عرفان صدیقی
عرفان صدیقی کا اصل نام عرفان احمد صدیقی تھا، لیکن وہ شعر و ادب کی دنیا میں عرفان صدیقی کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ 8 جنوری 1939ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے اور شیخ صدیقی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام مولوی سلمان احمد صدیقی ہلائی بدایونی تھا، جو پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اور ساتھ ہی اردو کے ادیب اور شاعر بھی تھے۔ ان کا انتقال 1981ء میں ہوا۔
عرفان صدیقی نے بدایوں کے محلہ سوتھا میں آنکھیں کھولیں۔ ان کا خاندان علمی اور ادبی ماحول کا حامل تھا، جہاں تین نسلوں سے شعر و ادب کی ترویج ہو رہی تھی۔ ان کے دادا مولوی اکرام احمد شاد صدیقی اپنے وقت کے معروف ادیب اور شاعر تھے۔ ان کے بڑے بھائی نیاز صدیقی بھی شاعر تھے، لیکن عرفان صدیقی جیسی شہرت حاصل نہ کر سکے۔
عرفان صدیقی نے 1953ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا، 1955ء میں انٹرمیڈیٹ، 1957ء میں بی اے اور 1959ء میں ایم اے کیا۔ ایم اے میں ان کا موضوع عمرانیات تھا۔ بعد ازاں، انہوں نے علیگڑھ سے ماس کمیونی کیشن میں ڈپلوما حاصل کیا اور 1962ء میں حکومت ہند کی اطلاعاتی سروس سے وابستہ ہو گئے، جہاں انہوں نے مختلف عہدوں پر کام کیا۔ وہ نائب پرنسپل کے عہدے تک پہنچے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے لکھنؤ میں رہائش اختیار کی۔
عرفان صدیقی کا انتقال 16 مارچ 2004ء کو برین ٹیومر کی بیماری کے باعث ہوا۔ ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے، جو اب یکجا طور پر “دریا” کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کالی داس کے سنسکرت ڈرامے “مالویکا اگنی مترم” کا ترجمہ “مالی کا اور اگنی مستر” کے عنوان سے کیا تھا۔ وہ رابطہ عامہ کے موضوع پر بھی ایک کتاب لکھ چکے ہیں۔
عرفان صدیقی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے۔ ان کی غزلوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے پرانے اور نئے شاعروں سے اثرات قبول کیے، جس نے ان کی غزلوں کو ایک نیا رنگ اور منفرد آواز دی۔ یہی خصوصیت انہیں اپنے ہم عصروں میں نمایاں اور منفرد غزل گو شاعر تسلیم کراتی ہے۔
غزل کا خلاصہ
یہ غزل عرفان صدیقی کی ہے اور اس میں کئی گہرے اور فلسفیانہ خیالات پیش کیے گئے ہیں۔
شاعر غزل کے آغاز میں کہتا ہے کہ سب کچھ خدا کا ہے۔ حتیٰ کہ معجزے دکھانے والی عصا بھی اسی کی ہے اور سمندر میں ہونے والا سفر بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے۔ شاعر اپنے یقین کو مضبوط بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ رات کی دیوار کے پیچھے بھی سب کچھ خدا ہی کے اختیار میں ہے۔
پھر وہ لوگوں کی ذمہ داریوں کا ذکر کرتا ہے کہ ہر کوئی اپنے فرض کو نبھا رہا ہے، لیکن حقیقت میں ہر طاقت اور اختیار خدا کے پاس ہے۔ وہ ظلم کرنے والی تلوار کو بھی مہلت دیتا ہے اور کشتگان کی فریاد میں اثر بھی اسی کا ہوتا ہے۔
شاعر قدرت کے مختلف رنگوں اور مناظر کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سب کچھ خدا کا ہے، یہاں تک کہ حیرانی اور خوبصورتی سے دیکھنے والی نظر بھی اسی کی دی ہوئی ہے۔ آخر میں شاعر خود کو مجرم مانتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اپنے دل کے خرابے میں پناہ نہیں پا سکتا کیونکہ یہ دنیا بھی اسی کی ہے۔
شاعر خود کو راہگزر کا چراغ مانتے ہیں، لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ چراغ بھی خدا کا ہی ہے۔ اس کے بعد وہ اکیلے پن کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا سے الگ ہو کر چلنا آسان نہیں۔ دنیا میں ہر چیز کے ظاہر کو پہچاننا آسان ہوتا ہے، لیکن خوشبو کا پتہ دیکھنے سے نہیں چلتا۔
غزل کے آخری اشعار میں شاعر دل کے اندر کی لہروں اور ہوا کے حکم کو سمندر کے کنارے لگنے سے تشبیہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم صرف اپنے قدموں کے نشان پر چلتے ہیں، حقیقت میں ہم کہیں نہیں جا رہے۔ شاعر کی فریاد کی گونج ہر شہر میں سنی جاتی ہے، اور وہ کہتا ہے کہ اس تباہ حال دنیا میں بھی ایک دن پھر آباد ہو جائے گی، جیسے کسی تباہ کن سیلاب کے بعد دوبارہ زندگی واپس آتی ہے۔
