا ہے کہ محفل میں بیٹھے ہوئےمحبوب کا ذکر کرو،لیکن درد چاہے جتنا بھی ہو، دل پرہاتھ نہ رکھوتاکہ اسے ظاہر نہ ہو۔

 اس غزل میں شاعر انسانی رویوں اور معاشرتی تضادات کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو سورج کی موجودگی میں چراغ جلاتے ہیں، یعنی بڑی حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور غیر ضروری چیزوں پر دھیان دیتے ہیں۔ وہ اپنی محرومیوں کے باعث دوسروں کے چراغ بجھاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس خود روشنی نہیں ہوتی۔ بستیاں آہستہ آہستہ دور جا رہی ہیں اور چراغ آنکھوں سے اوجھل ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ لوگ جو زمانے کی ہواؤں سے چراغ بچاتے ہیں، انہیں معلوم نہیں کہ کبھی کبھی دامن بھی آگ پکڑ سکتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم اندر سے اندھیرے میں ہیں، لیکن دوسروں کو روشنی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ لوگ چاند ستاروں کی بستیاں بسا رہے ہیں، جبکہ زمین پر چراغ بجھتے جا رہے ہیں۔ آخر میں، فراز کہتا ہے کہ ہماری آنکھوں میں اتنی تاریکی ہے کہ ہم دن کو بھی چراغ جلاتے ہیں، یعنی ہماری زندگی میں ہر وقت ایک اندھیرا سا ہے۔

یہ غزلیں انسانی جذبات، تضادات اور زندگی کی سچائیوں کو شاعرانہ انداز میں بیان کرتی ہیں، اور فراز کی شاعری کا یہ خاصہ ہے کہ وہ سادہ الفاظ میں گہرے مفاہیم پیش کرتے ہیں۔

جواب ۔ 1933میں۔

جواب ۔پشاور میں۔

جواب ۔ احمد فراز پشاور یونیورسٹی میں لکچرر رہے۔

جواب ۔ احمد فراز نیشنل بک فاؤنڈیشن، پاکستان کے مینجنگ ڈائریکٹر رہے۔

جواب ۔ دربھنگہ (بہار) کے مشاعرے میں۔

جواب ۔ احمد فراز کے 12 مجموعے شائع ہوئے۔

احمد فراز بنیادی طور پر رومانی مزاج کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں محبت، حسن، اور عشق جیسے جذبات غالب ہیں۔ وہ انسانی دل کے احساسات اور جذبات کی بڑی گہرائی اور خوبصورتی سے عکاسی کرتے ہیں، اور ان کے اشعار میں رومانوی رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ان کے اشعار عموماً سادہ، دلکش اور آسان فہم ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام اور خواص دونوں حلقوں میں ان کی شاعری مقبول ہے۔

احمد فراز کی شاعری کا اصل محور حسن اور عشق ہے۔ ان کی غزلوں میں عموماً عشق کی داستانیں، محبوب کی خوبصورتی، اور انسانی دل کے گہرے احساسات کی بات ہوتی ہے۔ انہوں نے محبت کی پیچیدگیوں اور جذباتی کیفیتوں کو نہایت حساسیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے اشعار میں محبوب کے حسن کی تعریف، اور عشق کی دیوانگی کا اظہار اکثر ملتا ہے۔

احمد فراز کی شاعری عوام اور خواص دونوں حلقوں میں مقبول ہوئی ہے۔ ان کی سادہ اور دلنشین زبان کی وجہ سے عام لوگ ان کی شاعری کو پسند کرتے ہیں، جبکہ ان کی گہرائی اور معنی خیزی خواص یعنی علمائے ادب، نقاد، اور شعری حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ ان کے اشعار میں سہل ممتنع کا انداز پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عام لوگ بھی ان کے اشعار کو سمجھ سکتے ہیں اور محسوس کر سکتے ہیں۔

احمد فراز نے ادبی زندگی میں کئی اہم رسالے اور جریدے ایڈٹ کیے۔ ان کی ادارت میں شائع ہونے والے اہم جریدے “ماہنامہ اشتیاق”، “ماہنامہ داستان”، اور “ہفتہ وار خادم” شامل ہیں۔ ان رسالوں میں ادبی اور شعری مواد کی شمولیت اور ترتیب کی گئی، جس نے ان کی ادبی خدمات کو مزید اجاگر کیا اور ان کی شعری اور ادبی بصیرت کو سامنے لایا۔

آزاد غزل اردو غزل کی روایت میں ایک اہم اور دلچسپ تجربہ رہا ہے۔ آزاد غزل میں روایتی غزل کے قواعد یعنی ردیف اور قافیہ کی پابندی نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی اس میں غزلیہ مضامین اور جذبات کی گہرائی باقی رہتی ہے۔ اس تجربے نے شاعروں کو ایک نیا انداز فراہم کیا، جس میں وہ زیادہ آزادی سے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ یہ تجربہ روایت سے ہٹ کر ہونے کے باوجود قابل قبول اور پسندیدہ رہا ہے۔

غزل عربی صنف “قصیدہ” سے ماخوذ ہے۔ قصیدہ عربی شاعری کی ایک قدیم صنف ہے جو بڑے پیمانے پر تعریف اور مدحیہ شاعری کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ غزل دراصل قصیدے کا ایک حصہ تھا، جس میں محبوب کے حسن اور عشق کی باتیں کی جاتی تھیں، اور بعد میں یہی صنف اردو شاعری میں بھی مقبول ہوئی۔

