Bihar Board Class 10 Urdu Chapter 29 Ghazal Pravin Shakir غزل پروین شاکر Solutions

پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی (پاکستان) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق ہندوستان کے لپیر یا سرائے، دربھنگہ (بہار) سے تھا۔ ان کے والد، سید ثاقب حسین، بھی شاعر تھے اور “شاکر” تخلص کرتے تھے، اسی نسبت سے پروین شاکر نے بھی اپنے نام کے ساتھ “شاکر” لکھنا شروع کیا۔ پاکستان بننے کے بعد ان کے والد پاکستان ہجرت کر گئے۔

پروین شاکر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی، اور پھر انہوں نے رضیہ گرلز ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ بی اے کی ڈگری سرسید گرلز کالج سے حاصل کی اور کراچی یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا۔ بعد میں انہوں نے لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی، اور دونوں امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ 1971ء میں انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی، جس کا موضوع تھا “جنگ میں ذرائع ابلاغ کا کردار”۔ ان کی تعلیم یہیں ختم نہیں ہوئی؛ وہ ہارورڈ یونیورسٹی، امریکہ سے وابستہ ہوئیں اور بینک ایڈمنسٹریشن میں ایم اے کیا۔

پروین شاکر نے تعلیمی سلسلہ مکمل کرنے کے بعد عبداللہ گرلز کالج میں انگریزی لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی اور کئی برسوں تک درس و تدریس سے وابستہ رہیں۔ بعد میں انہوں نے سول سروس کا امتحان پاس کیا اور محکمہ کسٹمز میں تقرر ہوا۔ اس کے بعد ترقی کرتے ہوئے وہ پرنسپل سکریٹری اور پھر بی آر اسلام آباد میں تعینات ہو گئیں۔

پروین شاکر کی شادی اپنے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی، لیکن یہ شادی زیادہ عرصہ نہیں چل سکی اور 1989ء میں دونوں کی طلاق ہو گئی۔ ان کا ایک بیٹا ہوا جس کا نام سید مراد علی رکھا گیا۔

پروین شاکر ایک انتہائی نرم دل، مہذب اور حساس خاتون تھیں۔ وہ ذہین اور وسیع مطالعہ رکھنے والی تھیں۔ ان کی شاعری میں خواتین کے جذبات کو بڑے گہرے اور فطری انداز میں پیش کیا گیا ہے، اور اس بنا پر انہیں نسائی تحریک سے وابستہ سمجھا جاتا ہے۔

پروین شاکر کا پہلا شعری مجموعہ “خوشبو” 1977ء میں شائع ہوا، جس کے بعد “صد برگ” (1981ء)، “خود کلامی” (1984ء)، “انکار” (1990ء) اور “ماہ تمام” کے نام سے ان کی کلیات شائع ہوئیں۔ “کف آئینہ” ان کا ایک اور شعری مجموعہ ہے۔

پروین شاکر کا انتقال 26 دسمبر 1994ء کو اسلام آباد کے قریب ایک سڑک حادثے میں ہوا۔ لیکن ان کی شاعری انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی اور ان کا نام نسائی ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

پروین شاکر کی اس غزل میں غم، یادیں، اور ماضی کے خوشگوار لمحات کی تلخی کو نہایت گہرے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ شاعرہ کے دل میں جو خواب پہلے خوشبو کی مانند کھلتے تھے، اب وہ تلخ یادوں اور عذابوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہاں “گلاب” کو خوشگوار یادوں اور خوابوں کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جو اب بدل کر عذاب بن چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دل میں وہی خواب اترتے ہیں جو کبھی گلابوں کی طرح تھے لیکن اب ان خوابوں کی حقیقت نے دل کو دکھی کر دیا ہے۔

شاعرہ کہتی ہیں کہ جیسے رات کو راکھ کے ڈھیر پر گزرنا ہوتا ہے، اسی طرح ان کا دل بھی جل چکا ہے، جیسے ان کے خواب اور امیدیں ختم ہو گئی ہیں۔ ملاقات کے لمحات اور محبوب کا پہلا جلوہ ابھی تک دل میں گلابی رنگ کی چمک رکھتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ محبوب کی پہلی ملاقات کی یادیں دل میں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔

محبوب کے گھر کے گلابوں کا شمار کرنا مشکل ہے، بالکل ویسے ہی جیسے شاعرہ کے دل کے زخموں کا حساب کرنا ممکن نہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ محبوب کے گھر میں بہت زیادہ خوشیاں اور خوبصورتی موجود ہے، جب کہ شاعرہ کے دل میں بے پناہ درد اور تکلیف ہے۔ شاعرہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ محبوب کو وہ باتیں ابھی یاد ہیں، لیکن وہ ایسی ہیں جیسے کتابوں میں محفوظ یادیں ہوں، جنہیں کھولا اور پڑھا نہیں جاتا۔