یہ غزل خدا کی عظمت، انسان کی عاجزی اور دنیا کی ناپائیداری کو خوبصورت انداز میں پیش کرتی ہے۔
مختصر گفتگو
سوال 1 ۔ عرفان صدیقی کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
جواب ۔ (الف) 1939 بدایوں
سوال 2 ۔ عرفان صدیقی کا تعلق کس خاندان سے تھا؟
جواب ۔ (الف) شیخ صدیقی
سوال 3 ۔ عرفان صدیقی نے میٹرک کا امتحان کب پاس کیا؟
جواب ۔ (ب) 1953
سوال 4 ۔ مولوی اکرام احمد شاد صدیقی اپنے عہد کے سرسید سمجھے جاتے تھے؟
جواب ۔ (الف) دادا
سوال 5 ۔ عرفان صدیقی نے ماس کمیونی کیشن میں ڈپلوما کہاں سے حاصل کیا؟
جواب ۔ (ب) دہلی
مختصر ترین سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ عرفان صدیقی کا انتقال کس مرض کی وجہ سے ہوا؟
جواب ۔
عرفان صدیقی کا انتقال برین ٹیومرکی وجہ سے ہوا
سوال 2 ۔ عرفان صدیقی کا انتقال کب اور کہاں ہوا؟
جواب ۔
16مارچ 2004، لکھنو میں
سوال 3 ۔ عرفان صدیقی کے مجموعے کس نام سے یکجا طور پر شائع ہوئے؟
جواب ۔
“دریا” کے نام سے
سوال 4 ۔ عرفان صدیقی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد کہاں سکونت پذیر ہوئے؟
جواب ۔
لکھنو میں
سوال 5 ۔ عرفان صدیقی نے کالی داس کے ڈراما مالویکا اگنی مترم کا ترجمہ کس نام سے کیا؟
جواب ۔
“مالی کا اور اگنی مستر”
طویل سوالات کے جوابات
سوال 1 ۔ عرفان صدیقی کی غزل گوئی کی خصوصیات بیان کیجیے
جواب ۔
عرفان صدیقی کی شاعری، خاص طور پر ان کی غزلیں، اردو ادب میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں کلاسیکی اور جدید دونوں اندازوں کی جھلک ملتی ہے، جس سے ان کی شاعری میں منفرد رنگ پیدا ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں:
روایت اور جدت کا امتزاج
عرفان صدیقی نے قدیم شعرا کے اثرات کو قبول کیا، لیکن ان کے ہاں جدید خیالات اور موضوعات بھی ملتے ہیں۔ اس امتزاج نے ان کی شاعری کو ایک منفرد شناخت دی، جس میں پرانی روایت کی پاسداری بھی ہے اور جدیدیت کا رنگ بھی موجود ہے۔
فلسفیانہ گہرائی
عرفان صدیقی کی غزلوں میں گہرے فلسفیانہ خیالات کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں جیسے محبت، غم، امید، مایوسی، اور انسان کے تعلق کو کائنات اور خدا کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
انسانی تجربات کا اظہار
ان کی غزلوں میں عام انسان کے تجربات، جذبات، اور احساسات کی عکاسی ملتی ہے۔ وہ انسانی زندگی کی ناپائیداری، دکھوں، خوشیوں، اور مشکلات کو ایک خوبصورت اور گہرے انداز میں بیان کرتے ہیں۔
زبان اور اسلوب
عرفان صدیقی کی زبان سادہ، مگر مؤثر ہوتی ہے۔ وہ الفاظ کا انتخاب بہت مہارت سے کرتے ہیں، جس سے ان کے اشعار کا اثر دل پر گہرا ہوتا ہے۔ ان کا اسلوب متوازن اور سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے موضوعات کی گہرائی کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
تصوراتی انداز
عرفان صدیقی کی شاعری میں قدرتی مناظر، رنگ، خوشبو، اور فطرت کے دیگر عناصر کا ذکر ملتا ہے، جو ان کی غزلوں کو تصوراتی اور خوبصورت بناتا ہے۔ ان کی شاعری میں قدرت کے ساتھ انسان کے تعلق کا اظہار بہت حساس انداز میں کیا گیا ہے۔
سوال 2 ۔ دوسری غزل کے دوسرے شعر کی تشریح کیجیے
جواب ۔
تیرا یقین سچ ہے مری چشمِ اعتبار
سب کچھ فصیلِ شب کے ادھر بھی اسی کا ہے
تشریح
اس شعر میں شاعر خدا کی عظمت اور اس کی قدرت پر بات کر رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرا یقین سچا ہے اور میری آنکھیں اسی یقین کو دیکھ رہی ہیں۔ رات کی دیوار (مشکلات اور پریشانیوں) کے پیچھے جو کچھ بھی ہے، وہ بھی خدا ہی کے قبضے میں ہے۔ شاعر یہ باور کراتا ہے کہ انسان کو صرف اس دنیا کی ظاہری حالت پر ہی نہیں بلکہ ان چیزوں پر بھی یقین رکھنا چاہیے جو اسے نظر نہیں آتیں، کیونکہ خدا کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے، چاہے وہ مشکلات کی صورت میں ہو یا آسانیوں کی صورت میں۔