جس غزل میں ردیف نہ ہو، اسے “غیر مردف غزل” کہا جاتا ہے۔ روایتی غزل میں ردیف ایک لازمی جزو ہوتا ہے، جو اشعار کے آخر میں مخصوص الفاظ کے تسلسل کو برقرار رکھتا ہے۔ لیکن غیر مردف غزل میں یہ تسلسل نہیں ہوتا، اور شاعر قافیہ کے ساتھ اشعار کو بغیر ردیف کے پیش کرتا ہے۔

دکن کے شاعر محمد قلی قطب شاہ کے ذریعے اردو غزل شمال تک پہنچی۔ محمد قلی قطب شاہ کو اردو کے اولین شعرا میں شمار کیا جاتا ہے، اور انہوں نے دکن میں اردوغزل کو مقبول کیا۔ ان کے ذریعے شمالی ہندوستان میں بھی اردوغزل کی مقبولیت بڑھی اور بعد میں میر تقی میر اور غالب جیسے شعرا نے اسے مزید عروج دیا۔

غزل کے پہلے شعر کو “مطلع” کہتے ہیں۔ مطلع وہ شعر ہوتا ہے جس میں قافیہ اور ردیف دونوں شامل ہوتے ہیں، اور یہ شعر پوری غزل کا تعارفی حصہ ہوتا ہے۔ مطلع میں شاعر اپنے خیال یا موضوع کا آغاز کرتا ہے، اور یہ غزل کے باقی اشعار کے لیے راہ متعین کرتا ہے۔

غزل کے آخری شعر کو “مقطع” کہا جاتا ہے۔ مقطع میں شاعر اپنا تخلص (شاعری کا نام) استعمال کرتا ہے اور اکثر اسی شعر میں غزل کے مضمون یا موضوع کا اختتام کیا جاتا ہے۔ مقطع میں شاعر کا ذاتی انداز اور تشخص نمایاں ہوتا ہے۔

احمد فراز 12 جنوری 1933 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ تھا، لیکن شاعری میں وہ “فراز” کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کا خاندان ادبی ذوق رکھنے والا تھا، اور گھر کا ماحول شاعرانہ تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور کم عمری میں ہی شعر کہنے لگے۔ فراز نے اپنی تعلیم پشاور یونیورسٹی سے مکمل کی اور بعد میں وہیں پر لکچرر بھی مقرر ہوئے۔ ان کی شاعری عوامی مقبولیت حاصل کر چکی تھی اور جلد ہی انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں شہرت حاصل ہوئی۔
احمد فراز کی شاعری کا محور زیادہ تر حسن و عشق رہا ہے۔ ان کے اشعار میں محبوب کی خوبصورتی اور عشق کی دیوانگی کی بات ہوتی ہے۔ ان کے بارہ شعری مجموعے شائع ہوئے، جن میں “تنہا تنہا”، “درد آشوب”، “میرے خواب ریزہ ریزہ”، اور “غزل بہانہ کروں” شامل ہیں۔
احمد فراز نے کئی ادبی جریدوں کی ادارت بھی کی، جن میں “اشتیاق”، “داستان”، اور “خادم” شامل ہیں۔ وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر بھی رہے۔ فراز کی زندگی میں انہیں کئی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں کراچی یونیورسٹی کی جانب سے “ڈاکٹر آف لٹریچر” کی اعزازی ڈگری بھی شامل ہے۔ ان کا انتقال 25 اگست 2009 کو ہوا، لیکن ان کی شاعری آج بھی زندہ ہے۔

آخری شعر


آخری شعر میں شاعر کہتا ہے کہ محبوب کا ذکر ہو رہا ہے اور دل میں درد اٹھ رہا ہے، لیکن اس درد کو ظاہر نہ کرو۔ اپنے دل پر ہاتھ نہ رکھو تاکہ دوسرے لوگ تمہارے جذبات کو محسوس نہ کر سکیں۔ یہاں شاعر جذبات کو کنٹرول کرنے اور اپنے غم کو اندر ہی رکھنے کا درس دیتے ہیں۔

غزل اردو شاعری کی ایک اہم صنف ہے جو عموماً عشق، درد، اور زندگی کے فلسفیانہ پہلوؤں کو بیان کرتی ہے۔ غزل کے اشعار خود مختار ہوتے ہیں، یعنی ہر شعر میں ایک مکمل خیال ہوتا ہے اور ہر شعر کا دوسرے شعر سے موضوعی تعلق ہونا ضروری نہیں ہوتا۔
غزل کی روایت میں مطلع اور مقطع اہم اجزا ہیں۔ مطلع غزل کا پہلا شعر ہوتا ہے جس میں قافیہ اور ردیف کی پابندی ہوتی ہے، جبکہ مقطع غزل کا آخری شعر ہوتا ہے جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے۔
.غزل میں ردیف اور قافیہ کی پابندی ہوتی ہے، لیکن بعض غزلیں غیر مردف ہوتی ہیں

حق:باطل

نشیب:فراز

تعلیم:جہالت

کثرت:قلت

زیاں:نفع

Scroll to Top