غزل کے آخری اشعار میں پروین شاکر کہتی ہیں کہ محبوب کا معیار بدلتا رہتا ہے، جیسے نصاب بدلتا ہے، اور شاعرہ کو نہیں معلوم کہ نیا سال کس کو محبوب بنائے گا۔ اور ہجر کی رات میں، شاعرہ کی تنہائی پر محبوب کی خوشبو دستک دے گی، جیسے کھوئے ہوئے خواب دوبارہ لوٹ آئیں۔

دوسری غزل میں پروین شاکر قدرت کی بے رحمی اور انسانی حالات کو بیان کرتی ہیں۔ بارش جب ہوئی تو پھولوں کے جسم پھٹ گئے، یعنی قدرت کی معمولی سی تبدیلی نے پھولوں کی نازک خوبصورتی کو تباہ کر دیا۔ موسم نے اپنا سخت چہرہ دکھایا اور پھولوں کو برباد کر دیا۔ اس سے شاعرہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی بڑی تباہی لا سکتی ہیں۔

بادل کو خبر نہیں ہوتی کہ اس کی بارش کے انتظار میں کیسے بلند و بالا درخت بھی مٹی میں مل جاتے ہیں، یعنی بادل کو اپنی طاقت اور اثرات کا اندازہ نہیں ہوتا، اور اس کی بارش نے درختوں کو ختم کر دیا۔ یہاں شاعرہ یہ بات واضح کرتی ہیں کہ قدرت کی بے رحمی سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔

بچوں کی معصومیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ہمارے عہد کے بچے اتنے چالاک ہو گئے ہیں کہ وہ دن کے وقت بھی جگنو پکڑنے کی ضد کرتے ہیں، یعنی وہ حقیقت سے بے خبر ہیں اور غیر حقیقی خوابوں کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ سورج کے نکلنے کے ساتھ ہی برف کی چادر ہٹ جاتی ہے اور گھاس بے خوفی سے لہرانے لگتی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسم کی چھوٹی تبدیلیاں بھی بڑے اثرات ڈال سکتی ہیں۔

جب دریا کا رخ بدلتا ہے تو وہ لوگ جو پہلے ڈوبنے والے تھے، اب تیرنے والے بن جاتے ہیں۔ یہ شعر انسانی حالات کی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مشکل وقت میں بھی لوگ خود کو بدل لیتے ہیں اور حالات سے مطابقت پیدا کر لیتے ہیں۔ غزل کے آخری اشعار میں شاعرہ کہتی ہیں کہ سورج دماغ لوگ، یعنی عقلمند لوگ، بھی فراق کی راتوں میں الجھ جاتے ہیں اور ان کے خیالات بکھر جاتے ہیں۔ اور جب غریب شہر کے لوگوں سے گفتگو ہوتی ہے، تو ان کے لہجے شام کی ہوا کی طرح نم ہو جاتے ہیں، یعنی ان کی گفتگو میں درد اور افسردگی چھپی ہوتی ہے۔

یہ غزل پروین شاکرکی گہرائی اورانسانی زندگی کی مشکلات کو قدرت کے تناظر میں بیان کرتی ہےاوران کی شاعری میں چھپے درد اورکرب کو نمایاں کرتی ہے۔

جواب ۔ پروین شاکر کی تاریخ پیدائش 24 نومبر 1952ء ہے۔

جواب ۔ پروین شاکر کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔

جواب ۔ پروین شاکر کے اسلاف کا وطن ہندوستان کے دربھنگہ (بہار) میں ہے۔

جواب ۔ پروین شاکر کے والد کا نام سید ثاقب حسین ہے۔

جواب ۔ پروین شاکر کے والد ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان ہجرت کر گئے۔

جواب ۔ پروین شاکر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔

جواب ۔ پروین شاکر نے میٹرک کا امتحان رضیہ گرلس ہائی اسکول سے پاس کیا۔

جواب ۔ پروین شاکر نے بی اے کی ڈگری سرسید گرلس کالج سے حاصل کی۔

جواب ۔ پروین شاکر نے کراچی یونی ورسٹی سے انگریزی اور لسانیات میں ایم اے کیا۔

جواب ۔ پروین شاکر نے ہارورڈ یونیورسٹی سے بینک ایڈ منسٹریشن میں ایم اے کیا۔

پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی اور بعد میں رضیہ گرلس ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔

پروین شاکر نے انگریزی اور لسانیات میں ایم اے کیا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔

وہ ایک شاعرہ، استاد، اور سول سروس آفیسر تھیں۔

پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو ایک سڑک حادثے میں انتقال کر گئ۔