سوال 3 ۔ پہلی غزل کا تنقیدی جائزہ لیجیے
جواب ۔
عرفان صدیقی کی پہلی غزل میں خدا کی قدرت، انسان کی عاجزی، اور دنیا کی ناپائیداری جیسے اہم موضوعات کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر خدا کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ہر چیز خدا کی مرضی سے ہوتی ہے، اور انسان کے تمام اعمال اور تجربات خدا کے اختیار میں ہیں۔
قدرت کا اظہار
غزل میں شاعر نے قدرت کی مختلف حالتوں کا ذکر کیا ہے، جیسے سمندروں میں سفر، شب کی فصیل، اور چراغِ راہ گزر۔ یہ تمام عناصر خدا کی طاقت اور انسان کی چھوٹی حیثیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
انسان کی ذمہ داری
غزل میں شاعر اس حقیقت کا ادراک کراتا ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی میں مختلف فرائض ادا کر رہا ہے، لیکن اصل کنٹرول خدا کے ہاتھ میں ہے۔ انسان محض ایک ذرہ ہے اور اسے اپنی محدودیت کا احساس ہونا چاہیے۔
تشبیہیں اور استعارے
غزل میں استعمال کیے گئے استعارے جیسے “چراغِ راہ گزر” اور “فصیل شب” بہت گہرے مفاہیم رکھتے ہیں۔ یہ استعارے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں اور شاعر کی تخلیقی صلاحیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر، یہ غزل ایک فکری گہرائی اور ایمانی سوچ کی عکاس ہے، جس میں عرفان صدیقی نے اپنی شاعری کے ذریعے خدا کی عظمت اور انسان کی محدودیت کو ایک خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
سوال 4 ۔ درج ذیل شعر کی تشریح کیجیے
جواب ۔
اس خرابے میں بھی ہو جائے گی دنیا آباد
ایک معمورہ پس سیل بلا چلتا ہے
تشریح
اس شعر میں شاعر نے امید اور نئے آغاز کا پیغام دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ چاہے حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں، ہر تباہی کے بعد ایک نئی دنیا آباد ہو سکتی ہے۔ “خرابہ” مشکلات اور تباہی کی علامت ہے، اور “سیل بلا” مصیبتوں کا اشارہ ہے۔ شاعر کا خیال ہے کہ مصیبتوں اور مشکلات کے بعد بھی ایک نئی دنیا یا نئی زندگی شروع ہو سکتی ہے۔ اس شعر میں دنیا کی ناپائیداری کے باوجود امید اور نئے آغاز کی بات کی گئی ہے، جو انسان کو مایوسی سے بچانے کا پیغام دیتی ہے۔
سوال 5 ۔ عرفان صدیقی کے حالات زندگی بیان کیجیے
جواب ۔
عرفان صدیقی کا اصل نام عرفان احمد صدیقی تھا۔ وہ 8 جنوری 1939ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق ایک علمی و ادبی خاندان سے تھا۔ ان کے والد مولوی سلمان احمد صدیقی وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے، جس کی وجہ سے عرفان صدیقی کو ایک علمی ماحول میسر آیا۔ ان کے دادا مولوی اکرام احمد شاد صدیقی بھی شاعر تھے اور اپنے وقت کے سرسید کہلاتے تھے۔
عرفان صدیقی نے ابتدائی تعلیم بدایوں میں حاصل کی اور 1953 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں انہوں نے 1957 میں بی اے اور 1959 میں ایم اے کیا، جس میں ان کا موضوع عمرانیات تھا۔ انہوں نے دہلی سے ماس کمیونی کیشن میں ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ 1962ء میں وہ حکومت ہند کی اطلاعاتی سروس سے وابستہ ہوئے اور اپنی ملازمت کے دوران مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیں۔
عرفان صدیقی کی شاعری بنیادی طور پر غزلوں پر مشتمل تھی اور ان کی شاعری میں کلاسیکی اور جدید دونوں انداز ملتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں فلسفیانہ خیالات، انسانی جذبات اور قدرت کے مناظر کی خوبصورت عکاسی ملتی ہے۔ ان کے کئی مجموعے شائع ہوئے اور ان کا مجموعہ کلام “دریا” کے نام سے یکجا کیا گیا۔
عرفان صدیقی کا انتقال 16 مارچ 2004ء کو برین ٹیومر کی وجہ سے لکھنو میں ہوا۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی انہوں نے ادبی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اردو شاعری میں اپنا نام روشن کیا۔