پروین شاکر کی شادی اپنے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی۔ یہ رشتہ ان کے لیے خوشیوں کا باعث نہیں بنا، کیونکہ دونوں کے مزاج میں کافی فرق تھا۔ ان کی ازدواجی زندگی میں مسائل نے سر اٹھایا، جس کی وجہ سے یہ رشتہ جلد ہی ٹوٹ گیا۔

ان کی زندگی کا یہ مرحلہ ذہنی عدم توازن کا باعث بنا۔ ان کے اس رشتے سے ایک بیٹا، سید مراد علی، بھی پیدا ہوا۔ تاہم، 1989ء میں پروین شاکر نے طلاق لے لی اور اپنے شوہر سے آزاد ہو گئیں۔ یہ طلاق ان کی زندگی میں ایک نیا موڑ ثابت ہوئی، جس کے بعد انہوں نے اپنی شاعری اور پیشہ ورانہ زندگی پر توجہ مرکوز کی۔

پروین شاکر کی ازدواجی زندگی ان کی شاعری میں بھی جھلکتی ہے، جہاں وہ محبت، ہجر، اور عورت کی جدوجہد کے جذبات کو نہایت خوبصورتی سے پیش کرتی ہیں۔

پروین شاکر کی شاعری میں عورتوں کے جذبات کا گہرا احساس ہے۔

ان کی شاعری میں ہمدردی، محبت اور حساسیت کی جھلک نظر آتی ہے۔

پروین شاکر کی پہلی کتاب “خوشبو” 1977ء میں شائع ہوئی۔

انہوں نے جدید اردو شاعری میں خاص مقام حاصل کیا۔

ان کی شاعری نے نسائی تحریک کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔

پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان ہندوستان کے دربھنگہ (بہار) سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے والد سید ثاقب حسین خود بھی ایک شاعر تھے، اور انہوں نے اپنی شاعری میں “شاکر” کا نام استعمال کیا۔ اسی وجہ سے پروین نے بھی اپنے نام کے ساتھ “شاکر” لکھا۔ تقسیم ہند کے بعد ان کے والد نے پاکستان ہجرت کی اور یہیں پروین کی ابتدائی زندگی گزری۔

پروین شاکر کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی، جس کے بعد انہوں نے رضیہ گرلس ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور وہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد، انہوں نے سرسید گرلس کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین نے کراچی یونیورسٹی سے انگریزی اور لسانیات میں ایم اے کیا اور دونوں امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ان کی تعلیم کا سفر یہاں ختم نہیں ہوا؛ انہوں نے 1971ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی، جس کا موضوع “جنگ میں ذرائع ابلاغ کا کردار” تھا۔

مزید برآں، پروین شاکر نے ہارورڈ یونیورسٹی، امریکہ سے بینک ایڈ منسٹریشن میں بھی ایم اے کیا۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، انہوں نے عبداللہ گرلس کالج میں انگریزی کے لکچرر کی حیثیت سے تدریس کا آغاز کیا۔

پروین شاکر نے بعد میں سول سروس کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئیں۔ انہیں محکمہ کشمیر میں کلکٹر کی حیثیت سے مقرر کیا گیا۔ ترقی کرتے ہوئے، وہ پرنسپل سکریٹری کے عہدے پر بھی فائز ہوئیں۔

پروین شاکر کی شادی اپنے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی، لیکن یہ رشتہ جلد ہی ٹوٹ گیا، جس کی وجہ دونوں کے مزاج میں اختلافات تھے۔ ان سے ایک بیٹا سید مراد علی پیدا ہوا۔ 1989ء میں پروین شاکر نے طلاق لے لی۔

ان کی شاعری کا آغاز 15 سال کی عمر میں ہوا، اور انہوں نے 27 سال تک شعر و ادب میں حصہ لیا۔ ان کی شاعری میں محبت، حسرت، نسائی مسائل، اور سماجی موضوعات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ “خوشبو” 1977ء میں شائع ہوا، جس کے بعد متعدد کلام کے مجموعے منظر عام پر آئے، جیسے “صدبرگ” (1981ء)، “خود کلامی” (1984ء)، “انکار” (1990ء)، اور “کف آئینہ”۔

پروین شاکر کی زندگی کا اختتام 26 نومبر 1994ء کو اسلام آباد کے قریب ایک سڑک حادثے میں ہوا۔ ان کی شاعری آج بھی زندہ ہے اور وہ اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔

پروین شاکر کی شاعری میں مختلف جذبات کی گہرائی اور شدت ملتی ہے، خاص طور پر نسوانی جذبات، محبت، تنہائی، اور سماجی مسائل کی عکاسی۔ ان کی شاعری میں عورت کی نفسیات اور جذبات کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جو ان کے کلام کی اہمیت کو بڑھاتا ہے۔

ان کی شاعری میں محبت کی شدت اور ہجر کی کربناک کیفیت کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ وہ عورت کی حیثیت سے اپنے تجربات، خیالات، اور احساسات کو نہایت نرمی اور حسرت کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ پروین شاکر کی شاعری میں جدوجہد، خود ارادیت، اور آزادی کے موضوعات بھی نمایاں ہیں، جو انہیں ایک اہم نسائی شاعرہ کی حیثیت سے نمایاں کرتا ہے۔ ان کی غزلوں میں محبت اور تنہائی کے ملے جلے جذبات کا ایک منفرد انداز میں بیان کیا گیا ہے، جہاں وہ اپنی اندرونی کیفیت کو بہترین الفاظ میں پیش کرتی ہیں۔ ان کی شاعری میں سماجی حقیقتوں کا گہرا مشاہدہ بھی ملتا ہے، جہاں وہ عورت کے حقوق اور اس کے مقام کو اہمیت دیتی ہیں۔

اس کے علاوہ، پروین شاکر کی شاعری میں قدرتی مناظر، عشق کی جمالیات، اور انسانی رشتوں کی پیچیدگیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کا کلام عموماً لطیف احساسات سے بھرا ہوا ہے، جو قاری کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔

پروین شاکر کی غزل “گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح” کے ادبی محاسن قابل ذکر ہیں۔ اس غزل میں شاعرہ نے محبت اور ہجر کے جذبات کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری کی خصوصیات میں شامل ہیں

غزل میں “گلابوں کی طرح” اور “راکھ کے ڈھیر” جیسی تشبیہات کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ تشبیہیں شاعرہ کے احساسات کی گہرائی کو اجاگر کرتی ہیں، جہاں محبت کی خوبصورتی اور اس کے کھو جانے کا درد ایک ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

شاعرہ کی زبان میں نرمی اور لطافت کا ایک منفرد انداز پایا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں الفاظ کا انتخاب اور ان کی ترتیب بہت ہموار اور دلکش ہے، جو قاری کے دل کو چھو لیتا ہے۔

غزل میں موجود ہر شعر میں عمیق جذبات کی جھلک نظر آتی ہے۔ محبت کی خواہش، تنہائی، اور یادوں کی گہرائی شاعرہ کے اشعار میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

پروین شاکر کی غزلوں کی موسیقیت بھی اہم ہے۔ قافیہ اور ردیف کا استعمال ان کی شاعری میں ایک خاص لحن پیدا کرتا ہے، جو پڑھنے میں لطف اندوز کرتا ہے۔

یہ غزل عورت کی نفسیات اور تجربات کی عکاسی کرتی ہے، جو پروین شاکر کی شاعری کا ایک اہم پہلو ہے۔ وہ عورت کے جذبات کو ایک منفرد انداز میں پیش کرتی ہیں، جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنی نسل کی آواز ہیں۔

اس طرح، پروین شاکر کی یہ غزل نہ صرف ایک خوبصورت محبت کی داستان ہے، بلکہ یہ انسانی جذبات کی ایک گہرائی بھی پیش کرتی ہے، جو آج بھی قاری کو متاثر کرتی ہے۔

یہ شعر پروین شاکر کی شاعری کی تلخی اور غم کی گہرائی کو نمایاں کرتا ہے۔ “راکھ کے ڈھیر” کا مطلب ہے کہ شاعرہ کے خواب، امیدیں، اور آرزوئیں برباد ہو چکی ہیں۔ یہ تصور اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جیسے کوئی چیز مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہو، اسی طرح شاعرہ کی زندگی کی خوبصورتی بھی بکھر چکی ہے۔

مطلب یہ ہے کہ شاعرہ اپنی تنہائی اور ویرانی میں وقت گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ ایک ایسا احساس ہے جو اس کی اندرونی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کی زندگی میں خوشیوں کا کوئی سامان نہیں رہا، اور وہ صرف تاریکی میں گزر بسر کر رہی ہے۔

کا مطلب ہے کہ اس کے خواب اور امیدیں، جیسے کہ خیمے کی حفاظت اور سکون، اب صرف راکھ بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ تصویر کشی اس کی بے بسی اور ناامیدی کو مزید واضح کرتی ہے۔

مجموعی طور پر، یہ شعر پروین شاکر کی شاعری کی ایک گہرائی اور دل کو چھو لینے والی مثال ہے، جہاں وہ اپنے تجربات، احساسات، اور وجود کی مایوسی کو انتہائی خوبصورتی سے پیش کرتی ہیں۔ شاعرہ کی اس پکار میں درد، تنہائی، اور محبت کی شکست کا عمیق احساس ہے، جو قاری کے دل میں ایک گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

Scroll to Top